"نعت میں نظریاتی افکار و خیالات ۔ سراج احمد قادری" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک دوسرے صارف کا ایک درمیانی نسخہ نہیں دکھایا گیا)
سطر 5: سطر 5:
مطبوعہ : [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27]]
مطبوعہ : [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27]]


=== عت میں نظریاتی افکار و خیالات ===
ABSTRACT: Three books have been analyzed in this article in order to evaluate their content in the light of standard fixed to express love with the Holy Prophet Muhammad (Sallallah-o-Alaihe-Wasallam) in poetry. The authors of books Dr. Habib-ur-Rehman Rahimi, Professor Abdullah Shaheen and Dr. Abdullah Abbas Nadvi have delineated examples of expression in the devotional poetry. Professor Abdullah Shaheen has gone beyond his limits in criticizing poets of highly repute. Hence his irrational approach has been highlighted and counteracted by citing examples of poetic versions presented by Dr. Abdullah Abbas Nadvi from literary history of Arabic poetry, besides opinion of sages of Islamic history. The art of recitation of naat has also been made like usual performance art by some Naat Khwaans, causing tarnishing of image of devotional poetry and therefore came under criticism in this article for the sake of bringing sanity.


ABSTRACT: Three books have been analyzed in this article in order to evaluate their content in the light of standard fixed to express love with the Holy Prophet Muhammad (Sallallah-o-Alaihe-Wasallam) in poetry. The authors of books Dr. Habib-ur-Rehman Rahimi, Professor Abdullah Shaheen and Dr. Abdullah Abbas Nadvi have delineated examples of expression in the devotional poetry. Professor Abdullah Shaheen has gone beyond his limits in criticizing poets of highly repute. Hence his irrational approach has been highlighted and counteracted by citing examples of poetic versions presented by Dr. Abdullah Abbas Nadvi from literary history of Arabic poetry, besides opinion of sages of Islamic history. The art of recitation of naat has also been made like usual performance art by some Naat Khwaans, causing tarnishing of image of devotional poetry and therefore came under criticism in this article for the sake of bringing sanity.


=== نعت میں نظریاتی افکار و خیالات ===


نعتیہ ادب کے حوالے سے اس وقت تین اہم کتابیں میرے پیش نظر ہیں۔ اولاً ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی ،جو ان کا تحقیقی مقالہ ہے۔ جس پر ر اجستھان یونیورسٹی، جے پور ، راجستھان نے ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایوارڈکی ہے۔ دوسری ’’ نعت گوئی اور اس کے آداب ‘‘ جو پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب(ایوارڈ یافتہ) کی ادبی و تحقیقی کتاب ہے۔ اور تیسری کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام ‘‘ جو مشہور اسلامک اسکالر ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی(مرحوم)سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلمأ، لکھنؤ و سابق استاذ جامعہ ملک عبدالعزیز ، مکۃالمکرمہ کی ہے۔ تینوں کتابوں کا موضوع صرف اور صرف نعتیہ شاعری ہے۔جب ہم ان کے لکھنے والوں پر ایک گہری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں تینوں حضرات دانشوروں کی صف میں بھی صف بستہ نظر آتے ہیں اس لیے کہ تینوں حضرات کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے ۔ مگر جب ان کی فکری تب و تاب پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان تینوں حضرات کے ما بین بعض مقامات پر افکار و خیا لات میں تفاوت نظر آتا ہے۔اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوے بحث یا گفتگو کا آغاز ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کے تحقیقی مقالہ ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ سے کرتے ہیں ۔
نعتیہ ادب کے حوالے سے اس وقت تین اہم کتابیں میرے پیش نظر ہیں۔ اولاً ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی ،جو ان کا تحقیقی مقالہ ہے۔ جس پر ر اجستھان یونیورسٹی، جے پور ، راجستھان نے ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایوارڈکی ہے۔ دوسری ’’ نعت گوئی اور اس کے آداب ‘‘ جو پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب(ایوارڈ یافتہ) کی ادبی و تحقیقی کتاب ہے۔ اور تیسری کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام ‘‘ جو مشہور اسلامک اسکالر ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی(مرحوم)سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلمأ، لکھنؤ و سابق استاذ جامعہ ملک عبدالعزیز ، مکۃالمکرمہ کی ہے۔ تینوں کتابوں کا موضوع صرف اور صرف نعتیہ شاعری ہے۔جب ہم ان کے لکھنے والوں پر ایک گہری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں تینوں حضرات دانشوروں کی صف میں بھی صف بستہ نظر آتے ہیں اس لیے کہ تینوں حضرات کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے ۔ مگر جب ان کی فکری تب و تاب پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان تینوں حضرات کے ما بین بعض مقامات پر افکار و خیا لات میں تفاوت نظر آتا ہے۔اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوے بحث یا گفتگو کا آغاز ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کے تحقیقی مقالہ ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ سے کرتے ہیں ۔
سطر 436: سطر 436:


٭٭٭
٭٭٭
=== مزید دیکھیے  ===
{{ ٹکر 2 }}
{{باکس مضامین }}
{{باکس 1 }}
{{ٹکر 1 }}

حالیہ نسخہ بمطابق 12:11، 19 ستمبر 2018ء

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

مضمون نگار: سراج احمد قادری

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT: Three books have been analyzed in this article in order to evaluate their content in the light of standard fixed to express love with the Holy Prophet Muhammad (Sallallah-o-Alaihe-Wasallam) in poetry. The authors of books Dr. Habib-ur-Rehman Rahimi, Professor Abdullah Shaheen and Dr. Abdullah Abbas Nadvi have delineated examples of expression in the devotional poetry. Professor Abdullah Shaheen has gone beyond his limits in criticizing poets of highly repute. Hence his irrational approach has been highlighted and counteracted by citing examples of poetic versions presented by Dr. Abdullah Abbas Nadvi from literary history of Arabic poetry, besides opinion of sages of Islamic history. The art of recitation of naat has also been made like usual performance art by some Naat Khwaans, causing tarnishing of image of devotional poetry and therefore came under criticism in this article for the sake of bringing sanity.


نعت میں نظریاتی افکار و خیالات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعتیہ ادب کے حوالے سے اس وقت تین اہم کتابیں میرے پیش نظر ہیں۔ اولاً ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی ،جو ان کا تحقیقی مقالہ ہے۔ جس پر ر اجستھان یونیورسٹی، جے پور ، راجستھان نے ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایوارڈکی ہے۔ دوسری ’’ نعت گوئی اور اس کے آداب ‘‘ جو پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب(ایوارڈ یافتہ) کی ادبی و تحقیقی کتاب ہے۔ اور تیسری کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام ‘‘ جو مشہور اسلامک اسکالر ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی(مرحوم)سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلمأ، لکھنؤ و سابق استاذ جامعہ ملک عبدالعزیز ، مکۃالمکرمہ کی ہے۔ تینوں کتابوں کا موضوع صرف اور صرف نعتیہ شاعری ہے۔جب ہم ان کے لکھنے والوں پر ایک گہری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں تینوں حضرات دانشوروں کی صف میں بھی صف بستہ نظر آتے ہیں اس لیے کہ تینوں حضرات کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے ۔ مگر جب ان کی فکری تب و تاب پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان تینوں حضرات کے ما بین بعض مقامات پر افکار و خیا لات میں تفاوت نظر آتا ہے۔اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوے بحث یا گفتگو کا آغاز ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کے تحقیقی مقالہ ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ سے کرتے ہیں ۔


ڈاکٹرحبیب الرحمن رحیمی صاحب نے اپنا مذکورہ مقالہ ڈاکٹر ریاض الدین ۔شعبۂ اردو راجستھان یونیورسٹی،جے پور کی نگرانی میں قلم بند کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مذکورہ مقالے پر مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی ، مہتمم دارالعوم ندوۃ العلما، لکھنؤ ،مدیر البعث الاسلامی،لکھنؤ ،و پروفیسر عبدالحق ،سابق صدر شعبہ ٔ اردو ، دہلی یونیورسٹی ، دہلی وغیرھم جیسی عظیم شخصیات نے دل نواز نظریاتی مقد مے تحریرکیے ہیں ، پروفیسر عبدالحق صاحب نے تو ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کے مذکورہ مقالے کو ڈاکٹر ریاض مجید ، فیصل آباد کے تحقیقی مقالہ’’ اردو میں نعت گویٔ‘‘ کے بعد دوسری سب سے بڑی کاوش قرار دیا ہے، چناںچہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔


’’یہ میرا ذاتی تاثر ہے اور کسی استصواب کے بغیر عرض کر رہا ہوں کہ ڈاکٹر ریاض مجید (فیصل آباد) کے بعد یہ دوسری سب سے دلاویز پیش کش ہے۔ جس کے لیے میں فخر بے جاکا جواز بھی رکھتا ہوں۔‘‘ ۱؎


نیز آگے چل کر اپنے اسی مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں۔


’’بغیر کسی ادعایت کے عرض کرنا چاہوںگا کہ یہ مقالہ ایک طرح کا د أیرۃالمعارف یا انسایکلو پیڈیا ہے، جس میں نعت شہ کونینؐ سے متعلق ممکنہ معلومات کا ذخیرہ جمع کر دیا گیا ہے ۔ ان کے متعلقات بھی زیر بحث لائے گیٔ ہیں۔ عربی فارسی ، اور اردو کے نعتیہ تحقیق کاروں کو ترتیب کے ساتھ تذکرے میں شامل کیا گیا ہے ۔ بہ صورت دیگر یہ ایک ارتقائی تاریخ کے لیے بھی حوالے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نعت کے اس خو شہ و خر من کے مجموعے کو برق و باراں کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ راقم ان کی کاوش کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہے کہ انہوں نے ادب و انتقاد کو ارجمندی بخشی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہماری کوتاہ بینی نے نعت کو صنف شاعری قرار دینے میں بخل برتا ۔ اگر مثنوی و مرثیہ اصناف شعر تسلیم کیے جا سکتے ہیں ۔ اور نصاب میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ تو نعت سے گریزپائی کیوں ہے؟ تنگ دلی اور ترقی پسندی ہی سنگ راہ بنی ۔ نام نہاد نظریہ اور ایک خاص عقیدے نے اس صنف ادب کو جزو نصاب نہ بننے دیا ‘‘۲ ؎


ڈاکٹر صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ نام نہاد نظریہ اور ایک خاص عقیدے نے اس صنف کو جزو نصاب نہ بننے دیا ‘‘ڈاکٹر صاحب کو اس نام نہاد نظر یے اور اس خاص عقیدے کے لوگوں کی وضاحت و پہچان اپنی اس تحریر میں کر دینی چاہیے تھی جس سے کہ ان لوگوں کامحاسبہ اور محاکمہ کیا جا سکتا ۔ اور میری دانست میں اس حقیقت کا انکشاف توان کو بہت پہلے ہی اہل علم و ادب کے سامنے کرنا چاہیے تھا جس وقت کہ وہ دہلی یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو تھے۔


ڈ اکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کے مقالے کا موضوع ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو تو چاہیے تھا کہ وہ اپنے موقف پر قائم رہ کر نعت گوئی کے موضوعات پر قرآن و احادیث، سیرت ِرسول اکرمؐ اور صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نیز دربارِ رسالت مآبؐ کے ان جلیل القدر شعراے ٔ کرام کے اقوا ل و اشعار سے ان موضوعات کی تحقیق وتفحص کرکے نشان دہی کرتے جس سے کہ عصر حاضر یا بعد کے نعت گو شعرا ٔیا نعت خواں حضرات کو راہ راست کی ضیا ٔ ملتی۔ مگر ایسا نہ کرکے انہوں نے اپنے اس تحقیقی مقالے کو بالکل نظریاتی مقالہ بنا دیا اور گھما پھرا کر وہی باتیں تحریر کی ہیں جو ان کے اپنے من کی بات یا ان کا اپنا خود کا عقیدہ و نظریہ ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ جب ان کو نظریاتی مقالہ لکھنا ہی تھا تو وہ کسی اور موضوع کا انتخاب کرتے۔ اتنے حساس اور نازک موضوع کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تھا ۔ اور اگر توفیق رب سے انہوں نے اس موضوع کا انتخاب کر ہی لیا تھا تو قلم کی دھار کو بہت سنھال کر استعمال کرتے اس لیے کہ نعت نبی اکرم وؐ سے عشاق جہاں کے دل وابستہ ہیں ۔ عشاق رسولؐ کے احساس کا اندازہ میر تقی میر ؔ کے درج ذیل شعر سے کیا جا سکتا ہے ۔ اگر چہ میرؔ صاحب نے اس شعر کو کسی اور مقام کی مناسبت سے تحریر کیاہے ۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا


ڈاکٹر رحیمی صاحب نے مقالے کے چند ہی صفحات کے بعد اپنے دل کی باتیں تحریر کرنا شروع کردیں چناںچہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی مشہور زمانہ نظم

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

کے زمرے میں اظہار خیال کرتے ہوے تحریرفرماتے ہیں۔


’’یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے، اس سے نعت کو مزید عروج اور مقبولیت بھی حاصل ہو ئی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس نعت میں تو مولا ناحالی نے امت کی بددینی اور در پیش مسائل کا ذکر آںحضرتؐ کے حضور کیا ہے۔ مگر بعد میں شعرا ٔاس سے پھسل کر استغاثہ، استمداد اور استعانت تک پہونچ گیٔ،جو قطعی مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔ کیوںکہ اگر کسی سے فریاد کی جا سکتی ہے ۔ کسی سے مدد مانگی جا سکتی ہے تو وہ ذات صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہے۔‘‘ ۳؎


آگے چل کر ڈاکٹر صاحب کا اسلوب نگارش کچھ الگ طرح کا ہی رو پ اختیار کرتاہے اور اپنے مذکورہ تحقیقی مقالے کے باب اول کے اختتامیہ پر تبلیغ و ترہیب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ۔


’’یاد رہنا چاہیٔے کہ براہ راست فریاد کرنا، مدد چاہنا، اور پناہ مانگنا ،( استمداد، استعانت،استغاثہ، استعاذہ) وغیرہ بھی شریعت کے دائرے سے باہر ہیں ۔آپؐ کے توسل اور طفیل سے دعأ مانگنے سے ہی بعض علمأ منع کرتے ہیں تو پھر آنحضرتؐ روز قیامت اپنی امت کی شفارش بھی اللہ رب العزت کے حکم سے ہی فرمائیںگے ۔ بیشک اللہ ہی قادر مطلق ہے اس امر کا ہر وقت لحا ظ رکھنا ضروری ہے ورنہ شاعر اور شاعری دونوں خسرالدنیا والآخرۃ کا مصداق بن سکتے ہیں۔ ‘‘۴ ؎


مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ڈاکٹر حبیب الر حمن رحیمی صاحب کھل کر اپنے دل کی بات تحریر نہیں کر سکے اس لیے کہ انہوں نے سوچا ہوگا اگر میں خواجہ الطاف حالیؔ جیسی مقتدر ہستی پر کھل کر قلم اتھاتا ہوں جن کا خود تحقیق و تنقید میں ایک ا علیٰ مقام ہے۔ تو میری بڑی جگ ہنسائی ہوگی ۔ اسی لیے انہوں نے حزم واحتیاط کی زبان استعمال کرنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ انہیں کے ایک ہم نو ا پر وفیسر عبداللہ شاہین صا حب جو ڈاکٹریٹ بھی ہیں، اور ایوارڈ یافتہ بھی، ان کی دریدہ دہنی اور بے باکی اوج ثریا کو بھی مات دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انہوں نے خواجہ الطاف حسین حالی کیا ْ؟عظیم عاشق رسولؐ حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے عقیدے اور نظرییٔ کا نشانہ بناتے ہو ے ’’ ملت اسلامیہ کی اجتمائی تباہی و بربادی‘‘ کا ذمہ دار ان کو ٹھرایا ہے۔ چناںچہ وہ اپنی تحقیقی کتاب ’’ نعت گوئی اور اس کے آداب ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں ۔


’’امام بو صیری کا قصیدہ بردہ جو انفرادی مصائب کا نمونہ ہے اور ملت اسلامیہ کی اجتمائی تباہی و بربادی کا المیہ جسے حالی جیسے موحدشاعرنے بھی (ٹھوکر کھاتے ہوے ٔ) روایتی شاعری کی رو میں بہ کر بصورت ’’ استغاثہ‘‘ بدرگاہ رسالت پیش کیا ہے۔

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں

بیڑا یہ تباہی کے قریب آن پڑا ہے ‘‘۵؎


اس مقام پر ٹھہر کر میں اپنی علمی کم مائیگی کو پیش نظر رکھتے ہوے ڈاکٹر رحیمی صا حب سے ان کے ایک جملے کی وضاحت چاہوں گا انہوں نے بریکٹ میں تحریر فرمایا ہے کہ (استمداد ۔۔۔۔ استعاذہ) یہ استعاذہ کیا ہے ؟ اسکو لوگ کب مانگتے ہیں ؟ اور کس سے مانگتے ہیں ؟ کیا کوئی بندۂ مومن اللہ کے پیارے حبیبؐ سے بھی استعاذہ مانگتا ہے؟میرے اپنے علم میں استعاذہ علم القراۃ کی اصطلاح ہے اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجییم پڑھنے کو استعاذہ کہتے ہیں اور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے کو بسملہ کہتے ہیں ۔ اور اگر اسکے علاوہ کوئی اور صورت ہو تو میرے علم میں اضافہ فرمائیں ۔ میں آپکا مرہون منت ہوںگا ۔


افسوس صد افسوس اس بات کا ہے کہ ان حضرات کی نگاہیں حقائق کی طرف کیوں نہیں جاتیں ۔ اور اگر جاتی بھی ہیں تو حقائق سے کیوں اغماض بر تتے ہیں؟ میں ڈاکٹر رحیمی صاحب اور پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب دونوں حضرات کو ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب کی کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام‘‘سے ہی آئینہ دکھانا چاہتا ہوں کہ میرے اپنے خیال میں یہ دونوں حضرات بھی انہیں کے ہم عقیدہ و ہم نظریہ بھی ہیں ۔ مگر انہوں نے بہت سے مقامات پر حقائق کو اپنی مذکورہ کتاب میں جگہ دی ہے۔ چناںچہ انہوں نے اپنی اسی کتاب میں ایک مشہور جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبداللہ بن زیعریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک نعت پاک نقل فرمایا ہے۔ جس میں حضرت زیعریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرور کائنات حضور رحمت عالم، سید عالم روحی فدا جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیؐ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن زیعریٰ رضی اللہ تعا لیٰ کے احوال و آثار کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ حالت کفر میں اسلام کے خلاف کفار مکہ کو بھڑکایا کرتے تھے ۔ اور حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ کا مقابلہ اشعار سے قریش کی طرف سے کیا کرتے تھے ۔مگر آقا و مولیٰ حضور رحمت عالم ، سید عالم روحی فداؐ کے د امن کرم سے وابستہ ہو نے کے بعدکتنے عاجزانہ انداز میں اپنی گزشتہ زندگی پرا ظہار ندامت کرتے ہوے ٔ آقا علیھم ا لسلام سے اپنی گناہوں کی معافی طلب کی ہے ۔ ان کی نعت پاک کے درج ذیل شعر سے اس قدر محبت رسولؐ ٹپک رہی ہے جس کو پڑھنے کے بعد ہر عاشق رسول کی روح وجد کرنے لگتی ہے اور ایمان میں فرحت و تازگی آجاتی ہے۔ ملاحظہ ہووہ روح افزا شعر ؎

فاغفر فدیًً لک والدی کلاھما ذنبی ،فانک راحم مرحوم


ترجمہ۔ لہٰذا معاف فرما دیجیے میرا گناہ میرے ماں باپ دونوں آپ پر قربان ہوں، کیوں کہ آپ رحم فرمانے والے ہیں۔ ۶ ؎

یہی وہ مقام ہے جہاں عشق رسالت مآبﷺ کی خوشبواپنے شید ائیوں کو ایسا اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کہ جسے دنیا کا کوئی عقیدہ اور نظریہ متا ثر نہیں کر سکتا۔


میں ڈاکٹر رحیمی صاحب اور پروفیسر شاہین صاحب سے ادب کے ساتھ پوچھناچاہوںگا کہ کیا حکم صادر فرمائیںگے اس جلیل القدر صحابی رسول کے بارے میں جنہوں نے آقا علیھم السلام سے براہ راست اپنے گناہوں کی معافی طلب کی ؟ جبکہ قران پاک تو ارشاد فرماتا ہے۔واللّٰہ غفور الرحیم ۔ حضرت سیدنا امام محمدبن سعید بوصیری رحمۃاللہ علیہ نے عشق رسول اور نعت مصطفیؐ کا جو عظیم سرمایہ ہمیںعطا کیا ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ پوری دنیا کے عشاق رسول مل کر اگر انکے اس عظیم کارنامے کا بدل دینا چاہیں تو مجھے ممکن نہیں لگتا ہے کہ دنیا کی کو ئی شئے ان کے اس کارنامے کا کویٔ بدل بن سکتی ہے ۔ میں تو یہی کہوںگا کہ نہ ان کے عشق رسولؐ کا کوئی بدل ہے او ر نہ ہی ان کے نعتیہ سرمایہ کا۔


ڈاکٹر عبداللہ شاہین صاحب نے اپنی مذکورہ کتاب ’’ نعت گوئی اور اسکے آداب ‘‘ میں جا بجا عاشق رسول حضرت امام محمد بو صیری رحمۃ اللہ علیہ پر زبردست چوٹ کی ہے ۔ جیسا کہ اُوپر آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ایک دل دوز اقتباس اور ملاحظہ فرمائیں۔


’’لیکن اس واضح ارشاد کے باوجود ساتویں صدی ھجری میں جب تصوف اور بدعت نے زور پکڑلیا تھا ، اہل تصوف نے اسلام کے منہج اور مدح کے طریقے سے یکسر خلاف نبیؐ کی شان اقدس میں ایسے قصیدے لکھنے شروع کر دیے جن میں نبیؐ کو اُلوہیت کے درجے پر فائز کرنے کی کو شش کی گیٔ اور آپ کو صفاتِ الٰہیہ سے متصف کر دیا گیا ۔


اس رسم بد کی ابتدا ٔمحمد بن سعید بو صیری کے ہاتھوں ہوئی جو ۶۹۵؁ھ میں اسکندریہ میں ہلاک ہو گیا تھا ۔ اس نے نبیؐ کے متعلق قصیدے لکھے جن میں سے دو بہت مشہور ہوے ٔ۔ ایک قصیدہ ہمزیہ اور دوسرا قصیدہ میمیہ ۔ ان میں سے موخرالذکر کو بہت شہرت حاصل ہوئی ۔بوصیری نے اس قصیدے کا نام ’’ الکو اکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘رکھا ۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے اسی جیسے فاسد العقیدہ پیروکاروں نے جھوٹ اور افترا کی بنیاد پر اس کا نام ’’ قصیدہ بردہ‘‘ رکھ دیا ۔ جس میں بے بنیاد اور جھوٹے خوابوں کی تشہیر کرکے ثابت کرنے کی کو شش کی گیٔ کہ اس قصیدے کے سننے سے نبیؐ بہت خوش ہوے ٔاور انعام کے طور پر خواب ہی میں اپنی چادر عنایت فرمائی اور پھر وہ چادر بیدار ہونے کے بعد مولف قصیدہ کے ہاتھ میں تھی ۔ اسی وجہ سے اس کا نام قصیدہ بردہ پڑ گیا ۔ یہ باتیں بالکل باطل اور بے سند ہیں ۔ بہر حال بوصیری کے بعد نبیؐ کی مدح و نعت میں غلو و افراط کا عنصر شامل ہو تا گیا یہاں تک کہ بر صغیر کی نعتیہ شاعری میں غلو و افراط بھی آخری حدوں سے تجاوز کر گیا۔ ‘‘۷ ؎


لیکن جب ہم ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی کے مذکورہ تحقیقی مقالہ ’’نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کے اس مقالے میں علامہ بو صیری رحمۃاللہ علیہ کا ذکر بڑی سادگی اور حسن سلیقہ سے ملتا ہے ۔جس میں انہوں نے نہ تو ان کی شخصیت پر کوئی چوٹ کی ہے اور نہ ہی ان کی شاعری کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا یا ہے بلکہ قدرے پزیرائی ہی کی ہے چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔


’’عہد رسالت کے بعد ایک قصیدہ بہت ہی مشہور ہوا ، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کی شہرت ما قبل کے تمام مدحیہ اور نعتیہ قصائد پر غالب آگیٔ ، اسکے شاعر ساتویں صدی ھجری کے ایک نامور مورخ مداح نبی محمد بن سعید البوصیری ( ۶۰۸ھ تا ۶۹۷) ہیں ۔ شاعر نے اس قصیدے کا نام ’’الکواکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘ رکھا تھا ۔ لیکن بعد میں قصیدہ بردہ کے نام سے موسوم و معروف ہوا ۔ روایت ہے کہ بوصیری کے نصف جسم پر فالج کا حملہ ہوا ، اسی حال میں انہوں نے یہ قصیدہ کہا اور خواب میں آپ کیؐ زیارت سے مشرف ہوے ٔ، آنحضرتؐ نے ان پر اپنی چادر ڈال دی اور سر پر دست مبارک پھیرا ۔ بوصیری صبح کو بیدار ہوے ٔ تو فالج سے صحت یاب ہو چکے تھے ۔ سارا قصیدہ عشق رسول میں ڈوب کر کہا گیا ہے ۔ اس لیے اسے عالم اسلام میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ بطور وظیفہ پڑھا جانے لگا ، اپنی شہرت و مقبولیت میں یہ قصید ہ کعب بن زہیر کے قصیدہ سے بھی آگے بڑھ گیا ۔ اب تک لاکھوں کی تعداد میںشائع ہو چکا ہے ، متعدد زبانوں میں اسکا ترجمہ ہو چکا ہے ،سیکڑوں شعرا ٔنے اس کی بحر میں اپنے قصیدے لکھے ، اس کی تضامین کہیں ( ۴۲) اس قصیدے کے مضامین کی تر تیب یہ ہے۔

۱۔ تشبیب کے بعد نفسانی فریب کاریوں سے آگاہی

۲۔ گریز ، مدح رسولؐ

۳۔ ولادت نبوی اور معجزات کا ذکر

۴۔ قران مجید ، واقعہ معراج اور جہاد کا ذکر

۵۔ توسل اور مناجات ۸ ؎


اور ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب اپنی کتاب عربی’’ میں نعتیہ کلام ‘‘ میں علامہ بو صیری رحمۃاللہ علیہ کا ذکر اور ان کی ستودائی کرتے ہوے ٔ تحریرفرماتے ہیں۔


’’علامہ بو صیری جن کا پورا نام محمد بن سعید ہے ، ساتویں صدی ہجری کے ایک مصری شاعر اور طریقہ شاذلیہ کے صاحب نسبت و اجازت صوفی بزر گ تھے۔ مصر کے علاقہ بنی سویف میں ابو صیر انکا دادیہال اور دلاص نانیہال تھا ، ابو صیری اس گاؤں کی طرف نسبت ہے ، جو مخفف ہو کر ابو صیری سے بو صیری ہو گیا۔


ان کی ولادت دلاص میں ۶۰۸؁ھ اور وفات اسکندریہ میں ہوئی ، نعت نبوی ان کی شاعری کا موضوع تھا ۔ ’’ قصیدہ بردہ ‘‘ کے علاوہ بھی ان کی متعدد نعتیں ہیں ، خاص طور سے انکا قصیدہ ’’ہمزیہ‘‘ بہت مقبول عام قصیدہ ہے۔ اس کے علاو ہ’’ قصیدہ بانت سعاد‘‘ کی زمین میں ایک طویل قصیدہ علامہ نبہانی نے نقل کیا ہے ، جس کا مطلع ہے ۔

الی متی انت بالذات مشغول و انت عن کل ما قد مت مسؤل


یعنی تم کب تک لذت اندوزی میں مشغول رہوگے ، حالاںکہ جو کچھ اس دنیا میں کروگے اس کے تنہا ذمہ دار تم ہی ہوگے۔ ان کے اشعار کا مجموعہ مطبوعہ اور قلمی دونوں موجود ہے ، پورا دیوان نعتیہ کلام پر مشتمل ہے ۔ ہر قصیدہ روایتی تشبیب سے شروع ہو تا ہے ، اور ہر حرف تہجی میں انکا قصیدہ نعتیہ موجود ہے۔


صاحب ’’ فوا ت الوفیات‘‘ نے ان کا ایک اور قصیدہ نقل کیا ہے ۔ جس میں علامہ بوصیری نے ’’ شکوہ‘‘ بہ بارگاہ رب العالمین پیش کیا ہے، مصر کی اجتماعی حالت پر اس قصیدے سے روشنی پڑتی ہے ۔ ، علمأ کی بے حسی ، حکام کی خدا سے بے خوفی اور جرات، اہل کارواں کی رشوت خوری ، محرمات کا عام ہونا ، فرائض کی ادائیگی سے جان چرانا ، اس قصیدے کے مضامین ہیں، جو بہت لطیف انداز میں طنز کے پیرایہ میں نظم کیٔ گیٔ ہیں ۔ اور آخر میں اللہ سے فریاد کی ہے کہ وہی اصلاح فرمائے اس کا مطلع ہے۔

نقدت طوائف المستخد مینا

فلم أرفیھم حراًأمینا


لیکن ان کی شہرت ومقبولیت کا سبب ’’ قصیدۂ بردہ‘‘ ہے، جس کے متعلق یہ روایت ہے کہ ان کے جسم کے نصف حصے پر فالج گر گیا تھا اس حال میں انہوں نے یہ قصیدہ لکھا تھا ، خواب میں حضور انورؐ کی زیارت سے مشرف ہوے ٔ، اور آپؐ نے ان پر اپنی چادرڈال دی او ر د ست مبارک ان کے رخسار اور سرپر پھیرا ، جب بیدار ہوے ٔ تو اپنے فالج شدہ حصۂ جسم میں نشاط محسوس کیا اور فالج کا اثر ختم ہو گیا ، صبح کو کہیں جارہے تھے کہ کوئی فقیر ملا اس نے کہا کہ بو صیری ! وہ قصیدہ لاو ٔ جو تم نے رسول اللہؐ کی نعت میں کہا ہے ، بوصیری نے اس قصیدے کا حال کسی کو نہیں بتایا تھا ، مگر رسول اللہؐ کے اس معجزے پر یقین تھا ،اس لیے انہوں نے اس فقیر سے یہ بات سن کر تعجب کا اظہار نہیں کیا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا ، مگر خود اس فقیر نے کہا کہ میں نے رات دیکھا کہ تم آںحضرت کی مجلس شریف میں اپنا قصیدہ سنا رہے ہو ، اور حضورؐ پر وجد کی کیفیت طاری ہے، چناںچہ اس قصیدے کی شہرت اس فقیر کے ذریعے ہوئی ۔ اس قصیدے کا عنوان علامہ بوصیری نے ’’ الکو کب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘ رکھا تھا ، لیکن اپنی مقبولیت کی وجہ سے ’’ قصیدہ بردہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا ، بعض لوگوں نے کعب بن زہیرؓ کے ’’ قصیدہ بردہ ‘‘ اور اس قصیدہ کے درمیان تمیز کرنے کے لیے بوصیری کے قصیدہ کو ’’ بردہ منامیہ ‘‘ بھی کہا ہے، کیوں کہ بوصیری رحمۃاللہ علیہ کو عالم رویا میں بردہ مرحمت فرمایا گیا تھا ، ،عوام میں مشہور ہے کہ شیخ بوصیری رحمۃاللہ علیہ جب خواب سے بیدار ہوے ٔ تو انہوں نے بردہ مبارک کو موجود پایا جو خواب میں ان کو مرحمت فرمایا گیا تھا ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے ، اور نہ کسی معتبر تاریخ میں کہی گیٔ ہے، لیکن جو بات صحیح ہے وہ یہ کہ یہ قصیدہ جس درجہ مقبول ہوا اس درجہ قصیدہ ’’ بانت سعاد ‘‘ کو بھی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی ، لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے، اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی نیٔ شرح لکھتا رہتا ہے ، سیکڑوں (بلا مبالغہ)قصیدے اس زمین پر کہے جا چکے ،پچاسوں تضمینیں اور مشطر ،مخمس ، مسدس،مسبع،اور معشر کہے گئے۔ ‘‘ ۹ ؎


ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب نے اس قصیدے کے عرب شارحین کی ایک فہرسست بھی تحریر کی ہے جسکی تفصیل اس طرح ہے۔

۱۔ ابن الصایغ ،م ۷۷۶؁ھ

۲۔ علی بن محمد قلصائی ،م ۸۹۱؁ھ

۳۔ شہاب الدین ابن العماد،م ۸۰۸؁ھ

۴۔ علأالدین بسطامی ، م ۸۷۵؁ھ

۵۔ یوسف بن ابی اللطف القدسی ،م ۱۰۰۰؁ھ

۶ ۔ یوسف البسطامی ۔ نویں صدی ھجری کے بزرگ ہیں ، سن وفات مذکور نہیں ہے۔

۷۔ ملا علی قاری م،۸۰۱۴؁ھ

۸۔ شیخ زادہ محی الدین ۔ تاریخ وفات لا معلوم ، لیکن ان نکی شرح کے قدیم نسخہ پر تاریخ تصنیف ۹۴۹ھ؁مذکور ہے۔

۹۔ جلال الدین المحلی ۸۶۴؁ھ ( تفسیر جلالین کے ایک حصے کے مصنف )

۱۰۔ محمد بن المرزوقی ،م ۸۸۱؁ھ ( شارح حماسہ)

۱۱۔ عبدالحق بن عبدالفتاح ( بارہویں صدی ھجری)

۱۲۔ محمد المصری ( گیارہویں صدی ھجری)

۱۳۔ زکریا الانصاری ،م ۹۳۶؁ھ

۱۴۔ عمرالخربوتی(تیرہویں صدی ھجری)

۱۵۔ علامہ قسطلانی ( شارح بخاری )م ۹۲۳؁ھ

۱۶۔ محمد بن مصطفی المرونی( تیرہوں صدی ھجری)

۱۷۔ محمد عثمان المرغنی (تیرہویں صدی ھجری)

۱۸۔ شیخ الحسن العددی الخمرادی ۱۳۰۳؁ھ

۱۹۔ الباجوری ۱۲۷۶؁ھ ‘‘ ۱۰؎


نیز ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب نے اسی کے بعد ’’ قصیدۂ بردہ ‘‘ کا فنی تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔ جو کافی بلیغ اور تحقیقی ہے ۔ میں اس مقام پر قارئین کرام کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوںکہ آپ نے ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی اور ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحبان کا تجزیہ اور تاثر ملاحظہ کیا۔ مگر ان دونوںحضرات نے نہ تو علامہ بوصیری رحمۃاللہ علیہ کے قصیدہ کو جھوٹ قرار دیا اور نہ ہی ان کی شخصیت پر کسی طرح کی کو ئی طعن و تشنیع کی ، جیسا کہ پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب نے اپنی مذکورہ کتاب ’’ نعت گوئی اور اسکے آداب ‘‘ میں علامہ بوصیری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے قصیدہ بردہ کو ’’ انفرادی مصائب کا نمونہ اور ملت اسلامیہ کی اجتماعی تباہی و بربادی کا المیہ قرار دیا ہے۔‘‘


اگر کسی شاعر یا نعت گو کے پیش نظر یہ تینوں کتابیں ہوں اور وہ ان کا مطالعہ کرنے کے بعد نعت پاک کی رقم طرازی کرنا چاہے تو کیا یہ ممکن کہ وہ شریعت کی روشنی میں شعر گوئی یا سخن طرازی کر سکتاہے؟ میری سمجھ سے تونا ممکن ہے اس لیے کہ ان تینوں کتابوں کے ما بین جو نظریاتی اختلافات ہیں وہ اسی میں الجھ کر رہ جا ئے گا۔ جب کہ اگر دیکھا جاے تو تینوں کتابوں کے لکھنے والے زمانے کے محققین کی صسف میںصف بستہ ہیں۔ اور تینوں حضرات کا یہی دعویٰ ہے کہ ان کی کتابیں نعتیہ ادب کی سچی ترجمان ہیںان کو شریعت اسلامیہ کی روشنی میں قلم بند کیا گیاہے۔


پروفیسر عبد اللہ شاہین صاحب نے علامہ بوصیری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق جو باتیں تحریر کی ہیں کیا وہ تحقیقی معیار کی لگتی ہیں؟ مجھ جیسے ہیچ مداں اورکم علم کو تو اس میں تحقیق کا شائبہ تک نظر نہیں آ تا ، ان کی تحریر کردہ باتیں محض ان کے عقائد و نظریات کی ترجمان ہیں ۔ میری سمجھ سے دنیا کا ہر دانشور اور منصف مزاج انسان ان کی مذکورہ تحریر پڑھنے کے بعد یہی راے قا ئم کرے گا،کہ پروفیسر صاحب کے اپنے خود کے عقائد و نظریات ہیں۔ ان کی مذکورہ تحریر عاشقانِ مصطفیﷺ کے لیے سوہان روح ہے۔


ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب نے اپنی مذکورہ کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام ‘‘ میں علامہ بوصیری علیہ الرحمہ کے’’ قصید ہ بردہ ‘‘ شریف کے جن ۱۹ ؍عرب شارحین کا ذکر کیا ہے جو اپنے زمانے کے منفردالمثال محقق، محدث، مفسر قرآن وغیرہ علوم متداولہ پر کامل دسترس رکھنے والے تھے ۔ جن کی عظیم خدمات کا صلہ ہے کہ آج دین ہم تک پہنچا ۔انہوں نے اپنی زندگی کو فروغ اسلام کے لیے وقف کر رکھا تھا ۔ علامہ بوصیری علیہ الرحمہ پر طعن و تشنیع کی زبان وا کرنے سے پہلے ان حضرات کے مبلغ علم پر بھی پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب کو ایک نظر ڈال لینا چاہے تھا ۔ کیا ان حضرات نے بغیر کسی تحقیق و تفحص کے علامہ بوصیری رحمۃاللہ علیہ کے قصیدہ بردہ شریف کو قبول کر لیا ہوگا ؟ جو علم دین کے پارکھ تھے۔ اور تفقہ فی الدین کے ا علیٰ مرتبے پر فایز تھے ۔


آگے چل کر پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب اپنی مذکورہ کتاب ’’ نعت گوئی اور اس کے آداب میں ’’تشبیہ و استعارہ ‘‘ کے تحت تحریر فرماتے ہیں ۔ ’’ نعت کے اظہار میں ایسی تشبیہ یا استعارے سے گریز کرنا چاہیے جس سے نعت کی پاکیزگی اور شائستگی متاثر ہوتی ہو ، مثلاً !

دیکھے ہو گا ’’سری کرشن‘‘ کا کیوں کر درشن

سینۂ تنگ میں دل گوپیوں کا ہے بیکل (محسن کاکوروی)


شعر مذکور میں نبی ﷺ کے لیے ’’ سری کرشن‘‘ (جو ہندوؤں کا دیوتا اور ان کے عقیدے کے مطابق بھگوان کا اوتار) کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذالک) یہ انتہائی سؤ ادب ہے۔ ۱۱ ؎


مجھے پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب کی ہر دلیل اور ہر بات پر بے ساختہ ہنسی آتی ہے شاید کہ وہ اپنے قاری کو نا خواندہ یا بُزِِ اخفش سمجھتے ہیں ، اور اپنے زعم فاسد میں بڑی دلیری اور بے باکی سے جس طرح وہ اپنے نظریات و خیالات کو بیان کرکے اپنی گرفت میں اپنے قاری کو لینا چاہتے ہیں ایسے مقام پر ان کا مبلغ علم اور دانش و بینش سب کچھ ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس خود وا رفتگی میں ان کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اگر میرے کسی قاری نے اصل ماخذ کی جانب رجوع کیا یا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کیا تو کیا ہوگا؟


اس وقت ’’ کلیات نعت محسن ‘‘ مرتبہ نورالحسن (جو حضرت محسن ؔ کاکوروی کے بڑے صاحبزادے ہیں) مطبوعہ اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ۹۸۲؁۱ میر ے پیش نظر ہے ۔ محسن ؔ کاکوروی کے جس شعر کا ذکر انہوں نے اوپر کیا ہے اس قصیدے کی شروعات اس طرح ہوتی ہے اور محولہ بالا شعر تشیب کا ہے ملاحظہ ہو ؎

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لایٔ ہے صبا گنگا جل

گھر میں اشنان کریں سروقدان گوکل

جا کے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طول امل

خبر اڑتی ہوئی آئی ہے مہابن میں ابھی

کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل

کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی

ھند کیا ساری خدائیٔ میں بتوں کا ہے عمل

جانب قبلہ ہوئی ہے یورش ابر سیاہ

کہیں پھر کعبہ میں قبضہ نہ کریں لات و ہبل

دہر کا ترسابچہ ہے برق لیے جل میں آگ

ابر چوٹی کا برہمن ہے لیے آگ میں جل

ابر پنجاب تلاطم میں ہے اعلیٰ ناظم

برق بنگالہ ٔ ظلمت میں گورنر جنرل

نہ کھلا آٹھ پہر میں کبھی دو چار گھڑی

پندرہ روز ہوے پانی کو منگل منگل

دیکھیٔ ہوگا سری کرشن کا کیوںکر درشن

سینۂ تنگ میں دل گوپیوں کا ہے بیکل۱۲


پروفیسر صاحب کیا یہ بتانے کی زحمت فرمائیںگے کہ حضرت محسن ؔکاکوروی نے اپنے مذکورہ قصیدہ میں لفط ’’ سری کرشن ‘‘ کا جو استعمال فرمایا ہے کیایہ استعارتاً آقا و مولیٰ جناب احمد مجتبیٰؐ کے لیے استعمال کیا گیاہے یا حقیقتاً سری کرشن کے لیے ؟۔ کیوں کہ میری اپنی معلومات میں مذکورہ شعر حضرت محن ؔ کاکوروی کے مذکورہ قصیدہ ’’ قصیدہ مدیح خیرالمرسلینؐ ‘‘ کے تشبیب کا شعر ہے جو اپنے اصل معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ۔اس لیے کہ قصائد کی تشابیب میں اس طرح کے الفاظ کی بندش کوئی نئی ٔ چیز ٔ نہیں ۔ اس سے شاعر کا مقصد اصل موضوع کو تیز تر کرنا ، اور اس میں جان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جب ہم نعت گوئی کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں عہد نبویؐ کے مشہور شاعر اور صحابی رسول حضر ت سیدنا کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصیدہ’’ بانت سعاد ‘‘ کی تشبیب میں بھی اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں ان کی معشوقہ کی یادوں سے وابستہ تھے ۔نیز انہیں کی اتباع میں کہے گیٔ حضرت امام بوصیری رحمۃاللہ علیہ کے’’ قصیدہ بردہ شریف‘‘ میں بھی تشبیب کایہی حال ہے۔جب یہ تشیبیب کا شعر ہے تو استعارتاً سرور انبیأؐ پر چسپا کرنا،اور انتہائی سو ٔ ادب بتانا کہاں کی علمی دیانتداری ہے؟ ان کی مذکورہ تحریر خود ان کے مبلغ علم اور ان کے افکار و خیالات کی غماض ہے۔


میرے اپنے قول یا نظر ییٔ کی تائید ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کی درج ذیل تحریر سے بھی ہوتی ہے وہ تحر یر فرماتے ہیں۔


ایک اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ اس کی تشبیب میں ( جو اس قصیدے کی روح ہے) غیر مشروع موضوعات کو جگہ دی گیٔ ہے ، لیکن یہ اعتراض زیادہ قوی نہیں ہے، کیوں کہ تشبیب کی روایت اردو میں عربی سے آئی ہے اور عربی روایت کے مطابق تشبیب میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہے ہر طرح کے مضامین کو نظم کیا جا سکتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عربی کے بہترین نعتیہ قصائد میں مختلف موضوعات پر مشتمل تشبیب ملتی ہے ، قصدہ بردہ (بانت سعاد ) کو آپؐ نے پسند ہی نہیں فرمایا بلکہ اس میں اصلاح بھی کی ، جب کہ اس کی تشبیب میں محبوبہ سعاد کا ذکر کیا گیا ہے ،اللہ کے رسول کے مقابل سعاد کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے ، ایسا ہی اس قصیدے کی تشبیب میں کیا گیا ہے کہ کفر و اسلام دو متضاد چیزوں کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ در اصل یہاں کفر کی نفی کرکے اسلام و ایمان کی ترغیب دی گیٔ ہے۔ امیر ؔ مینایٔ نے اس اعتراض کا جواب بہت مناسب طریقے سے دیا ہے۔


بادی النظر میں شبہ ہوتا ہے کہ قصیدۂ نعت میں متھرا، گوکل، و کنہیا کا ذکر بے محل ہے۔لہٰذا دفع دخل کیا جاتاہے کہ نعت میں تشبیب کے معنی ہیں ذکر ایام شباب کرنا اور اصلاح شعر میں مضامین عشقیہ کا بیان کرنا ۔اساتذہ نے تخصیص مضامین عاشقانہ کی قید بھی نہیں رکھی ، کوئی شکایت زمانہ کرتا ہے کوئی متفرق مضامین کی غزل لکھتا ہے ، کوئی غزل میں کسی طرح کا خاص تلازم ملحوظ رکھتا ہے۔


الغرض متبعان کلام اساتذہ حقیقت شناسان تشبیب و قصیدہ پر پوشیدہ نہیں کہ مضامین تشبیب کے محصور نہیں ہیں اور نہ کچھ مناسبت کی قید ہے کہ حمد و نعت و منقبت میں قصیدہ ہو تو تشبیب میں بھی اسی کی رعایت رہے ،مرزا اسدللہ غالبؔ دہلوی نے منقبت میں قصیدہ لکھا جس کا مطلع ہے  :

صبح کہ در ہوا ے ٔ پرستاری دثن

جنبد کلید بتکدہ،در دست برہمن


اور اس قصیدے کی تشبیب میں بھی ایسے ہی مضامین لکھے ہیں ، عمدہ تر سند اس کے جواز کی یہ ہے کہ حضرت سرور کائنات خواجۂ ہر دو عالم V کے حضور میں قصیدہ بانت سعاد جس کی تشبیب مشروع نہیں ہے پڑھا گیا اور حضرت رسول اللہ V نے زبان مبارک سے اس کی تحسین فرمائی۔ ‘‘ ۱۳ ؎


ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب نے اپنی کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام میں ‘‘ تشبیب کے مفہوم کے حوالے سے بڑے پتے کی بات نہایت ہی ظریفانہ انداز میں تحریر کی ہے ملاحظہ ہو۔


بعض لوگوں کے خیال میں ’’ تشبیب‘‘ کے لفظی معنیٰ ہیں ’’ آنچ تیز کرنا ‘‘( نہ کہ ایام شباب کا یاد کرنا،مادہ کے لحاظ سے دونوں مفہوم کی گنجا ئش ہے ) قدیم شعرا ٔکا اس سے مطلب یہ ہو تا تھا کہ اصل مضمون کو بیان کرنے کے لیے محبوب کو یاد دلانے والے اس سے نسبت رکھنے والے مقامات کا ذکر کریں ۔تاکہ ’’آتشِ شوق‘‘ تیز ہو، اور جس وقت اصل مضمون پر آئیں۔ اس وقت بیان کرنے والے کا جوش اور سننے والے کا اشتیاق نقطۂ کمال پر پہونچ چکا ہو ، تشبیب کا یہ مضمون عام طور سے قصیدہ کے ایک تہائی یا نصف پر ہاوی ہوتا ہے ، امام بو صیری ر حمۃ اللہ علیہ نے ان دو شعروں سے وہ مقصد کو حاصل کر لیا ،جس کے لیے تشبیب کے مضمون کو طول دیا جاتا تھا ، عاشق کی والہانہ کیفیت کا اظہار مطلع کے پہلے ہی لفظ سے ہونے لگتا ہے ، جبکہ وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ یہ آنسو جن میںخون جگر کی آمیزش ہے کیوں بہنے لگے آخر تیرے زخم کو کس نے چھیڑا ، کیا دیکھ لیا ؟ کیا سن لیا؟ کیا دیار محبوب کے سمت کسی پہاڑی پر بجلی چمکی ،یا اس رخ کی کوئی ہوا چلی یا اس قرب و جوار کے باشندے یاد آگیٔ ۔


سوز دروں کے اظہار کا یہ شاعرانہ اسلوب بہت ہی دل نشیں اور لطیف ہے کہ محبوب یا دیار محبوب کا نام بھی زبان پر نہ آے، صرف انداز بیان سے عشق و وارفتگی کی روح جھلکنے لگے ، شاعر یہاں عشق کی ایک خاص کیفیت بیان کر رہا ہے جبکہ عاشق کو ہر شیٔ میں محبوب کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے ، ہر بات میں اسکی بات یاد آنے لگتی ہے، اس کے زخم کو کریدنے کے لیے ایک اشارہ چاہیے، اس کے رونے کے لیے ایک بہانہ درکار ہے ۔ اردو میں کلیم ؔ کا یہ شعر بھی اسی کیفیت کا تر جمان ہے ؎

لگتی ہے اب تو قلقل مینا سے دل پہ ٹھیس

وہ دن گیٔ کلیمؔ کہ یہ شیشیہ سنگ تھا


ایک دوسرے شاعر نے اس مضمون کو اس طرح باندھا ہے ؎

محبت میں اک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر

ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگ جاں پر ۱۴ ؎


حضرت محسنؔ کاکوروی کو اپنی حیات ہی میں اپنے مذکورہ قصیدے کی تشبیب پر لوگوں کی ذ ہنی فکر کا اندازہ ہو گیا تھا کہ لوگ طرح طرح سے اس کی تشبیب پر اعتراضات کریںگے۔اسی لیے انہوں نے خوداپنی زندگی ہی میں اس طرح کے بے بنیاد اعتراضات کے جواب دے د ے ٔتھے۔ مزید امیر الشعرا حضرت امیرؔ مینائی رحمۃاللہ علیہ نے ان کی حمایت میں دیباچہ لکھ کرتائید و توثیق کی مہر ثبت کر دی تھی اور جملہ اعتراضات کا دفاع کر دیا تھا ۔ کیا حضرت امیرؔ مینائی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر محسن ؔ کاکوروی کے مذکورہ شعر پر نہیں گیٔ ہوگی؟ آخر ان کو اتنی بڑی غلطی کیوں نظر نہیں آئی؟ میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر حقیقتاً غلطی ہوتی تو ان کو ضرور نظر آتی ۔ آج بھی امیرالشعرأ کی وہ تقریظ یا دیباچہ محسنؔ کاکوروی کے مذکورہ دیوان میں موجود ہے۔ شائد کہ یہ حقیقت پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب کی نظر سے نہیں گزری، اور نہ ہی انہوں نے اس کے حوالے سے کوئی کوشش ہی کی، ورنہ اگر وہ محسن ؔ کاکوروی کی کلیات ’’ کلیات نعت محسن‘‘ کا ایک نظر مطالعہ کر لیتے تو اس طرح کا اعتراض ہی نہ کرتے ، جب کہ انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب کے فرنٹ پر ہی یہ عبارت لکھ رکھی ہے۔ ’’ حمد و نعت کے لطیف موضوع پر منفرد ادبی و تحقیقی کتاب‘‘ ا ور گزرتی بھی کیسے اس لیے کہ انہیں تو حمد و نعت کی آڑ میں اپنے افکار و خیالات کی تبلیغ کرنی تھی ۔

چناں چہ حضرت محسن ؔکاکوروی فرماتے ہیں ؎

گو قصیدے سے جدا ابر بہار تشبیب

فکر کے تازہ و تر کرنے کو ہے مستعل

مختلف ہوتے ہیں مضمون کہیں عشق کہیں حسن

کہیں نغمہ ہے ، کہیں پھول ہے اور ہے کہیں پھل

جیسا لکھا ہے امیرالشعرأ نے دم طبع

اس کی پیشانی پہ دیباچہ ما قل و دل

تا ہم اک لطف ہے خاص اس میں جو سمجھے دانا

کہ سخن اور سخن گو کو ہے نازش کا محل

پڑھ کے تشبیب مسلماں معہ تمہید و گریز

رجعت کفر بایماں کا کرے مٔسلہ حل

کفر کا خاتمہ بالخیر ہوا ایماں پر

شب کا خورشید کے اشراق سے قصہ فیصل

چشم انصاف سے دیکھو تو قصیدے کی شبیہ

نیم رخ تھی اسی رنگت سے ہوئی مستقبل

ظلمت اور اس کے مکارہ میں ہوا طول سخن

مگر ایمان کی کہیے تو اسی کا تھامحل

غلبہ و سطوت ظلمت کے بیاں میں مضمر

شوکت اس نور کی ہے جس نے کیا مستاصل

کفر و ظلمت کو کہا کس نے کہ ہے دین خدا

میٔ و نغمہ کو لکھا کس نے کہ ہے حسن عمل

مدعا یہ ہے کہ رندوں کی سیہ بختی سے

ظلمت کفر کاجب دہر میں چھایا بادل

ہوا مبعوث فقط اس کے مٹانے کے لیے

سیف مسلول خدا نور نبی مرسل

مہر توحید کی ضو اوج شرف کا مہ نو

شمع ایجاد کی لو بزم رسالت کا کنول ۱۵؎


ڈاکٹر عبداللہ شاہین صاحب نے اپنی کتاب’’ نعت گوئی اور اس کے آداب‘‘ میںجگہ جگہ ایسی باتیں تحریر کی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد دل و دماغ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے اور دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر صاحب نے ہوش و حواس کے عالم میں ہی یہ باتیں تحریر کی ہیں یا کسی اور کیفیت میں ڈوب کر، ایک اقتباس اسی قبیل کا اور ملاحظہ فرمائیں۔


’’مذکورہ شعرأ کا نقطۂ انتہا نبی V سے دعأ کرنے کی استدعا پر ہی منتج ہوتا ہے ۔ ان شعرا ٔکا یہ انداز بھی حرام ، بدعتی اور شرکیہ ہے جس سے احتراز واجب ہے، البتہ ہندوستانی مسلمان یہاں کے ہندو مذہب سے خاصے متاثر ہوے ٔ اور ان کے عقائد و افکار میں ہندوانہ رنگ و آہنگ نے جگہ پائی ۔ دیوی دیوتاوں کی سرزمین پر مسلمانوں نے بھی ہندؤں کی دیکھا دیکھی اپنے اکابر اور پیروں کو ما فو ق ا لفطرت ہستیاں ثابت کرنے میں بے سرو پا حکایات و روایات کا سہارا لیا اور انہی کی طرح اپنے اولیأ اور بزرگوں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا بنا کر پیش کیا ۔ اس طرح بزرگوں سے بر تر ہستی رسول اللہ V کی ذات گرامی تو اور بھی زیادہ حاجت روائی کا منبع تصور کی گیٔ لہٰذہ نعت گوؤں نے رسول اللہ V کی نعت و منقبت اس طرح کہنی شروع کر دی جیسے ہندو کرشن جی کے بھجن کہتے تھے ۱۶ ؎ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ ہمارے پروفیسر صاحب کی زاد بوم کیا ہے ؟ وہ عربی ا لنسل ہیں یا عجمی النسل ،اگر وہ عجمی النسل ہوںگے تو یقیناان کے آبا و اجدادکا تعلق نہ موجودہ ہندوستان صحیح ماضی کے متحدہ ھندوستان سے تو ضرور ہی ہوگا ۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے جن عیوب کو بڑے فخر سے بیان کیا ہے یقیناً انہیں عیوب میں ان کے آبا و اجداد بھی ملوث رہے ہوںگے۔ الحمد للہ ا گر چہ ہم دیوی دیوتاوں کے ملک میں رہتے ہیں مگر اس کے باوجود اپنے اسلام کی حفاظت و صیانت کرنا جانتے ہیں ، ہماریے ایمان آقا و مو لیٰ جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی V کی محبت ان سے اعانت و استعانت کی ہی وجہ سے محفوظ ہے۔ آج اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے اہل وطن ہمیں عزت و توقیر کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں ۔ ہم اپنے رب کے شکر گزار ہیں کہ اس نے اپنے فضل و احسان سے ہمیں اس بات کا بخوبی علم و شعور عطا کیا ہے کہ کن اقوال و افعال کے صدور سے آدمی دایرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور کن افعال و اقوال کے صدور سے آدمی دایرۂ اسلام سے خارج ہو جایا کرتا ہے۔ کب وہ مشرک و بدعتی ہوا کر تا ہے معاذ اللہ رب العالمین ہماری نعتوں اور منقبتوں کا تعلق کبھی بھی کرشن جی کے بھجنوں سے نہیں رہا ہے ۔


میں نے ۱۹۹۳ ؁ میںحج سے واپسی پر روضۂ اطہر V کی زیارت کے موقع پر مسجد نبوی شریف میں اہل عرب کو قرآن مقدس کا تکیہ لگاکر آرام کرتے ہوے ٔبھی دیکھا ہے۔ مجھے ایک دن کا واقعہ یاد آرہا ہے کہ میں اپنے استاذ محترم حضرت علامہ محمد نعمان خان علیہ الرحمہ کے ساتھ مسجد نبوی شریف میں بعد نماز ظہر قرآن مقدس کی تلاوت میں مصروف تھا کہ اسی ا ثنا میں ایک عربی تشریف لاے ٔاور انہوں نے تین قرآن پاک اٹھاکر فرش پر رکھکر ابھی وہ ان کا تکیہ لگانے ہی جا رہے تھے کہ اتنے میں میرے استاذ محترم کی نگاہ ان پر پڑ گی ٔ ان کے ایمانی جذبے نے جوش مارا اور وہ قرآن کی بے حرمتی کو برداشت نہیں کر سکے انہوں نے اتنی زوردارآواز میں ان کو ڈانٹا کہ انہوںنے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا ،اور وہاں سے چلتا ہوے ٔ۔ میں پروفسر صاحب سے نہایت ہی ادب کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم ہندوستانیوں کا اسلام یہی ہے کہ دین اسلام پر اگر کہیں بھی ضرب آرہی ہوتی ہے تو ہماری مذہبی غیرت ہمیں للکارنے لگتی ہے اور پھر ہم اس پر سب کچھ قربان کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے دلوں میں قرآن کی محبت آج بھی اسی طرح جاں گزیں ہے کہ اگر اس کاایک بھی ٹکڑ ا روے زمین پر کہیں بھی گرا ہوا دکھائی دیتا ہے تو ہماری حمیت یہ گوارہ نہیں کرتی کہ بغیر اس کی حفاظت کیے ہوئے ہم آگے بڑھ جائیں ۔


پروفیسر صاحب جب ہم قبر انور شریف پر مواجہ اقدس V میں حاضر ہوتے ہیں اور مطوع حضرات کو آقا علیہم السلام کے رخ زیبا کی طرف پشت کیٔ ہوے ٔ دیکھتے ہیں تو ہمارے دلوں پر کیا گزرتی ہے، ہم اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے، اور ہم اپنی وا رفتگی کو کیسے قابو میں لاتے ہیں اسے بھی ہم بتا نہیں سکتے ۔ کیا آقا علیہم السلام کا یہی حق ہے ؟ کیا ان کا مقام ادب یہی ہے کہ ان کے رخ زیبا کی طرف پشت کرکے کھڑا ہواجاے ٔ؟ کیا اسی عشق رسول کا جام آپ ہم کو پلانا چاہتے ہیں؟


دیکھیٔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ پوری امت مسلمہ کو روضۂ اقدس VV پر حاضری کے آداب کی تعلیم کس طرح فرماتے ہیں، ان کے اقوال عشق رسول V میں کس قدر ڈوبے ہوے ٔ ہیں تعلیم و ترہیب کا انداز ملاحظہ فرمائیں وہ عاشقان مصطفی Vکو تنبیہ کرتے ہوے ٔ فرماتے ہیں۔


’’خبردار جالی شریف کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ یہ خلاف ادب ہے بلکہ چار ہاتھ فاصلے سے قریب نہ جاؤ ، یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا ، اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی۔ ان کی نگاہ کریم اگر چہ ہر جگہ تمھاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے۔ والحمد للہ۔‘‘


الحمد للہ ! اب دل کی طرح تمھارا منھ بھی اس پاک جالی کی طرف ہو گیا ۔ اللہ عز و جل کے محبوب عظیم الشان V کی آرام گاہ ہے۔ نہایت ادب و وقار کے ساتھ ،آوازحزیںو صورت درد آگیں و دل شرم ناک و جگر چاک چاک معتدل آواز سے نہ سخت و بلند ( کہ ان کے حضور آواز بلند کرنے سے عمل اکارت ہو جاتے ہیں ) نہ نہایت نرم و پست ( کہ سنت کے خلاف ہے ) اگر چہ وہ تمھارے دلوں کے خطروں تک سے آگاہ ہیں جیسا کہ ابھی تصریحات ایمہ سے گزر ا۔ ‘‘۱۷ ؎ ؎


ایک امتی جس وقت اپنے آقا و مولیٰ V کے حضور حاضر ہوتا ہے اس وقت وہ اپنی پوری زندگی کے گناہوں کے بوجھ سے زیربار ہوتاہے ۔ گناہوں کے بوجھ سے اس کی کمر ٹوٹ رہی ہوتی ہے۔ میدان محشر کے ہولناک منظر کے تصور سے وہ لرزہ براندام ہوتاہے ۔ ایسے ہی وقت کے لیے رب کے حضور آقا علیہم السلام کو اپنا شفیع بننے کے لیے منت و سماجت کرتا ہے ۔ کیا یہی انصاف کا تقاضہ ہے کہ استدعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہی شرک کی بولی بول کر اسے وہاں سے بغیر اپنی عرض داشت پیش کیے در بدر کر دیا جائے۔


پروفیسر صاحب آ پ ہی نے اپنی اسی مذکورہ کتاب میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ کی کتاب ’’جذب القلوب‘‘ کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے کہ’’ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مدینہ طیبہ میں اپنے گھوڑے پر سوار نہ ہوتے تھے ۔ فرماتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس زمین کو گھوڑے کے سموں سے پا مال کروں جسے رسول اللہ V کے مبارک قدموں نے چھوا ہے ۔


حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ مدینہ منورہ کی حدود شروع ہوتے ہی جوتا اتار لیتے تھے اور اپنے وقت کے امام ، عظیم محدث اور فقیہ ننگے پاؤں مدینے کی سر زمیں پر چلتے تھے کہ مبادا جس جگہ نبی اکرم V نے قدم رکھے ہوں ، وہاں وہ اپنی جوتیاں رکھ دیں۔‘‘۱۷ ؎


اسی کتاب میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علی الرحمہ تحریر فرماتے ہیں۔


’’جب سرور عالم V کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تھے اور جب مدینہ کے قریب پہنچتے تھے تو اپنی سواری کو حرکت دے کر اور تیز کر دیتے تھے، اور یہ اس لیے تھا کہ آپ وفور شوق سے بے چین ہو جاتے تھے کہ کسی طرح جلد از جلد مدینہ میں داخل ہو جائیں ۔آپ کا قلب مبارک یہاں پہنچ کر سکون پاتا کاشانہ مبارک میں چادر بھی نہ اتارتے اور فرماتے تھے کہ یہ ہوائیں طیبہ ہیں ۔

اے نفس خورم باد صبا

از بر یار آمدہ مرحبا

مرحبا پیاری نسیم مشک بو

پہلوے محبوب سے آتی ہے تو


جو گرد وغبار آپ کے چہرۂ انور پر پڑ جاتا اس کو صاف نہ فرماتے ،اگر صحابہ میں سے کوی شخص اپنے چہرہ اور سر کو گرد و ٖبار کی وجہ سے چھپاتا تو آپ منع فرماتے اور فرماتے کہ خاک مدینہ میں شفاہے جیسا کہ اس کے نام شافیہ سے ظاہر ہے ۔ جناب علی مرتضیٰ سلام اللہ علیہ نے رسول اللہ V سے روایت کیا ہے کہ شیاطین شہر مدینہ میں اپنی عبادت سے مایوس ہو گیٔ ہیں ۔ آپ دریافت کریںگے کہ شیاطین کی عبادت کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کو برائی کی طرف بر انگیختہ کر تے ہیں ۔‘‘ ۱۸ ؎


آج بھی عشاقان جہاں مدینہ طیبہ پر اپنی جاں وارفتہ کیے ہوے ٔ ہیں ۔ خاک طیبہ کا ایک ایک ذرہ آج بھی ہماری جاں سے عزیز ترین ہے ۔ ہمارا یہی وہ اثاثہ ہے جو ہمیں دنیا میں سرخرو بنائے ہوے ٔ ہے اور آج ہم اسی نسبت عظیم کی وجہ سے زندہ و تابندہ ہیں۔جس دن یہ نقوش ہمارے دلوں سے دھندھلے پڑنے لگیں گے شائد کہ وہ دن ہماری ہزیمت کا سب سے بڑا دن ہو ۔ ہم کبھی بھی ان نقوش کواپنے قلوب سے مٹنے نہیںدیں گے ۔


پروفیسر صاحب کیا یہ بتانے کی زحمت فرمائیںگے کہ ہمارے اسلاف حضرت امام ما لک اور حضرت امام احمد حنبل علیہم الرحمہ جب مواجہ اقدس میں حاضری دیتے تھے تو کیا ان کے زمانے میں بھی اسی طرح مطوع رخ انو ر V کی طرف پشت کرکے کھڑے رہتے تھے؟ اور زائرین طیبہ کو بغیر اپنی عرض داشت پیش کیے ہی دو ر کر دیاکرتے تھے؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا یہ وہ لوگ تھے ’’ہر آں کہ دلش زندہ شد بعشق ہرگز نہ بمیرد ‘‘ جو اپنی جانوں کو قربان کر دینا تو گوارہ کر لیتے مگر یہ کیفیت برداشت نہ کر سکتے تھے۔ یہ بدعت آپ کو آج تک نظر نہیں آئی ، آپ نے اپنی مذکورہ کتاب میں کہیں بھی اس فعل قبیح کا ذکر نہیں کیا جو عاشقان مصطفی ٰV کے لیے سوہان روح ہے۔


مجھے اس بات کا شدید احساس ہے کہ آج نعت گو سے زیادہ نعت خواں حضرات اس صنف ادب کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ اس لیے کہ نعت گو حضرات جو بھی نعت پاک یا نعت کے اشعار کہتے ہیں اس پر ان کی کڑی نظر ہوتی ہے اور وہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کہیں مجھ سے کوئی لغزش نہ ہو جائے ،اور میں شرعی گرفت میں آجاؤں ۔ وہ اس خوف سے ہمیشہ لرزاں و ترساںرہتے ہیں اور بار بار اپنے اشعار پر نظر ثانی بھی کرتے رہتے ہیں۔نیز جس کو وہ اس میدان کا شہ سوار اور استاد سمجھتے ہیں اس سے اصلاح ِسخن بھی لیتے رہتے ہیں ۔الحاصل سخن گو یا شاعر قطعی نہیں چاہتا کہ اس کے کلام میں کہیں کسی طرح کی کوئی کجی یا کمی رہ جاے ٔ جس سے کہ وہ شرعی زد میںآے ٔ ۔ مگر نعت خواں حضرات کا حال دگر گوں ہے ۔ وہ مجالس نعت یا سیرۃ المصطفٰی V کی مجلسوں اور محفلوں میں عجب طرز وآہنگ میں نعت خوانی کرتے ہیں، کبھی تو وہ فلمی گانوں کی دھنوں پہ نغمہ سرا ہوتے ہیں، کبھی وہ اپنی سحر آمیز آواز سے لوگوں کو گرفت میں لینا چاہتے ہیں ، کبھی کبھی وہ فضائل نعت بیان کرکے مجلس کوسرگرم کرنا چاہتے ہیں ۔ کبھی اعضائے جسم سے اس طرح کی ایکٹنگ کرتے ہیں کہ جس سے نعت کی مجلس کا ادب جاتا رہتا ہے ، اور اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ یہ نعت مصطفیٰ V کی مجلس ہے یا کوئی اور مجلس۔ اس پر طرفہ یہ کہ اناونسر حضرات جب کسی نعت خواں کو آقا و مولیٰ V کی بارگاہ میںنعت پاک پڑھنے کے لیے دعوت دیتے ہیں تو اس وقت وہ اپنی پوری صلاحیت اس کے اوصاف بیا ن کرنے میں صرف کر تے ہیں ، کہیں اس کے کلام کی خوبیوں کو بیان کرتے ہیں، تو کہیں اس کی ساحری کو ، اور کہیں اسکے منفرد لب و لہجہ کو۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اس وقت ان کے پاس حضرت اسرافیل علیہ السلام کاصور ہوتا او ر وہ اس کے پھو کنے پر قادر ہوتے تو وہ شائد کہ صور پھونکنے میں بھی کوئی فرو گزاشت نہیں کرتے۔جس سے ان کا مقصد صرف اورصرف عوام الناس کی واہ واہی اور خوش نودی حاصل کرنا ہو تا ہے۔جب کہ مجلس نعت یا محفل نعت میں ثنا خوانی یا نعت خوانی کرتے نعت خواں حضرات کا یہ تصور ہونا چاہیے کہ یہ سید کونین V کی محفل ہے۔آقا علیہم السلام حاضر مجلس ہیں جہاں وہ ہمارے کلام کو سماعت فرما رہے ہیں وہیں ہمارے حرکات و سکنات پر بھی ان کی نظر ہے ۔


ہمارے جسم کے اعضأ سے کسی ایسے فعل کا صدور نہ ہو جاے ٔ جو ان کی نا پسندیدگی یا ناراضگی کا سبب بنے۔ میرے اپنے خیال میں اگر شعرأیا نعت خواں اس تصور کے ساتھ نعت خو انی کریں تو سامعین حضرات کو بھی مجلس نعت خوانی کا پورا پورا لطف آے ٔ گا ۔ اور نعت گوئی یا نعت خوانی کے اصل مقصد کا حصول بھی ۔ ورنہ اس سے ہٹ کر نعت خوانی دونوں جہاں میں ہماری ہزیمت و رسوائی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی ۔


آخر میں میں اپنے دانشور حضرات سے بڑی معذرت کے ساتھ التماس کرنا چاہوں گا کہ نعت مقدس کے موضوع پر بڑی سنجیدگی سے غور و خوض کرنے کے بعد ہی اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کریں اس لیے کہ ادب کی یہ واحد صنف سخن ہے جس کا تعلق ہمارے اقوال و اعمال سے ہے۔ یہی وہ صنف سخن ہے جس میں ناموس رسالت کی پاسداری ہر ہر قدم پرہم سے متقاضی ہوتی ہے ۔ ہم سبھی لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کو صنف ادب کا درجہ دلانے میں ہر ممکن کوشش کریں ،بہتر تو یہ ہوگا کہ ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا ہوکر ایک لایحۂ عمل تیار کرکے اپنی آواز کو ادب و احترام کے دائرے میں بلند کریں ۔ اگر ہم نے اس طرح کے اقدامات کیے تو یقیناً ہمیں کامیابی ملے گی ۔ ورنہ اگر ہم انفرادی طور پر صرف اپنا نقظۂ نظر مسلط کرتے رہے پھر تو یہ سلسلہ دراز چلتا رہے گا۔

حوالے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ نعت نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ۔ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی ۔ اریب پبلیکیشنز، دریا گنج،نیٔ دہلی ۹ ۱؎

۲۔ ایضاً ، ص ۲۰

۳۔ ایضاً، ص ۷۴

۴۔ ایضاً، ص ۷۸

۵۔ نعت گوئی اور اس کے آداب، پروفیسر عبداللہ شاہین،دارالسلام، لاہور، ص ۲۰۳

۶۔ عربی میں نعتیہ کلام ، ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی، مکتبۂ اسلام، گوٰین روڈ، لکھنؤ،ص ۸۲

۷۔ نعت گوئی اور اس کے آداب ، پروفیسر عبداللہ شاہین ، دارالسلام ، لاہور۲۷

۸۔ نعت گوئی کا موضو عاتی مطالعہ،۔ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی، اریب پبلی کیشنز، دریا گنج،نئی دہلی، ص ص ۱۰۹-۱۱۰

۹۔ عربی میں نعتیہ کلام ، ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی ،مکتبۂ اسلام، گوٰین روڈ، لکھنؤ، ص ص ۱۰۳-۱۰۵

۱۰۔ ایضاً ، ص ص ۱۰۳-۱۰۵

۱۱۔ نعت گوئی اور اس کے آداب، پروفیسر عبداللہ شاہین، دارالسلام ، لاہور، ص۱۷۷

۱۲۔ کلیات نعت محسن، محمد نورالحسن، اتر پردیش اردو اکا دمی، لکھنؤ ، ص ص ۹۵-۹۷

۱۳۔ نعت گوئی کا موضو عاتی مطالعہ، ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی، اریب پبلی کیشنز، دریا گنج،نئی دہلی ، ص ص ۲۴۱-۲۴۲

۱۴۔ عربی میں نعتیہ کلام، ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی، مکتبۂ اسلام، گوٰین روڈ، لکھنؤ،ص ص ۱۱۴-۱۱۵

۱۵۔ کلیات نعت محسن، محمد نورالحسن، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ص ۹۴

۱۶۔ نعت گوئی اور اس کے آداب،۔ پروفیسر عبداللہ شاہین، دارالسلام ، لاہور، ص ۱۰۷

۱۷۔ شمائیم النعت، ڈاکٹر سراج احمد قادری، رضوی کتاب گھر، دہلی،ص ۴۵

۱۸۔ جذب القلوب الیٰ دیارالمحبوب ( اردو ترجمہ)، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، رضوی کتاب گھر، بھیونڈی، ص ۲۱-۲۲

٭٭٭

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
مضامین میں تازہ اضافہ
نئے صفحات

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png