مختار تلہری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


"Mukhtar talahri"

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مختا راحمد انصاری ثقلینی کی پیدائش موضع ڈبھورا تحصیل تلہر کے ایک با عزت خاندان میں شریف النفس صوفی بزرگ الحاج صوفی عظیم اللہ انصاری(مرحوم) کے گھر یکم فروری 1960 کو شاہجہاں پور میں ہوئی ۔ موضع ڈبھورا کے ہی پرائمری اسکول میں بقیہ تعلیم کیلئے فیضان العلوم شاہجہانپور کے بعد ذوق مطالعہ نے خو اعتمادی کی جڑوں کو مستحکم کیا البتہ باقاعدہ تعلیم کیلئے حالات سازگار نہیں تھے ۔ گھر کا ماحول والد کی برکت سے دینی تھا اس لئے اکثر و بیشتر بھائی بھتیجے محفلِ نعت گھر میں منعقد کرتے رہتے ہیں قریب قریب سبھی اچھا پڑھتے اور لکھتے ہیں

نعت گوئی کے رحجانات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت گوئی کی ابتداء کے بارے آپ فرماتے ہیں

یوں تو 15 سال کی عمر سے شعر و شاعری سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا لیکن شعر کہنے کی طرف رجحان بالکل نہیں تھا ۔ مرحوم عبدالحمید عشرت تلہری جو کہ بیحد پختہ نعت گو شاعر کیساتھ ساتھ رشتے میں میرے خالو بھی تھے ۔ اکثر و بیشتر میری کپڑے کی دوکان پر تشریف لایا کرتے تھے ۔1981ء کی بات ہے ایک روز انہوں نےکہا کہ کل مدنی میاں رحمتہ اللہ علیہ کے عرس میں مشاعرہ ہے چلو گے ؟ میں نے پوچھا مشاعرہ کیسا ہوتا ہے چونکہ اس وقت تک مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ مشاعرہ کس کو کہتے ہیں قصہ مختصر یہ کہ انہوں نے بتایا کہ مشاعرے میں شعرإٕ حضرات اپنے اپنے کلام پیش کرتے ہیں ۔ میں نے بڑے تعجب خیز لہجے میں کہا کہ کلام خود کہکر پڑھتے ہیں کہنے لگے کہ آج میرے ساتھ چل کر دیکھنا ۔ میں بولا کیا میں بھی کہہ سکتا ہوں؟ بولے کیوں نہیں آخر انسان ہی شاعری کرتے ہیں بات آئی گئی ہو گئی ۔

شام کو گھر پہنچنے کے بعد کھانے اور دیگر ضروریات سے فارغ ھو کر شعر کہنا شروع کر دیا ردیف و قافیہ کا علم تو نہیں تھا اتنا ضرور علم تھا کہ ۔ کام، دھام، نام، جام وغیرہ آتے ہیں لہذا پہلا مطلع یوں ہوا ۔

ہم بھی اک آپ کے ادنی غلام

کیجئے ہم پر کرم خیرا لانام

المختصر 7 اشعار کہہ لئے جب صبح کو خالوٗ مرحوم کو دکھائے تو بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے تم تو اچھے خاصے شاعر ہو ماشاءاللہ سارے کے سارے شعر بحر میں ہیں بہر کیف کچھ قطع برید کر کے خامیاں درست کر دیں اور شام کو مشاعرے میں ساتھ لے گئے مشاعرے کے شروع میں ہی میرا نام پکارا گیا میں نے بڑے ڈرتے ڈرتے ترنم سے پڑھی اور خوب حوصلہ افزائی ہوئی اسی دن سے شاعری شروع ہو گئی ۔

پہلے استاد نعت گو شاعر عبدالحمید عشرت تلہری تھے بعد از آں غزل کے پلیٹ فارم پر آنے پر شاعرِ حیات طاہر تلہری کے حلقہءِ تلامذہ میں شامل ہوئے اور یہ سلسلہ مرحوم کے آخر دم تک جاری رہا ۔ آج ان گنت نو آموزوں کا بوجھ انہی کے کاندھوں پر ہے۔


گذشتہ چار دہائیوں سے بحیثیتِ ناظم اور بحیثیت شاعرہندوستان کے متعددشہروں ثلا شاہجہاں پور ،ہردوئی، بریلی، رامپور، مراد آباد دہلی، ممبئی، بھوپال، جھانسی اور کرناٹک وغیرہ کے مشاعروں اور محافل میں شریک ہوتے آرہے ہیں


اعزازت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

  • علامہ اقبال ایوارڈ
  • داغ دہلوی ایوارڈ
  • فخرِ ادب ایوارڈ
  • افتخارِ ادب ایوارڈ
  • اعتبارِ فن ایوارڈ
  • شانِ ادب ایوارڈ
  • شیخ الآفاق سید محی الدین جیلانی ایوارڈ ن

نعتیہ مجموعے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس کے علاوہ " شہبازِ قلم "، " تو یاد کر لینا مجھے "، " تو آنکھ بھر آئی "، " مجھے کچھ پتا نہیں " اور " تو یقین کر لینا " کے نام سے غزلیہ مجموعے منظر ِ عام پر آچکے ہیں۔

حمدیہ و نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کر دیجئے رحمت کی نظر شاہِ مدینہﷺ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کر دیجئے رحمت کی نظر شاہِ مدینہﷺ

حاضر ہوں لٸے کاسہِ سر شاہِ مدینہﷺ


ھےکون جوپونچھےمرےاشکوں کی لکیریں

مدّت سے ہوں با دیدہ ِٕ تر شاہِ مدینہﷺ


جو آپ کے جلووں کی تمنا بھی نہ کر پاٸے

کس کام کی ھے ایسی نظر شاہِ مدینہﷺ


ایسی جگہ محشرمیں مجھےآپ چھپاٸیں

ہم آئیں نہ خود کو بھی نظر شاہِ مدینہﷺ


رکھّا رہے سر پر مرے بس دستِ حمایت

ہو جاٸے گا ہر معرکہ سر شاہِ مدینہﷺ


ھے خالقِ کونینﷻ اگر خالقِ کونینﷻ

ہیں شاہِ مدینہﷺبھی مگر شاہِ مدینہﷺ


چہرے پہ مدینے کی ذرا گَرد لگا لی

تکتےہیں مجھےشمس و قمرشاہِ مدینہﷺ


ھم جیسے گنہگار کہاں جاتے بتاٶ

ہوتے نہ مہربان اگر شاہِ مدینہﷺ


مختار ۔۔۔۔ وہ اللہ نے ادراک دیا ھے

رکھتے ہیں دوعالم کی خبر شاہِ مدینہﷺ

سر جھکانا فرض ہے بیشک خدا کے سامنے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم


سر جھکانا فرض ہے بیشک خدا کے سامنے

سر اٹھانا کب روا ہے مصطفے کے سامنے


کوئی جچتا ہی نہیں ہم کو حرا کے سامنے

گرچہ لائے لوگ کیسے کیسے خاکے سامنے


وہ تو کہئے شاہِ بطحا کا سہارا مِل گیا

ورنہ کیا منھ لے کے جاتے ہم خدا کے سامنے


جس مکاں میں آپ ٹھہرے وہ مکاں صد مرحبا

قصرِ شاہی بینچتا کیا ہے حرا کے سامنے


تٗو سزا دے یا جزا دے سب مجھے منظور ہے

یا خدا رسوا نہ کرنا مصطفے کے سامنے


پھیل جائے ہو کے ریزہ ریزہ کوہِ بیکراں

سنگِ عصیاں کیا ہے اک ضربِ دعا کے سامنے


کیفیت دل کی بیاں مختار میں کیسے کروں

ہیچ ہیں الفاظ سب دل کی صدا کے سامنے

تجھ پہ مر مر کے ہوئے سارے جیالے زندہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تجھ پہ مر مر کے ہوئے سارے جیالے زندہ

تو بھی زندہ ہے ترے چاہنے والے زندہ


آتشِ عشق میں جو خود کو جلا لے زندہ

مر بھی جائے تو رہیں اس کے اجالے زندہ


آپ کے ذکر سے یوں روح کو ملتی ہے غذا

جیسے انسان کو رکھتے ہیں نوالے زندہ


بعد مرنے کے تو ہو گی ہی زیارت لیکن

ہم کو اک بار مدینے میں بلا لے زندہ


یوں تو کہنے کو ہر اک شخص ہی زندہ ہے مگر

زندہ بس وہ ہے جو ایمان بچا لے زندہ


و ر قِ دل پہ ہر اک شخص کے نعتیں لکھ دو

شخصیت کو یہی کر دیں گے رسالے زندہ


جب یہ دیکھا کہ غلامِ شہِ کونین ہوں میں

پائے گردش کے سبھی ہو گئے چھالے زندہ


کل بھی تھے آج بھی ہیں کل بھی رہینگے یونہی

فاطمہ زہرا کی آغوش کے پالے زندہ


سر بھی کٹ جائے تو مختار کوئی فکر نہ کر

جس طرح بھی بنے ایمان بچالے زندہ

دنیوی کام دھام اپنی جگہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دنیوی کام دھام اپنی جگہ

ذکرِ خیر الانام اپنی جگہ


ہر نبی کا مقام اپنی جگہ

آپ کا احترام اپنی جگہ


انبیاء سب امام ہیں لیکن

انبیاء کا امام اپنی جگہ


جسمیں عشقِ نبی ہےجلوہ نما

ایسے دل کا مقام اپنی جگہ


وقعتِ بادشاہ بھی ہے مگر

مصطفے کا غلام اپنی جگہ


لائے سب انبیاء نظامِ حیات

مصطفے کا نظام اپنی جگہ


یہ عقیدت کےپھول ہیں مختار

نعتِ خیر الانام اپنی جگہ

دونوں جہان پر ہیں شہِ دوسرا کے ہاتھ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

دونوں جہان پر ہیں شہِ دوسرا کے ہاتھ

ہیں کس قدر بلند رسولِ خدا کے ہاتھ


ایمان ہے کہ ساری عطا ہے خدا کے ہاتھ

تقسیم کر رہے ہیں مگر مصطفے کے ہاتھ


وہ بھی شریک ہو گئی ہجرت کے باب میں

مکڑی نےکیاہی سودا کیا مصطفے کے ہاتھ


منظر وہ ہو گا کیسا گنہگار کے لئے

سرکار جب اٹھائیں گے آنسو بہا کے ہاتھ


" مختار "چاند پر جو کبھی تبصرہ ہوا

یاد آئے ہم کو صاحبِ زلفِ دوتا کے ہاتھ


دیگر معلومات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پسندیدہ نعتیں  :


پسندیدہ نعت گو شعراء: بیدم وارثی | حسن رضا خان بریلوی | علامہ اقبال

نعت گوئی کے بارے نظریہ : یہ خدا داد سعادت ہے جس کو عطا ہو جائے خوش بختی کی علامت ہے

نعت خوانی کے بارے نظریہ  : اگر ثواب کی نیت ہے تو سعادت اور خود نمائی یا پیسا کمانے کا ذریعہ سمجھ کر نعت خوانی کی جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نعت کائنات پر نئی شخصیات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات