میراں میاں خاں ہاشمی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


سید میراں میاں خاں ہاشمی بیجاپور کے آٹھویں حکمراں علی عادل شاہ ثانی کے دربار کا ایک نابینا لیکن پرگو اور قادر الکلام شاعر تھا۔ یہ نصرتی کا معاصر تھا۔ اس کی تصانیت میں دیوان ریختی کے علاوہ قصائد و مراثی اور مثنویات شامل ہیں۔ ہاشمی مہدوی عقیدے کا پیرو تھا۔ اس نے اپنے مرشد سید شاہ ہاشم کی فرمائش پر ۱۰۹۹ھ میں مثنوی ’’یوسف وزلیخا‘‘ تصنیف کی جو پانچ ہزار ایک سو اشعار پر مشتمل ہے۔ ہاشمی ایک کہنہ مشق استاد سخن تھا۔ ’’یوسف و زلیخا‘‘ میں اس نے صنف مثنوی کے بنیادی لوازمات یعنی ربط و تسلسل کا بڑا خیال رکھاہے۔ ابتدائی ابواب میں اس نے نہایت ہنر مندی اور فنی رچاؤ کے ساتھ حمد کے آخری شعر سے مناجات کی طرف گریز کیا ہے اور مناجات کے آخری شعر کو نعت کی گریز کا شعر بنایا ہے۔ اسی طرح نعت کا آخری شعر آنے والے باب ’’صفت معراج‘‘ کی گریز ہے۔ مناجات سے نعت کی طرف گریز کا اندازدیکھیے؎


مناجات تو ہوئی تیری قبول

وسیلہ تو دھر ہاشمیؔ اب رسول


ملا نصرتی کی طرح ہاشمی نے بھی مثنوی کے ابواب کے عناوین اشعار میں لکھے ہیں۔ باب نعت کے عنوان کا شعر یہ ہے:


ہاں نے صفت اس کی سنو ظاہر خدائی جس نے ہوئی

سو او محمد ہے نبی سلطان اولوالابصار کا


آنحضرت کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے ہاشمی کہتا ہے کہ نبیوں میں جو سب سے افضل ہیں وہی رسول انبیاء محمد ہیں۔ خدا نے پہلے آپ کو بنایا پھر ساری خدائی کی تخلیق کی۔ پہلے نورذاتی کو ظاہر کیا پھر سارے عالم کو پیدا کیا۔


بنیاں میں جسے تے فاضل کیا

سووئی ہے محمد رسول خدا

اول کر محمد کوں پروردگار

بزاں سب خدائی کیا آشکار

اول نور ذاتی ہویدا کیا

بزاں سب یو عالم کوں پیدا کیا


آگے وہ آپ کے اسم معظم کی برکات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو آپ کے نام کا ورد کرتا ہے اسے دو عالم میں فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ زمین،جن وپری،سارے دریا اور پہاڑ، تمام آسمان، سب جورو ملک،عرش و کرسی اور لوح و قلم آپ کے نام کا ورد کرتے ہیں:


محمد محمد جو کوئی بار بار

کھیا سو بڑا ئی وہ دو جگ منجھار

محمد محمد کہے دھر تری

محمد کہیں سب یوجن و پری

محمد محمد دریا کئیں سگل

محمد محمد کہیں سب جبل

محمد محمد کہیں سب فلک

محمد کہیں سب یو حور و ملک

عرش ہوا کرسی یو لوح و قلم

محمد محمد کہیں دم بہ دم


نعتیہ اشعار کے آخر میں معراج کے بیان کی طرف گریز کرتے ہوئے ہاشمی کہتا ہے کہ اگر جسم کے ہر روئیں کو سو زبانیں مل جائیں تب بھی آپؐ کی توصیف کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اے ہاشمی معراج کا بیان طویل ہے تو اسے مختصر بیا ن کر۔


ہر یک روں کوں سو سوزباں گردھرے

تبی وصف نا کوئی پورا کرے

مطوں تو ہے ہاشمی سر بسر

ابنا کر تو معراج کوں مختصر

مثنوی یوسف زلیخا میں "صفت معراج "[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مثنوی یوسف زلیخامیں ہاشمی نے نہایت اچھوتے انداز میں صفت معراج بیان کی ہے۔ اس رات کی رونقوں اور اہتمام کا ذکر کرتے ہوئے وہ رات کو ایک ’’چتر‘‘ اور ’’خوش دماغ‘‘ مالن کے روپ میں پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ رات ایک عقلمند اور خوش دماغ مالن کی طرح آسمان کے باغ کو کھلا ہوا دیکھ کر دوڑ پڑی۔ اس نے ثریا سے خوش نما الاقہ (علاقہ۔ طرۂ دستار) گوندھا۔ پھر سنبلہ سے طرہ اور کہکشاں سے پار گوندھے۔ سارے ستاروں کے پھولوں کو کھلا ہوا دیکھ کر وہ انہیں آسمان کے دونے میں بھرلائی اور اس میں معراج کی ساری خوبیاں سمو کر نبی کے حضور یہ ہدیہ لے آئی۔


این ہوکے مالن چتر خوش دماغ

وہ دوڑی گگن کا پھولیا دیکھ باغ


الاقہ سریا گندی خوش نماں

ترا سنبلہ ہارسوں کہکشاں


کھلے پھول سارے ستاریاں کے کر

لیائی فلک کے سو دونے میں بھر


خوبی بھر کے معراج کی تس میں پور

وہ ہدیہ لیاتی نبیؐ کے حضور


مآخذ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دکنی مثنویوں میں نعت ۔ ڈاکٹر نسیم الدین فریس

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فخر الدین نظامی | میراں جی | اشرف بیابانی | پیار محمد | حسن شوقی | برہان الدین جانم | عبدل | عادل شاہی مقیمی | شریف عاجز | حسن شاہ محی الدین صنعتی | ملک خوشنود | کمال خان رستمی | ملا نصرتی | میراں میاں خاں ہاشمی | امین ایاغی | شاہ معظم | مختار بیجاپوری | قاضی محمد بحری | احمد گجراتی | وجہی | غواصی | احمد جنیدی | ابن نشاطی | طبعی | محبی | فائز