صبیح رحمانی کا اداریہ - نعت رنگ شمارہ 29

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


"Naat Rang 29"

اداریہ : نعت رنگ - شمارہ نمبر 29


ابتدائیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ادب و فکر میں اظہار پانے والے خیالات و افکار دراصل اُس شعور کے مظاہر ہوتے ہیں جو کسی قوم کے اجتماعی طرزِ احساس کی تشکیل اور اس کی تہذیب کی تعمیر و استحکام کی بنیاد بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر معاشرے میں اہلِ دانش اپنے ادب و فکر کے دھاروں پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔ اُن کے رخ اور رفتار سے وہ اُن کے مزاج اور کیفیت کا اندازہ کرتے اور ان کی روشنی میں اپنے کردار کا تعین کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ادب تہذیبی قدر اور فکر و احساس کا ایسا پیمانہ ہے جو ہمیں اپنے داخلی کیف و کم سے بخوبی آگاہ کرتا ہے۔

ادب کے مجموعی منظرنامے کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں تنقید کے شعبے اور اُس میں ہونے والی پیش رفت نے تخلیقی ادب جیسا تناظر قائم نہیں کیا۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ مثال کے طور پر یہی کہ نقدِ ادب کا سلسلہ ہمارے ہاں بہت بعد میں شروع ہوا، اور جب سرسیّد تحریک کے اصلاحی دور میں اس کا آغاز ہوا تو بھی اس کے مقاصد اور اہداف ہی الگ تھے۔ یہ اپنی تہذیب کی تفتیش اور اُس کے احوال سے زیادہ سروکار اس بات سے رکھتا تھا کہ اپنے ادیبوں اور شاعروں کو یہ سبق دے کہ ان کے یہاں جو کچھ بھی ہے، وہ پراگندہ، بے کار اور لایعنی ہے۔ وہ اگر اپنے بدیسی آقاؤں کے فکر و نظر کا اتباع کریں تو اُن کی دنیا و مافیہا سنورنے کا امکان ہے۔ اب یہ الگ اور تفصیل طلب بحث ہے کہ اُس زمانے کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی حالات و حقائق کی رُو سے یہ احساس کتنا درست اور اس پر عمل کس حد تک ضروری تھا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بالفرض اس مسئلے پر آج پوری توجہ سے بحث کرکے یہ ثابت بھی کردیا جائے کہ یہ اندازِ نظر سراسر غلط تھا تو بھی اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اب ہمارا سماج، اُس کی تہذیبی صورتِ حال، ادب اور تنقید اس مرحلے سے بہت آگے آچکے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ پون صدی میں محمد حسن عسکری، سلیم احمد، سراج منیر، ابو الخیر کشفی | سیّد ابوالخیر کشفی]] اور جمال پانی پتی ایسے ناقدین ہمارے نقد و نظر کی درست سمتِ سفر کا تعین بڑی حد تک اور واضح طور پر کرچکے ہیں۔ مختلف مکاتبِ فکر اور نظریات کے حامل نقادوں اور دانش وروں کے مابین مجادلے اور مباحثے کے مختلف مراحل کے بعد ہمارے اہلِ نقد پر اب یہ حقیقت پوری طرح روشن ہوچکی ہے کہ کوئی ادب اور اس کی تنقید اپنی تہذیبی اقدار سے روگرداں ہوکر نہ تو اپنی حقیقت کو پاسکتے ہیں اور نہ ہی جریدۂ عالم پر اپنے نقشِ جاوداں کا سامان کرسکتے ہیں۔

آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے نقد و نظر کے باب میں اپنی تہذیبی قدروں کا احساس اور دینی بنیادوں کا شعور اس سطح پر نظر آتا ہے کہ اُس کی نفی کا تو سوال ہی کیا، اسے کسی طرح نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس امرِ واقعہ کے ثبوت کئی طرح پیش کیے جاسکتے ہیں۔ میں صرف اپنے شعبے، یعنی نعت کے تخلیقی و تنقیدی تناظر کے حوالے سے بھی دیکھتا ہوں تو احساسِ تشکر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ادب کے مرکزی دھارے سے وابستہ اہلِ نقد و نظر آج خصوصی طور سے مطالعاتِ نعت پر اپنی توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ کے گزشتہ شماروں میں اس امر پر پہلے بھی حرفِ اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ سنجیدہ اور بلند پایہ اہلِ نقد جس طرح حالیہ دور میں اس حوالے سے اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے ان کاموں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں، انھیں پوری ذمے داری سے دیکھا جانا چاہیے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ آج خاص طمانیت کا باعث یہ پہلو بھی ہے کہ ان مباحث، سوالات اور نکات پر توجہ دی جارہی ہے جو ہمارے ادب کے اس وقیع شعبے کے فکری نقوش کو صحیح معنوں میں روشن کرتے ہیں۔

نقدِ نعت کا یہ کام آج ہمارے بعض بڑے ناقدین انفرادی سطح پر بھی کررہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ جامعات میں اعلیٰ سطح پر بھی نعت کے باب میں نقد و تحقیق کا ایک وقیع سلسلہ جاری ہوا۔ ہے۔ آج اس شعبے کی مختلف معنوی اور فکری جہات کو وہ توجہ حاصل ہورہی ہے، جس کا یہ بلاشبہ حق دار ہے۔

انتقادِ نعت کے جس سلسلے کو ہم نے ’’نعت رنگ‘‘ کے ذریعے اپنے آغازِ کار سے ہی فروغ دینے کی کوشش کی تھی، اس میں اب ’’نقد الانتقاد‘‘ کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ یقینا یہ خوشی اور اطمینان کی بات ہے۔ اس لیے کہ اب اس امر کا جائزہ لینا اور فیصلہ کرنا آسان ہوگیا کہ انتقادِ نعت کے تاحال کن پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے اور کون سے گوشے ابھی تک توجہ طلب ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جن پہلوؤں پر جس طرح بات کی گئی ہے وہ ادبی و فکری معیارات کے لحاظ سے کس قدر لائقِ توجہ رہی۔ کن سوالات کا جواب کس سطح سے فراہم کرنے کی سعی کی گئی اور کون سے نئے سوالات اٹھائے گئے اور مباحث کا کون سا نیا تناظر قائم کیا گیا۔ ادب کی کسی بھی صنف اور اس کے موضوعات کے حوالے سے یہ مرحلہ اس وقت آتا ہے جب انھیں ادب و فکر کے مرکزی دھارے میں جگہ مل جاتی ہے۔ الحمدللہ، اردو نعت آج یہ مقام حاصل کرچکی ہے۔

سطورِ بالا میں اٹھائے گئے سوالات کی تفتیش سے ہمیں اپنے ادب و فکر کی مسافت کا نہ صرف اندازہ ہوسکتا ہے، بلکہ اس احوال کی روشنی میں آئندہ کے سفر کا نقشہ بھی ہمارے سامنے ابھر سکتا ہے۔ اس معاملے میں بعض ضمنی حوالے یا فروعی اشارے بھی بے حد مفیدِ مطلب ثابت ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محترم شمس الرحمن فاروقی کے اس مکتوب سے چند سطور نقل کی جائیں جو انھوں نے گزشتہ شمارے کی رسید کے طور پر لکھ کر بھیجی ہیں:

آپ کا تازہ شمارہ دیکھنے پر بھی وہی تأثر قائم ہوتا ہے جو گزشتہ کتابوں نے قائم کیا تھا۔ یعنی رطب اور یابس دونوں کو ماشاء اللہ وافر جگہ ملی ہے۔ ہم اردو والوں کی یہ عادت بھی پرانی ہے کہ الفاظ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور بات بہت ذرا سی نکلتی ہے، اگر نکلتی ہے۔ موجودہ شمارے کے اکثر مضامین کا یہی حال ہے۔ بعض لوگوں نے نئی یا گہری بات کہنے کی کوشش ضرور کی ہے، لیکن ان کے مقدمات محلِ نظر ہیں۔

فاروقی صاحب بڑے آدمی ہیں۔ انھیں اپنے انداز سے ادب و نقد پر نگاہ ڈالنے اور ان کے بارے میں اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔ اسی طرح کسی بھی دوسرے شخص کو ان کی رائے سے اختلاف کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم اس وقت ہمارے لیے تو اپنے عہد کے ایک سنجیدہ اور معتبر نقاد کا یہ ایک جملہ بھی خوش کن اور حوصلہ افزا ہے کہ بعض لوگوں نے نئی یا گہری بات کہنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ اپنے ادبی منظرنامے میں اسی کوشش کو بڑھاوا دینے کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ کی مجلسِ ادارت ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ ایک ایسی صنفِ سخن جس کی طرف ایک طویل عرصے تک نقد و نظر نے التفات کی نگاہ ہی نہیں اٹھائی اور اسے ’’شعرِ عقیدت‘‘ کا لیبل لگاکر ہمیشہ مباحث کی فضا سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی، آج وہ اس مرحلے تک آگئی کہ اس میں نئی بات، نئے نکات کی کوشش کا اعتراف کیا جانے لگا۔ الحمدللہ، ثم الحمد للہ آج وہ اس لائق تو ہوئی کہ اس عہد کا ایک مستند اور معتبر نقاد اسے اس درجہ اہم گردانتا ہے کہ اس کے نکات، سوالات اور مباحث پر وقت اور توجہ صرف کر رہا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر خوش کن بات یہ ہے کہ آج نقدِ نعت کے باب میں اسے کچھ ایسے لوگ بھی نظر آئے کہ جو گہری بات کہنے کے نہ صرف اہل ہیں، بلکہ اس کی کوشش بھی کررہے ہیں۔


اب آئیے فاروقی صاحب کی رائے پر۔ اس کے بارے میں یہاں دو باتیں کہنے والی ہیں۔ پہلی یہ کہ جن مقدمات کو شمس الرحمن فاروقی نے محلِ نظر گردانا ہے، وہ کلیتاً رد کرنے کے قابل ہیں یا کسی نہ کسی زاویے سے بہرحال لائقِ اعتنا ہیں اور آگے کچھ نئے افکار و مباحث کو پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اس کا فیصلہ فی الفور نہیں ہوسکتا۔ یہ کام تو آنے والا وقت کرے گا۔ فاروقی صاحب کا تنقیدی مقام و مرتبہ اپنی جگہ، لیکن صرف ان کی رائے پر تو ان مقدمات و مباحث کو اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالا جاسکتا۔


دوسری بات میں براہِ راست فاروقی صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے وہ اپنی ذمے داری کا تعین خود فرمائیں۔ میری رائے یہ ہے کہ محلِ نظر مقدمات کی طرف ان کا اشارہ بھی بہت اچھی بات ہے اور بلاشبہ ان کے مرتبے کا کام بھی ہے، لیکن یہ کافی ہرگز نہیں ہے۔ قابلِ قدر یہ ہوگا کہ وہ اس شعبے کے لیے عملی اقدام کریں اور خود مستحکم مقدمات پیش کریں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ نعت کے سلسلے میں ایسا ہی کوئی کام کریں جیسا انھوں نے میر کے یا پھر داستانوں کے لیے کیا ہے۔ اگر وہ ایسا ہی کچھ کرسکیں تو سبحان اللہ، سبحان اللہ۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو کم سے کم چند ایک مقالات، ایک آدھ چھوٹی موٹی کتاب تو اس شعبے کو دیں۔ تاکہ کل ہماری تہذیب و ادب کا ناقد انھیں صرف نکتہ چینوں میں شمار نہ کرے، بلکہ یہ اعتراف کرے کہ انھوں نے اپنی تہذیبی ذمے داریوں کو شعوری اور عملی سطح پر ادا کیا ہے۔


اپنی بساط کی حد تک تو میں پورے اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ نعت کو ادبی پہلوؤں سے دیکھنے اور اس کی فنی اور فکری پرکھ کی طرف اہلِ نقد کو متوجہ کروانا اور خوش وقتی مطالعات کی رسمی و روایتی فضا میں کوئی نئی بات کہنے کی کوشش، کسی گہری بات کو سامنے لانے اور کوئی نیا سوال اٹھانے اور کوئی تازہ مقدمہ قائم کرنے اور کوئی نئی بحث چھیڑنے کی خواہش ہی تو دراصل ’’نعت رنگ‘‘ کی اشاعت کا جواز بنی تھی۔ ابتدا میں تو بے شک اس کا مجھے زیادہ اندازہ نہیں تھا، لیکن آگے بڑھنے پر جب صورتِ حال واضح ہوئی تو میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ یہ کام آسان ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس شعبے میں تو ابتدا، یعنی پہلی اینٹ رکھنے سے ہی کام کرنے کی ضرورت تھی۔ پھر مزید مشکل یہ کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے تو سب سے پہلے ذہن سازی اور لوگوں کو مذہبی اصناف پر نقد و تجزیہ کے خوف سے نکالنے کے لیے بھی خاصا وقت درکار تھا۔


آج یہ بات میرے لیے گہری طمانیت کا باعث ہے کہ تمام تر مسائل اور طرح طرح کی دقتوں کے باوجود اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے یہ کام کہیں رکا نہیں۔ نعتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جو کارواں ایک بار چلا تو پھر الحمدللہ چلتا ہی رہا ہے۔ 1995ء سے اب تک ’’نعت رنگ‘‘ کا ہر شمارہ ہمارے اس سفر کی زندہ گواہی کے طور پر سامنے ہے۔ ’’نعت رنگ‘‘ نے اپنے قافلے میں نقدِ نعت کے روایتی تناظر سے تعلق رکھنے والوں کو ہم راہ لے کر چلنے کے ساتھ ساتھ ایسے ناقدین کو بھی اپنے ہاں لکھنے پر آمادہ کیا جو معاصر تنقیدی منظرنامے میں اپنی تنقیدی متانت اور فکر و بصیرت کے حوالے سے بلاشبہ اہلِ اعتبار میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کے نام اپنی جگہ سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ یوں پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی، ڈاکٹر تحسین فراقی، مبین مرزا، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، سلیم شہزاد اور ڈاکٹر طارق ہاشمی جیسے ممتاز اہلِ قلم اپنے افکار و نظریات اور تازہ تر سوالات کے ساتھ گزشتہ شماروں میں ’’نعت رنگ‘‘ کی بزم کا حصہ بنتے دکھائی دیے۔


یہاں میں گزشتہ شمارے میں شائع ہونے والے ڈاکٹر طارق ہاشمی کے مضمون ’’اردو حمد و نعت اور برِصغیر کی فلمی صنعت‘‘ کا بہ طورِ خاص ذکر کرنا چاہوں گا۔ یہ مضمون جیسا کہ اس کے عنوان سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے، مطالعاتِ نعت میں ایک نئے پہلو کو سامنے لایا اور توجہ سے پڑھا گیا۔ میرے نزدیک یہ مضمون برِصغیر کی فلمی صنعت میں نعت کے فروغ و ارتقا ہی سے متعلق نہ تھا، بلکہ ان نعتوں کے تناظر میں مضمون نگار نے بعض اہم سماجی سوالات بھی اٹھائے ہیں اور ساتھ ہی کم زور مذہبی عقائد کی اثر پذیری کے تناظر میں معاشرے کے انفعالی رویوں پر بھی بطورِ خاص بات کی ہے۔ زیرِ نظر شمارے میں شامل دو حضرات کے مضامین کا بھی یہاں ذکر ضروری محسوس ہورہا ہے۔ ایک ہے ’’مولانا جامی کا سلام‘‘ یہ معروف عالم، ادیب اور شاعر احمد جاوید کا مضمون ہے، دوسرے دو مضامین ’’مغرب کا نعتیہ بصری ادب‘‘ اور ’’اردو نعت میں تعظیمی بیانیہ‘‘ ڈاکٹر طارق ہاشمی کے ہیں جن میں نعتیہ ادب سے متعلق متعدد اہم اور کچھ نئے سوالات قائم کیے گئے ہیں۔


احمد جاوید علم اور تصوف کی دنیا میں اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔ یہ مضمون دراصل احمد جاوید کی ایک گفتگو ہے جسے ٹرانسکرائب کرکے مضمون کی صورت دی گئی ہے۔ اس میں احمد جاوید نے مولانا جامی کے سلام کے حوالے سے مذہب، شاعری اور تہذیب کے سیاق میں بہت اہم نکات بیان کیے ہیں اور ایسی باتوں پر روشنی ڈالی ہے جو علم و فکر کے علاوہ تصوف کی جہت بھی رکھتی ہیں۔ ہمارے ہاں نعت کے مطالعات میں علم و ادب اور فکر و فلسفہ کی متعدد جہات کو تو اس سے پہلے بھی پیشِ نظر رکھا گیا، لیکن تصوف کی جہت کے حوالے سے خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے۔ اس بارے میں راقم الحروف کی احمد جاوید سے کئی بار گفتگو ہوئی اور اُن سے تقاضا کیا گیا کہ وہ اس شعبے کے آدمی ہیں، سو اس جہت پر کام کریں۔ آخری بار جب بات ہوئی تو اُس کے ڈیڑھ دو ماہ بعد انھوں یہ مضمون ہمیں بھجوایا۔ خوشی ہوئی کہ انھوں نے ہماری خواہش اور وقت کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عملی اقدام کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ہمیں کچھ اور گوہر ہاے فکر و خیال بھی ارسال کریں گے۔ ڈاکٹر طارق ہاشمی کا اوّل الذکر مضمون مغربی میڈیا سے متعلق ہے جس کے بارے میں عام تأثر یہ ہے کہ اُس کے پس منظر میں کارفرما ذہن کی سرگرمیاں اسلام اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بابت نہایت ناگوار اور لائقِ استرداد ہیں۔ اپنے اس مضمون میں ڈاکٹر طارق ہاشمی نے مغربی سماج اور میڈیا کے حوالے سے جو نکات اٹھائے ہیں، ان میں ایک الگ نقشہ اور مختلف منظر سامنے آتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ تحریر تہذیبوں کے تصادم اور متحارب بیانیے کے ماحول میں امتزاج اور اتفاق کے نکات کی تلاش کے اقدام کا درجہ رکھتی ہے۔

ڈاکٹر طارق ہاشمی کا دوسرا مضمون ’’اردو نعت میں تعظیمی بیانیہ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے بارے میں بعض سماجی تصورات کو پیش کرتے ہوئے ایک بڑا اہم سوال اٹھاتا ہے یہ کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعظیم و تکریم اور قدر و منزلت کے بیان کے لیے ان حوالوں، کنایوں اور استعاروں کا استعمال درست ہے جو اہلِ دنیا کی عظمت کے اظہار و بیاں کے لیے رائج ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے یہ سوال بھی اہمیت کا حامل اور توجہ کا طالب ہے کہ ایک جمہوری دور اور ٹیکنالوجی کے عہد میں ملوکیت کے استعاروں سے ہمارا نعت گو کس طرح باہر آسکتا ہے؟ یہ سوال اس عہد میں نعت کے نئے ڈکشن پر غور کی دعوت دیتا ہے۔

نعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوصاف، اعمال، شمائل اور تعلیمات کے بیان سے عبارت ہے، لیکن ہمارے ہاں ایک زمانے سے یہ صنفِ شعر جس طرح محض جذبے اور اظہارِ عقیدت سے مخصوص ہوکر رہ گئی ہے، اس ضمن میں اس خدشے سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری نعتیہ شاعری محض انفعالی رسمی اور سطحی جذبات کا مجموعہ ہوکر نہ رہ جائے۔ اقبال کی نعت گوئی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر تحسین فراقی اور مبین مرزا نے بعض بڑے بنیادی اور اہم نکات اٹھائے ہیں جو نعت گوئی کے اہم مسائل پر روشنی ڈالتے اور غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اس سلسلے میں ایک مفصل مضمون میں نعت گوئی کے اس میلان کے حوالے سے اپنے خیالات کا جامع پیرائے میں اظہار کیا ہے جو توجہ طلب ہے۔

’’نعت رنگ‘‘ اردو نعت کے ضمن میں نئے مباحث اور نقدِ نعت کے نئے مطالعاتی زاویوں کی تلاش اور عہدِ جدید کے افکار و آثار میں نعت کی تخلیق و تفہیم کے نئے پہلو اجاگر کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہا ہے۔ اب اپنی مساعی کی رفتار میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ہماری کوشش ہے کہ نعت کے مطالعات اور تنقیدی تحریریں وسعت آشنا ہوں اور ہمارے اہلِ نقد اپنے عہد کے حوالوں اور سوالوں کے ساتھ تخلیق و تنقیدِ نعت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سامنے آئیں۔ اس لیے کہ آج یہ صرف ہماری ادبی و فکری ضرورت ہی نہیں ہے، بلکہ ہماری زبان و تہذیب کو درپیش وقت کا تقاضا بھی ہے۔

وفیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی

کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے


نعت رنگ کے ابتدائیے میں وفیات کے مرحلے تک آتے ہی جہاں دل زخم زخم ہوجاتا ہے وہیں مدحِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسم سے وابستہ ان خوش بختوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے اور ان کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے روح سکون بھی پاتی ہے، شاید ہم اسی طرح اپنے احساسِ غم کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سیّد اسحاق الدین (یکم جنوری ۱۹۲۹ء ضلع بیڑ حیدرآباد دکن -۱۷؍اگست ۲۰۱۹ء کراچی )[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۷؍اگست رات بارہ بجے سے کچھ اوپر کا وقت تھا جب وہ ہاتھ جس کی انگلی تھام کر میں نے زندگی کے راستوں پر کھڑا ہونا، چلنا اور پھر دوڑنا سیکھا، میرے ہاتھوں میں دیکھتے دیکھتے زندگی کی حرارت سے محروم ہوگیا۔ کیسا لمحہ تھا، کیا بے بسی، ہائے ہائے۔ طبیعت توان کی کئی برسوں سے خراب تھی مگر پچھلے پانچ برس سے وہ مستقل بسترِ علالت پر رہے، کمزوری اور بیماریوں سے لڑتا جسم روز بہ روز نڈھال ہوتا جارہا تھا، سماعت اور بصارت معدوم ہو چکی تھیں۔ نہ کچھ کہنے کے قابل نہ سننے کے، تاہم ان کے ہونے کا احساس بھی بہت تھا۔ ان کے ماتھے پر بوسے کی حلاوت، ان کے ہاتھوں کو ہاتھوں میں لے کر سہلانے کے عمل سے میسر آنے والی جذبوں کی آسودگی، ان کی کمر او رپیروں کو آہستگی سے دبانے کے سعادت آثار لمحے، ان کو آواز دے کر ان سے کسی جواب کی موہوم سی اُمید۔ ان کے چلے جانے سے اچانک کیا کچھ چھن گیا ہے جیسے کسی نے سر سے آسمان اور پیروں سے زمین کھینچ لی ہو۔ کہیں خلا میں متعلق سا ہوکر رہ گیا ہوں۔ گھر جائوں تو ان کا خالی بستر اور والدہ کی خالی آنکھیں دیکھنا کسی قیامت سے کم نہیں۔ یہ صرف میرا ہی نہیں میرے تمام بھائی بہنوں کا احوال ہے۔ ذہن و دل ویران ہیں اور قلم کچھ لکھنے پر آمادہ نہیں۔

نظروں میں بھی ہے، دل سے بھی مستور نہیں ہے

نزدیک نہ ہو کوئی مگر دور نہیں ہے

میں اپنے والد کی وفات پر ساری دنیا سے اہلِ محبت کے تعزیتی پیغامات اور ایصالِ ثواب کی محافل کے انعقادپر تہِ دل سے ممنون ہوں اور قارئینِ نعت رنگ سے بھی دعا کے لیے التماس گزار ہوں کیونکہ اگر مجھ میں کوئی وصف ہے تو وہ میرے والد کی تربیت کا فیض ہے۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ان کی کامل مغفرت فرمائے اور انھیں شفاعتِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نوازے۔ آمین!

حمایت علی شاعر (۱۴؍ جولائی ۱۹۲۶ء، اورنگ آباد - ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۹ء ٹورانٹو کینیڈا)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حمایت علی شاعر کی شہرت اور ناموری کے کئی دائرے تھے جن میں سب سے نمایاں دائرہ شاعری کا تھا۔ انھوں نے زندگی اور ادب و فن کے مختلف شعبوں میں جم کر کام کیا۔ تدریس، صحافت، ادارت، ڈراما، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم کے علاوہ تنقید و تحقیق اور تخلیق میں ان کی فعالیت کے کئی روشن نقوش اپنے عہد کی تاریخ کے اوراق میں ان کا حوالہ رہیں گے۔

’’آگ میں پھول‘‘، ’’مٹی کا قرض‘‘، ’’تشنگی کا سفر‘‘ اور ’’ہارون کی آواز‘‘ ان کے مطبوعہ شعری مجموعے ہیں جبکہ ان کی منظوم سوانح عمری جسے انھوں نے مثنوی کی ہیئت میں لکھا ’’آئینہ در آئینہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ دو نثری کتابیں ’’شیخ ایاز‘‘ اور ’’شخص و عکس‘‘ میں بھی ان کے تنقیدی افکار مطبوعہ صورت میں محفوظ ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے جو تحقیقی پروگرام پیش کیے اور جس طرح خود ان کے لیے تحقیق و جستجو کے دشوار مراحل سے گزرے وہ ان کے عزم اور جذبہ و لگن کو ظاہر کرتے ہیں۔ شاعر صاحب کی شخصیت اور کارناموں کے سرسری ذکر کے لیے بھی کئی صفحات درکار ہیں لیکن میں اس وقت ان کے سارے علمی سرمائے میں اپنے قارئین کی توجہ ان کے ان نعتیہ تذکروں کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں جو اپنی ایک منفرد افادیت رکھتے ہیں۔ شعبہ اُردو سندھ یونی ورسٹی نے اپنے مجلے ’’صریرِ خامہ‘‘ کا ایک خصوصی نعت نمبر ۱۹۷۸ء میں پیش کیا۔ اس اہم اور تاریخی نمبر کے مرتب حمایت علی شاعر تھے۔ اس نمبر میں جہاں سندھ یونی ورسٹی کے نامور ادیب و محقق اساتذہ کے مضامین شائع ہوئے وہیں حمایت علی شاعر نے بھی ’’اُردو میں نعتیہ شاعری کے سات سو سال‘‘ کے عنوان سے ایک اہم تذکرہ مرتب کیا جو نعتیہ مطالعات میں ایک ’’جہت نما‘‘ حیثیت سے سامنے آیا۔ اس میں کلام کا انتخاب شعرا کے کوائف اور مختصر تعارف کے علاوہ قدیم اُردو شعرا کی شاعری میں مشکل الفاظ کے معنی بھی درج ہوئے، جس سے تذکرہ نگار کی اُردو کی کلاسیکی شاعری پر گہری نظر اور لفظیات کی معرفت کا اندازہ ہوتا ہے۔

پیش لفظ کے طور پر حمایت بھائی نے ’’حرفِ جستجو‘‘ کے عنوان سے جو چند صفحات لکھے، وہ بھی اپنے بیانئے میں کچھ نئے سوالات اٹھاتے تھے جو آج بھی نعت کے مطالعات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں اور ہماری تاریخ و تہذیب اور تخلیقی رویوں کے بارے میں گہرے تنقیدی شعور کو پیش کرتے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اس فکری تحریر کا کچھ حصہ مستقبل کے نعت شناسوں کی توجہ کے لیے ضرور یہاں پیش کروں۔

’’تاریخ ہمیشہ تحقیق طلب ہوتی ہے، وجہ یہ ہے کہ پیش منظر میں جو کچھ ہوتا ہے، پس منظر میں اکثر نہیں ہوتا۔ پیش و پس کا یہ تضاد، حقیقت کی جستجو کرنے والوں کو عموماً پس و پیش میں مبتلا رکھتا ہے۔ وہ کبھی اپنی آنکھوں کی گرد صاف کرتے ہیں اور کبھی وقت کی۔ لیکن وقت کی گرد ایسی نہیں ہوتی کہ پلکوں سے صاف ہو جائے۔اس لیے تاریخ کا مطالعہ بین السطور میں کیا جاتا ہے۔ لفظ کا پردہ اٹھا کر معنی کے خط و خال دیکھے اور پرکھے جاتے ہیں۔اس آئینے میں جب ہم عہد بہ عہد اپنے ماضی کے خطوط دیکھتے ہیں تو ہر خط اپنے مخصوص دور کی کوئی نہ کوئی شکل بناتا نظر آتا ہے۔ یہ شکلیں نقطوں اور زاویوں میں بٹی ہوئی ہوتی ہیں اور انھیں سے اس عہد کا گراف بنتا ہے۔ نعتیہ شاعری بھی اپنے اپنے عہد کے مذہبی گراف کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس گراف کے محرکات میں جہاں کسی قوم اور کسی ملک کی جغرافیائی خصوصیات شامل ہوتی ہیں وہیں تاریخ کی گود میں پرورش پانے والی تہذیبی اقدار بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس مخصوص دور کی وہ سیاسی حکمتِ عملی بھی جو ’’رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند‘‘ کے پردے میں کارفرما ہوتی ہے۔

ہمارے عمومی عقائد میں عجمی طرزِ فکر کا نفوذ ہو یا ہندوستانی صنمیت کے اثرات، بنیادی رمز یہی ہے کہ ہمارا معاشرہ تاریخ کے بہائو میں اپنی بدلتی ہوئی اقدار کو مقامی روایات سے بالکلیہ جدا نہیں کر سکا (اور شاید یہ ممکن بھی نہیں)۔ ظاہر ہے کہ شاعری جو معاشرے کی کوکھ سے جنم لیتی ہے، کس طرح اس خون سے بے رشتہ ہو سکتی ہے جو صدیوں سے اس کی رگوں میں گردش کر رہا ہے۔

شاعری تو حسنِ تخیل کا وہ طلسم ہے جو اکثر اپنے عہد کے تنقیدی شعور کو بھی کچھ دیر کے لیے مبہوت کر دیتی ہے اور حواس کی بیداری کے باوجود روح میں درآتی ہے۔ اور جب صورتِ حال یہ ہو کہ دینی مکتبہ ہائے فکر بھی اپنے ذیلی تضادات میں الجھے ہوئے ہوں، شاعری میں ان کا جگہ نہ پانا ایک غیر فطری عمل ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اکثر نعت گو شعرا اپنے عقیدے کے بنیادی مثلث (triangle) پر ایمان رکھنے کے باوجود ارتفاع اور عمق کی تلاش میں کہیں زاویہ قائمہ کو حادّہ اور کہیں حادّہ کو منفرجہ بنا دینے کے مرتکب نظر آتے ہیں۔ یہ ارتکاب لاکھ جذباتی سہی مگر توجہ طلب ضرور ہے۔توجہ طلب یوں کہ اسلام میں خدا، قرآن اور رسول کا مثلث (triangle) جن حدود کا تعین کرتا ہے وہ اصولِ فطرت کے عین مطابق ہے۔ فطرت اسی معنی میں مسلمان ہے کہ ہمیشہ اپنی حد میں رہتی ہے اور اپنے حدود میں رہ کر لامحدود کے امکانات کا سراغ دیتی ہے۔

میں نے اُردو کی سات سو سالہ نعتیہ شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی کہ تخیل کی بلند پروازی اکثر مقامات پر حد سے متجاوز ہوگئی ہے۔ مجھ پر چونکہ اس کے محرکات بھی روشن تھے اس لیے حیرت تو نہیں ہوئی۔ البتہ عرفیؔ کا یہ شعر بہت یاد آتا رہا  :

عرفی مشتاب ایں رہِ نعت است نہ صحراست

آہستہ کہ رہ ہر دم تیغ است قدم را

اس گفتگو سے میرا یہ مقصد نہیں کہ جو سوالات میرے ذہن میں اُبھرتے ہیں ان سے آپ بھی اتفاق کریں۔ ہر شخص کا اپنا زاویہ نگاہ ہوتا ہے جو اپنے عہد کی آگہی کے آئینے میں دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ ہر عمارت ایک بنیاد پر اٹھائی جاتی ہے، اس لیے بنیاد سے ہٹ کر جو بھی تعمیر ہوگی وہ دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کردے گی۔ بنیاد روح کو یقین عطا کرتی ہے اور یقین ایمان کا حرفِ اوّل ہے۔

میرے پیش نظر یہ حدیث بھی ہے کہ :

من کذب علٰی متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار

(جس نے میرے متعلق قصداً جھوٹ بات کہی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنالے)


اس کے علاوہ سب سے اہم نکتہ جو قرآنِ حکیم کے مطالعے سے نمایاں ہوتا ہے وہ شخصیت کی عظمت میں ’عبدیت‘ کا تعین اور اس کی اہمیت پر اصرار ہے۔


سبحن الذی اسریٰ بعبدہٖ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا

(وہ پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے ’بندے‘ کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک جس کو گھیر رکھا ہماری برکت نے تاکہ دکھلائیں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے)۔

یہ ’عبدیت‘ کا نقطہ عروج ہے جو ’معراج‘ کی معرفت ’انسان‘ کو خدا کے قرب کی عظمت نصیب کرتا ہے۔ یہی عظمت ہمیں ’بشریت‘ پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ علامہ اقبال نے اس نکتے پر مروجہ مذہبی عقائد کے بجائے سائنسی انداز میں سوچا ہے:


سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں


اور اس مقام ارتفاع کا ادراک حاصل کرکے یہ فیصلہ دیا کہ


متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی

مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی


ان کے نزدیک ’عبدیت‘ بشریت کی اکملیت کا استعارہ ہے۔ وہ مقامِ بندگی میں بھی وہی عظمت محسوس کرتے ہیں جو شانِ خداوندی میں ہے۔ اس طرح وہ دونوں کی فردیت کو متعین کرتے ہوئے اپنے اپنے مقام پر محفوظ رکھتے ہیں اور کسی اکائی کو دوسری اکائی میں ضم نہیں ہونے دیتے۔


اکائیوں کے انضمام کا تصور بنیادی طور پر اسلامی نہیں ہے، یہ تو فلاطونیت کے زیرِ اثر وحدت الوجود کے واسطے سے اسلامی فکر کا حصہ بنا اور ہندوستان میں ویدانت سے مصالحت کی راہ ہموار کی۔ بہرحال اسلامی فکر کی نئی تشکیل میں عہد بہ عہد جو بھی عوامل کارفرما رہے ہوں، حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہندوستانی مسلم معاشرے میں ذیلی اور روایتی عقائد کا پھیلائو ہوتا گیا اور ’’وہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا‘‘ کے مصداق نعتیہ شاعری میں بھی انھیں خیالات کا ظہور ہوا اور شاعری کے بادشاہی کے زیرِ اثر پروان چڑھنے کے سبب نعتیہ اندازِ سخن میں بھی قصیدہ نگاری کی بدعتیں پیدا ہو گئیں اور رفتہ رفتہ اسلامی فکر کا وہ مجتہدانہ عنصر پس منظر میں چلا گیا جسے پیش منظر میں قدرِ اوّل کی حیثیت حاصل تھی۔


علامہ اقبال نے اسی حقیقت کے پیشِ نظر اکائیوں کے انضمام سے گریز کیا اور فردیت کی بقا کے لیے ’خودی‘ کی بنیاد فراہم کی۔ لیکن ان کے ہاں خودی کا تصور جامد نہیں بلکہ متحرک اور ارتقا پذیر ہے۔ اس میں یہ ارتقائی عمل دوسری اکائی میں ضم ہونے کے لیے نہیں بلکہ اپنی تکمیل کے لیے جاری رہتی ہے۔ اس طرح قرآنِ حکیم نے ’تسخیرِکائنات‘ کا جو فرض انسان کو سونپا ہے اس کی بجاآوری کے لیے وہ مسلسل آگے بڑھتا ہے اور ’عبدیت‘ کے منصب پر فائز رہ کر حیات و کائنات کے اسرار دریافت کرتا رہتا ہے۔ خدا سے قریب تر ہونے کی کوشش اسے نگاہِ قدرت میں باوقار اور محبت کے قابل بناتی ہے اور وہ خدا کا ’محبوب بندہ‘ ہو جاتاہے یہاں تک کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے


عالمِ انسانیت میں یہ افضل و برتر مقام صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ بابرکات کو حاصل ہے اور ہمارے لیے رہنمائی کے چراغ انھیں کے نقشِ کفِ پا ہیں۔


وہ علمِ اوّل جو حضرت آدم کی معرفت خدا نے انسان اور صرف انسان کو عطا کیا ہے، غور کیا جائے تو ’’اُمّی تا اقراء‘‘ اسی علمِ اوّل کے استعارے کی بازگشت ہے اور آنحضرت کا سینۂ اقدس (جس میں قرآن اُتارا گیا) اسی علم کا شہر ہے جو دونوں عالم کے لیے رحمت بنا کر ہمارے درمیان آباد کیا گیا تاکہ ہمارے دل و دماغ پر آگہی کے دروازے کھول دیے جائیں اور ہم عہد بہ عہد اپنی مجتہدانہ فکر اور مجتہدانہ عمل سے (جسے میں سائنسی علوم سے تعبیر کرتا ہوں) بشریت کے اس مقام تک پہنچنے کی کوشش کریں جو ’عبدیت‘ کا منتہا ہے۔


آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فکر و عمل سے یہ نکتہ ہم اسی وقت اخذ کرسکتے ہیں جب ہمیں ان کی شخصیت کی عظمت کا معنوی ادراک حاصل ہو۔ ہمارے بیشتر نعت گو شعرا میں اسی ادراک کی کمی کا احساس ہوتا ہے جو کچھ کہا گیا ہے، اپنی تمام تر محبت اور عقیدت کے باوجود عموماً رسمی اور سطحی سا ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ خودغرضانہ اور جامد فردیت یعنی نفسی نفسی کا شکار ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔


ہمارے عہد کی خوش نصیبی ہے کہ اقبال جیسا شاعر ہمیں نصیب ہوا جس نے مذہبی عقائد پر بھی ہمیں سائنسی انداز میں سوچنے کا حوصلہ دیا اور ایسی نعتیہ فکر عطا کی جو شخصیت کے معنوی ادراک کا دَر باز کرتی ہے اور ہمارے شعور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت کے نئے اُفق روشن کرتی ہے ؎


لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب‘‘


مجھے احساس ہے کہ یہ اقتباس طویل ہوگیا ہے مگر آج حمایت علی شاعر کے جانے کے دکھ کااظہار کرتے ہوئے مجھے نعت کے تشکیلی دور میں ایسی شخصیات اور ایسی مساعی کو متعارف کروانے کی ذمہ داری پوری کرنی ہے جو ابتدائی نوعیت ہی کے سہی مگر بہت پہلے نعت کے تنقیدی شعور کو نمایاں کرنے کے حوالے سے فکرانگیز اشارے کر گئے ہیں۔

اس اقتباس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حمایت علی شاعر نے نعت نگاری کے لیے نہ صرف خود مذہبی شعور اور تہذیبی آگہی سے کام لیا، بلکہ انھوں نے اپنے خیالات و افکار کو بھی بہت مرتب انداز میں اور پوری نکتہ آفرینی کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان پر غور کرکے ہم اپنے عہد کے تناظر میں نعتیہ فکر کے فروغ کا کام کرسکتے ہیں، بلکہ آنے والے دور میں بھی ان فکر انگیز نکات سے تخلیقِ نعت اور نقدِ نعت دونوں شعبوں میں استفادے کی صورتیں پیدا ہوں گی۔

یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ بعدازاں ’’اُردو میں نعتیہ شاعری کے سات سو سال‘‘ کو پی ٹی وی پر حمایت علی شاعر نے بطور میزبان خود ایک طویل دورانیے کے پروگرام کے طور پر ’’عقیدت کا سفر‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ اس پروگرام کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلا حصہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے تذکرے سے شروع ہو کر ۱۹۴۷ء ماہرالقادری تک مکمل ہوا۔ جبکہ دوسرا حصہ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۸۷ء تک کے شعراے نعت کے تذکرے پر مشتمل تھا۔ پروگرام کئی سال تک نشر ہوا۔ ایک پروگرام میں چار شعرا کا تعارف اور مختلف نعت خوانوں کی آواز میں ان کا کلام پیش کیا جاتا تھا۔ یوں پی ٹی وی پر اس طویل ترین دورانیے کے پروگرام نے نعت کی معرفت اور ارتقائی مراحل اور عہد بہ عہد سفر کو بہت خوب صورتی سے اور پر تأثر انداز میں عوام الناس تک پہنچایا۔

حمایت بھائی کی نعتیہ شاعری بھی محض عقیدت کی بنیاد پر وجود میں آنے والی شاعری نہ تھی بلکہ اس میں ان کا سماجی شعور اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بنیِ نوع انسان کے لیے باعثِ رحمت ہونا اور رہنمایانہ کردار کا حامل ہونا نمایاں رہا۔ ان کی نعتیہ نظم ’’محاسبہ‘‘ ایک نہایت فکرافروز اور عصری شعور سے آراستہ نظم ہے۔ چند شعر دیکھئے:

حضور آپ کی امت کا ایک فرد ہوں میں

مگر خود اپنی نگاہوں میں آج گرد ہوں میں

میں کس زباں سے کروں ذکرِ اُسوۂ حسنہ

کہ اہلِ درک و بصیرت نہ اہلِ درد ہوں میں

میں کس قلم سے لکھوں سرخیِ حکایتِ خوں

کہ رنگ دیکھ کے اپنے لہو کا زرد ہوں میں

سمجھ سکوں گا میں کیا سرِّ نکتۂ معراج

شکست خوردۂ دنیاے گرم و سرد ہوں میں


اُردو کے باکمال اور صاحب اسلوب شعرا اور نعت شناسوں میں حمایت علی شاعر کا نام ہمیشہ روشن رہے گا اور جب جب ان کا ذکر آئے گا لوگ ان کی نعتیہ خدمات کو بھی ضرور یاد کریں گے۔

خالد محمود خالد نقشبندی (۱۳؍ جون ۱۹۴۱ء چکوال - ۱۷؍ دسمبر ۲۰۱۸ء کراچی)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خالدمحمود خالد نقشبندی کا شمار اُردو کے مقبول ترین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی نعت گوئی کا عمومی وصف سادگی ہے۔ جذبات و احساسات کی فراوانی نے ایک مخصوص غنایت کے ساتھ مل کر ان کی نعت گوئی کو عوام و خواص دونوں میں پذیرائی و پسندیدگی کا مستحق بنا دیا ہے۔ نبیِ کر یمV سے بے پناہ عقیدت نے ان کے اسلوبِ شعر کو ایک ایسا انداز عطا کیا جس میں تصنع اور بناوٹ کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ ان کی لفظیات، بحور و اوزان اور نعتیہ زمینوں میں دل آویزی کا سبب ان کے لہجے کی یہی سادگی اور اظہار کا یہی فطری پن ہے جو سامعین کے قلوب کو متأثر کرتا ہے۔ ان کے بے شمار نعتیہ کلاموں کو قبولیت عام حاصل ہوئی۔ دنیا میں جہاں جہاں اُردو بولنے اور سمجھنے والے ذکرِ حبیب کی محفلیں سجاتے ہیں خالد محمود خالد نقشبندی کا کلام وہاں ضرور پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ وہ اپنی وضع کردہ دُھنوں میں جب اپنا کوئی نیا کلام اہلِ محبت کے درمیان پڑھتے تھے تو اگلے ہی دن وہ ہماری مجلسی نعت کا سرنامہ بن جاتا تھا۔ ان کے چار نعتیہ مجموعے شائع ہوے جن میں ’’قرارِ جاں‘‘، ’’قدم قدم سجائے‘‘، ’’حسنِ ازل‘‘ اور ’’سیلِ تجلیات‘‘ شامل ہیں۔ انھوں نے ۱۹۷۱ء کے اوائل میں ’’حلقۂ ذکرِ حبیب‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے ذریعے نعت خوانی کی محافل کا انعقاد اور نئے نعت خوانوں کی تربیت کا اہتمام کیا گیا۔ خالد صاحب کو اللہ نے نہایت سوز و گداز اور درد والی آواز عطا فرمائی تھی۔ موسیقی کے رموز سے آشنائی نے انھیں اپنی آواز اور کلام کو مزید بہتر انداز میں سنوارنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ یوں ان کی شہرت میں ان کی نعت خوانی نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کے متعدد شاگرد نعت خوانی اور نعت گوئی کے فن میں آج بھی اپنی اپنی جگہ اپنے ماحول کو منور فرما رہے ہیں۔ ۱۷؍ دسمبر ۲۰۱۸ء کو خالد صاحب اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ میں اس وقت ملک میں نہیں تھا۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر مجھے ان کا یہ شعر بہت یاد آیا ؎


شکریہ اے عشق یہ بھی راز افشا کر دیا

زندگی ملتی ہے بس اُن پر فدا ہونے کے بعد


اللہ جس کو اپنے فضل سے اس حقیقت سے آشنا کردے پھر اپنے اس بندے کی اس خوش گمانی کو بھی تعبیر آشنا کرنا اس کے لیے بھلا کیا مشکل ہے۔


صلۂ نعتِ نبی پائے گا جس دن خالدؔ

وہ کرم دیکھنا تم دیکھنے والا ہوگا ٭

قمر حجازی (۱۰؍ فروری ۱۹۵۲ء - ۱۴؍ فروری ۲۰۱۹ء اوکاڑہ)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قمر حجازی اُردو و پنجابی کے معروف شاعر تھے۔ پنجابی کی کئی اصناف میں ان کا قابلِ قدر تخلیقی اثاثہ محفوظ ہے۔ ’’سی حرفی‘‘ ۱۹۹۳ء، ’’داستانِ ہیر رانجھا‘‘ ۲۰۰۰ء، ’’گھڑولی‘‘ ۲۰۰۴ء، ’’قصہ درد بھچال‘‘ ۲۰۰۵ء، ’’کبت‘‘ ۲۰۰۷ء، ’’تانگھاں یاد دیاں‘‘ (ماہیے)۲۰۰۸ء، ’’مہکتے ماہیے‘‘ (اُردو)، ’’ہائیکو باھو رنگ چوبرگے‘‘ ۲۰۱۶ء، ’’مثنوی نظرنامہ، وصیت نامہ منظوم‘‘ ۲۰۱۸ء۔ ان کی قادرالکلامی اور ہمہ جہت صنفی محبت کے ترجمان کتابچے ہیں۔ ان کے دو نعتیہ مجموعے شائع ہوئے اُردو مجموعۂ نعت ، ’’ارفع ذاتِ محمدی‘‘ ۲۰۱۸ء اور پنجابی نعتیہ مجموعہ ’’چلو میرے نال مدینے‘‘ ۲۰۱۸ء۔ ۱۴؍ فروری ۲۰۱۹ء کو یہ خوش فکر و خوش خیال شاعر اس یقین کے ساتھ سفرِ آخرت پر روانہ ہوا:


بروزِ حشر ہوگا میرے اللہ کا رویہ بھی

قمرؔ مجھ سے رحیمانہ محمد کے وسیلے سے

٭

ذوالفقار علی حسینی (۴؍ دسمبر ۱۹۷۵ء - ۳۰؍ جولائی ۲۰۱۹ء )[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے بڑوں کی موت کا دکھ بھی شدید ہوتا ہے مگر اپنے سے چھوٹوں سے جدائی کا دُکھ شدید تر ہوتا ہے۔ مجھے اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز دوست، عالمی شہرت یافتہ نعت خواں ذوالفقار علی حسینی کی اچانک موت نے جس صدمے سے دوچار کیا اس کا اظہار لفظوں میں ممکن نہیں۔ لیکن یہ زندگی کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار بھی نہیں کیاجا سکتا۔


موت نے چپکے سے جانے کیا کہا

زندگی خاموش ہو کر رہ گئی


ذوالفقار علی حسینی نے نعت خوانی کے فن میں اپنی پڑھت کے منفرد، مؤدبانہ اور غنایت کے باوقار اظہار و انداز سے جو روشن نقوش چھوڑے ہیں وہ ان کی یاد کو ہمیشہ محبانِ محمد و آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دلوں میں فروزاں رکھیں گے۔ یہی زندگی اصل زندگی ہے ورنہ جسم کو تو فنا ہونا ہی ہے۔ ذوالفقار کی موت پر جس طرح ساری دنیا کے نعت پسندوں میں حزن و ملال کی کیفیت سامنے آئی ہے وہ اس بات کا واضح اعلان ہے کہ انھوں نے ذکرِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے کس طرح لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا کر محبتیں سمیٹی تھیں اور اب یہی محبتیں دعائوں کی صورت ان کے سفرِ اخروی میں ان کا توشہ آخرت بن کر ان کے ہمراہ روانہ ہوئیں ہیں۔

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

ورنہ دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے


ذوالفقار علی حسینی نے جس کم عمری میں اُفقِ نعت خوانی پر اپنی ایک منفرد شناحت کے نقوش قائم کیے اس کو جاننا اور سمجھنا بھی نئے نعت خوانوں کے لیے رہنمائی کا ایک دبستان ہو سکتاہے۔ فن پر مہارت، اسے نکھارتے چلے جانے کا جذبہ، نعت کے آداب اور روایتی اُصولوں کا احساس، اخلاق، نیازمندی، نیکی اور زبان کی حفاظت ذوالفقار نے اپنے ہر عمل سے ظاہر کیا کہ وہ ایک ذمہ دار اور باشعور ثناخواں ہے۔ اسے صرف شہرت نہیں ملی، بلکہ نیک نامی کے ساتھ شہرت ملی ہے اور وہ بھی ان اوصاف سے متصف ہونے پر۔ اللہ کریم اس کا سفرِ آخرت آسان فرمائے۔ آمین !

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شمارہ نمبر 1 | شمارہ نمبر 2 | شمارہ نمبر 3 | شمارہ نمبر 4 | شمارہ نمبر 5 | شمارہ نمبر 6 | شمارہ نمبر 7 | شمارہ نمبر 8 | شمارہ نمبر 9 | شمارہ نمبر 10 | شمارہ نمبر 11 | شمارہ نمبر 12 | شمارہ نمبر 13 | شمارہ نمبر 14 | شمارہ نمبر 15 | شمارہ نمبر 16 | شمارہ نمبر 17 | شمارہ نمبر 18 | شمارہ نمبر 19 | شمارہ نمبر 20 | شمارہ نمبر 21 | شمارہ نمبر 22 | شمارہ نمبر 23 | شمارہ نمبر 24 | شمارہ نمبر 25 | شمارہ نمبر 26 | شمارہ نمبر 27 | شمارہ نمبر 28 | شمارہ نمبر 29

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659