جاءوک ۔ میخانہ ءِ کیف و مستی از عباس عدیم قریشی ۔ ثاقب علوی کی کتاب جاءوک پر تبصرہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

link:عباس عدیم قریشی


مضمون نگار : عباس عدیم قریشی

کتاب : جاءوک

شاعر :ثاقب علوی

’’جَائُ وْکَ‘‘ - میخانۂ کیف و مستی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تمام قولی، فعلی، فکری، حرکی، روحی، بدنی تحمیدات اس ذات واجب الوجود کے لیے جس نے ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘ کے ہر ساعت فزوں ہوتے تفسیری عمل میں ہم ایسے ذرّہ ہائے بے مائیگاں کو شاملان کارِ رفیع کا شرف عطا فرمایا اور بے شمار درود و سلام ہوں اس ذاتِ اقدس اور ان کی آل پر جن کی شان میں شانِ رفعت کا اظہار کرتی ہوئی یہ آیت نازل ہوئی:

’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ـــ’’وَ لَلْآخِرَۃُ خَیْرٌلَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ‘‘ یعنی اے محبوب ہر آنے والی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر اور فزوں تر ہے تو جب اس تناظر میں آیۂ ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘کی معنویت پر غور کیا جائے تو اظہر من الشمس ہے کہ حضور سیدِ عالمﷺ کا ذکرِ رفیع بھی ہر لمحہ بڑھتا اور بلند ہوتا جاتا ہے اور یہ ذکرِ رفیع نہ صرف خود بہر ساعت بلند ہوتا جاتا ہے بلکہ اپنے جمیع متعلقات اور متعلقین کو بھی رفعتیں عطا فرماتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعتِ رسولِ مقبولﷺ محض شاعر کی عقیدت و محبت کے اظہار تک محدود نہیں رہی بلکہ اپنے نئے تخلیقی آفاق دریافت کرتی چلی جاتی ہے اور نعتیہ ادب اب فقط شاعر کی اپنی واردات کے اظہار سے کہیں آگے بڑھ کر تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی جہتوں میں اپنی ضرورت و اہمیت کے در وا کرتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذاوہ سعید بخت لوگ جو اس صنفِ سعادت کا حصہ بنے ہیں اور بنتے چلے جاتے ہیں وہ بھی آیتِ کریمہ ـــ’’وَ لَلْآخِرَۃُ خَیْرٌلَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ‘‘ کے فیضان سے بالواسطہ بہرہ مند ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ الکریم۔

فی زمانہ چونکہ اقوامِ عالم کے تہذیبی اختلاط نے جو قوموں کی روایات اور ثقافات پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں ان کی وجہ سے قومیں اپنے امتیازی حوالوں سے محروم ہو رہی ہیں اور مستقبل قریب میں خدشات نظر آتے ہیں کہ قومیں اپنا تشخص قائم رکھنے میں ناکام نہ ہوجائیں۔ لہٰذا نعتیہ ادب کی تخلیقی ضرورت کے سلسلہ میں میرا نظریہ تو یہ ہے کہ آئندہ ادوار میں اسلام اور اہلِ اسلام کو اپنا تشخص قائم رکھنے کے لیے جن اسباب کی ضرورت درپیش ہوگی ان میں تخلیق و ترویجِ نعت بھی سرِ فہرست ہوگی۔ اس لیے کہ کسی بھی مذہب کی بنیاد اس کے اعمال پر نہیں بلکہ افکار و عقائد پر ہوا کرتی ہے لہٰذا اسلامی عقائد کو استوار رکھنے میں بلاشبہ قرآن و سنت ہی ہمارے ماخذِ اصلیہ ہیں تاہم قرآن و سنت سے مربوط رہنے کے لیے رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی سے رسمی نہیں بلکہ مضبوط قلبی تعلق اور جذبۂ عشق کی فراوانی از بسکہ ضروری ہے۔ سو اس جذبۂ عشقِ رسولﷺ کا سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ نعتیہ ادب ہی نظر آتا ہے جس کی اثر آفرینی پر بات کرنا محض مضمون کو طویل کرنے کے مترادف ہی ہے۔

مذکورہ بالا فکری تناظر میں ہمیں اہلِ قلم کی وہ جماعت درکار ہے جو عصری علوم سے بھی بہرہ ور ہو اور قرآن و سنت اور سیرتِ طیبہ سے متعلق علوم میں بھی کامل دستگاہ رکھتی ہو تاکہ فی زمانہ اسلام اور اہلِ اسلام کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان کا ادراک بھی رکھتی ہو اور اس کے سدِّباب کی صلاحیت بھی اور نعتیہ ادب کے عصری تقاضوں کو کما حقہ‘ پورا کر سکے۔ دریں حالات ایسے اہلِ قلم جو پہلے ہی ان اوصاف کے حامل ہوں اور تخلیق و فروغِ نعت کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہوں کسی نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں۔ سو انھی خوش نصیب لوگوں میں سے زیرِ نظر مجموعۂ نعت ــ’’جَائُ وْکَ‘‘ کے مصنف معروف اسلامی سکالر برادرم علامہ ڈاکٹر ثاقبؔ علوی صاحب زید مجدہ کی ذاتِ گرامی بھی ہے۔

ڈاکٹر ثاقبؔ علوی صاحب جن کا اصل نام غلامِ رسول ہے، کامونکے ضلع گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اردو، عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگریاں رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایم ایڈ، ایم فل اور پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ علومِ اسلامیہ میں درسِ نظامی اور تخصص فی الفقہ کی اسنادِ امتیاز و فضیلت سے بھی سرفراز ہیں۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستگی کے علاوہ معروف خطیب اور ممتاز اسلامی سکالر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ زیرِ نظر مجموعۂ نعت سے قبل بھی ڈاکٹر صاحب کے تین مجموعہ ہائے نعت منصہ شہود پر جلوہ گر ہوچکے ہیں جن میں سے دو مجموعہ ہائے نعت ’’صبغۃ اللہ‘‘ اور ’’نجمِ ثاقب‘‘ اردو اور ایک مجموعۂ نعت پنجابی زبان میں ’’چانن چار چوفیرے‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تینوں کتابیں اہلِ علم سے خراجِ تحسین وصول کر چکی ہیں۔ علاوہ ازیں مجموعۂ نعت ’’صبغۃ اللہ‘‘ پر ڈاکٹر صاحب کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے ’’صدارتی ایوارڈ‘‘ اور پنجابی نعتیہ مجموعہ ’’چانن چار چوفیرے‘‘ پر وفاقی حکومت کی طرف سے ’’قومی سیرت ایوارڈ‘‘ اور حکومتِ پنجاب کی طرف سے ’’صوبائی سیرت ایوارڈ‘‘ بھی عطا کیے جا چکے ہیں۔

ڈاکٹر ثاقبؔ علوی صاحب نعتیہ ادب میں اپنے اسلوبِ نگارش، ثقاہتِ علمی، فنی گرفت اور مضامین کی گوناں گوں بوقلمونیوں کے ساتھ اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ لہٰذا مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب پورے شعور اور ادراک کی معراج پر نعت کہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں اور اپنے ما فی الضمیر کو ابلاغ کی معراجِ مقصود تک پہنچانے کا قرینہ ان کے ہاں وفور کے ساتھ موجود ہے۔ بعض جگہوں پر نہ صرف ان کا فکری تنوع بلکہ قدرتِ کلام تحیر خیزنظر آتے ہیں۔ مثلاً


بہ بہ کے کیے جائیں ہر اک جرم کا اقرار

آنسو بھی ہوئے جاتے ہیں بے باک یہاں پر


بوقتِ حاضری یہ ایک فطری عمل ہے یعنی مدینۃ الرسولﷺ کی حاضری میں غلاموں کی اشک فشانی سے اتنا خوبصورت مضمون کشید کرنا تحیر آفرینی کی حدوں کا چھو لیتا ہے۔


ڈاکٹر ثاقبؔ علوی کی نعت گوئی میں نعت اور لوازماتِ نعت کے سارے ہی رنگ نمایاں ہیں۔ ہجر و فراق کی ٹیسیں بھی ہیں، حاضری و حضوری کے کیف بھی، عشقِ رسولﷺ میں جذبۂ فنابھی ہے اور نازشِ نسبتِ اقدس کی غنا بھی، داخلی جذبات کا بحرِ بے کراں بھی ہے اور خارجی صدمات پر اشکوں کی جوئے رواں بھی۔ وہ تمام داخلی و خارجی احساسات کو شعروں میں تصویر کرکے اپنے ملجا و ماویٰ، دستگیرِ بے کساں، شفیعِ عاصیاں، محمودِ کن فکاں، محبوبِ انس و جاںﷺ کی بارگاہِ اقدس میں پیش کر رہے ہیں۔ مضمون کا مطلوبہ اختصاریہ کلام پر تفصیلی رائے کے اظہار کی اجازت نہیں دیتا تاہم کچھ منتخب اشعار نذرِ قارئین ہیں جو مندرجہ بالا میری رائے کی صداقت پر گواہی دیں گے:


شکر صد شکر ہیں آپﷺ کے اُمتی

ڈھونڈتے ورنہ ہم اپنا یاور کہاں


دربارِ اقدس کی کشش کو اساتذہ کے رنگ میں بیان کرتے ہیں:


کیا کشش ہے اس زمیں میں کیسے سمجھاؤں جہاں

قدسیانِ عرش آئیں عرشِ تاباں چھوڑ کر

تجھ پہ کیا گزرے گی ثاقبؔ! تو نے سوچا ہے کبھی

جائے گا جب درد ہائے دل کا درماں چھوڑ کر


امتِ مرحومہ میں قیادت کے فقدان اور وحدتِ ملی کے منتشر شیرازہ سے متعلق بارگاہِ اقدس میں عرض گزار ہیں:


گلشنِ دیں کی وہ رونقیں، نکہتیں، یاد آتی ہیں اسلاف کی عظمتیں

ایک اور ابنِ قاسم عطا کیجیے، لوٹ آئے وہی شان پیارے نبیﷺ

خالی دامن ہے للہ بھر دیجیے، بکھری امت کو پھر ایک کر دیجیے

ہیں جہاںپر کیے بے شمار آج تک، ایک ہو اور احسان پیارے نبیﷺ


ان کے تخلیقی گلستانِ مدحت سے مزید کچھ گل ہدیۂ قارئین ہیں:


سمجھیں گے اہلِ دل کہ یہاں کیا ہے کیفیت

واللہ! اہلِ عقل کو اِس داستاں سے کیا!

٭٭٭

رحمتوں کا ایک بحرِ بے کراں ہے اُس طرف

اور تشنہ آبجو ہے جالیوں کے سامنے

٭٭٭

جہانوں کے جہاں بھر دوں پیمبرﷺ کی محبت سے

اگر اک ذرّہ مل جائے مجھے عشقِ بلالی کا

اِدھر ہے تنگ دامانی، اُدھر وسعت عطاؤں کی

تڑپ کر کیوں نہ رہ جائے یہاں پر دل سوالی کا

نہیں ہے ابتدا بھی مصطفیﷺ کی ارفعیت کی

نکلنے کو یہیں ہے دم مری رفعت خیالی کا

٭٭٭

ہو کرم اے مرے آقاﷺکہ میسر آئے

میرے افعال کو تسلیم و رضا کا موسم

٭٭٭

اس ادب گاہ میں کیا ہونٹ ہلائے ثاقبؔ

سانس لیتے بھی یہاں پر تو حیا آتی ہے


قارئینِ کرام زیرِ نظر مجموعۂ نعت ــ’’جَائُ وْکَ‘‘ کا کلام دیارِ اقدس کی حاضری میں قبلۂ عالمینﷺ کے قدمین مبارک میں عطا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ حاضری اور حضوری کی کیفیت غالب اور نمایاں ہے۔فالحمد للہ رب العالمین کہ ’’ایں سعادت بزورِ بازو نیست‘‘۔ اللہ کریم اس مجموعۂ نعت کو اپنی اور محبوبِ کریمﷺ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے مشرف فرما کر توشۂ دارین بنائے۔ ڈاکٹر ثاقبؔ علوی صاحب کے علم و فضل، عمر اور توفیقات میں برکات کا نزول فرمائے اور ان کی یہ تمام کاوشیں ذریعۂ عزتِ دارین ہوں۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ و اصحابہ و بارک وسلم

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جاءوک | ثاقب علوی


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

نئے صفحات

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png