"زکی کیفی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(3 صارفین 9 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 13: سطر 13:
=== حمدیہ و نعتیہ کلام ===
=== حمدیہ و نعتیہ کلام ===


[[اپنی بد حالی سے یہ کہتے بھی شرماتے ہیں ہم ۔ زکی کیفی | اپنی بد حالی سے یہ کہتے بھی شرماتے ہیں ہم ]]
* [[اپنی بد حالی سے یہ کہتے بھی شرماتے ہیں ہم ۔ زکی کیفی |
اپنی بد حالی سے یہ کہتے بھی شرماتے ہیں ہم ]]
* [[پردے اٹھے نگاہ سے ہر شے نکھر گئی ۔ زکی کیفی | پردے اٹھے نگاہ سے ہر شے نکھر گئی ]]
* [[سر نگوں ہو گئے ظلمت کے نشاں آج کی رات ]]
* [[جہاں سے کفر کی ظلمت مٹانے آئے ہیں ]]
* [[طیبہ کی زمیں وہ مرے سرکار کی دنیا ]]
* [[اے دوست مرے واسطے بس اب یہ دعا کر]]
* [[جمالِ عالمِ امکاں ، کمالِ فکر و نظر ۔ زکی کیفی | جمالِ عالمِ امکاں ، کمالِ فکر و نظر ]]


(قصیدہ نعتیہ)


پردے اٹھے نگاہ سے ہر شے نکھر گئی
==== اے شہِ ہاشمی لقب قدرتِ رب کے شاہکار ====
تنویر صبح رات کے رخ پر بکھر گئی


دشت وجبل سے نور کے کوندے لپک پڑے
اے شہِ ہاشمی لقب قدرتِ رب کے شاہکار
کلیوں کے جام پھولوں کے ساغر چھلک پڑے


برگ و شجر نہال ہوئے ، جھومنے لگے
آپ کے در کے ہیں گدا میر و وزیر و تاجدار
آپس میں ایک ایک کا منہ چومنے لگے


کرنوں کا رقص ہونے لگا برگ و بار پر
فردوس عکس ریز ہے ہر لالہ زار پر


باد نسیم مست ہے نکہت بدوش ہے
آپ کے ذکر و فکر سے روح کو مل گیا قرار
یہ نغمہ زن سکوت نوائے سروش ہے


تاریکیوں کا نام مٹا کر جہان سے
مظہرِ شانِ کبریا ! آپ پہ جان و دل نثار
اتری عروس صبح نئی آن بان سے


بادل فضائے دہر پہ رحمت کے چھا گئے
آئی صدا کہ سرور کونین آگئے


پر نور کعبہ اور بھی پر نور ہو گیا
آپ نہ تھے تو دَہر میں چھائی تھی ہر طرف خزاں
بطحا تمام جلوہ گہ طور ہو گیا


پائی جھلک جو ساقئ کوثر کے نور کی
آپ جو آئے ، آ گئی پھر سے جہان میں بَہار
زمزم سے موج اٹھی شراب طہور کی


اہل ستم کا رنگ اڑا ، زرد ہو گئے
آتشکدوں کی سانس رکی سرد ہو گئے


لات و ھبل کا دور حکومت گزر گیا
آپ کا طرزِ گفتگو، موج ہے سلسبیل کی !
انسانیت کا طوق غلامی اتر گیا


بزم جہاں میں آج یہ کس کا ورود ہے
طرزِ خرام آپ کا ، جیسے نسیمِ مُشکبار !
جبریل کے لبوں پر مسلسل درود ہے


انسانیت نے قرض سب اپنا چکا دیا
تخلیقکر کے جس کو خدا مسکرا دیا


جس کی طلب میں کی تھیں دعائیں خلیل نے
پھول سے بھی لطیف تر خار تِرے دیار کے
آمد کا اس کی مژدہ دیا جبرئیل نے


صدق و صفا کا پیکر پر نور آ گیا
ذرّے تِری زمین کے ماہ و نجوم درکنار
لے کر حیات تازہ کا منشور آ گیا


بے آسرا نحیف لَبوں کو زبان دی
درِّ یتیم بن کے یتیمی کو شان دی


لُطف و کَرم کی ساری اَدائیں عَطا ہوئیں
آپ شفیعِ عاصیاں ، آپ پناہِ بے کساں
زَخموں سے چُور ہو کے دُعائیں عَطا ہوئیں


اِنسانیت کے درد کا درماں کیا گیا
مرہمِ قلبِ ناتواں ، خستہ دلوں کے غمگُسار
اِحسان و عدلِ زیست کا ساماں کیا گیا


وہ رحمتِ تمام وہ غمخوارِ بے کساں
ہَے جس کو نازِ فقر وہ سلطانِ دو جہاں


فخرُ الرّسُل ہے شافعِ روزِ حساب ہے
آپ کے دم قدم سے ہے رونقِ بزمِ رنگ و بو
اُمّی لقَب ہے صاحبِ اُمّ الکتاب ہے


مظلوم عورتوں کو نئی زندگی ملی
غنچے میں آپ کی ادا ، پھول میں آپ کا نکھار
عِفّت ملی، حُقوق مِلے، روشنی ملی


پاکیزگیٔ عِصمت و عِفّت کا پاسباں
احسان و عدل و جُود کا دریائے بیکراں


تزئینِ کائنات ہے جس کے جمال سے
آپ کی مدح کر سکے ، تاب کہاں زبان کو
بالا ہَے جو خِرد کے حُدود و خَیال سے


اِک انقلابِ تازہ بپا کردیا گیا
آپ ہیں مرکزِ وجود ، آپ ہیں بحرِ بے کنار
نسل و وطن کا فرق فنا کر دیا گیا


ادنٰی سا یہ کرشمہ ہے اس فیضِ عام کا
بازار سرد کردیا سودی نظام کا


روم و عجَم کا فرق مِٹا سب گَلے ملے
کیفی خستہ حال پر اے شہ بحر و کرم !
جِس نے رُسومِ جہل کُچل دیں قدم تلے


جس نے اگر جلال کے جوہر دکھا دئیے
آپ کا امتی تو ہے ، گرچہ ہے وہ گناہگار
بدر و اُحد نشانِ عزیمت بنا دئیے


رہزن جو تھے وہ ہادیٔ آفاق بن گئے
==== مدینہ کے رَھرو بیاباں بیاباں ====
جاہل جو تھے معُلّمِ اخلاق بن گئے


ہر بات جس کی بن گئی دستورِ زندگی
مدینہ کے رَھرو بیاباں بیاباں
تاریکیوں میں جاگ اُٹھا نُورِ زندگی


قُرآن جس کا خُلق ہے وہ رحمتِ تمام
چلے جا رہے ہیں غَزَلخواں غَزَلخواں
جِس کیلئے ہوا ہے دَو عالم کا اِنصرام
 
 
ہے بزمِ تصوّر میں روضے کا منظر
 
نگاہوں کا عالَم گُلِستاں گُلِستاں
 
 
قریب آ گیا ہے دیارِ مدینہ
 
غمِ زندگی ہے گُریزاں گُریزاں
 
 
وہ دنیا کی جنّت مدینے کی بستی
 
جہاں ذرّہ ذرّہ زَر افشاں زَر افشاں
 
 
یہاں ہر نَفَس ہے مُعطّر مُعطّر
 
یہاں زُلفِ نِکہَت پریشاں پریشاں
 
 
یہاں خار و خَس کے جَلو میں ملی ہیں
 
ہزاروں بَہاریں ، خَراماں خَراماں
 
 
یہاں مست ہیں سب بُرے بھی بھلے بھی
 
ہے سب پر عنایت ، فَراواں فَراواں
 
 
یہاں بے بَصَر بھی عَیاں دیکھتے ہیں
 
نَقوشِ محبّت ، فَروزاں فَروزاں
 
 
یہیں سے ملا تھا ، یہیں مل سکے گا
 
سکونِ دل و جاں ، سکونِ دل و جاں
 
 
کرشمے ہیں اُن کی نگاہِ کرم کے
 
خَیاباں خَیاباں ، بَہاراں بَہاراں
 
 
خُدا دن وہ لائے مدینے میں پہنچے
 
گنہگار کیفی ، پَشِیماں پَشِیماں
 
==== پوچھا ہے دُشمنوں نے جب اپنے شعور سے ====
 
 
پوچھا ہے دُشمنوں نے جب اپنے شعور سے
 
پِنہاں ملی دلوں میں عقیدت حضور سے
 
 
اُس جانِ جاں کا نام مبارک لبوں پہ ہے
 
دل آشنا ہے عالمِ کیف و سرور سے
 
 
فیضانِ عام ساقئِ کوثر کا دیکھئیے
 
ہم بے پئے ہیں مست شرابِ طَہور سے
 
 
چھائی ہوئی تھی ظلمتِ شب دور دور تک
 
آتی ہے اب نویدِ سحر دور دور سے
 
 
اِس کا اثر اگر مِرے کردار میں نہ ہو
 
کیسے کہوں مجھے ہے محبّت حضور سے!؟
 
 
سائے میں ہیں اک ایسے رؤف و رحیم کے
 
جس نے ملا دیا ، ہمیں رب غفور سے
 
 
دولت خدا نے دی جنھیں عشقِ رسول کی
 
دُنیا سے اُن کو کام نہ حُور و قُصور سے
 
 
وہ صرف کور چشم نہیں۔ تِیرہ بَخت ہیں
 
جو کسبِ فیض کر نہ سکے اُن کے نور سے
 
 
آمد سے اُنکی زیست کی قدریں بدل گئیں
 
دُنیا حسین بن گئی ، اُن کے ظہور سے
 
 
آسودہ آ کے منزلِ بَطحا میں ہو گیا
 
جلووں کا کارواں جو چلا کوہِ نور سے
 
 
کیفی پڑھا درود تو محسوس یہ ہوا
 
جیسے گزر رہا ہوں اک سَیلِ نور سے
 
 
==== قسمت سے مل گئی ہے قیادَت حضور کی ====
 
 
 
قسمت سے مل گئی ہے قیادَت حضور کی
 
الله کا کرم ہے ، عنایت حضور کی
 
 
دو حرف ہیں خلاصۂ عرفان و آگہی
 
وحدانیت خدا کی، رسالت حضور کی
 
 
بھر لی ہیں ہر گدا نے سعادت سے جھولیاں
 
نگری رہے ہمیشہ سلامت حضور کی
 
 
گُل کی مِہک صبا کی روَش چاندنی کی رو
 
یہ سب کی سب ہیں گردِ لطافت حضور کی
 
 
پڑھ پڑھ درود نُطق بھی سرشار کیوں نہ ہو
 
اِس میں جھلَک رہی ہے فصاحت حضور کی
 
 
آمد کا مژدہ دے کے گئے تھے خلیل بھی
 
سمجھا گئے مسیح علامت حضور کی
 
 
ربِّ کریم ! شانِ کریمی کا واسطہ !
 
جنّت میں ہو نصیب رَفاقَت حضور کی
 
 
ہر دور میں جدید تقاضوں کے ساتھ ساتھ
 
ہوتی ہے آشکار صداقت حضور کی
 
 
حاتَم کا ذکر کیا وہ زمانہ گزر گیا
 
جاری ہے آج تک بھی سخاوت رسول کی
 
 
قرباں ہم اُس پہ وہ ہمیں محبوب کیوں نہ ہو ؟
 
ایمان ہے خدا پہ ، امانت حضور کی
 
 
بوبکر و عمر پہ یہ انعام ختم ہے
 
ہر آن مل رہی ہے سعادت حضور کی
 
 
کیفؔی! خدا نصیب کرے اپنے فضل سے
 
اُلفت کے ساتھ ساتھ اطاعت حضور کی


جِس کے غلام فاتحِ ایران و شام ہوں
لاکھوں دُرود اُس پہ، ہزاروں سلام ہوں
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


=== وفات ===
=== وفات ===
سطر 118: سطر 254:


[[ محمد شفیع، مفتی ]] | [[رفیع عثمانی ]] | [[تقی عثمانی ]] | [[ولی رازی ]] | [[سعود عثمانی ]]
[[ محمد شفیع، مفتی ]] | [[رفیع عثمانی ]] | [[تقی عثمانی ]] | [[ولی رازی ]] | [[سعود عثمانی ]]
{{ باکس شخصیات }}
{{ٹکر 1 }}
{{ٹکر 2 }}
{{باکس 1 }}

حالیہ نسخہ بمطابق 01:47، 28 اکتوبر 2018ء

Naat Kainaat Zaki Kaifi.jpg


زکی کیفی بیسویں صدی کے ایک قادر الکلام شاعر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع (بانی و مہتمم جامعہ دارالعلوم کراچی) کے سب سے بڑے صاحبزادے اور مفتی محمد رفیع عثمانی، مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا ولی رازی کے برادر اکبر اور دورِ حاضر کے نامور شاعر سعود عثمانی کے والد گرامی ہیں۔ آپ 7 مارچ 1926 کو بھارت کے قصبے دیوبند میں پیدا ہوئے

نعت گوئی میں "خانوادہ عثمانی" کو ہمیشہ سے خصوصی امتیاز حاصل رہا ہے۔

مطبوعات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زکی کیفی " کیفیات " نامی ایک خوبصورت اور اچھوتے شعری مجموعے کے شاعر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ جو آپ کی وفات کے بعد شائع ہوا۔

حمدیہ و نعتیہ کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]


اے شہِ ہاشمی لقب قدرتِ رب کے شاہکار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اے شہِ ہاشمی لقب قدرتِ رب کے شاہکار

آپ کے در کے ہیں گدا میر و وزیر و تاجدار


آپ کے ذکر و فکر سے روح کو مل گیا قرار

مظہرِ شانِ کبریا ! آپ پہ جان و دل نثار


آپ نہ تھے تو دَہر میں چھائی تھی ہر طرف خزاں

آپ جو آئے ، آ گئی پھر سے جہان میں بَہار


آپ کا طرزِ گفتگو، موج ہے سلسبیل کی !

طرزِ خرام آپ کا ، جیسے نسیمِ مُشکبار !


پھول سے بھی لطیف تر خار تِرے دیار کے

ذرّے تِری زمین کے ماہ و نجوم درکنار


آپ شفیعِ عاصیاں ، آپ پناہِ بے کساں

مرہمِ قلبِ ناتواں ، خستہ دلوں کے غمگُسار


آپ کے دم قدم سے ہے رونقِ بزمِ رنگ و بو

غنچے میں آپ کی ادا ، پھول میں آپ کا نکھار


آپ کی مدح کر سکے ، تاب کہاں زبان کو

آپ ہیں مرکزِ وجود ، آپ ہیں بحرِ بے کنار


کیفی خستہ حال پر اے شہ بحر و کرم !

آپ کا امتی تو ہے ، گرچہ ہے وہ گناہگار

مدینہ کے رَھرو بیاباں بیاباں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مدینہ کے رَھرو بیاباں بیاباں

چلے جا رہے ہیں غَزَلخواں غَزَلخواں


ہے بزمِ تصوّر میں روضے کا منظر

نگاہوں کا عالَم گُلِستاں گُلِستاں


قریب آ گیا ہے دیارِ مدینہ

غمِ زندگی ہے گُریزاں گُریزاں


وہ دنیا کی جنّت مدینے کی بستی

جہاں ذرّہ ذرّہ زَر افشاں زَر افشاں


یہاں ہر نَفَس ہے مُعطّر مُعطّر

یہاں زُلفِ نِکہَت پریشاں پریشاں


یہاں خار و خَس کے جَلو میں ملی ہیں

ہزاروں بَہاریں ، خَراماں خَراماں


یہاں مست ہیں سب بُرے بھی بھلے بھی

ہے سب پر عنایت ، فَراواں فَراواں


یہاں بے بَصَر بھی عَیاں دیکھتے ہیں

نَقوشِ محبّت ، فَروزاں فَروزاں


یہیں سے ملا تھا ، یہیں مل سکے گا

سکونِ دل و جاں ، سکونِ دل و جاں


کرشمے ہیں اُن کی نگاہِ کرم کے

خَیاباں خَیاباں ، بَہاراں بَہاراں


خُدا دن وہ لائے مدینے میں پہنچے

گنہگار کیفی ، پَشِیماں پَشِیماں

پوچھا ہے دُشمنوں نے جب اپنے شعور سے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پوچھا ہے دُشمنوں نے جب اپنے شعور سے

پِنہاں ملی دلوں میں عقیدت حضور سے


اُس جانِ جاں کا نام مبارک لبوں پہ ہے

دل آشنا ہے عالمِ کیف و سرور سے


فیضانِ عام ساقئِ کوثر کا دیکھئیے

ہم بے پئے ہیں مست شرابِ طَہور سے


چھائی ہوئی تھی ظلمتِ شب دور دور تک

آتی ہے اب نویدِ سحر دور دور سے


اِس کا اثر اگر مِرے کردار میں نہ ہو

کیسے کہوں مجھے ہے محبّت حضور سے!؟


سائے میں ہیں اک ایسے رؤف و رحیم کے

جس نے ملا دیا ، ہمیں رب غفور سے


دولت خدا نے دی جنھیں عشقِ رسول کی

دُنیا سے اُن کو کام نہ حُور و قُصور سے


وہ صرف کور چشم نہیں۔ تِیرہ بَخت ہیں

جو کسبِ فیض کر نہ سکے اُن کے نور سے


آمد سے اُنکی زیست کی قدریں بدل گئیں

دُنیا حسین بن گئی ، اُن کے ظہور سے


آسودہ آ کے منزلِ بَطحا میں ہو گیا

جلووں کا کارواں جو چلا کوہِ نور سے


کیفی پڑھا درود تو محسوس یہ ہوا

جیسے گزر رہا ہوں اک سَیلِ نور سے


قسمت سے مل گئی ہے قیادَت حضور کی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قسمت سے مل گئی ہے قیادَت حضور کی

الله کا کرم ہے ، عنایت حضور کی


دو حرف ہیں خلاصۂ عرفان و آگہی

وحدانیت خدا کی، رسالت حضور کی


بھر لی ہیں ہر گدا نے سعادت سے جھولیاں

نگری رہے ہمیشہ سلامت حضور کی


گُل کی مِہک صبا کی روَش چاندنی کی رو

یہ سب کی سب ہیں گردِ لطافت حضور کی


پڑھ پڑھ درود نُطق بھی سرشار کیوں نہ ہو

اِس میں جھلَک رہی ہے فصاحت حضور کی


آمد کا مژدہ دے کے گئے تھے خلیل بھی

سمجھا گئے مسیح علامت حضور کی


ربِّ کریم ! شانِ کریمی کا واسطہ !

جنّت میں ہو نصیب رَفاقَت حضور کی


ہر دور میں جدید تقاضوں کے ساتھ ساتھ

ہوتی ہے آشکار صداقت حضور کی


حاتَم کا ذکر کیا وہ زمانہ گزر گیا

جاری ہے آج تک بھی سخاوت رسول کی


قرباں ہم اُس پہ وہ ہمیں محبوب کیوں نہ ہو ؟

ایمان ہے خدا پہ ، امانت حضور کی


بوبکر و عمر پہ یہ انعام ختم ہے

ہر آن مل رہی ہے سعادت حضور کی


کیفؔی! خدا نصیب کرے اپنے فضل سے

اُلفت کے ساتھ ساتھ اطاعت حضور کی


وفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آپکی وفات 28 جنوری 1975 کو ہوئی ۔ اس کے مطابق آپکی شعر گوئی کی عمر تقریبا 20 سال کا عرصہ ہے

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

محمد شفیع، مفتی | رفیع عثمانی | تقی عثمانی | ولی رازی | سعود عثمانی


نعت کائنات پر نئی شخصیات

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات