اُردو کے سکھ نعت گو شعرا ، فاروق ارگلی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

فاروق ارگلی۔انڈیا


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Farooq Argali has introduced some Sikh poets who wrote Naatia poetry besides general poetry. The article carries various examples of devotional poetry that was written with deep sense of love of Prophet Muhammad (S.A.W). It is seen with sense of pleasure and astonishment that various couplets denote higher sense of literary cannons and knowledge of Islamic norms and traditions. Some couplets reflect so much higher waves of love and light of Islamic knowledge that a reader thinks the same are written by Muslim Poets. Farooq Argali has also given an outline history of Naatia poetry done by Sikh Poets in Indo-Pak.

اردوکے سکھ نعت گو شعرا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں

صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں

محسنِ انسانیت رحمت عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذاتِ گرامی سے عشق کے ولولے میں یہ شعر کہنے والا شاعر کوئی اور نہیں اردو زبان،ادب اور تہذیب کی نمایاں شخصیت ،عالمی شہرت یافتہ شاعر آنجہانی کنور مہندر سنگھ بیدی تھے۔بیسویں صدی میں برصغیر ہندوپاک کے اُردو منظر نامے پر بیدی صاحب کانام ہمیشہ ممتازو مفتخر رہے گا۔ تقسیم کے ہاتھوں اُجڑی ہوئی اُردو کی راجدھانی دلّی کے ایوانِ شعر وسخن کو پھرسے آباد کرنے اور سجانے میں ان کا تاریخ ساز کردار اُردو دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔آزادی کے بعد شگستگی اورمایوسی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی اُردو زبان کواپنی سرگرم ہمہ جہت شخصیت ،بے پناہ علمی وسماجی بصیرت اور شعر وادب کی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ سنبھالا دیتے ہوئے وہ ہندوستانی اُردو ادیبوں اورشاعروں کے سردار بن گئے۔آزادی کے بعد برصغیر ہندوپاک ہی نہیں دیارِ غیر میں بھی اُردو کی بزم آرئیاں اور پر شکوہ مشاعرے کنور صاحب کی شرکت ،قیادت اور نظامت کے بغیر نامکمل سمجھے جانے لگے ۔گزشتہ بیسویں صدی کی آخری پانچ دہائیوں میں وہ اُردو زبان ،ادب اور تہذیب کے محافظوں کی اگلی صف میں نمایاں رہے۔کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کی غزلیہ شاعری اپنی برجستگی ،حسن بیان اور روایتی شائستگی و پاکیزہ خیال آرائی کے لئے مشہور ومقبول ہے ۔

کنور صاحب کا نسبی تعلق حضرت بابا گرونانک سے ہے۔ان کا جنم غیر منقسم پنجاب کے شہر منٹگمری (اب سا ہیوال)میں 9 مارچ 1909ء کو ہوا انھوں ۱۹۲۶ء میں گورنمنٹ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی۔ان کا خاندان مذہبی ،سماجی، اقتصادی طور پر پورے پنجاب میں مؤقر اور معزز تھا۔اس زمانہ کے دستور کے مطابق ان کی بنیادی تعلیم اُردو اور فارسی میں ہی ہوئی ۔مطالعہ کا شوق بچپن میں تھا۔کالج کے زمانے سے ہی شاعری کاشوق ہوگیا ۱۹۲۳ء میں جب وہ فرسٹ ائر میں تھے ،پہلی غزل کہی۔مشاعرہ میں وہ کسی کے شاگرد نہیں بنے البتہ ۱۹۳۴ء میں سرکاری ملازمت میں بطور مجسٹریٹ آنے کے بعدوہ دہلی کے قریب سونی پت میں تعینات ہوئے تو دہلی سے رشتہ استوار ہوا نواب سائلؔ دہلوی ،بیخود دہلوی،امرناتھ ساحردہلوی ،جوش ؔ ملیح آبادی ،پنڈت ہری چند اخترؔ اور جگر ؔ مراد آبادی جیسے عظیم المرتبت شاعروں سے نزدیکیاں بڑھیں تو ان کی شاعری اور فکر کو بھرپور روشنی ملی۔ان کی غزلیہ شاعری میں جگرؔ مراد آبادی اور حسرتؔ موہانی وغیرہ کارنگ وآہنگ ہے۔شخصی طور پر کنور صاحب انتہائی کشادہ دل،بامروّت، خوش مزاج اوراعلیٰ انسانی قدروں میں یقین وایمان رکھنے والے انسان تھے مذہبی تنگ نظری سے وہ بہت دور تھے۔انھوں نے ۱۹۴۷ء کی قیامت صغریٰ میں جب دہلی اور مشرقی پنجاب میں ان کی ہی قوم نے مسلمانوں پرسب سے زیادہ مظالم ڈھائے تھے،کنور صاحب اپنے اعلیٰ سرکاری عہدے کی مدد سے پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں کی حفاظت میں لگے رہے انھوں نے پنجاب اور خاص طور پر دہلی میں ہزاروں مسلمانوں کی جانیں بچائیں ۔کنور صاحب نے زندگی کے ہر موڑ پرعملی طور پر ثابت کیاکہ وہ مشترکہ گنگا جمنی تہذیب اوراُردو زبان وادب کی شاندار اقدار وروایات کے امین و علمبردار ہیں۔کنور صاحب نے اسلامی تاریخ اور دینی علوم کا گہرا مطالعہ کیاتھا۔پیغمبر انسانیت حضور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی سیرتِ مقدسہ سے بیحد متاثر تھے،اپنے اس احساس کو شعر کے قالب میں ڈھالنے کے لیے انھوں نے حضور اکرم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عقیدت ومحبت سے لبریز متعدد نعتوں کی تخلیق کی۔انھوں نے سرکارِ دوعالم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے اپنی بے پناہ عقیدت کے اظہار میں جو مسدس کہی تھی اس کایہ بند پوری دنیائے اُردو میں پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں اتر گیا،فرماتے ہیں:

ہم کسی دین کے ہوں ، صاحبِ کردار تو ہیں

ہم ثنا خوانِ شہ حیدرِ کرار تو ہیں

نام لیوا ہیں محمد کے پرستار تو ہیں

لیک مجبور پئے احمدِ مختار تو ہیں

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں

صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں

کنور صاحب کی یہ نعت آج بھی ہزاروں گھروں میں عقیدت ومحبت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے

تکمیل معرفت ہے محبت رسول کی

ہے بندگی خدا کی امانت رسول کی

تسکینِ دل ہے سرورِ کون و مکاں کی یاد

سرمایۂ حیات ہے الفت رسول کی

انسانیت محبتِ باہم شعور و فکر

جو چیز بھی ہے سب ہے عنایت رسول کی

ہے مرتبہ حضور کا بالائے فہم وعقل

معلوم ہے خداکو ہی عزت رسول کی

ترتیب دی گئیں شبِ اسریٰ کی خلوتیں

صلّ علیٰ یہ شان یہ عظمت رسول کی

فرمانِ ربِ پاک ہے فرمانِ مصطفی

احکامِ ایزدی ہیں ہدایت رسول کی

اتنی سی آرزو ہے بس اے ربِ دو جہاں

دل میں رہے سحر ؔ کے محبت رسول کی

وہ جسمانی طور پر مدینہ منورہ کی زیارت نہیں کرسکتے تھے لیکن ان کا دل ہمیشہ اس آرزو میں غلطاں رہا کہ کاش کوئی ایسی سبیل ہوجائے کہ کم سے کم ان کی روح مدینہ طیبہ جا کردربارِ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم گنبدِ خضریٰ کا دیدار کرسکے۔یہ نعت شریف پڑھئے اور محسوس کیجیے ایک غیر مسلم عاشق رسول کے دل کی تڑپ :

مقدروں سے جو یہ اہتمام ہو جائے

کہ میری روح کا طیبہ مقام ہو جائے

جو کام عشقِ نبی میں تمام ہو جائے

حصولِ لذتِ کیف دوام ہو جائے

یہی ہے ایک تمنائے زندگیِ عدم

حریم پاک میں عرضِ سلام ہو جائے

وصول ہو جو اجل سے پیام ہو جائے

زباں پہ جاری محبت کانام ہو جائے

یہ آرزو ہے مدینے پہنچ کے اے مولیٰ

نثار روضہ پہ ادنیٰ غلام ہوجائے

سبب شفاعتِ مولا کا ہو تو کیا کہنا

گناہ قابلِ صد احترام ہوجائے

وفورِ شوق میں روضے کے سامنے گرنا

مرارکوع ، سجود و قیام ہو جائے

حبیبِ پاک بلا لیں اگر مجھے تو سحرؔ

مری رسائیِ طالع کا نام ہو جائے

عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم میں سرشار شاعر کاتصور اس کی روح اور تحت الشعور کو مدینہ کے پاک راستے پر لے چلتا ہے ۔من کی آنکھوں سے دیارِ محبوب دکھائی دینے لگتا ہے تو بے اختیار اس کے دل سے یہ آواز نکلتی ہے:

بلندی پہ اپنا نصیب آگیا ہے

درِ پاک مولیٰ قریب آگیا ہے

مریضانِ غم کا طبیب آگیا ہے

کہ اے دل مدینہ قریب آگیا ہے

اُدھر روضۂ شہر اِدھر بے قراری

یہ موقع بھی کیسا عجیب آگیا ہے

نکلنے کو ہیں دل کے ارماں سحرؔ اب

وہ دیکھو مدینہ قریب آگیا ہے

اُردوکے مقبول ومعتبر شاعر سردار کرپال سنگھ بیدارؔ کا شمار بھی بیسویں صدی کے قادر الکلام شعراء میں ہوتا ہے۔آپ کا جنم 1916ء میں تحصیل ننکا نہ صاحب (اب پاکستان ) میں ہوا تھا۔ آپ کی تعلیم بھی اس دور کے معزز ہندو مسلم سکھ گھرانوں کی روایت کے مطابق اُردو اور فارسی میں ہی ہوئی ۔ انھوں نے نے اپنی محنت اور لگن سے منشی فاضل کاامتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔انھوں نے فارسی ادبیات میں ایم اے کیا ۔آپ کئی برسوں تک سکھ نیشنل کالج میں اُردو کے استاد رہے،تقسیم کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں فارسی کے لکچرر ہوئے۔شعروادب سے دلچسپی اوائل عمر سے ہی تھی ،لاہور کی علمی ادبی اور شعری فضاؤں نے ذہن کو جلا بخشی ،انھوں نے بڑی باوقار اورخوبصورت غزلیں اور فکر انگیز نظمیں تخلیق کیں۔انھوں نے ابتدا میں پنجاب کے استاد شاعر نند کشور اخگرؔ سے اصلاح لی،بعد میں علامہ تاجور نجیب آبادی کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوئے ۔حکومت مشرقی پنجاب نے 1967ء میں ان کی غیر معمولی ادبی جذبات کے اعتراف میں خصوصی اعزاز اور’’شاعر اعظم‘‘کے لقب سے سرفراز کیا۔بیدارؔ صاحب کی شاعری اتنی بلیغ اور ہمہ جہت ہے کہ اس کا تعارف اس جگہ ممکن نہیں،البتہ ایک نعت شریف بطور نمونۂ کلام درج ہے۔اس سے یہ اندازہ مشکل نہیں کہ وہ کس اعلیٰ معیار کے سخنور تھے۔1967ء میں وہ دُنیا سے رخصت ہوئے لیکن اُردو تاریخ میں ان کانام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔پیش ہیں سردار کرپال سنگھ بیدار صاحب کی والہانہ نعت شریف کے چند اشعار :

اے کہ تجھ سے صبح عالم کو درخشانی ملی

ساغرِ خورشید کو صہبائے نورانی ملی

اے کہ انوارِ حقیقت سے بنا پیکر ترا

حیرتِ آئینۂ تخلیق ہے جو ہر ترا

اے کہ تیری ذات سے پیدا نشانِ زندگی

اے کہ تیری زندگی سرِّ نہانِ زندگی

اے کہ تجھ پہ آشکارا راز ہائے کائنات

تیری ہستی ابتداء و انتہائے کائنات

اے کہ تیرے رُخ کی تابش سے فضا پر نور ہے

تیری خاکِ پا کا ہرذرّہ حریفِ طور ہے

آسمانی عظمت و تقدیس کا مظہر ہے تو

مختصر یہ ہے خدا کاخاص پیغمبر ہے تو

ڈاکٹر ستنام سنگھ خمار ؔ کانام نامی بیسویں صدی کے اُردو شعرا میں خصوصی اہمیت کاحامل ہے 1935ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد سردار سرجن سنگھ کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب ستنام سنگھ صرف بارہ سال کے تھے ۔تقسیم سے قبل ہی وہ فا ضلکا آگئے تھے۔ان کی تعلیم یہیں مکمل ہوئی،انھوں نے خالصہ کالج سے پوسٹ گریجویٹ کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیو رسٹی سے اُردو ادبیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور این سی ای آرٹی سے وابستہ ہوگئے۔انھوں نے نثری اور شعری ادبیات کا گہرا مطالعہ کیاتھا،لیکن شاعری اس وقت شروع کی جب وہ اعلیٰ سرکاری ملازمت میں آکر فراغت کی زندگی بسر کرنے کے قابل بن چکے تھے۔کلاسیکی غزل کے میدان میں ان کی تخلیقات نے عام وخاص ہر طبقے سے داد وتحسین حاصل کی۔این سی ای آرٹی کی ملازمت کے بعد وہ ویس کالج میں نفسیات کے استاذ مقرر ہوئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔شاعری شروع کرنے کے بعد سے اکیسویں صدی کے آغاز تک اپنی پر بہار شاعری سے چمنستانِ اُردو کو مہکا کر دُنیا سے رخصت ہوئے۔غزل اور نظم کے علاوہ دیگر اصنافِ سخن میں انھوں نے خوب خوب طبع آزمائی کی ، خاص طور پر نعت رسول اور مراثی ،سلام و منقبت میں انھوں نے خوب خوب اپنی وسیع القلبی اور فطری سوز وگدازکے مظاہر پیش کیے ہیں ۔ خمارؔ صاحب ایک نعت شریف میں ہادیِ دوعالمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی مدح میں اس طرح رطب اللسان ہیں:

حجاب دل میں نہیں چہرے پر نقاب نہیں

شعورِ عشقِ محمد ترا جواب نہیں

میں پُرخطا ہوں گنہگار ہوں بہت لیکن

مجھے یقین ہے مٹی مری خراب نہیں

سخی تواور بھی ہیں آپ کی حکومت میں

مگر حضور کی بخشش کا بھی جواب نہیں

فضیلتوں کا عمامہ پہن کے تو آیا

کمال و فضل میں تیرا کوئی جواب نہیں

وہ ننگے پاؤں ہے کیوں کر چلے گا کانٹوں پر

نبی کا عشق اگر اس کا ہم رکاب نہیں

خمارؔ دور سے ان کا کروں گا نظارہ

انھیں قریب سے دیکھوں نظر میں تاب نہیں

معروف روحانی ،سماجی اور علمی شخصیت صوفی سنت درشن سنگھ دُکل مرحوم کے بارے میں اُردو دنیا کا ہر خاص وعام واقف و آگاہ ہے کہ آپ ساون کرپال روحانی مشن کے سربراہ اور پیشوا کی حیثیت سے مشہور زمانہ ہیں۔آپ کے لاکھوں مرید پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں آپ نہ صرف ایک صوفی صافی بزرگ تھے بلکہ اُردو کے نہایت مقبول شاعر اور دانشور بھی تھے۔کئی مجموعوں کے خالق درشن سنگھ دُکل صاحب شاعری میں صوفی غلام مصطفی تبسم اور شمیم کرہانی سے مشورۂ سخن فرماتے تھے۔آپ کی ولادت 1931ء میں ہوئی ۔عربی ،فارسی،اُردو،ہندی ،پنجابی اور انگریزی زبان کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے مرکزی حکومت ہند میں ڈپٹی سیکریٹری کے عہدے پر فائز بھی رہے ۔لیکن پھر وہ اپنے والد محترم سنت کرپال سنگھ جی مہاراج کے جانشین اورعالمی روحانی مشن کے سربراہ بن گئے ،شاعری انھوں نے ۳۸ برس کی عمر میں شروع کی ،ان کا کلام روحانی تعلیم ،فلسفہ تصوف اور اعلیٰ انسانی قدروں کا آئینہ ہے تین گرانقدر مجموعے ’جادۂ نور ‘، ’تلاشِ نور‘،اور ’منزلِ نور‘ آپ کی یادگار ہیں۔احترامِ کل مذاہب سنت صاحب کا نصب العین اور فطری مزاج تھا۔خوبصورت نعتیں اور منقبتیں کہی ہیں۔بطور نمونہ سنت درشن سنگھ صاحب کے چند نعتیہ اشعار دیکھئے اورایک غیر مسلم صوفی سنت کی محاسنِ انسانیتصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے عقیدت ومحبت کا اندازہ کیجیے :

روح انساں کو حقیقت سے ملانے والے

مرحبا نغمۂ توحید سنانے والے

دَور پر دَور چلے بادۂ اخلاص کا پھر

منتظر بیٹھے ہیں سب پینے پلانے والے

کردے بیدار ذرا پھر سے ضمیر انساں

خوابِ غفلت سے زمانے کو جگانے والے

خاکِ پا کو تری اے نورِ خدا کے حامل

سرمۂ چشم بناتے ہیں بنانے والے

ہم فقیروں پہ بھی ہوجائے ترا لطف و کرم

بار ہنس ہنس کے غریبوں کا اُٹھانے والے

لو لگا ئے ہوئے بیٹھے ہیں گزرگاہوں میں

نقشِ پاکو ترے آنکھوں سے لگانے والے

بختِ درشنؔ پہ بھی اِک بار نظر ہوجائے

بگڑی تقدیر زمانے کی بنانے والے

سرادر بلونت سنگھ فیضؔ سرحدی آزادئ وطن کے بعد منظر عام پر آنے والے سکھ شعراء میں خصوصی شہرت وقبولیت عام وخاص کے مالک شاعر تھے۔آپ 1962ء میں ڈیرہ اسماعیل خاں کے قصبہ پہاڑ پور میں پیدا ہوئے ۔انھوں نے اردو، فارسی، ہندی، پنجابی، انگریزی اور سنسکرت میں اعلیٰ ترین تعلیمی ڈگریاں حاصل کیں اور حکومت پنجاب کے محکمہ السنہ میں ڈائرکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ کو شعرو شاعری سے ہمیشہ دلچسپی رہی اُردو اور فارس کی نہایت اہم کتابیں جیسے مولانا محمد حسین آزاد کی سخندانِ فارس، حافظ محمود شیرانی کی مشہور تحقیقی کتاب ’پنجاب میں اُردو‘اور گوروگوبند سنگھ صاحب کی گرانقدر فارسی تصنیف ’ظفر نامہ‘ کو پنجابی زبان میں منتقل کرکے بے نظیر علمی کارنامہ انجام دیا فیض صاحب نے دس برس کی عمر سے شاعری کاآغاز کیا تھا۔1947ء سے قبل تلاشِ ملازمت کے دوران لکھنؤ بھی گئے اوروہاں طویل مدت تک قیام رہا۔ لکھنؤ کے استادشاعر فضل لکھنوی سے تلمذاختیار کیا جس سے ان کی غزل گوئی بہت نکھر گئی انھوں نے خوبصورت عشقیہ غزلیات کے ساتھ ہی ہرقوم وملت کے مذہبی پیشواؤں کی شان میں نظمیں لکھیں ،لیکن حمد و نعت ،منقبت اور مراثی میں انھوں نے خاص طور پر بہترین تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ایک نعت شریف کے چند اشعار سے ان کی شاعرانہ مہارت اور بلندئفکر کااندازہ ہوتا ہے:

مالکِ جلوۂ حق،حامیِ ایماں احمد

تو ہی اسلام کی کشتی کا نگہباں احمد

تیرے ہی جلوؤں سے توحید کا پرچم چھایا

تیری ہی ذات سے احمد ہے نمایاں احمد

تیرے اخلاق نے قدرت کو سدھایا ایسا

آدمی پہلے تھا اب ہوگیا انساں احمد

آج اسلام ہی اسلام جہاں میں ہوتا

آپ کے حکم پہ چلتا جو مسلماں احمد

آپ کے نام میں اللہ کا آیا ہے لطف

جلوہ وحدت کانہ کیوں کر ہو نمایاں احمد

ناز کیونکرنہ ہو اخلاق ومحبت سے اسے

فطرت فیض ؔ پہ ہے آپ کااحساں احمد

سردار گوربخش سنگھ مخمور جالندھری کانام نامی اُردودنیا کے لئے محتاجِ تعارف نہیں ۔آپ کے والدکانام سردار سیو اسنگھ تھا جو بارہ مولہ (کشمیر ) کے باشندے تھے ۔مخمورؔ جالندھری کی پیدائش 1953ء کو بارہ مولہ میں ہوئی لیکن آپ کی تعلیم و تربیت جالندھر میں ہوئی اس لیے جب کالج کے زمانے میں لکھنا پڑھنا اور شاعری شروع کی تو مخمورؔ جالندھری ہوگئے۔ مخمورؔ جالندھری سوشیالوجی میں ایم اے کرنے کے بعد حکومت پنجاب کے محکمہ صحت میں ملازم ہوگئے،لیکن شعروادب سے بے پناہ دلچسپی آخرتک قائم رہی۔شاعری میں علامہ سیمابؔ اکبرآبادی اور دل شاہجہاں پوری سے اصلاح لی۔نظریاتی طور پروہ ترقی پسند شاعر تھے سماجی موضوعات پران کی نظمیں بیحد معیاری اور اثرانگیز ہیں۔ مخمورؔ جالندھری بہترین نثرنگار بھی تھے،انھوں نے بہت سے طبع زاد ناول لکھے اور لاتعداد ‘رومانی جاسوسی ناولوں کا انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کیا۔ہندوپاک کے رسائل اوراخبارات میں ان کے مضامین مسلسل شائع ہوتے رہے ۔ایک کہنہ مشق صحافی کے طور پر انھوں نے دہلی کے روزنامہ ’ملاپ‘ میں کام کرکے اپنی پہچان بنائی۔زندگی کے آخری برسوں میں انھوں نے ہندی میں کرنل رنجیت کے فرضی نام سے ایک بڑے پبلشنگ ادارے کے لیے دلچسپ جاسوسی ناول بھی لکھے،بحیثیت مجموعی گورنجش سنگھ مخمورؔ جالندھری ایک ہمہ صفت انسان تھے ،یکم جنوری 1979ء کو ان کا انتقال دہلی میں ہوا ۔حیرت ہے کہ مخمور جالندھری ایک ترقی پسند اور بے باک حقیقت نگار شاعر کی حیثیت سے اردو دنیا میں جانے جاتے تھے۔ہمارے اکثر مسلمان ترقی پسند شعراء خود کو مذہب ومسلک سے بالاتر دِکھانے کے لیے حمدونعت سے گریز کرتے رہے ہیں یا پھرانھیں اس کارِ نیک کی توفیق ہی نہیں ہوئی،لیکن مخمور جالندھری نے مزاجاً اشتراکی اور ترقی پسند ہوتے ہوئے ایسی نورانی نعت شریف تخلیق کی جس کی مثال ہمعصر بڑے مسلمان شعراء کے یہاں بھی مشکل سے ملے گی۔زبان کاشکوہ ،لہجے کاآہنگ اور پیغمبر اسلام آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے تئیں جذبۂ محبت وعقیدت کا سیلاب ساامنڈ رہا ہے:

پھیلا اُفق پہ نور رسالت مآب کا

ہیبت سے منہ اُترنے لگا آفتاب کا

سیاحِ عرش ، سائرِ کون و مکاں ہے تو

روح الامیں ہے نام ترے ہم رکاب کا

وعدے کا اِک مغنیِ آتش نوا ہے تو

ہر نغمہ کفر سوز ہے تیرے رباب کا

تاروں میں روشنی ہے تو پھولوں میں تازگی

یہ وقت ہے ظہورِ رسالت مآب کا

ظلمت کدوں میں ہیں سحر نو کی تابشیں

یہ فیض ہے ولادتِ حتمی مآب کا

مخمورؔ کیف نوررسالت سے مست ہوں

سب جانتے ہیں میں نہیں خوگر شراب کا

تقسیم وطن کے بعد پاکستان سے ہجرت کرکے ہندوستان تشریف لانے والی نامور اُردو شخصیات میں سردار پورن سنگھ ہنرؔ کا نام نامی بھی شامل ہے۔اُردواخبارات وجرائد کا مطالعہ کرنے والا بیسویں صدی کا سینئر اُردو داں طبقہ ہنرؔ صاحب کے نام اورکام سے اچھی طرح واقف ہے۔آپ کی پیدائش 1904ء میں لاہور میں ہوئی تھی۔آپ نے اُردو اور فارسی میں دسویں جماعت تک ہی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی،اس کے بعد معاشی مشاغل میں مصروف ہوگئے،لیکن مطالعے اور حصولِ علم کا شدید جذبہ ان کے دل میں موجزن تھا۔چناچہ ۳۶ برس کی عمر میں ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا اور تقسیم ملک تک لاہور میں ہی رسالہ ’نیرنگِ خیال‘ اوردوسرے جریدوں میں کام کرکے ادبی صحافت کا شوق پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مشقِ سخن بھی کرتے رہے ۔شاعری شروع سے ہی ان کا پہلا پیاررہی۔لاہور میں اس وقت علامہ تاجور نجیب آبادی نوجوان شعراء کی فنی اور فکری تربیت کے لیے مشہور تھے۔پورن سنگھ ہنرؔ نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا لیکن بہت جلد وہ فارغ اصلاح قرار پائے ۔شاعری میں پورن سنگھ ہنرؔ نے روایتی غزل میں بھی قدماء کی تقلید کے بجائے اپنے لیے بڑی حد تک الگ اسلوب و آہنگ اپنایا ،جیسا کہ خود کہتے ہیں:

تقلید کیوں سخن میں کسی کی کریں ہنرؔ

طبعِ رسا کارنگ جداگانہ چاہیے

ہنرؔ ہلکی پُھلکی شاعری کوصرف لفظوں کا کھیل اور ردیف وقافیہ کی بازی گری سمجھتے ہیں۔ان کی نظرمیں ایسی شاعری محض ہرزہ سرائی ہے:

کیا ہے سوائے ہرزہ سرائی وہ اے ہنرؔ

جس شاعری میں روح نہیں زندگی نہیں

ایسے طرحد ار شاعر کی ایک روح پرور نعت ملاحظہ ہو:

ہر پھول میں ہے نکہتِ سرشارِ محمد

اللہ رے جاں بخشیِ گلزارِ محمد

اب دولتِ کونین کی پروا نہیں مجھ کو

حاصل ہے مجھے دولتِ دیدار محمد

دیکھو تو کہاں میں ہوں کہاں طائرِ سدرہ

مسکن ہے مرا سایۂ دیوارِ محمد

مہر و مہ و انجم ہیں ضیا بار اسی سے

اے صلِ علیٰ تابشِ رخسارِ محمد

مایوس پلٹتا نہیں در سے کوئی سائل

زرپاش ہے زر بار ہے دربارِ محمد

سو عیب سہی مجھ میں مگر یہ تو ہنر ہے

سو جاں سے ہنرؔ میں ہوں خریدارِ محمد

سرادر کرنیل سنگھ پنچھیؔ کا شمار اردو کے صاحبِ طرز شعراء میں ہوتا ہے۔پنچھی ؔ کا جنم غیر منقسم پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں ہوا تھا۔آپ نے اُردو ،پنجابی ،ہندی اور سنسکرت زبانوں میں اپنے ذوقِ مطالعہ سے اچھی دسترس حاصل کی تھی۔ شاعری کاذوق عنفوانِ شباب سے ہی تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ آپ نے غزل اور نظم کے علاوہ تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ آزادئ وطن کے بعدآپ ہندوستان آگئے جہاں آپ نے اخبارات و جرائد میں بھی کام کیا اور بمبئی کی فلمی دُنیا سے بھی وابستہ رہے ۔ انھوں نے کئی فلمیں بھتی پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیں،اداکاری کیں،گیت اور مکالمے بھی لکھے ،آپ کی شاعری خاصی مقبول ہوئی ، ’ٹکڑے ٹکڑے آئینہ‘،’قدم قدم تنہائی‘اور ’ادھورے بت‘ وغیرہ آپ کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے۔پنچھیؔ نے نعت ،سلام اور منقبت کہنے میں بھی بہت مقبولیت حاصل کی ۔ مسلمانوں کے لیے تو خیر اپنے آقا ئے نامدار کی مدحت میں نعت وسلام کانذرانہ پیش کرنا، باعثِ فلاحِ دارین اور وسیلۂ نجات ہے، لیکن فخر کائنات رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذاتِ گرامی میں جو اتھاہ خوبیاں ہیں ،ان کا اثردوسروں کے دلوں پربھی بیحد گہرا پڑتا ہے،لیکن انہی کو توفیق خداوندی نصیب ہوتی ہے جن تک اسلامی تعلیمات اور علوم کی روشنی پہنچی ہو۔سردار کرنیل سنگھ پنچھیؔ کے یہ نعتیہ اشعار دیکھیں،حقانیت اور روحانیت کے نور سے جگمگاتے ہوئے ایسے اشعار یقیناًوہی کہہ سکتا ہے جس کی قسمت میں یہ سعادت لکھی ہو :

جسے بھی خوف ہو روزِ جزا کا

وہ دامن تھام لے خیر الوریٰ کا

دل میں بسا لے دوست عقیدت رسول کی

دن رات تجھ پہ برسے گی رحمت رسول کی

روزِ جزا میں حرفِ عقیدت کے عوض میں

تم پاؤ گے اے مومنو جنت رسول کی

پڑھ کر نماز مومنو قسمت سنوار لو

خوش بخت کو ہی ملتی ہے جنت رسول کی

مدینے اور مکّے کا تبھی دیدار ہوتا ہے

تمنّا تیر بن کرجب جگر کے پار ہوجائے

سمٹ آئے گا خود عرشِ بریں پرواز میں اس کی

اگر پنچھیؔ پہ بھی نگہِ کرم سرکار ہوجائے

اگر شروع سے اب تک تمام نامور زمرہ: سکھ شعراء سکھ شعرائے کرام]] کے نعتیہ کلام کا مختصر اً بھی تذکرہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے ۔اس لیے جگہ کی تنگی کے سبب کچھ ہی شعر ا کااجمالاً ذکر کیا جاسکا ،لیکن یہاں ایک بزرگ سکھ شاعرہ کا تذکرہ کیے بغیر قلم نہیں رُک رہا،جن کا اسم گرامی سردار نی بی ڈی بیگم بوڑھ سنگھ تھا۔یہ اُردو کے نامور شاعر سرادر بوڑھ سنگھ بیر ؔ کی اہلیہ تھیں۔بوڑھ سنگھ بیرؔ اُردو کے نامور شاعر اور پنجاب کی مشہو ر سماجی شخصیت تھے ۔بوڑھ سنگھ بیرؔ امرتسر میں ۳مئی ۱۹۰۵ء میں پیداہوئے تھے۔ان کی شادی ایک ایسے معزز سکھ خاندان میں ہوئی تھی جہاں لڑکیوں کو بھی اُردو ،فارسی کی اعلیٰ تعلیم دلانے کا رواج تھا۔خود بوڑھ سنگھ اُردو ،فارسی اور پنجابی زبانوں کے ماہر تھے ۔انھوں نے دوستی ،امن ،بھائی چارہ اور نیک کاموں کی تلقین کے لیے اپنی شاعری کو وسیلہ بنایا تھا،لیکن ان کی اہلیہ فارسی زبان کی شاعرہ تھیں ۔سردارنی صاحبہ ہندوستانی عورتوں کی بیداری اور تعلیم نسواں کی زبردست مبلغ تھیں۔ان کے فارسی میں کہے گئے چند اشعار دیکھیں۔ہندوستانی عورتوں کی زبوں حالی کا ذکر اورحضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے وسیلے سے ان کی ترقی اور بیداری کی آرزو کااظہار بھی کس عالمانہ اور دردمندانہ انداز میں کررہی ہیں:

وقت بیداری است اے دل زود کن بیدار شو

دور کن انداز غفلت چابک وہشیار شو

خواہرانِ ملک اکنوں حامیانِ عالم اند

تو ہمیں بہرِ خدا کوشاں و خدمتگار شو

فرقۂ نسواں چرا در ہند خواری و ذلیل

زود کن یا حکم یزداں حاکم و سردار شو

آرزوئے جلوۂ دلدار گر بی ڈیؔ تُراست

عرض من دارم نثارِ احمد مختار شو

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات