الغیاث - میں منظر نگاری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


"Khawar"

تحریر : ابو الحسن خاور

کتاب : الغیاث

شاعر : عروس فاروقی

الغیاث میں منظر نگاری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"الغیاث " وہ حمدیہ و نعتیہ مجموعہ کہ جس میں مصنف کی "عرض و گذارش " سے ہی دل بارگاہ ِ سالت میں سر نگوں ہو جاتا ہے ۔ ۔ "عرض و گذارش " کی ابتدائی سطریں ملاحظ ہوں ۔


"قارئین کرام ۔ السلام علیکم ۔ یہ کتاب "الغیاث " میرا نعتیہ مجموعہ ہے ۔ اگر آپ میں کوئی ایسی بات دیکھیں جو آپ کے خیال میں بارگاہ ِ رسالت کے لائق نہیں تو برائے کرم مجھے آگاہ فرمائیں ۔ نوازش ہوگی "


یہ بات پڑھ کر سوچتا ہوں کہ ابتدا اسی بات سے کروں جو کہنی مشکل لیکن ضروری ہے ۔ "الغیاث " میں ایک شعر توجہ طلب لگا


شافع حشر کا فرمان ہے " الطالح لی "

کتنا اچھا ہو جو اک آدھ خطا کر جاوں


اگرچہ اس شعر کے حوالے کے لئے الطاف حسین حالی کا شعر


گر بد ہیں تو حق اپنا ہے کچھ تجھ پہ زیادہ

اخبار میں "الطالح لی " ہم نے سنا ہے


پیش کیا گیا ہے ۔ حالی اپنے برے اعمال کا ذکر کر کے زیادہ رحمت کے طلب گار ہیں ۔ اس میں ندامت و توبہ کا پہلو موجود ہے لیکن عروس فاروقی نے اس سے بھی زیادہ رعایت لی ہے کہ خطا کرنے کے متمنی ہیں ۔ عروس فاروقی صاحب علم ہستی ہے ۔ انہوں نے ایسا لکھا ہے تو کچھ سوچ کر ہی لکھا ہوگا ۔ مجھے قابل توجہ لگا تو میں نے عرض کردیا ۔ اس ایک شعر کے علاوہ یہ مجموعہ کلام کیف و مستی کی داستان محسوس ہوا ۔


اس نعتیہ مجموعے میں فارسی اور اردو کلام موجود ہیں ۔ فارسی شعراء سے یہ خدشہ تو بہر حال رہتا ہی ہے کہ اردو کلام بھی اتنے ہی ثقیل ہوں گے لیکن یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ اگرچہ بعض مقامات پر فارسی الفاظ کا سہارا لیا گیا ہے لیکن اردو کے بیشتر کلام تو بہت سلیس و سادہ ہیں۔ ۔ بلکہ اردو کیا ایک فارسی کلام نے بھی مجھ جیسے فارسی ناشناس کو بھی کیفیت میں لے لیا۔ آہنگ کی موسیقیت کے اظہار کے لئے دو اشعار پیش کر تا ہوں ۔

سرورا ۔ مالکا ۔ مرحبا مرحبا

افسرا ۔ خسروا ۔ مرحبا مرحبا

اے کہ دلدارِ ما ۔ مرحبا مرحبا

دلبر و دلربا ۔ مرحبا مرحبا

اور اس کا مقطع ہے ۔ اسی بے زبانی پر ختم ہوتا ہے جو سعدی و غالب کی زبان ہے

ختم بر ایں سخن شد کلام ِ عروس

اے ورا الورا ۔ مرحبا مرحبا


کسی مجموعہ کلام میں موجود تمام شعری محاسن و عیوب کا محاکمہ کرنا شاید ایک نئی کتاب لکھنے کے مترادف ہو ۔ اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ بہت سے عناصر پر تھوڑا تھوڑا لکھنے کے بجائے کسی ایک پہلو کا زیادہ سے زیادہ احاطہ کیا جائے ۔ " الغیاث " میں مجھے جس شے نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ عروس فاروقی کے بنائے ہوئے دلنشین امیجز ہیں ۔ امیجری کے لئے اردو میں محاکات یا پیکر تراشی کا لفط استعمال کی جاتا ہے ۔ لیکن عروس فاروقی کی شاعری کے لئے مجھے سید عبدا للہ کی متعارف کردہ اصطلاح تصویر آفرینی بہت عمدہ لگی ۔ امیجری ، محاکات یا تصویرآفرینی میں شاعر لفظوں سے ایسی تصاویر بناتا ہے کہ قاری اس منظر کو اپنے سامنے محسوس کرے ۔ یہ شاعری میں مصوری کا نام ہے ۔ اگر شعر پڑھ کر ایک دھندلی سی تصویر بنے تو شاعر کا ہنر بے کار گیا ۔ اور اگر بیان کردہ واقعہ یا حقائق کا روشن اور واضح پیکربنے تو شعر قاری کے دل پر اثر کرتا ہے ۔کیونکہ


Pictures speak louder than words.


کسی بھِی شاعری میں تصویر آفرینی داخلی تحریک پر منحصر ہے ۔ اگر شاعر کی جمالیات میں بصری پیکروں کا رحجان ہے تو یہ عنصر خود بخود اس کی شاعری میں ظہور پذیر ہوگا۔ کوئی بھی خارجی تحریک یا شعوری کوشش شعر ی محاکات کو بدنما کر سکتی ہے ۔


"الغیاث " ایک حمدیہ و نعتیہ مجموعہ ہے ۔ عروس فاروقی نے اس حمدیہ و نعتیہ شاعری میں ایسےخوش کن و خوبصورت قدرنی مناظر تصویر کئے ہیں کہ تازگی روح تک اترتی محسوس اور اس پر مضامین کی پاکیزگی اسے دو آتشہ بناتی ہے ۔ ایک حمد سے شروع کرتے ہیں ۔


تیرا پیغام سناتے ہیں ہوا کے جھونکے

ذکر تیرا ہی کیا کرتی ہے خوشبوئے گلاں

نام لیتا ہے ترا جھرنوں سے گرتا پانی

تیری تسبیح کیا کرتے ہیں دریائے رواں

گردنیں اونچے درختوں کی ترے سامنے خم ہیں

رعب سے تیر ےپہاڑوں کی فرازی لرزاں

خامشی گہرے سمندر کی ثبوت ِ ہیبت

نغمہ چڑیوں کا تری شان ِ عنات کا بیاں


یہ تصویر آفرینی عروس فاروقی کی شاعری کا اسلوب معلوم ہوتی ہے۔

مدینہ منورہ میں حاضری نعتیہ شاعری کا جزو لاینفک ہے ۔ دل عشق سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہو اور شہر مدینہ کہ طلب نہ ہو ۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے ۔ ان روایتی مضامین کو بیان کرتے ہوئے بھِی عروس ِ فاروقی کما ل کر جاتے ہیں ۔ مدینہ منورہ میں بارش کا منظر دیکھئے ۔


بھینی بھینی ہے ہوا ۔صد مرحبا

شہرِ طیبہ کی فضا۔ صد مرحبا

سبز گنبد اور بارش کا سماں

کیا ہے منظر دلربا صد مرحبا

سبز گنبد جس نے دیکھا ایک بار

بار بار اس نے کہا صد مرحبا


اور "الغیاث " میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور شہر ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایسے مناظر گاہے بگاہے نظر آتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے "عروس فاروقی " جو محسوس کرتے ہیں وہ من کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور جو دیکھتے ہیں وہ دکھانے کا ہنر جانتے ہیں ۔


حبیب ِ خدا کی ثنا ہورہی ہے

عبادت یہ صبح و مسا ہورہی ہے

چھڑی ہیں مدینے کے موسم کی باتیں

سہانی سہانی فضا ہو رہی ہے

ہے دن ان کے رخسار ِ تاباں پہ واری

تو شب زیر زلف ِ دوتا ہو رہی ہے

جن پہ پڑتی ہے گرد طیبہ کی

بارشِ نور میں نہاتے ہیں

نو ر ِ حب نبی ہو سینوں میں

خود بخود چہرے جگمگاتے ہیں


مدینہ منورہ اور روضہ شریف کی حاضری میں ان صاف ، واضح اور روشن مناظر کی سادگی و دلنشینی کی وجہ سے حاضری کی سی کیفیت بن جاتی ہے


پہلے ان آنکھوں سے کعبہ دیکھوں

اور پھر کعبے کا کعبہ دیکھوں

بارہا چوموں سنہری جالی

بارہا گنبد خضری دیکھوں

تیر ے نعلین کو چوما جس نے

وہ گلی دیکھوں وہ کوچہ دیکھوں


دوسرے شعر میں "بارہا " کی تکرار قابل ستائش ہے ۔


واقعہ معر اج پر قلم اٹھا نا اور اپنی شناخت بنانا ایک امر محال ہے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک کلام لکھا جا چکا ۔ لیکن پھر بھی نعت گو شعرا کی اکثریت معراج کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور لکھتی ہے ۔ جب عروس فاروقی واقعہ معراج پر قلم اٹھاتے ہیں تو ایسے جیسے اس سفر کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہے ہوں


آئے جبریل جنت سے لیکر براق

چلیے ؛ ملنے کا مشتاق رحمن ہے

ایستادہ ادب سے فلک پر ملک

انبیا کو زیارت کا ارمان ہے

منتظر ان کی آمد کی حوریں تمام

پیکر شوق ہر ایک غلمان ہے

وہ فراز ِ "دنا" پر ہوئے جلوہ گر

واہ کیا مرتبہ ، واہ کیا شان ہے


درجہ بالا اشعار کے دوسرے مصرعے میں "چلئے " ایک غیر معمولی "سٹروک " ہے ۔ جو قاری کو منظر کا حصہ ہی بنا دیتا ہے ۔ اس طرح ایک جگہ حضرت ابوبکر صدیق کا واقعہ ایثار بیان کرتے ہوئے لفظ "لیجے " کے ساتھ قاری کو اٹھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کردیا


کہا مصطفی نے " جو بن پڑے ، کرو خرچ دین کے واسطے "

کہا یار غار نے "لیجئے : مرے گھر کا جتنا بھی مال ہے "


عروس فاروقی کی شاعر ی میں بصری امیجز کا اتنا غلبہ ہے کہ ایک آدھ مصرع سمعی یا حسی پیکر کا آبھی جائے تو اگلے ہی لمحے بصری پیکر پلٹ آتا ہے


ہر سمت ہیں صدائے میلاد ہو مبارک

ہر کوئی کہہ رہا ہے ، لجپال آرہے ہیں

کانوں میں پڑ نہ جائے آواز "مرحبا " کی

ابلیس کے حواری ، سر کو چھپا رہے ہیں


درج بالا اشعار کے پہلے مصرعے سمعی پیکر لئے ہوئے ہیں اور دوسرے مصرعے بصری پیکر۔


نعت گو شاعر ہواور آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مضمون نہ باندھے؟عروس فاروقی کی شاعری میں سرکار کی آمد پر بھی ایسی ہی دلکش تصویر آفرینی نظر آتی ہے ۔


پل میں تاریکیاں چھٹیں ساری

اس طرف چار سمت نور آئے

ان کی رحمت سے فصل پکتی ہے

ان کے صدقے شجر پہ بور آئے

پھول طالب ہے ان کی خوشبو کا

سائل حسن بن کے ، حور آئے

جو بھی سنتا ہے جھوم اٹھتا ہے

محو مدحت ہے نعت خواں تیرا


"الغیاث " کے مطالعے سے مجھے تو ایسا لگا کہ عروس فاروقی بصری پیکروں کے شاعر ہیں جو دیکھا ، دکھایا اور ابھی مزید دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس خواہش میں تو ہم سب ان کے ہمنوا ہیں ۔


رخ سے پردہ اٹھا دو شہ ِ دو سرا

چہرہ نوری دکھا دو شہ ِ دوسرا

جلد سے جلد طیبہ کا راہی بنو ں

ہر رکاوٹ مٹا دو شہ دو سرا

تیرگی میں بکھر جائے گی چاندنی

تم ذرا مسکرا دو شہ ِ دو سرا

۔۔۔۔


اللہ کریم اس سعادت سے بہرہ مند فرمائے ۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
کتابوں پر تبصرے
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات