کرم و نجات کا سلسلہ ۔ ابو الخیر کشفی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Abu ul Khair kashafi.jpg

ڈاکٹر پروفیسر سیّد محمد ابوالخیرکشفی

کرم و نجات کا سلسلہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(عزیزاحسن کے شعرِ عقیدت پر ایک نظر)

اسلام کرم و نجات کا ایک مسلسل سلسلہ ہے، جو ہماری آخرت اور دنیا دونوں کا احاطہ کرلیتا ہے۔ اسلام کی ایک جامع تعریف یہ ہے کہ اپنے نفس کو ان تمام باتوں پر راضی کرلینا جو نبی اکرمﷺ لے کر آئے۔ اس میں معتقدات بھی شامل ہیں، مسائل و معاملات بھی شامل ہیں۔ معاشرت بھی شامل ہے اور ان تمام باتوں کے ساتھ وہ روحانی و قلبی کیفیات بھی جو نبی اکرمﷺ سے تعلق ہماری ذات میں پیدا کرتا ہے۔ اسلام محض عقائد کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ وہ ان ذہنی، نفسیاتی اور ہمہ گیر کیفیات کا نام ہے جو رسول اللہﷺ کے پیغام سے وابستگی ہمارے قلب و نظر میں پیدا کرتی ہے۔ اس گہرے اندرونی ربط کے بغیر اسلام محض ایک اوپری چیز بن کر رہ جائے گا۔بقولِ اقبالؔ، مصطفیﷺ ہمہ دین ہیں اور اگر آدمی ان کی ذاتِ عالیہ تک نہ پہنچے تو پھر بولہبی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

ان گزارشات سے نعت کی اہمیت اور نعت کی حدود کا اندازہ ہوسکتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ نعت گو کے فرائض اور ذمہ داریوں کا بھی۔ ہمارے ہاں عام نعتیہ شاعری چند رسمی مضامین کا مجموعہ بن کر رہ گئی تھی لیکن حالات کے جبر نے ہمیں اسلام اور محمدﷺ شناسی پر مجبور کردیا۔ اردو شاعری کے دامن میں حقیقی نعت کے جواہر ریزے موجود تھے۔ محسن کاکوروی، مولانا احمد رضا خان، اقبال اور ظفرعلی خان کے نام بہت نمایاں ہیں۔ ان کے اثرات نے حقیقی نعت گوئی کا شعور بعد کے شعرا میں پیدا کیا۔ ان شعرا کے نام، میں مثالاً بھی پیش نہیں کروںگا کہ کہیں کسی اہم مداحِ مصطفیﷺ کا نام حافظے سے محو نہ ہوجائے۔ پاکستان کو ایک اسلامی مملکت بنانے کی تمنا نے ہمیں پھر سرورِ کائناتﷺ کی بارگاہِ عالیہ میں پہنچا دیا اور یوں کہ ہم اردو شاعری کے عصرِ رواں کو بجا طور پر نعت گوئی کا دور کہہ سکتے ہیں۔ اب تک نعت ادبی تنقید سے بالاتر سمجھی جاتی تھی کہ حضورﷺ کے کسی ثناخواں کے فن پر تبصرہ اور خاص طور پر تنقید، بے ادبی سمجھی جاتی تھی، لیکن سرکارِ ختمی مرتبتﷺ کے رُتبۂ بلند کا تقاضا تھا کہ ان کی مدح کو محض ’’روایت‘‘ اور سنی سنائی بات بنانے والوں کی گرفت کی جائے۔ اردو نعت گوئیکے بعض تذکرے موجود تھے لیکن ان میں تنقید سرے سے غائب تھی۔ الحمدللہ نعت پر متوازن تنقید کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کی ابتدا ایک مسلسل روایت کے طور پر جریدہ ’’نعت رنگ‘‘کراچی کے صفحات پر ہوئی اور جو نقاد سامنے آئے ان میں جناب عزیزاحسن کا نام بہت معتبر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ذات میں اسلام کی چنگاری موجود تھی جو نسبتِ مصطفیﷺ سے بلند اور روشن ہوکر شعلۂ تابندہ بن گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ حقیقی تصوف نے انہیں سطح کے نیچے دیکھنے کی صلاحیت عطا کی۔ تصوف،احسان اور تزکیہ کے سوا کسی اور چیز کا نام نہیں۔ پھر عزیزاحسن کا جدید اور قدیم ادب کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ وہ مشرقی اصولِ تنقید سے بھی باخبر ہیں اور مغربی تنقید کے بھی رمزآشنا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوںنے عربی، فارسی اور اردو کی عام شاعری بالخصوص نعتیہ شاعری کا مطالعہ کیا ہے اور مختلف رجحانات اور دھاروں کو جانتے ہیں۔ ان کی علمی آگہی کی حقیقی بنیاد قرآن و حدیث سے ان کی وابستگی ہے، کیوںکہ ان دونوں سرچشموں سے دُور رہ کر آدمی روحِ اسلام سے آشنا نہیں ہوسکتا اور رسول اللہﷺ کے مقام کو نہیں جان سکتا۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

الحمدللہ اس علمی پس منظر کے ساتھ عزیزاحسن صاحب ایک دلِ زندہ کے مالک بھی ہیں، اس دلِ زندہ کی دھڑکن اسمِ محمدﷺ ہے اور یہی دھڑکن ان کی نعت گوئی بن گئی۔ اسلام کے حقیقی مفہوم سے شناسائی کی وجہ سے وہ نعت گوئی کو اسلام کے تمام پہلوئوں کی جذباتی اورتخلیقی پیش کش کے مترادف سمجھتے ہیں۔ ان کے شعرِ عقیدت کا مجموعہ ’’کرم و نجات کا سلسلہ‘‘ نعت گوئی اور شعرگوئی کا اچھا معیار پیش کرتا ہے۔

عجب بات ہے کہ نعت گوئی کے اس دور میں اچھی حمدیہ شاعری خال خال نظر آتی ہے۔ الحمدللہ کہ بعض حمدیہ مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔ اس وقت مجھے اس سلسلے میں جمیل عظیم آبادی کے حمدیہ مجموعے کاخیال آرہا ہے۔ نعتیہ شاعری کی اس صورتِ حال کا سبب کیا ہے، اس پر میں نے اکثر غور کیا۔ وہ ذات جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اس سے اتنی دُوری کیوں؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم اپنے آپ سے دُور ہیں۔ لیجیے میر یاد آگئے:

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں

معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دُور تھا

اللہ تعالیٰ ہمارے دل کی گہرائیوں میں اور کتابِ کائنات کے ہر ورق پر موجود ہے۔ اس کا جلوہ کہاں کہاں نہیں۔ عزیز احسن کے اس مجموعے میں کئی حمدیں موجود ہیں۔ کبھی تخاطب کے ساتھ، کبھی اپنی ذات کی گہرائیوں کی غوطہ زنی کی صورت میں اور کبھی مناجات کی شکل میں۔ مناجات، اس حرفِ بے اختیار کا نام ہے جو حالات کے جبر میں اسیر انسان کے لبوں تک آجاتا ہے۔ عزیزاحسن صاحب کے چند حمدیہ شعر پیش کرتا ہوں جو آپ کو یہ احساس دلا سکیںگے کہ ہر مرحلۂ حیات میں عزیزاحسن کی چشمِ حقیقت نگر نے اللہ کو دیکھا ہے اور اس کو پکارا ہے۔ وہ اللہ جس کی کوئی صورت نہیں، جو جسم کی حدبندیوں سے بالاتر ہے، جس کی تصویر کثرتِ جلوہ سے معدوم ہوکر دلِ وحدت آشنا کے آئینے میں جلوہ گر ہوتی ہے:


دل پر مرے احساس نے جو حرف لکھا ہے

ہے تیرے سوا کون کہ جس نے وہ پڑھا ہے


تو نے ہی تو ہر مرحلۂ شوق میں یارب!

اس چشمِ تماشا کو نیا عزم دیا ہے


دشتِ تحیر آج بھی پھیلا ہوا ہے ہر طرف

اے مرے رب تری طرف ہوبھی تو کس طرح سفر؟

اللہ ہی ابتدا ہے، وہی انتہا ہے۔ ’’سرِ توحید‘‘ کا آغاز ان مصرعوں سے ہوتا ہے:


میں وادئ کوہ میں کھڑا تھا

جہاں عروس سحر نے آ کر نقاب رُخ سے اُلٹ دیا تھا

وہ سرمدی راز کھولنے پر تلی ہوئی تھی!


اور پھر ساری کائنات نغمۂ توحید اور نظارۂ توحید میں بدل جاتی ہے، کیوںکہ ہر ذرّۂ کائنات اس کی آیت ہے۔ زمین کی وسعت اور آسمان کی بلندی میں اس کا چہرہ دمک رہا ہے اور پھر اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کی بصیرت پر نئی آگہی کے دروازے کھول دیے۔ عزیز احسن اس گم راہی میں مبتلا نہیں:


ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے

اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

اللہ، عزیزاحسن کے لیے زندہ وجود ہے۔ایسا زندہ وجود جوحیّ و قیوم ہے۔ زندگی کی ہر صورت جس سے عبارت ہے جہاں عزیزاحسن جبر دیکھتے ہیں، ظلم دیکھتے ہیں، اہلِ ایمان کی آزمائش دیکھتے ہیں تو چلّا اُٹھتے ہیں:


ظلم کا راج ہوا تیری زمیں پر یارب!

ساری دنیا میں نہتے ہوئے بے گھر یارب!

اہلِ دل درد کی سوغات لیے پھرتے ہیں

دیکھتے رہتے ہیں خاموش یہ منظر یارب!

تیرے محبوب کی اُمت ہے بہت خوار و زبوں

دینِ اسلام کے معیار کو کھو کر یارب!

بخش دے اب تو گنہ گار مسلمانوں کو

تیری رحمت ترے غصے سے ہے بڑھ کریارب!


اس مجموعے کے حمدیہ حصے میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مناجات پر تضمین ایک بہت خوب صورت شعری پیش کش ہے۔ کسی مسلمان کے لیے اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوسکتی ہے کہ وہ حضرت صدیق اکبرؓ کی آواز سے اپنی آواز ملانے کی کوشش کرسکے۔


نعتیہ حصے میں بیش تر نعتیں غزل طور ہیں۔ میں اس مسئلے پر اپنے مضامین میں کافی لکھ چکا ہوں کہ غزل کا پیرایہ، اپنی نفاست، ایمائیت، ہمہ گیریت کی بنا پر نعت کے لیے بہت مناسب ہے۔ غزل کا لہجہ حدیثِ دل کا لہجہ ہے۔ اچھی نعت میں فکری پہلو یقینا ہوتا ہے، مگر اس کا شعر کے آہنگ میں ڈھل جانا، شاعری کو آبرو عطا کرتا ہے۔ اس مجموعے کا نام جس نعت سے اخذ کیا گیا ہے اس کے دو شعر ملاحظہ ہوں:


نہ تو لوح کا تھا گماں کوئی نہ قلم دوات کا سلسلہ

ترے نور کا یہ طفیل ہے کہ چلا حیات کا سلسلہ

میں عزیزؔ نعت نبی لکھوں تو اُمید ہے کہ پہنچ سکے

مری ذات تک بھی جزا کے دن کرم و نجات کا سلسلہ!


اس مطلع میں عزیز احسن نے اس کائنات کی زندگی کو نورِ محمدیﷺ کا عکس قرار دیا ہے۔ یہ خیال اوروں کے ہاں بھی ملتا ہے کیوںکہ یہ مضمون حدیث سے اخذ ہے، لیکن عزیز احسن نے اس نعت میں انسانی سطح پر زندگی کے تسلسل کو نورِ محمدیﷺ کی جلوہ گری سے تعبیر کیا ہے اور اُس ذات کے کرم و نجات کا سلسلہ دامنِ قیامت سے جڑا ہوا ہے۔ ان غزلیہ نعتوں میںاسلوب کی رنگارنگی ہے۔ کہیں تو طویل ردیفیں، کہیں ’’فعل مجہول‘‘ کو کرم خداوندی کا اشاریہ بنانا:


ہم کو دامن اُنؐ کو گنجِ شائگاں بخشا گیا

یوں فقیروں کو وہ دستِ مہرباں بخشا گیا


اور کہیں غیرمردف نعتوں میں صوت و معنی کی ہم آہنگی کی دنیا تعمیر کرنا:


لکھوں اس طور سے اُنؐ کا قصیدہ

بنا لوں میں شنیدہ کو بھی دیدہ!

tجن کے اوصافِ حمیدہ کا خزانہ بے قیاس

اُنؐ کی خدمت میں کروں کیا پیش میں حرفِ سپاس؟


علم، شعور، آگہی، تفہیمِ کائنات، رنگ، خوش بو، منزل یہ سب ذاتِ رسولﷺ کے استعارے ہیں۔ ان استعاروں میں عزیز احسن کو سرکارﷺ کی نسبت سے روشنی کا استعارہ بے حد پسند ہے۔ روشنی، علم بھی ہے، عرفان بھی اور آگہی بھی۔ روشنی سے اپنی ذات کے پردے بھی اُٹھتے ہیں اور کائنات کے اسرار و رموز بھی بے نقاب ہوتے ہیں۔ نزولِ قرآن کے بعد جو فجر طلوع ہوئی ہے۔ اس کی روشنی ابدالآباد تک ذہنوں اور کائنات کو روشن رکھے گی:


اے نورِ ازل چراغِ آخر

مجھ کو بھی تو روشنی عطا کر

ذرّہ ذرّہ مصطفیؐ سے چاہتا ہے روشنی

جانتے ہیں سب کہ بس ان کی عطا ہے روشنی

ان کی تنویرِ رسالت نے بتایا خلق کو

دینِ حق کے ساتھ پیمانِ وفا ہے روشنی

مہر و ماہ و انجم و برق و شرار و کہکشاں

ہیں تو سب روشن، مگر دل کی جلا ہے روشنی

ذکرِ رسول پاک سے پہنچی ہے قلب تک

وہ سلسبیلِ نور وہ جنت کی روشنی

صدقے میںان کی مدح نگاری کے پا سکوں

اے کاش! روزِ حشر شفاعت کی روشنی!


عزیز احسن نے عشقِ محمدﷺ کی روشنی میں نعت گوئی کا سفر طے کیا ہے۔ شاعری لفظوں کی زبان سے بولتی ہے۔ عزیزاحسن نے نئی تراکیب وضع کی ہیں۔ وہ زبان کے مزاج شناس ہیں اسی لیے ان کی تراکیب اجنبی نہیں لگتیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے یہ ترکیبیں ہماری زبان میں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔ تراکیب سازی میں شاعر دو یا زیادہ لفظوں کے ملانے سے ایک نیا تلازمہ اور استعارہ تراشتا ہے۔ ابھی ہماری تنقید نے تراکیب لفظی اور استعارے کی معنویت کے باہمی رشتے کو نہیں سمجھا ہے۔ بحث عبدالرحمن بجنوری نے ’’محاسن کلامِ غالب‘‘ میں چھیڑی تھی، لیکن بعد کے لوگوں نے اسے آگے نہیں بڑھایا۔ عزیز احسن کی نعت کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں جن میں نئی تراکیب سے معنی کے نئے دریچے کھل رہے ہیں:


دل کے صحرا میں کھلے لالۂ طاعت آقاؐ

مجھ کو حاصل ہو کبھی یہ بھی سعادت آقاؐ

کاش وہ دن بھی کبھی آئے کہ میں دیکھ سکوں

شہرِ کردار پہ بس تیری حکومت آقاؐ


دعا ہے کہ محمد مصطفیﷺ کا یہ چمن جسے عزیزاحسن کے ذہن اور دل نے سجایا ہے سدا شاداب رہے، مہکتا رہے اور روشن رہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مضامین میں تازہ اضافہ
نئے صفحات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png