نعت بر صغیر اور صدائے سرمدی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


"Wajid Ameer"


تحریر : واجد امیر


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


نعت بر صغیر اور صدائے سرمدی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

برِ صغیر پاک و ہند عجیب خطۂ زمین ہے جہاں کی پراسراریت یہاں کے بسنے والوں کو مسحور کیے رکھتی ہے گو کہ بے بہا پھیلتی آبادی نے یہ سارارنگ پھیکا کر دیا مگر کہیں کہیں یہ سحر ہے تو سہی ۔یہی وہ حیران کن جہاں ہے جس میں انسان تو انسان جانوروں کے بت بنائے جاتے ہیں اور انہیں پوجا جاتا ہے اسلام نے آکر یہاں اگرچہ بہت کچھ بدل دیا اور دیکھا جائے تو یہاں کے منظر نامے نے اسلام پہ بھی اثر انداز ہوناچاہا کسی حد تک اس پہ اثر انداز بھی ہوا مگر ہمارا مذہبی الارم سسٹم اتنا موثر تھا کہ بنیادی ساخت کو زرا سی بھی گزند نہ پہنچ سکی اس میں ان مذہبی اداروں کی چوکسی قابل داد ہے جو خفیف سے خفیف غیر معروف و شرعی جنبش پہ چونک اٹھتے ہیں اور کمربستہ ہوجاتے ہیں گو کہ اس پہ بہت سے لوگوں کے تحفظات موجود ہیں مگر اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ۔

شخصیات پرستی کے لیے اسلام سے زیادہ کس کے پاس ایسی قد آور ہستیاں ہو سکتی تھیں سب سے بڑھ کے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی ذاتِ بالا صفات ہے جن کے محاسن و اخلاق کا اقرار خود ان کا انکار کرنے والوں نے بنانگ دہل کیا ہے ،مگر ہمیں ہمارے اسلاف ، اجداد ، علما ، صوفیا ، اور اکابرین نے بارہا باور کروایا کہ عبادت صرف اللہ کی ہو سکتی ہے اور کسی کی نہیں البتہ اطاعت ِ رسول فرض اولیں قرار پایا ۔


ہمارے پاس تعریف و توصیف کے لیے جو قلمدان تھا اسے پہلے ہی زمانۂ رسالت مآب کے شعرا نے نور سے بھر رکھا تھا سو ہمیں یہاں کے طرز سخن کی طرف دیکھنے کی چنداں ضرورت نہ تھی سو یہاں حمد و نعت لکھی گئی جس میں کہیں کہیں ہندی اثرات نمایاں ہوئے مگر پھر نعت کو ایسے لوگ میسر آگئے جنہوں نے برِ صغیر میں توصیف احمدِ مجتبیٰ کی وہ راہ اختیار کی جس کی بہار آج ہمارے سامنے ہے خسرو کی ہندی فارسی آمیزش نعتیہ شاعری اگر قوال حضرات کی ضرورت پوری کر رہے تھی تو محسن کاکوروی کے قصائد آئیندگاں کے لیے راہ متعین کر رہے تھے ، اسی راہ پہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کی نعت بے شک ایک سنگِ میل ثابت ہوئی اور ایک حدِ فاصل بن گئی ظفر علی خان اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے امیر مینائی اور بہت سے اپنے اپنے انداز سے اس سفر کی راہ آسان کر رہے تھے اقبال نے گرچہ باضابطہ نعت نہیں کہی مگر نعت سے نہ کہتے ہوئے بھی نعت کے لیے ایک جہان بسا گئے ۔ اورپھر وہ وقت بھی آیا جب ہندوستان تقسیم ہو گیا ۔

تقسیم کے بعد ایک عجب تبدیلی آئی کہ سرحد کے دونوں طرف نعت کے  بنیادی ڈھانچہ کی ساخت برقرار رہنے کے باوجود کچھ نہ کچھ موضوعات میں تفاوت پیدا ہو گیا ۔ ہندوستان میں روایت کی جڑیں مذید گہری ہوتی گئیں جبکہ پاکستان میں موضوعی اعتبار سے تبدیلی رونما ہوئی۔ہندوستان کی نعت گوئی روایت کے بہت قریب قریب رہی اس میں لفظی معنویت اور زبان و بیان کی پر لطف نزاکتوں سے پیرائیہ نعت کو سجایا گیا ، عاجزی ، کم مائیگی ، لجاجت ، کی طرف توجہ زیادہ مبذول رکھی گئی اورروایت کی پیروی ہی اصل و اصول قرار پائی ۔

اسی تناظر میں ہم جناب خواجہ معین الدین مخلص ؔمصوری کے مجموعۂ نعت و مناقب کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نعت و مناقب میں طرزِ اظہار کے بنیادی ڈھانچہ کی یکسانیت کے باوجود کہیں کہیں لسانی تفریق دکھائی دیتی ہے پاکستانی مذہبی و غزلیہ شاعری میں مقامی الفاظ در آئے ہیں جبکہ ہندوستانی شاعری میں اس سے اجتناب برتا گیا ہے اس کے علاوہ کوئی خاص فرق نہیں ۔


جناب مخلص مصوری کی نعتیہ و منقبتی شاعری سہلِ ممتنع کی صناعی ہے جس میں ثقیل اور غیر مانوس الفاظ سے حتی الا امکان اغماض برتا گیا ہے مخلص صاحب نے اسے اس درجہ عام فہم اور سلیس کر رکھا ہے کہ عام شخص اسے اپنی بول چال کے بہت قریب محسوس کرسکتا ہے دیکھنے میں یہ طرزِ سخن بہت عام سا لگتا ہے اور قاری یہی سمجھتا ہے کہ ایسی شاعری تو کوئی بھی کر سکتا ہے مگر یہ اتنا سہل ہے نہیں کیوں کہ آسان لکھنا ہی مشکل کام ہے ۔۔ مخلص صاحب غزل کے بھی شاعر ہیں اور چونکہ غزل ہی وہ تربیت گاہ ہے جو بات کہنے کے بہت سے ڈھنگ سکھاتی ہے اور شعریت مجروح نہیں ہونے دیتی ان کی مہارت کا اندازہ ان کے غیر منقوط کلام سے بھی لگایا جا سکتا ہے بلا شبہ غیر منقوط کلام کے لیے انتہائی جانفشانی ، مہارت ، اور لفظ و معانی پہ دسترس درکا رہوتی ہے جو صاحبِ کتاب کے پاس ہے

ہر سلوک اُس کا ہے ماں کی طرح ہر لمحہ

واحد و صمد عادل لاالہ الا اللہ


حمد کے بعد دُعا ہے یہ دعا بھی رقت آمیز ہے جس کے بعد التجا ہے جس میں دل سے دنیا ئے حرص و ہوس سے نجات کی خواہش کا اظہار ہے اس کے بعد نعتیں ہیں جن میں اپنی کم مائیگی کا احساس ، امت کی زبوں حالی پہ اظہارِ افسوس، قوم کی شیرازہ بندی کی خواہش ، بے عملی پہ ندامت ، کہیں کہیں ان قوافی و بحور میں بھی نعوت کہی ہیں جس طرف کم ہی اہلِ سخن رخ کرتے ہیں مثلاً


جو کرے ذکرِ مقند آپ کا۔۔مقصد اس کا ہو گا مقصد آپ کا

ہیں سراپا معجزہ صلّے علیٰ ۔۔ہر قدآور سے بڑا قد آپ کا

مخلص صاحب کی نعتیہ شاعری کئی جگہ ایسی مترنم بحروں میں ہے جیسے اسے نعت خواں حضرات کے لیے ہی لکھا گیا ہو اور اس کا اہتمام بھی واضح نظر آتا ہے کہ عوام الناس تک اس کی رسائی بغیر کسی گرہ کشائی کہ ہوسکے جیسے کہ یہ شعر


دل کی کلی کھلی ہے محمد کے شہر میں ۔۔۔۔اک زندگی ملی ہے محمد کے شہر میں ۔


صرف یہی نہیں مخلص مصوری صاحب فارسی تراکیب سے لبریز نعت کہنے پہ بھی دسترس رکھتے ہیں جس کی مثال اس نعت میں ملاحظہ کیجے


پریشاں حالت اُمت حشر میں لرزیدہ لرزیدہ ۔۔۔۔پھرے گی ڈھونڈتی آقا تمہیں نم دیدہ نم دیدہ


نہ صرف حمدان کی نعت بھی غیر منقوط ہے،،


رماح کا ہر سو ہے اُدھم ہادٔی عالم ۔۔۔ماحول مکدّر ہے کرم ہادیٔ عالم


انہی نعتوں میں نعت نگار نے اپنے عقیدے کا بھی کئی جگہ برملا اظہار کیا ہے اور دوسروں کی عقائد پہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے یہ روش ان کی صاف گوئی اور اپنے مسلک سے مضبوطی سے منسلک رہنے پہ دال ہے ۔


نعت میں غزل کے انداز کو اپنانے کے علاوہ نظمیہ انداز بھی کہیں کہیں دکھائی دیتا ہے اور آخر میں مختلف بزرگانِ دین کی مناقب بھی درجہ بہ درجہ شامل ہیں جن میں ان بزرگان مذہب و ملت کی مدح سرائی کی گئی ہے کئی جگہ طرح مصرع پہ کہی گئیں منقبتیں بھی شامل ہیں

صدائے سرمدی کا تمام کلام ہندوستان کے ایک مخصوص دینی طبقے کی نمائندگی کرتا ہے ظاہر ہے یہ طرزِ اظہار الگ الگ احساس کے حامل تخلیق کاروں کی آواز ہر گز نہیں مگر اپنے لہجے میں کہی ہو ئی اپنی عرضداشت ضرور ہے جسے قرینے اور سلیقے سے پیش کیا گیا ہے امید ہے یہ تخلیق عوام الناس میں مقبول ٹہرے گی،،


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات