حسن شوقی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شیخ حسن شوقی دکنی زبان کاایک استاد سخنور تھا۔ اس کا ابتدائی زمانہ احمدنگر میں گزرا جہاں وہ حسین نظام شاہ (۹۶۱ھ تا ۹۷۲ھ) کے دربار سے وابستہ رہا۔ احمد نگر پر مغلوں کے قبضے کے بعد وہ سلطان شاہ (۱۰۳۸ تا ۱۰۶۷) کے عہد میں احمدنگر سے بیجاپور آیا۔ بعض قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گولکنڈہ بھی آیا تھا۔ حسن شوقی بیجاپور کے مشہور صوفی سید شاہ حبیب اللہ کا مرید تھا۔

حسن شوقی نے دو مثنویاں لکھیں۔

(i) فتح نامہ نظام شاہ۔

(ii) میزوانی نامہ سلطان محمد عادل شاہ۔

فتح نامہ نظام شاہ ۹۷۶ھ کی تصنیف ہے۔ یہ مثنوی جنگ تالی کوٹ (۹۷۲ھ) کی منظوم تاریخ ہے۔ اس جنگ میں ابراہیم قطب شاہ علی عادل شاہ اوّل، حسین نظام شاہ اور برید شاہ نے ایکا کرکے وجیانگر کے راجہ رام کو شکست دی تھی۔ مثنوی کا آغاز حمد سے ہوتا ہے جو مختصر ہے۔ اس کے بعد نعت کے صرف دو شعر ہیں۔ خدا کے عطایہ و غایات اور بذل و نوال کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:

محمد نبی کوں دیا سروری

ختم ہوئی جنن پر سو پیغمبری

سو قرباں دوجگ اس نول لال پر

درود اس کے اصحاب ہوا آل پر

حسن شوقی کی دوسری مثنوی میزبانی نامہ سلطان محمد عادل شاہ کے عقد کی دھوم دھام اور شان و شوکت کے بیان میں ہے۔ اس میں نعتیہ اشعار نہیں ہیں۔ پہلے شعر کے مصرع اول میں حمد ہے۔ دوسرے مصرع سے بادشاہ کی تعریف کا آغاز ہوتا ہے

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فخر الدین نظامی | میراں جی | اشرف بیابانی | پیار محمد | حسن شوقی | برہان الدین جانم | عبدل | عادل شاہی مقیمی | شریف عاجز | حسن شاہ محی الدین صنعتی | ملک خوشنود | کمال خان رستمی | ملا نصرتی | میراں میاں خاں ہاشمی | امین ایاغی | شاہ معظم | مختار بیجاپوری | قاضی محمد بحری | احمد گجراتی | وجہی | غواصی | احمد جنیدی | ابن نشاطی | طبعی | محبی | فائز