جدید نعت نگاری ۔ مسائل و مباحث ۔ معین الدین عقیل

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


Naat kainaat - naatia masail.jpg


مآخذ : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث ۔ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

مضمون نگار : معین الدین عقیل

جدید نعت نگاری:مسائل و مباحث =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو زبان کی تخلیقی شعری اصناف میں گزشتہ چند دہائیوں میں صنف ِنعت نے جس طرح اپنی حسیت، نوعیت اور روایت کے لحاظ سے اپنے تخلیق کاروں اور اس کے نقادوں میں خود کو موضوع بنوایاہے، یہ ہمارے فن اور روایات ِشاعری میں ایک مثال ہے۔ یہ اپنی مسلمہ و معروف روایتوں کے ساتھ بیسویں صدی کے وسط ،بل کہ بعد تک بھی ،ایک لگے بندھے راستے پر چل کریہاں تک پہنچی تھی لیکن نعت نگاروں کے جذبہ و لگن کے سبب ، جس میں قیام ِ پاکستان کے بعد ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کے احساس و شعور نے اور ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے جذبے اور اسلامی ادب کی تحریک نے شاید شعرا کو تخلیق نعت کی جانب زیادہ خشوع و خضوع کے ساتھ راغب کیاہے اور پھر عبدالعزیز خالد کے نعتیہ مجموعوں : ’’منحمنا‘‘ اور ’’فارقلیط‘‘ نے اردو شاعری میں موضوعات و ہئیت کے نئے مباحث کو بھی جنم دیا، جس کے تحت نعت اور فن نعت کے مطالعات و پیش کش اور روایات کے جائزوں کے لیے یکے بعد دیگرے مخصوص رسائل کی بڑھتی ہوئی اشاعتی صورتِ حال نے بھی اس کے فن اور اس کے ارتقا کو ایک وسیع تر فروغ دیاہے، جس میں ان دوتین دہائیوں میں صبیح رحمانی کی زیر ادارت و زیر سرپرستی منفردرسالے’’نعت رنگ‘‘ کے اجرأ اورپھر اس کے چند سالوں کے بعد ’نعت ریسرچ سینٹر‘ کے قیام اور اس کے تحت صنف نعت کے فروغ کو ایک بہت منفرد اورمقبول ِ عام صورت میں دیکھا جاسکتاہے۔

اردو نعت نگاری کی حالیہ مثالی اور حوصلہ بخش صورت ِ حال کے پس پشت رسالہ’’نعت رنگ‘‘ اور اس کے مدیر کی منفرد و مثالی کاوشوں کی نوعیت اورنعت کے زمرے میں ان دونوں کے کردار و اثرات کا تعین اس صنف کے کسی نہ کسی نوعیت کے جائزوں اور مطالعات میں زیر گفتگو بھی آتارہتاہے۔ اس حوالے سے خود ’’نعت رنگ‘‘ کے صفحات ان دونوں کے کردار و اثرات پر اس کے قارئین اور نعت سے خاص رغبت رکھنے والے اصحاب ِ قلم کے تاثرات اور اس بابت ان کے علی الخصوص تحریر کردہ مضامین اور تاثرات حالیہ عرصے میں نعت نگاری کے ارتقا کی صورت حال اور اردو نعت نگاری کے مسائل و مباحث کو متعین کرنے اور سمجھنے کے لیے واقعتاً ایک بنیادی اورراست وسیلہ ہیں۔چناں چہ اس احساس کے تحت یہ اس کے فاضل مدیر کی روشن خیالی یا وسعت قلب بھی ہے کہ وہ ’’نعت رنگ‘‘ میں شائع ہونے والی تخلیقات اور خیالات سے، جو چاہے فاضل مدیر کومختلف صورتوں میں بطور راست موضوعاتی مضامین اور تحریروں اور تاثراتی خطوط کی صورت میں موصول ہوتے رہتے ہیں، قارئینِ ’’نعت رنگ‘‘ کو ان سے واقفیت اور استفادے کے لیے ایک خاص اہتمام سے شائع کرتے رہتے ہیں۔یہ ’’نعت رنگ‘‘ کا ایک بڑا وصف و امتیاز ہے کہ تخلیقات اور مضامین کے ساتھ ساتھ قارئین کے تاثرات اور خیالات کو بھی رسالے میں شائع کرنے کا ایک مستقل اہتمام رہتاہے جن کے باعث ایک خاصا مفید و پرکشش تنوع بھی رسالے میں جگہ پاتاہے اور قارئین کے لیے قابلِ استفادہ بنتاہے۔اس لحاظ سے قارئین کے وہ خطوط بھی خاصے کی چیز ہوتے ہیں جو بالالتزام ’’نعت رنگ‘‘ کے سب ہی شماروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں اور جن کا مطالعہ ایک اضافی استفادے و تنوع کا سبب بنتاہے۔


ان خطوط میں وہ سب ہی کچھ ہوتاہے،جو چاہے نعت کے فنی مباحث ہوں، مطبوعہ نعتوں کے بارے میں احساسات و تاثرات ہوں یا مضامین میں بیان کردہ خیالات سے اتفاق و اختلاف ہی کیوں نہ ہوں، یہ سب ہی کچھ ان خطوط میں قارئین کے ملاحظے و استفادے کے لیے مہیا رہتے ہیں۔ان سب کے ساتھ ساتھ ان خطوط میں بالعموم وہ مسائل بھی زیر بحث آتے رہتے ہیں جو نعت نگاری کے فن و اسلوب اور اس کے رجحانات و موضوعات کے تعلق سے اہم ہیں اور نعت کے فن اور اس کے رجحانات و میلانات کو سمجھنے یا متعین کرنے کے لیے معاون ہوسکتے ہیں۔یہ خطوط اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں مختلف نقاطِ نظر ، اتفاق و اختلاف اور نعت کے تعلق سے سامنے آنے والے مسائل سب ہی ہمیں دعوت غور و فکر دیتے ہیں۔ چناں چہ یہ خطوط بجاے خود اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان میں پیش کردہ خیالات و نظریات اور تاثرات کو موضوعاتی لحاظ سے دیکھا اور سمجھا جائے اور ان سے اخذ مطالب کیا جائے تاکہ نعت کے کل فنی و اسلوبیاتی اور ارتقائی اموراور ساتھ ہی مسائل بھی قارئین و شائقینِ نعت پر واضح رہیں۔

اس اہم ضرورت اور تقاضے کو عزیزی ڈاکٹر ابرار عبدالسلام نے خوب سمجھا اور اس ضمن میں ایسی پیش رفت کی کہ انھوں نے وہ سارے خطوط جواپنی اپنی مناسبت سے ’’نعت رنگ‘‘ میں مستقلا ً شائع ہوتے رہے، ان کی قدروقیمت کو سمجھتے ہوئے ان کے ایک موضوعاتی اور تجزیاتی مطالعے اور جائزے کو ضروری سمجھا اور نہایت عرق ریزی کے ساتھ ان سارے خطوط کا مطالعہ کیا اور ان میں بیان کردہ مباحث و مطالب کواس طرح موضوعاتی درجہ بندی یا تقسیم کے ساتھ اخذ کیا کہ ان کی روشنی میں اب نعت سے متعلق سارے ہی عصری مسائل و موضوعات اب اپنے اپنے عنوانات کے تحت مرتب صورت میں ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور ہم ابرار عبدالسلام کے خیالات و تجزیوں کے توسط سے خود بھی ان پر ایک رائے قائم کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔


ہماری علمی اور ادبی ضرورتوں کے تحت مکتوب نویسی یا خطوط کو ہم ایک عرصے سے جائز وضروری حیثیت و اہمیت دے کر ان کے مجموعے مرتب و شائع کرتے رہے ہیں اور ان پر تحقیقی ضرورتوں اور استناد کی خاطر حواشی و تعلیقات کا اہتمام بھی کرتے اور خطوط کو ایک راست اور بنیادی ماخذ کی حیثیت میں مزید قابل استفادہ بناتے رہے ہیں۔لیکن شاید کوئی کام خطوط کے حوالے سے ایسا نہیں ہوا کہ انھیں یک جا و مرتب کرنے کے بجائے ان کا موضوعاتی اعتبار سے مطالعہ و تجزیہ کیاجائے اور اس مطالعے و تجزیے کی روشنی میں مطلوبہ معلومات حاصل کی جائیں یا ممکنہ نتائج تک پہنچا جائے۔ ابرار عبدالسلام صاحب نے یہاں یہ ایک انوکھا اور مزید قابل ِ استفادہ کام کیا ہے کہ جو ہمیں ڈھیروں خطوط کے راست مطالعے سے بچاتے ہوئے ان میں موجود مطالب و مباحث کو ایک بہت مناسب و سنجیدہ تجزیے کے ساتھ اخذِ مطالب کی راہ دکھائی ہے جو بے حد قابل استفادہ اور لائق تحسین ہے۔خطوط کے حوالے سے اس نوعیت کے اس اولین مطالعے و تجزیے کو ہمیں کھلے دل سے خوش آمدید کہنا چاہیے۔


اس ایک منفرد کام کو دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ ابرار عبدالسلام کے ذہن ِ رسا میں ایسا کام کیوں کر آیاکہ جس کی ایسی کوئی نظیر کم از کم راقم کے مطالعے کی حد تک کوئی نہیں!ہم تو ابرار عبدالسلام کو ایک خالص و منفرد محقق کے طور پر جانتے ہیں جن کے مطالعے اور دل چسپیوں کا محور و مرکز کلاسیکی ادب رہاہے اور ان کے کام، جو چاہے ان کے اعلیٰ پائے کے متعدد تحقیقی مقالات ہوں یا ’’آبِ حیات‘‘ کی بے مثال تدوین و تحقیق ہو، یا ہمارے اکابر ِ تحقیق:ڈاکٹر گیان چندجین اور ڈاکٹر سیدہ جعفر کی مشترکہ تصنیف کردہ ’’تاریخ ادب اردو‘‘جیسی اہم تاریخی و تحقیقی کاوش ہو، ابرار عبدالسلام نے ان کی اس تصنیف میں تحقیق و واقعات کی جن جن غلطیوں کی نشاندہی کی اور استدراکات و تصحیحات کے انبارلگا کر ایک مستقل کتاب تصنیف کرنا ضروری سمجھا ہو کہ کہیں ڈاکٹر گیان چند اور سیدہ جعفر جیسے اکابر محققین کی پیش کردہ غلطیاںہماری تاریخ ادب میں جگہ نہ پاجائیں، یہ ایسا کام کیا تھا کہ جو آج کے بڑے سے بڑے اور نامور محققین، یونیورسٹیوں کے صدورِشعبہ جاتِ اردو اور شہرت و مناصب کے بامِ عروج پر رہنے والے پروفیسروں سے ممکن نہ تھا،یہ اور ایسے منفرد و مثالی کام ابرار عبدالسلام کی توجہ، جستجو اور سخت محنت و لگن کے باعث سامنے آئے ہیں اور ان کی کاوشوں کا ایک سرمایہ ہیں۔


زیرِ نظر منفرد اور انتہائی مفید و کارگر منصوبہ بھی ابرارعبدالسلام ہی کے ذہنِ رسا کے باعث ممکن تھا، جسے انھوں نے اس قدر محنت و لگن سے مکمل اور پیش کیاہے اور جو اس قدر افادی ہے کہ شاید ایسے مزید کاموں کے لیے یہ ایک مثال بن جائے اور محققین و مصنفین کو یہ راہ دکھائے کہ ہمارے ایسے دانشوراور ادیب و شاعر، بمثل اقبال،غالب، سید احمد خاں اور دیگر بیسیوں اکابر علم و ادب اورمشاہیر قوم و ملت کے خطوط کا ایسا مطالعہ کیاجائے جو ان کی فکرو دانش، ان کے عہدو معاصرین اور فن و اسلوب اور ان کی مجموعی خدمات اور ان کے اثرات کو اجاگر کرسکے۔


ابرارعبدالسلام کی اپنی اس ذہنی اپج کے مطابق ،اور ان کے اس منفرد کام کے سامنے لانے کا وسیلہ بھی ’’نعت رنگ‘‘ اور اس کے مدیر صبیح رحمانی کو بننا تھاکہ مقصد تو شاید صرف نعت کے مباحث و مطالب کو نمایاں کرنا تھا، اور جو یہ مقصد پوری طرح مکمل بھی ہوا ہے، لیکن اس طرح سوچنے اور لکھنے پڑھنے والوں کو ایک شہ بھی ملی ہے کہ خطوط کا مطالعہ مطلوبہ نتائج تک پہنچنے کے لیے اور مخصوص یا مطلوب موضوعات کو ان سے کس طور پر اخذ کیا جائے اور ان کا مطالعہ کس صورت میں کیاجانا چاہیے کہ ان میں موجود موضوعات و مباحث بھی سامنے آسکیں اور اس طرح لکھنے والے کے ذہن و نظرکو بھی سمجھنا آسان ہوجائے اور ان سب پر مستزاداس صورت میں مطلوب و مقصود نتائج بھی سامنے آجائیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
کتابوں پر تبصرے
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات