صبح آشنائی - امین راحت چغتائی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


تحریر: امین راحت چغتائی

کتاب: نور نہایا رستہ

صبحِ آشنائ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پروفیسر اسلوب احمد انصاری فرماتے ہیں کہ’’ حقیقت کا ادراک دو طرح ممکن ہے۔ایک طرف علم و منطق کے وسیلے سے اور دوسری طرف کشف و وجدان کی روشنی میں۔‘‘اور جلیل عالی کے بارے میں قیاس ہے کہ اس پر ’’نور نہایا رستہ‘‘ کی طویل نعت بھی کسی ایسی ہی وجدانی کیفیت میں نازل ہوئی ہے ۔یہی نہیں بلکہ نعت پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ کہی نہیں گئی ،کہلوائی گئی ہے ۔بارَکَ اللہ!


جلیل عالی ہمارے صاحبِ اسلوب شاعر ہیں جواردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں فکرو فن کے جوہردکھاتے رہتے ہیں ۔میاں محمد بخش کے سیف الملوکی لہجے سے خاص رغبت رکھتے ہیں جواہلِ دل کو لُوٹ لیتا ہے۔ اور جہاں تک عبدہ‘ ؐکے مقام کا تعلق ہے اس سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔انہوں نے اپنے نعتیہ کلام کو ’’نور نہایا رستہ‘‘ کا علامتی نام دے کر بھی رب العزت سے جھولی بھربھر خیر و برکات سمیٹ رکھی ہیں ۔بلا شبہ نعتوں کے مجموعے کوایسا بے مثل نام کسی اور نے آج تک نہیں دیا ۔


جلیل عالی کی نعت پڑھتے وقت پروفیسر اسلوب احمد انصاری ایک بار پھر یاد آئے۔وہ کہتے ہیں کہ’’کسی ادبی کارنامے میں اقدار کا ایک نظام،انفرادی تخلیقی تجربہ اور لسانی ڈھانچہ ہونا ضروری ہے۔‘‘اور زیرِ نظر کلام میں یہ تینوں باتیں موجود ہیں۔مثلاً مسلّمہ اخلاقی و ادبی عوامل کی مربوط ہیئت پیشِ نظر ہو تویہ شعر پڑھ لیجئے۔


دسترس اسؐ کی نگاہوں کی کراں تا بہ کراں وہؐ تجسس کے لئے آخری منزل کا نشاں


انفرادی تخلیقی تجربہ تو بذاتِ خود ایک مفصل مضمون کا متقاضی ہے۔لیکن شعر میں ’’سمٹے تو دلِ عاشق ، پھیلے تو زمانہ ہے‘‘ کی کیفیت دیکھنا مقصود ہو تو عالی کے یہ شعر ملاحظہ فرمائیے۔

دنیا کیا تسخیرے مجھ کو

شوق تراؐ تعمیرے مجھ کو


تیرےؐ دھیان کے اپنے موسم

کیسے وقت اسیرے مجھ کو


اور لسانی ڈھانچے میں سلیقہ و قرینہ دیکھنا ہو تو پوری طویل نعت پیش کی جا سکتی ہے ۔جس کاتفصیل سے ذکر آئندہ سطور میں آرہا ہے ۔مگر ایک بات طے ہے کہ جلیل عالی کا اسلوبِ دعا و نعت روایتی استدعا اور اظہارِ عقیدت سے مختلف ہے ۔شاعر کی سوچ اور اس کے بیان میں ایسا قرینہ ہے جو خلقی طور پر باطن کی دین ہے ۔لیکن یہ ماجرا بھی عجیب و غریب ہوتا ہے ۔سوچ اندرونی و بیرونی اثرات کے دبائو سے رفتہ رفتہ نکھرتی رہتی ہے مگر روح کی بالیدگی سے مشروط ہو کر۔پھر یہی بالیدگی ’’خبر‘‘ کو ’’نظر‘‘ بنادیتی ہے اور شاعر کو اظہار کا مختلف ڈھانچہ عطا کر کے اس سے ایسے اشعار کہلواتی ہے۔

منکشف کر سوچ سے پہلے کی بات

لفظ سے آگے رسائی دے مجھے


دل تہوں میں کوئی سرگوشی اُگا

فصلِ صبحِ آشنائی دے مجھے


لامکاں بھی آنکھ پتلی میں کھِلے

وہ نگاہِ ماورائی دے مجھے


یوں آرزو اور رنگِ آرزو دونوں بدل جاتے ہیں اور شاعر بڑے قرینے سے عرض پرداز ہوتا ہے کہ تو نے توفیقِ تجسس تو بخش دی مگر خیرِ عرفانِ حقیقت کی بھی التجا ہے۔یہ بہت بڑی بات ہے کہ اسے توفیقِ تجسس جس ہستی ؐ کے حوالے سے ملی ہے اس حوالے سے خالقِ کائنات اس کے حرکیاتی نظام کی معروضی تفہیم بھی چاہتا ہے ۔یہ نعت کا وہ رنگ ہے جو عصری نعت نگاروں کے حصّے میں کم کم آیا ہے۔عالی مربوط فکر و عمل کے شاعر ہیں ان کی نعتیہ شاعری گہری بصیرت مگر سبک الفاظ کے سہارے آگے بڑھتی ہے اور ایک ایسی فضا تخلیق کرتی ہے جس میں تحرک بھی ہے اور یقینِ محکم بھی ۔


نتیجتاً حاصل کا در یوں وا ہوتا ہے۔


وہ ؐ عشق ہے عرفاںہے، وہؐ عقل ہے برہاں ہے

ہر فکر و عمل اسؐ کا، آئینۂ قرآں ہے

سانسیں ہیں رواں اسؐ سے، سینے میں اذاں اسؐ سے

وہ ؐ روز و شبِ دل ہے ، وہؐ تاب و تبِ جاں ہے

جلیل عالی کی شعری جمالیات میں بھی ایک انوکھا پن موجود ہے ۔مثلاً دل زمینوں میں صدق و صفا اُگانا،ریگ زارِ حیات کو پھول پھول کرتا تبسم،دیے جلاتی شفیق پلکیں، خبرخساروںکے جنگلوں میں خیر خوشبو،فصلِ صبحِ آشنائی،لامکاں کا آنکھ پتلی میں کھِلنا اور نور نہایا رستہ ایسی دلآویز اور رعایتِ لفظی سے آراستہ تراکیب فکر و فن دونوں کو ایسا سرور بخشتی ہیں کہ قاری بے اختیار پکار اٹھتا ہے،’’نگاہے! یارسولؐ اللہ نگاہے!‘‘


جلیل عالی کی نعت میں سرکارِ دو عالمؐ سے اظہارِ محبت میں ایک پہلو ’’شدّت‘‘ کا بھی ہے جو ایمان کی پختگی اور سوزِ دروں سے عبارت ہے۔ایمان کی پختگی تو اپنے آپ کو قولاً و فعلاً کلمۂ طیبہ کے سپرد کر دینے کا نام ہے لیکن سوزِ دروں تو اُس کششِ فیضِ نگاہ سے پیدا ہوتا ہے جو شاعر کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔


دل شاد ہیں ہر درد کی شدّت سے زیادہ

کیا چاہئے اور اسؐ کی محبت سے زیادہ

یہ سچ ہے کہ ہم اسؐ کی پرستش نہیں کرتے

رہتا ہے مگر دل میں عبادت سے زیادہ


یا


اسم جس آن تراؐ لوحِ زباں پر لَو دے

سنگ سینے میں پگھل جائیں انائوں والے


اس کو اقبال ’’جہانِ عشق و مستی‘‘ کا نام دیتے ہیں یہ انجذاب و اتصال کی کیفیت ہے ۔لیکن اس کے لئے بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’پروردگار جس کو یہ نعمت عطا کر دے‘‘الحمد للہ! جلیل عالی اس کیفیت کی منازل طے کر رہے ہیں۔


اس پس منظر میں ہم حاصلِ کلام ’’جگمگ نور نہایارستہ‘‘والی نعت کی طرف آتے ہیں۔جو مناجات کے اسلوب میں کہی گئی ہے تو یہاں وہی سوزِدروں لبِ عجز و نیاز بن گیا ہے ۔قصیدے کی تشبیب والے اسلوب سے بھی کام لیا گیا ہے۔یاد کیجئے کہ تشبیب کالفظی معنیٰ’’ آگ سلگانا‘‘ یا ’’ عشق کا بیان‘‘ ہے۔جلیل عالی کے فن کی خوبی یہ ہے کہ وہ جذبات کی فراوانی میں بھی اپنا لہجہ دھیمہ رکھتے ہیںاور شعر کو مقامِ اطاعت سے آگے بڑھنے نہیں دیتے۔عشق ومستی کے تقاضے اپنی جگہ مگرانہیں احساس ہے کہ حضوؐرختمی مرتبت شارع علیہ السلام ہیں۔انہوں نے نناوے اشعار کی نعت نما مناجات میں حضوؐر کے متعین کردہ رستے کے اتنے پہلو اجاگر کر دیئے ہیںکہ قدم قدم پر فکر ونظر کے چراغ جل اٹھے ہیں۔میاں محمد بخش کے لہجے نے بھی کام کیا ہے جس سے تا حدِ نظر ’’نعتِ محمدؐوالا رستہ‘‘ کھلتا چلا جاتا ہے۔اور شاعر کے ساتھ قاری بھی سراپا التجا بن کر دوہراتا چلا جاتا ہے۔


مجھ پر کھول خدایا رستہ

نعتِ محمدؐ والا رستہ،


جہل کے گھور اندھیروں اندر

جگ مگ نور نہایا رستہ


دُور کرے سب دہر خسارے

خیر و برکت والا رستہ


اُسؐ کے لحن میں چپ صحرائوں

پیار کی بولی بولا رستہ


جلیل عالی کی تمام نعتوںکی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس کا موضوع اجتماعیت سے متصف ہے۔یعنی


اُسؐ نے تمام زمانوں خاطر

راتوں جاگ کے سوچا رستہ


اور ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب وہ وفورِ عقیدت میں کہتا چلا جاتا ہے کہ کیسا رستہ!نعتِ محمدؐ والا رستہ! سینوں بیچ بنایا رستہ!شب زاروں میںدمکا رستہ!سیدھا رستہ! سادہ رستہ!اسی اثنا میں ’’سیف الملوکی لَے‘‘ اسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔اور وجد کے عالم میں اس پر نزولِ شعرشروع ہو جاتا ہے۔


اللہ! اللہ! آقاؐ! آقاؐ!

کیسی منزل، کیسا رستہ


اللہ! اللہ! آقاؐ! آقاؐ!

واحد منزل، تنہا رستہ


اللہ! اللہ! آقاؐ! آقاؐ!

اپنی منزل، اپنا رستہ


اللہ! اللہ! آقاؐ! آقاؐ!

منزل منزل، رستہ رستہ


دم قدم قرباں دل اس ؐ پر

جس کے وسیلے پایا رستہ


ذکراً کثیراً،فرمانِ خداوندی ہے ۔نقشبندی سلسلے کا وصفِ خاص ہے۔ اسے تطہیرِ قلب کے لئے پڑھا جاتا ہے اور اس کا ایک مخصوص ’’آہنگ ‘‘ہے۔اہلِ طریقت ایک دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں۔دائرہ کائنات کی علامت ہے جسے ذکرِکردگار اپنے احاطے میں لے لیتا ہے۔ ذکر کا آغاز آہستہ آہستہ ہوتا ہے ۔پھر تیز اور پھر تیز تر۔ یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہتا ہے ۔اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’’ اللہ ہُو‘‘ کی ضرب براہِ راست دل پر پڑ تی ہے۔علائقِ دنیا موقوف ہوگئے ہیںاور ذاکر ہوا کی طرح سبک خرام ہو گیا ہے ۔وہ ذکر کے اختتام پر بھی’’اللہ ہُو‘‘ کی ضرب کچھ دیر تک اپنے دل پر محسوس کرتا رہتا ہے۔یہ مشق جاری رکھی جائے تو تطہیرِقلب کا سامان ہو جاتا ہے اور ساری کائنات ’’آنکھ پتلی‘‘ میں سما جاتی ہے۔


مذکورہ نعت کے آہنگ میں بھی یہی ’تکنیک ‘استعمال کی گئی ہے اور شاید کسی طویل نعت کے ردھم میں یہ ہنروری پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے۔


جلیل عالی ہوش سے نعت کہنے والے شاعر ہیں۔آدابِ رسالت ہمہ وقت پیشِ نظر رہتے ہیں ۔بارگاہِ رسالت میں استدعا کے لئے شایانِ شان الفاظ کا انتخاب ،آسان و ملائم اسلوبِ اظہار ،عجز و انکسار کا شعاران کی نعت کے خصوصی اوصاف ہیں ۔ان کے مقام آشنا شاعر ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کہ وہ زیرِ نظر نعت کے اختتام پر بھی کہتے ہیں


دُھول رہوں اُس ؐ کے قدموں کی

اور ہے باقی جتنا رستہ


کیا عجب یہی نعت جلیل عالی کا توشۂ آخرت بن جائے۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
کتابوں پر تبصرے
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات