"علامہ غلام علی آزادؔ بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ نعتیہ شاعری کے گلِ سر سبد -پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحا ق قریشی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[ملف: Dabastan_e_naat.jpg ]]
[[ملف: Dabastan_e_naat.jpg | دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2]]
 
{{ ٹکر 1 }}
{{ ٹکر 1 }}
[[محمد اسحاق قریشی | پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ( پاکستان) ]]
 
مضمون نگار: [[محمد اسحاق قریشی | پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ( پاکستان) ]]
 
مطبوعہ: [[ دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2]]


=== علامہ غلام علی آزاد بلگرامی نعتیہ شاعری کے گل سر سبد ===
=== علامہ غلام علی آزاد بلگرامی نعتیہ شاعری کے گل سر سبد ===
{{ ٹکر 2 }}
{{ ٹکر 2 }}
بلگرام ایک مردم خیز خطہ ہے جہاں کئی عالم ،صوفی اور شاعر پیدا ہوئے ، ،معاصر تذکرہ نگاروں نے ان کے حالات محفوظ کئے ہیں۔ آزاد ؔبلگرامی کی تالیف ’’ مآثر الکرام ‘‘ ان بزرگوں کے علمی و ادبی کارناموں کی حسین دستاویز ہے۔ ان علمأ و ادبأ میں سب سے زیادہ شہرت سید غلام علی آزادؔبلگرامی کو نصیب ہوئی۔کہ وہ عالم ، مورّخ، ادیب اور شاعر تھے اور ہر صنفِ ادب میں انہوں نے قابلِ قدر تالیفات چھوڑی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ سید آزادؔ بلگرامی کا تفصیلی تذکرہ پیش کیا جائے ۔  
بلگرام ایک مردم خیز خطہ ہے جہاں کئی عالم ،صوفی اور شاعر پیدا ہوئے ، ،معاصر تذکرہ نگاروں نے ان کے حالات محفوظ کئے ہیں۔ آزاد ؔبلگرامی کی تالیف ’’ مآثر الکرام ‘‘ ان بزرگوں کے علمی و ادبی کارناموں کی حسین دستاویز ہے۔ ان علمأ و ادبأ میں سب سے زیادہ شہرت سید غلام علی آزادؔبلگرامی کو نصیب ہوئی۔کہ وہ عالم ، مورّخ، ادیب اور شاعر تھے اور ہر صنفِ ادب میں انہوں نے قابلِ قدر تالیفات چھوڑی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ سید آزادؔ بلگرامی کا تفصیلی تذکرہ پیش کیا جائے ۔  



نسخہ بمطابق 06:57، 29 مارچ 2018ء

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ( پاکستان)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

علامہ غلام علی آزاد بلگرامی نعتیہ شاعری کے گل سر سبد

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

بلگرام ایک مردم خیز خطہ ہے جہاں کئی عالم ،صوفی اور شاعر پیدا ہوئے ، ،معاصر تذکرہ نگاروں نے ان کے حالات محفوظ کئے ہیں۔ آزاد ؔبلگرامی کی تالیف ’’ مآثر الکرام ‘‘ ان بزرگوں کے علمی و ادبی کارناموں کی حسین دستاویز ہے۔ ان علمأ و ادبأ میں سب سے زیادہ شہرت سید غلام علی آزادؔبلگرامی کو نصیب ہوئی۔کہ وہ عالم ، مورّخ، ادیب اور شاعر تھے اور ہر صنفِ ادب میں انہوں نے قابلِ قدر تالیفات چھوڑی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ سید آزادؔ بلگرامی کا تفصیلی تذکرہ پیش کیا جائے ۔

غلام علی آزادؔ بلگرامی کا تعلق بلگرام کے مشہور واسطی سادات سے تھا۔ اس خاندان کے ایک بزرگ سید محمد صغریٰ (م ۶۴۵ھ) سلطان التمش کے عہدِ حکومت میں یعنی ۶۱۴ ھ ؁ میں بلگرام تشریف لائے اور آباد ہو گئے ۔ سید عبد الجلیل بلگرامی انہیں فاتح ِ بلگرام کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ۱ ؎ سیدمحمد صغریٰ ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمۃ کے مرید ہوئے۔ ۲ ؎ اس طرح اس خاندان کا سلسلہ چشتیہ ٔ ہند سے تعلق پیدا ہوا۔

سید غلام علی آزادؔ۲۵؍ صفر ۱۱۱۶ھ ؁ میں بلگرام کے ایک محلے میدان پورہ میں پیدا ہوئے۔ ۳ ؎ یعنی اورنگ زیب کی وفات سے دو سال قبل۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی آزاد ؔکے ہم عصر تھے اور دونوں بزرگوں نے مغلیہ اقتدار کو بتدریج ڈوبتے دیکھا ہے۔

آزادا ؔنے درسیات کی تعلیم سید طفیل محمد الاترولوی ( م۱۱۵۱ھ) سے حاصل کی۔ حدیث و سیر اور علوم ادبیہ اپنے جدِّ مادری سید عبد الجلیل بلگرامی سے۔ عروض و قوافی یعنی فن شعر کی تعلیم و مشق میں اپنے ماموں سید محمد بن عبد الجلیل بلگرامی سے استفادہ کیا۔ آزاد نے ۱۱۳۷ھ میں شیخ لطف اللہ الحسینی ( م ۱۱۴۳ ھ) جو شاہ لدّھا بلگرامی کے نام سے معروف تھے سے سلسلہ چشتیہ میں نسبت سلوک قائم کی۔ ۴ ؎ سید عبد الجلیل ا س دور کے ماہر ِ درسیات اور فاضل استاد تھے۔ طبعیت سیلانی تھی مدت کی جہاں گردی کے بعد بلگرام آئے توآزاد ؔ ان سے استفادہ کرنے لگے۔ مگر وہ جلد ہی دہلی روانہ ہو گئے۔ آزادؔ نے تکمیل علم کے لیئے ساتھ جانے کا ارادہ کیا چنانچہ ( ۱۱۳۴ھ ) میں اپنے نانا کے ہمراہ دہلی آئے دہلی میں دو سال قیام رہا۔ اختتام تعلیم پر بلگرام چلے گئے۔ آزاد ؔ کے ماموں سید محمد بلگرامی سیر ستان ( سندھ ) میں میر بخشی اور وقائع نگار تھے۔ان کی دعوت پر آزادؔ ۱۱۴۳ھ میں وہاں پہنچے سید محمد انہیں وہاں چھوڑ کر بلگرام چلے گئے اس طرح آزادؔ نے ۱۱۴۳ھ تا ۱۱۴۷ھ اپنے ماموں کی نیابت کی ’’ یدِ بیضأ ‘‘ کے نام سے فارسی شعرأ کا تذکرہ انہیں ایّام میں لکھنا شروع کیا۔ ۵ ؎

سید آزادؔ کی افتاد طبع محبت و عقیدت سے استوار تھی ، عشقِ مصطفی ﷺ ان کی زندگی کا نمایاں عنصر ہے۔ یہ محبت دل میں گدا زپیدا کرتی رہی۔ شوق فروزاں ہونے لگا تو آزادؔ نے حرمین کا قصد کر لیا۔ ۱۱۵۰ھ میںآزادؔ بلگرام سے روانہ ہوئے ۔ راستے میں نواب نظا م الملک آصف جاہ (م۱۱۶۱ھ) سے ملاقات ہوئی جو مرہٹوں کے خلاف بر سرِ پیکار تھے۔ آزاد ؔ بھی شریک ِ جہاد ہوئے۔ اختتام جنگ پر نواب نے زادِ سفر کا انتظام کر دیا تو آزادؔ سورت سے جہاز پر سوار ہوئے ۱۸؍محرم ۱۱۵۱ھ میں جدہ پہنچے جہاں شیخ محمد فاخر الہ آبادی نے استقبال کیا ۲۳؍ محرم کو ارضِ پاک پر قدم رکھا۔ ۶ ؎ حج کے دن گزر چکے تھے۔ اس لیے مدینہ منورہ روا نہ ہوئے۔ مدینہ منورہ میں شیخ محمدحیات سندھی ( م ۱۱۶۳ھ ) مستقل طور پر آباد تھے۔ ان سے صحیح بخاری کی سند لی اور صحاح ستہ اور بعض فوائد علم حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ۷ ؎

مکہ مکرمہ میں شیخ عبد لوہاب طنطاوی ( م ۱۱۵۷ھ ) سے مصاحبت رہی۔ شیخ طنطاوی کو ازاد ؔ نے اپنے عربی اشعار سنائے جن میں آزادؔ کا تخلص استعمال ہوا تھا۔ شیخ نے حیرت سے مفہوم دریافت کیا ،آزادؔ نے وضاحت کی تو علامہ طنطاوی نے کہا ، سیدی انت من عتقأ اللہ۔

سید آزاد ؔ نے طائف میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور وطن کے ارادے سے واپس لوٹے۔ راستے میں بندر گاہ مخاؔ میں قیام کے دوران شیخ علی الشازلی (م ۶۵۶ھ ) کے مزار کی زیارت کی۔۹ ؎ ۔۲۹؍ جمادی الاوّل ۱۱۵۲ھ کو ان کا جہاز بندرگا سورت پر پہنچا۔ کچھ عرصہ اورنگ آباد میں بابا شاہ مسافر نقش بندی کی خانقاہ میں قیام رہا اور بلاد دکن کی سیاحت میں مشغول رہے۔

آخر ۱۱۶۱ھ میں مستقل اورنگ آباد میںقیام پذیر ہو گئے اور تا دم ِ وفات قیام پذیر رہے۔۱۰؎ ۱۲؍ ذی القعدہ ۱۲۰۰ھ؁ مطابق ۱۵؍ ستمبر ۱۷۸۴؁ء میں وفات پائی، وصیت کے مطابق خلد آباد دکن میں احاطہ درگاہ میر حسن سنجری دہلوی میں اس مقبرے میں جو آپ نے ’’ خواب گاہ ِ روشن ‘‘ کے نام سے ۱۱۹۱ھ؁ میں تعمیر کرایا تھا دفن کیا گیا۔ ۱۱ ؎

دکن کے قیام کے۴۸؍ سال فارغ البالی کے دن تھے۔ دکن کے امر أ آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ سراج المحدثین اور رئیس العلمأ کے خطاب دئے گئے ، صمصام الدولہ شاہنواز خان سے قریبی تعلق رہا، بلکہ ان کی شہادت پر مآثرالامرأ کی تکمیل کا بیڑا بھی اُٹھایا۔ ۱۲ ؎ اس تعلق باہمی کے با وجو د د آزادؔ نے کبھی امرا ٔ کی مدح سرائی نہیں کی ، نواب آصف جاہ کی مدح میںایک رُباعی کہی جس کی توجیہ کرتے ہیں۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

’’ فقیر با وصف موزونیِ طبع مدت العمر زبان بہ مدحِ اغنیا نہ کشودہ ام اِلا ایں رُباعی کہ در استعانت سفر بیت اللہ سرزد ‘‘ ۱۳ ؎

سید آزادؔ کی بے نیازی طبع کا یہ عالم تھا کہ جب وہ اورنگ آباد میں شیخ غجدوانی کے زاویے میں اقامت پذیر تھے اور نواب آصف جاہ کے فرزند نواب ناصر جنگ سے تعلق خاطر قائم تھا اس نے منصب امارت کی پیش کش کی تو انکار کر دیا اور کہا۔ ھٰذہ الدنیا شاربا کمثل نھر طالوت غرفۃ منہ حلا ل و الزیادۃ علیھا حرام۔ ۱۴؎ سید آزادؔ بلگرامی کشیر نویس بزرگ تھے ، متعدد مو ضوعات پر قلم اٹھایا اور ہر فن میں قابلِ قدر نگارشات ترتیب دیں عربی تصانیف یہ ہیں۔

۱۔ ا لضوء الدراری فی شرح البخاری ’’ بخاری کی شرح قسطلانی کا کتاب اوّل سے کتاب الزکاۃ تک کا ملخص ہے ‘‘

۲۔ سبحۃ المرجان فی آثار ھندوستان۔

۳۔ تسلیۃ الفواد فی قصائد آزاد۔

۴۔ شفأ العلیل فی مواخذات علی المتنبی فی دیوانہ۔

۵۔ الشجرۃ الطیبۃ فی النساب السادۃ من اھل بلگرام۔

۶۔ مظھر البرکات۔ مولانا روم کی مثنوی کے وزن یعنی بحر ِ خفیف میں سترہ منظوم حکایات کا مجموعہ۔

۷۔ مرآۃ الجمال۔ محبوبہ کے سراپا پر ایک نادر نونیہ قصیدہ جو ۱۰۵؍ ابیات پر مشتمل ہے۔

۸۔ السبعۃ السیارۃ۔ سات دواوین کا مجموعہ پہلے تین دیوان ۱۱۸۹ھ تک کہے گئے قصائد کا مجموعہ ہے ، چوتھا دیوان جس کے اکثر قصائد میں ردیف کا استعمال کیا گیا ہے ۱۱۹۰ھ میں اپنے پوتے امیر حیدر بن نورالحسن کے لیے تحریر کیا گیا۔ ردیف خالص عجمی طرز انشأ ہے۔ پانچواں دیوان مستزاد ہے ۱۱۹۱ھ میں مرتب ہوا یہ بھی عجمی اثر ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

چھٹا دیوان ا میں ۱۳۴۰۰؍ ابیات ہیں۔

ساتوں دیوان ۱۱۹۳ھ۔۱۱۹۴ھ کے دوران کہے گئے قصائد پر مشتمل ہے۔

ان سب دواووین میں بقول آزاد دس ہزار اشعار ہیں ۱۵؎

۹۔ شما مۃ العنبر فیما ورد فی الھند من سید البشر۔ اسے سبحۃ المرجان کی فصل کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا ہے۔

۱۰۔ اُرج الصبا فی مدح المصطفیٰ ﷺ قصائد نبویہ کا مجموعہ۔

۱۱۔ دواوین السبعہ السیارہ کے بعد بھی آزادؔ نے عربی شاعری جاری رکھی اس طرح ۱۱۹۸ھ میں آٹھواں ، او ائیل ۱۱۹۹ھ میں نواں اور اواخر ۱۱۹۹ھ میں دسواں دیوان مکمل ہوا، کُل دس دیوان ہیں ۱۶ ؎

۱۲۔ مکاتیب مجدد۔ سید مقبول احمد صمدانی کا بیان ہے کہ آزادؔ نے حضرت شیخ مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض مکاتیب کا عربی ترجمہ کیا تھا۔ ۱۷ ؎

فارسی تصانیف :

۱۔ مآثر الکرام فی تاریخ بلگرام ’’ بلگرام کے علمأ و صوفیأ کا تذکرہ ‘‘

۲۔ خزانہ ٔ عامرہ، فارسی گو ہندی شعرأ کا تذکرہ۔

۳۔ یدِ یضأ، فارسی گو ایرانی شعرأ کا تذکرہ۔

۴۔ سروِ آ زاد۔ ہندی ایرانی شعرأ کا تذکرہ۔

۵۔ روضۃ الاولیاء۔ اورنگ آباد کے قریب ’’ الروضہ ‘‘ کے مقام پر مدفون بعض چشتی مشائخ کا تذکرہ ۱۸ ؎

۶۔ غزالان ہند۔

۷۔ سند السادات فی حُسن خاتمۃ السادات ۱۹ ؎

۸۔ دیوان شعر فارسی’’ نو ہزار اشعار کا مجموعہ ‘‘ ۲۰ ؎

۹۔ کشکول ’’ کتب خانہ آصفیہ اور ندوہ میں نسخے موجود ہیں۔‘‘ ۲۱ ؎

۱۰۔ شرح قطعہ نعمت خاں ’’ پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے۔ ‘‘ ۲۲ ؎

۱۱۔ ماثر الاسرأ۔ صمصام الدولہ۔ شاہنواز خان کی کتاب کی تکمیل و ترتیب۔ ۲۳؎

۱۲۔ انیس المحققین ۲۴ ؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

دیوان ار دو:

آزاد ؔ کے تذ کے کرہ نگاردیوان اردوکے بارے میں مختلف الرائے ہیں ، مقبول احمد مدنی نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ آزادؔ اردو میں شعر کہنااپنے مرتبہ ٔ عالی سے پست و دُوں سمجھتے تھے ، لیکن اسد علی خاں تمنّاؔ اورنگ آبادی نے اردو دیوان کا تذکرہ کیا ہے اور اردو شعر بھی نمونے کے طور پر نقل کئے ہیں ۲۵ ؎

کُل اشعار:

عبد ا لحمید الشلغامی نے تمام دواوین ، مثنوی ، مراۃ الجمال اور نثری کتب سے تمام اشعار کا مجموعہ ستر ہزار تین سواشعار بتایا ہے۔ ۲۶ ؎یہ تعداد ایک عجمی کی شعری صلاحیت کا بر ملا اظہار ہے اور اس پر آزادؔ کو بجا طور پر ناز ہے۔

مولانا آزاد ؔ بلگرامی بحیثیت ایک مدح نگار :

آزاد ؔ بلگرامی کو عربی شاعر ی میں بلند مقام حاصل ہے ، اُنہوں نے عربی شاعری میں نیٔ تجربات سے قارئین کی وجہ کو جذب کیا ہے ، ’’ مرآۃالجمال‘‘ جو سراپائے محبوب پر ان کی مشہور نظم ہے میں انہوں نے ہر ہر عُضو پر دو دو اشعار لکھے ہیں اس طرح ۱۱۰۵؍ اشعار کی نظم تیار ہوئی۔ یہ انداز شعرآ زادؔ کی مخترعات میں شمار ہوتا ہے ، آزادؔ کی عظمت اور سیرت کی اصل بنیاد ان کے وہ قصائد ہیں جو آں حضرت ﷺ کی مدح میں عربی زبان میں رقم ہوئے ہیں ، آزاد ؔ کو نو خیزی عمر سے ہی ذات ِ رسالت مآ ب ﷺ سے گرویدگی تھی ، عمر کے ساتھ ساتھ یہ وارفتگی محبت تیز تر ہوتی گئی اور بالآخر انہوں نے اپنے فن شاعری کو مدحت ِ سرکار دو عالم ﷺ کے لیے وقف کر لیا۔

آزاد ؔ ایک شاعر تھے اور شاعری قصیدہ گوئی کی مترادف گردانی جاتی ہے ، ہر شاعر کسی ممدوح کی تلاش میں رہتا ہے ، آزادؔ کو بھی ممدوح کی تلاش تھی ، مگر انہوں نے ابتدائی ایّام میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کی ممدوح وہ ذاتِ گرامی ہے جو ممدوحِ کائنات ہے ، اس لیے آزاد ؔ پریشاں خیالی سے محفوظ رہے اور در در کی ٹھوکروں اور گھر گھر کی گدائی سے بچے رہے ، یہ اسی ’’ یک جا گیر ومحکم گیر ‘‘ کی کیفیت کا اثر تھا کہ آزادؔ نے کسی اور آستاں کی جبہ سائی نہیں کی ، کہتے ہیں۔

’’ ہر چند با امرأ ارتباط دارم و با روسأ اختلاط ، امّا سر رشتہ ٔ استغنا ٔنگسیختہ ام و آبروئے فقر بر درِ تمنّا نریختہ ام ‘ ‘ مزید کہتے ہیں۔

ایں دریوزہ گر فیضِ الٰہی در تمام عمر خود لب بمدح امیرے نکشودہ و نامہ ٔ خود بستائش دولت مندی سیاہ نہ نمودہ۔ ۲۷ ؎

توصیف پیغمبر ﷺ کے بعد کسی اور کی مدح نہ مناسب تھی نہ انہیں یہ پسند تھی ، خود کہتے ہیں۔

’’ توصیف غیرک بعد مدحک مشبہ ، بیتا تضمن وصفۃ الا قوأ ۲۸ ؎

آزادؔ کی شاعری کا یہ درخشندہ پہلو ہے ، عربی، فارسی، اردو ہر سہ زبانوں کا شاعر ہو کر کاسہ لیسی سے محفوظ رہنا آزادؔ کا وہ کار نامہ ہے جس کی مثال مشکل ہے ، آزاد ؔ کے دس دیوانوں کا بیشتر حصّہ مدح نبوی ﷺ پر مشتمل ہے، متعدد بحور، متنوع قوافی میں مدحتِ رسولﷺ کا ایک جہان آباد ہے ، آزادؔ نے نعتیہ شاعری کا ہیولہ سقوط بغداد کے بعد کی شاعری سے مرتب کیا ہے ، مضامین کی ترتیب و تنوع اس دور کے مماثل ہے ، علوم دینہ کی تعلیم اور تعلیمات اسلامیہ کے مطالعہ نے ان کو سیرت اور حواشیِ سیرت کے لا تعداد موضوع عطا کر رکھے تھے ، یہ موضوعات کی کثرت اور خیالات کی بُہتات ہی تو ہے کہ انکے ہاں واقعاتی انداز پیدا نہیں ہوا ، واقعہ نگاری سے اجتناب اور اشاراتی طرز ان کا منفرد وصف ہے ، سیرت پاک کا کوئی واقعہ ہو یا کوئی مہتم باالشان پہلو آزادؔ صرف اشارہ کرکے گزر جاتے ہیں کہ انہیں چند شعروں میں بہت کچھ کہنا ہوتا ہے ، غزوات کا بیان محاکاتی شاعری کی شکل اختیار کر لیتا ہے اس لیے آزادؔ کے یہاں غزوات کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے ، اس کا سبب ان کا مو ضوعی انداز شعر ہے ، سیرت نگاری یا فضائل شماری ان کا مطلوب نہیں بلکہ واقعات سیرت کے قلبی تاثّر اور فضائل و خصائص کے داخلی وجدان کا اظہار مقصود ہے ، واقعات ہو ںیا فضائل خارج کی چیز نہیں ہیں، بلکہ ان کی لوح قلب پر منعکس ضیأ پاشیاں ہیں کہ ان کی پرچھائیاں اشعار کے آئینوں میں جگ مگا رہی ہیں، آزادؔ کے ہاں موضوعات ِ مدح محرکات نفس میں ڈھل گئے ہیں اس لیے ان کی مدحیہ شاعری میں جذبات کی فراوانی اور خیالات کی سرشاری عطر بیز ہے۔ آزادؔ کے مدحیہ قصائد کے اجزأ ترکیبی کا مختصر جائزہ ان کے شعری اسلوب کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

عناصرِ قصائد کا مجمل تعارف:

تشبیب۔مدحیہ قصائد کے مشتملات کی ترتیب و ترکیب میں آزاد ؔ نے قدیم اسلوب اپنایا ہے ، یعنی تشبیب ، گریز ، مدح جو مرکزی تھے اور استغاثہ جو مقصود ِ قصیدہ ہے۔ تشبیب کا رنگ جاہلی قصائد سے مستعار ہے۔ آزاد ؔ نے حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت کومضبوطی سے تھامے رکھا ہے ، تشبیب کی حیثیت ، جواز یا عدم جواز ، حدود و قیود پر تفصیلی بحث پہلے باب میں پیش کی جا چکی ہے ، اعادے کی ضرورت نہیں ، آزادؔ کی شاعری میں تشبیب کی چند مثالیں تشبیب کے بارے میں ان کی شعری روش سمجھنے کے لیے ضروری ہیں فرماتے ہیں۔


لحت الیّ یعینھا الکحلأ

فمرضت طولالعمر بالسودأ۔

اسرت قلوب العاشقین فطوفت

اجیادھا ، بویونھا النجلأ۔۲۹ ؎

ضأت غدائرھا بنور مبینھا

فیھن حسن اللیلۃ القمرأ۔

میسأ خلقت النطبأ وکیف لا

ان السابق سنۃ الاکفأ۔۳۰؎

یا قوم فی ارض الغدیر جاذر

اصدا غھم سلاسل آلاسأ۔۳۱ ؎

ھی ظبیۃ سلیت عقول اولیٰ النھیٰ

مشہورۃ بعیلۃ الدھنأ۔ ۳۲ ؎

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

آزادؔ بلگرامی کی تشبیب میں فراقِ محبوب کی شدّت ، قطع تعلقی کی بے بسی اور قتل عشاق کی واردات کا تذکرہ نمایاں ہے ، وہ اپنی عادت کے مطابق فراق حبیب کا کوئی قصہ نہیں سناتے اور نہ جدائی کی المناک کہانی دہراتے ہیں ، بلکہ وہ حکایت عشق کو مختصر انداز میں بیان کرتے ہیں ، محبوب کو عموماً ہرن سے تشبیہ دیتے ہیں جو گریز پا بھی ہے اور تیز رفتار بھی ، صحرا میں ہرن کا سامنے آجانا ، نظریں ملانا چوکڑیاں بھرتے ہوئے غائب ہو جانا لمحاتی عمل ہوتا ہے ہرن تو پھر ہاتھ نہیں صرف اس کی دل شکار کرنے والی نظر یاد رہ جاتی ہے یہی حال آزاد کاہے وہ غم ِ فراق میں نڈھال اور تیر نظر کے گھائل ہیں اور مسلسل ایک کسک محسوس کرتے ہیں ، تشبیب میں ان کے قلبی تاثرات کی حکایت ہی کو اوّلیت حاصل ہے اور یہی ان کا غیر معروضی انداز شعر ہے۔

گریز۔آزادؔ تشبیب کی جان سوز کیفیات سے بمقتضأ طبیعت جلد چھٹکارا پانے کے خواہش مند ہیں ، اس لیے ان کی شاعری میں گریز اور مرکزی خیال با ہم پیوست ہو گئے ہیں ، گریز میں وہ عموماً لفظی یا معنوی مناسبت ڈھونڈھتے ہیں جس سے موضوع کی طرف جانا آسان بھی اور ڈرامائی بھی ، گریز کی حد تک آزاد نے بڑی جدّت پسندی اور فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے، گریز کا موڑ اس خوبصورتی سے کاٹتے ہیں کہ قاری بے ساختہ مرحبا کہ اُٹھتا ہے ، مختلف قصائد میں گریز کی صورت ملاحظہ ہو۔


بات الفواد بضد عھا متبحر عا

من سم تلک الحیۃ السودأ ۳۳ ؎

فا تیت بالقلب السلیم منادیا

غوث الوریٰ فی شدّۃ ورخأ ۳۴ ؎

تبسمت نحسباوجھھا قمرا

مشفقاً معجزاً من سید العرب ۳۵ ؎

احن شوقاً الیٰ الندامی

حنین جزع الیٰ الحبیب ۳۶ ؎

وذکر نی حمام فوق غصن

انا شیہ اطعی بید الرسول ۳۷؎

انیّ لملت الی ضفائرالتی

امت تشابہ لیلۃ الاسرأ

و عشقت حجبک الرفع لشبھۃ

بھلال روضۃ سید الزورأ ۳۸ ؎

کانما ناظرالحسنأ مُکتحل

یثرب نعل رسول مکحول ۹؎

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مدحـ۔ قصائد کا مرکزی موضوع مدح ہے ،مدح میں آزاد ؔ کا طرق واقعات مدح یا فضائل مدح کی وارداتی تعبیر ہے ، مدح کے مشتملات میں درج ذیل اہم پہلو نمایاںہیں۔

۱۔حسن صورت۔ مداحین ظاہری اوصاف کا تذکرہ کرتے ہیں یہ روایت صحابہ ٔ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عہدسے چلی کہ چہرہ ٔ انور کو سورج کی تابناکی یا چاند کی نورانیت سے تشبیہ دیتے ہیں ، آزاد ؔ ضیائے حسن کے گیت گاتے ہیں اور اپنے قلب تاریک کے لئے نورانیت کی بھیک مانگتے ہیں ؎


برھان رب العالمین جبینہ

فی الامۃ الامیۃ العربأ

محمد نور الاکوان قاطبۃ

فیا لنور بدا فی ھیکل البشر

ما ان رأیت شریکا فی الملاحۃ

ولد سمعت بہ والسمع والبصر

تبارک اللہ بعد لا محاق لہ

و خاتم وصہ نور بلا حول

عدیم المثل فی حسن التغنی

وقا ھا اللّٰہ من ریب المنون ۴۰ ؎

یا ایھا البدر الاصیل کمالہ

ضاعت ینورک مقلۃ العلیأ

داعی الراعی ٔ سراجا فی زجاج

ازا ما شرف المختار غارا ۴۱؎

۲۔ حسن سیرت۔ عادت و شمائل ہر تمام مدّاحین کی وجہ رہی ہے کیوں کہ انہیں سے شاعر کو اپنی عرض داشت پیش کرنے کا حوصلہ ملتا ہے اور عفو و کرم کی امید پیدا ہوتی ہے۔ اخلاق عالیہ کے ذکر میں عفو و کرم ، شفقت و محبت ، مرشدہ ہدایت کے تذکرے زیادہ نہیں آزاد کا انداز ہی subjective ہے اس لیے انہوں نے وہی اوصاف چنے ہیں جن کے اثرات ان تک ممتد ہوں ، خلق عظیم ،کرم بے پایاں اور رحمت عالم مثلاً۔ ؎


محمد عطر الاخلاق قاطبۃ

فیا لطیب خزالی خلقۃ الحسن

ثمال الوریٰ قطمیر ھا و نقیرھا

اجار الذی ینمو بارض المشاعر۴۲ ؎

یا ایھا البارق الفیاض مبتسما

ندی بدید ک علی الافاق مبذول۴۳؎

لا محزون خمدت نار علیٰ یدہ

الیس فی یدہ ذخر من الدیم ۴۴ ؎

دنیا سے بے رغبتی اور بخشش و کرم کی عادت کے ذکر میں آزادؔ کے قلم کا زور دیدنی ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ما استعمل المصطفی ما قل من ذھب

فکیف یحتمل الاطوار عقیانا ۴۵

آری الیہ الفقر فقراً ساذجاً

وری النعال علی جبال المسجد ۴۶ ؎

اور خود اسی فیاضی کے طلبگار ہیں۔ ؎

جنانک غیث یستغیث بہ الوریٰ

دانی لعوریصطلافی فی المجامر

محرننا بتخلیص الغزالۃ انہ

لنا مثل ام و اب متفضل ۴۷؎

۳۔ خصائص و امتیازات

خصائص و امتیازات مدح نگاری کا سب سے وقیع حصہ ہے۔ خصائص میں آنحضرتﷺ کے اوّلین تخلیق ہونے ، اوّلین نبی ہونے کا ذکر ہوتا ہے ، ولادت با سعادت کی امتیازی خصوصیات اور خاندانی شرف کے تذکرے ہوتے ہیں۔ انسان ِ کامل۔ رحمت عالم ، ہادی اعظم ، نبی بے مثال ، قائدِ بے عدیل ، باعث خلق انسانی۔ اشرف انبیأ اور خاتم المرسلین کا بیان ہر مدح نگار کے یہاں مقبول ہے۔ آزادؔ نے بھی ان خصائص کا تذکرہ کیا ہے مگر اسی ذات کے حوالے سے ان خصائص کو اپنی داخلی زندگی کا جزو بنایا ہے۔

خلق اوّل :-


خلق الا لہ ضیأ احمد اوّلا

وساہ یتج سائر الاکوان

الی النبی المصطفیٰ اٰبأہ

فجنابہ العالی ابو الابأ ۴۸؎

عربی نحوسے استفادہ کی مثال :-


لا تجرون اخرق الخلائق بغتتہ

ھو المقدم فی المعنی علی الرسل

نمدل منہ فی الانشأ تو طیۃ

و انما نظر المنتی ٔ الی السبدل ۴۹؎

۴۔ مبدل منہ کی تقدیم تو صرف عمارت کا اقتضاء ہے مراد تو بدل ہی ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

شرف خاندان :-


شجر ترعرع فی حدیقۃ ھاشم

اکرم بدرح فی العلا متاصل ۵۰؎

قد طھر اللہ یوم النشق جوھرہ

ھٰذا حسام من الاصدأمعقول ۵۱؎

انسان کامل ، ہادی اعظم ، رحمت عالم۔

من معشر الانسان الاّ انہ

انسان عین المجد والعلیاء

فوق العباد و بعد السدب مرقبۃ

و جوھر نزہ عن و صمۃالمثل

محمد الھادی الی الحق دینہ

سراج الیصبح القیامۃ لامع ۵۲؎

یا رحمۃ للعالمین جمیعھنم

اصبحت خیر مظاہر السدطمن۵۳ ؎

باعثِ تخلیق عالم۔ اشرف الانبیأ و الرسل ، ناسخِ ادیان و ملل اور خاتم ِ رسالت۔

ھو رکن بیت اللہ جل جلا لہ

دعمادھدی الخیۃ الزرتأ

شھب السمأ یاسرھا منسومۃ

من نور ھٰذاالکواکب المتوقد ۵۴؎

جأت فعطلت الادیان ملۃ

طلدوۃالبھر تمحورونق الوشل ۵۵؎

قد عطل المللالسوابق دینہ

فا لنجم عند طلوع الشمس معزول ۵۶؎

تا اللہ ما خلفوا الانجامتھم

ھذا المقدم موقوف علی التالی ۵۷؎

لا ینتھی فیض النبی الی المدی

مأ الفرات الی القیامۃ جاری ۵۸؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

۴-معجزات

معجزات مدح حضور ﷺ کا سب سے معروف عنصر ہے ، قصیدہ گوئی کا ایک بنیادی تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ سامع پر ممدوح کی عظمت کا نقش ثبت ہو جائے اور یہ نقش جس قدر عجلت اور بھر پور طریق سے ثبت ہو اسی قدر شعر مدح کی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ معجزات خوارق عادت ہونے کے ناطے سے محیر العقول بھی ہوتے ہیں اور ماورائی کیفیات کے حامل بھی اس لئے مداحین ان کا زیادہ تذکرہ کرتے ہیں ، معجزات ہر دور کی شاعری کا لازمی جزو رہے ہیں ، صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عہدِ مبارک سے عصرِ حاضر تک معجزات کے بیان کو اوّلیت حاصل رہی ہے۔ ان کے بیان کے لئے قصائد کا بیشتر حصہ یا کبھی پورا قصیدہ مختص کیا جاتا ہے۔ آزادؔ نے معجزات کے ذکر میں طوالت سے کام لیا ہے اور متعدد معجزات کو شعری سانچوں میں ڈھالا ہے مگر ان کے بیان معجزات میں ایک نمایاں خصوصیت ان کی ذاتی محویت ہے ، ان کی خواہش ہے کہ ان کی ذات معجزات کا حصہ بنے، اس پر بھی معجزانہ نظر پڑے اور وہ دربار رسالت پناہ ﷺ میں اُستنِ حنانہ کی طرح مہجورانہ پکارئیںیا ہرنی کی طرح اپنی داستان سُنائیں ، ان پر بھی ابر کا سایہ ہو ، وہ انگلیوں سے پھوٹنے والے چشموں سے سیراب ہوں ، وہ بھی سنگ ریزوں کی طرح صداقت نبوت کی شہادت دیں، معراج ان کی توجہ کا محور ہے کہ یہ ارتقا ئے انسانیت کا اشاریہ ہے ، شق قمر اور ردّ شمس تسخیر کائنات کے حوالے ہیں ، الغرض آزادؔ نے ہر معجزے کو اپنا حصہ بنانے کی خواہش کی ہے ، وہ خود معجزہ کا مرکز بن کر برھان بننا چاہتے ہیں، آزادؔ نے معجزات کے بیان کو معروضی سطح یا حکایاتی طرز ادا سے اُٹھایا اور وارداتِ قلب کا حصہ بنا دیا ، یہ آزادؔ کا عظیم کار نامہ ہے اور آج کا جدید انسان اسی حوالے کو معتبر اور لائق اعتنا سمجھ رہا ہے یہ آزاؔد کی شاعری کی جدّت پسندی کا مظہر ہے۔

معراج و اسراء

آزادؔ نے مختلف اشاروں سے سفر ِ معراج کی جزئیات بیان کی ہیں ، مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے ملأ اعلیٰ کا عروج خطیرہ ٔ قدس اور عطائے ربانی کے اشارے کئے ہیں مگر اصل موضوع رفعت انسانی اور سفر معراج پر مادّہ پرستی کے اعتراضات اور انکے جوابات ہیں مثلا۔ ؎


قدار تقی فی السمأ حقا

وحل بالمنزل الرحیب

جاز السمأ و عاد فی لمح

فیا مکرمۃ من کوکب سیار

ولا غروان جاز السمأ لجمیہ

ھل الجوھر الشفاف للنور مانع ۵۹ ؎

شقِّ قمر

شق قمر سے جلالت شان کے اظہار کے ساتھ آزاد ؔ کی حسِّ تفاخر کی بھی تسکین ہوتی ہے ، انہوں نے شق قمر کے بیان میں عمدہ تشبیہات استعمال کی ہیں۔ ؎


ادمی الی فلک الدنیا باصبحۃ

فالبدر خرّ لہ فتر علی ا لذقن

کانہ نصف التفاح فی طبق

أودرھما زالغامن خازن الزمن

و شقّ بد رالدجیٰ ایمأ اصبعہ

نعم و اصبعہ مفتاح افعال

لا غیران شق صدر البدر معجزۃ

کفا محیاہ فینا کاشف الظلم ۶۰؎

حنین الجذع

نئے صفحات

فراق میں بے چارگی کی پکار کا اشاریہ ہے آزادؔ نے اپنے قلبی تاثرات کو استن حنانہ کی زبان عطاکی ہے۔


احنّ شوقاً الی ا لندامی

حنین جذع الی الحبیب

حنّ الجذیع من الفراق کانہ

عود یحن بلا یر العواد ۶۱؎

انگلیوں سے چشموں کا پھوٹنا۔ یہ دستِ کرم کا حوالہ ہے آزادؔ بھی فیض بخشی کے امیدوار ہیں۔


اردت عطا شوبر الطامئین یمینہ

ماکان ھذا فی الید البیضأ ۶۲ ؎

تبارک اللہ ردّت معشراً ظمئوا

انھا را لخمسۃ اللعیأ بسلسال ۶۳ ؎

قرآن

قرآن مجید ایک دائمی معجزہ کی حیثیت سے آزاد کی توجہ کا مرکز ہے۔


لقد آتا نا بشمس غیراٰفلۃ

یوم افاض علینا رابع الزبر۔

و ان لم تقبل الا حجار نسبتاً

فلیس النقص من قُبل الھتون ۶۴؎

۵۔ توسّل و استغاثہ

آزاد ؔ کے قصائد کا عجز توسل و استغاثے پر مشتمل ہے ، استغاثے میں زندگی کی بے چینیوں سے سکون کی تلاش اور یوم آخرت میں توسل و شفاعت کی تمنا شامل ہے دنیا کے مصائب سے پناہ کی خواہش کے ضمن میں مدینہ منورہ زاد اللہ شرفا ً و تعظیماً کی حاضری دربار اقدس میں حضوری اور فراق کی بے قراری کے مضامین بیان کئے جاتے ہیں، استغاثے اور توسل کے مضامین میں آزادؔ کا قلبی اضطراب موجزن ہے ، وہ وارفتگی کے عالم میں جان جہاں ﷺ کے حضور دستِ سوال دراز کئے حاضر ہیں ، ان کا ناز اور ان کی امیدوں کا مرجع و ماویٰ ذات ابد قرا ر علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے، یہ حصہ ان کے وجدان کا مظہر ہے وہ بھری دنیا سے منھ پھیرے ایک دربار کے ژلہ رُبا ہیں، سرور عالم ﷺ کے سوا ان کا کوئی ممدوح نہیں اس لئے ان کی عقیدت و محبت توحیدست یکے ، دوئی اور شراکت کا کوئی شائبہ اس میں نہیں ہے، وہ بے خودی میں پُکارتے ہیں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

خاتیت بالقلب السلیم منادیا

غوث الوریٰ فی شدّۃ ورخأ

نظر الحبیب الی الغریب غایۃ

نظر المنائۃ شیمۃالکبرأ

یا سیدی یا عروتی و وسیلتی

یا عد تی یا مقصدی مولائی

قد جئت بابک خاشعاً متضرعاً

ما لی ورائت کاشف الفرأ

احسن الی ضیف ببابک واقف

شان الکرام ضیافۃالغربأ ۶۵؎

لا فرون ذابت جھنم حسرۃ

ھو بالشفاعۃ لا یغا در مذنباً ۶۶؎

مدینہ منورہ میں حاضری کی تمناؤں کا سرمایہ اور خواہشات کا مرکزی نقطہ ہے ، ان کی تمنا ہے کہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں گو میں ، روضہ اقدس پر قربان ہو جائیںخاک ِ مدینہ کو سُرمہ بنائیں۔


روح الفدأ لروضۃ قدسیۃ

مملؤۃ بلطافۃ و صفأ

بلغ المشارق و المغارب ضٔو ٔھا

تزنوا ایھا الشمس کالطربأ

طوبیٰ بطیبۃ حیث ضم ضریھا

جسما تسنم فوق سبع سمأ۶۷؎

ورعی المھین بقعہ وضر ا فھا

علی جواہر فی نحور اطزد

مرح المدینۃ ما اجل ترابھا

یجد البصائر فیہ فعل الاثمد

و غبار ھا المحسوس فوق ھوأھا

کمل الیقین لمقلۃ المتردد ۶۸ ؎

اُن کی تمنا ہے کہ !

واجعل منحر ضو رأسی

و أرقدھٰھنا فوق البلاطی

و یدفن بالبقیع غسیل جسمی

و لیستروجہ بالوعاطہ ۶۹؎

غبار مدینہ نعلین مبارکہ اور غبار نعلین شریف کے تذکرے سے آزادؔ طمانیت محسوس کرتے ہیں۔

گذشتہ ماہ زیادہ پڑھے جانے والے موضوعات

غبار نعلیہ کحل بصائرنا

جنابہ مستطاب منتھی المطلب ۷۰ ؎

کحل العیون غبار نعل المصطفی

و شراکھا مسمکالمستنجد

کانما ناظر الطنأ مکتحملا

بزب نعل رسول اللہ مکحول ۷۱ ؎

آزاد ؔ بلگرامی کے موضوعات مدح اور محرکات نعت کا جائزہ واضح کرتا ہے کہ ایک مدح نگار کے تمام خصائص ان کے کلام میں موجود ہیں ، ان کا دل عواطف سے مملو ہے حب رسول ﷺ ہر جملے سے عیاں ہے ، کلام و سرشاری و سر خوشی کا عالم ہے ، وابستگی کی شدّت سے کبھی حدود سے تجاوز بھی کر جاتے ہیں۔ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے ذکر اور تقابلی جائزہ میں ایسا کئی بار ہوا ہے ، مثلاً ؎


و لیئن رد عیسیٰ عازرا فرسولنا

یرد الذی اعجازہ رد عازر ۷۲ ؎

رای ھو فی جبین العرش نورا

و موسیٰ فی جبین الطور نارا ۷۳؎

فنی جائزہ

آزادؔ کو مدح نگاری کے تمام لوازمات پر عبور ہے مناسب الفاظ ، ضروری اور نادر تشبیہات ، وضاحتی استعارے اور اثر آفریں کنایے ان کی شاعری میں موتیوں کی طرح جھلملا رہے ہیں۔

تشبیہ

آزادؔ کو مرکب تشبیہات میں کمال حاصل ہے۔


تبدون من القلم الھندی مدحتۃ

بمثل سکرۃ تبدون من القلب

بمثل سکرۃ تبدون من القلب

عودیحن بلا ید العواد

عودیحن بلا ید العواد

و اصحابہ عقد النجوم الزواھر۷۴؎

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

استعارہ


یا ایھا البارق الفیاض مبتسما

ندی یدیک علی الافاق مبذول ۷۵

للہ شمس علی رأس الوریٰ طلعت

و قد أدابت فواد الکفر کالبود۷۶؎

صنائع بدائع

آزادؔ کی قادر الکلامی کے بسا اوقات ان کی شاعری میں آورد کی بو آتی ہے۔ جب وہ صنائع بدائع کی بھول بھلیوں میں مبالغے کی حد تک مشغول ہو جاتے ہیں تو عام قاری کے لئے ان کے کلام کو سمجھنا اور حظ اُٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔

شاعر کے کلام کی عظمت اس کے درجہ ٔ انفعال کے حوالے سے متعین ہوتی ہے ، اگر الفاظ کی در و بست مغلق ہو جائے اور ا یصال معنی کا مرحلہ دور معلوم ہونے لگے تو شعر اپنی خصوصیت کھو دیتا ہے ، شعر عوام کی ملکیت ہوتا ہے اسے عوام سے دور رکھنا مستحسن نہیں ورنہ شاعری شغل لا طائل قرار پائے گی۔

آزادؔ کہتے ہیں کہ کچھ صنائع عرب و ہند میں مشترک ہیں مگر بعض ہندی زبان کے ساتھ خاص ہیں جو عربی فارسی میں موجود نہیں ہیں ، ایسی صنعتیں ۲۳ ہیں مگر ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے خود ۳۷ اقسام دریافت کی ہیں ، ان ہندی صنائع کو آزاد نے عربی قالب عطا کرنے کی کوشش کی ہے ، وہ کہتے ہیں۔

انا قصدت ان انقل القسم الاخیر الیٰ العربیۃ فرأیت بعضھا لا یقبل النقل الخصوصیۃ بلسان الھند و بعضھا یقبل النقل فنقلت منھا نبدۃ وجد تھا فٰالٔقۃ و الحقت بفن الادب جملۃ رأقۃ و ارجو من العرب العربأ ان یستحسنو مخترعات الا ھا ند کمااستحسنوا الاسیاف الھندیہ ۷۷ ؎

کیا آزاد ؔ کی یہ خواہش پوری ہوئی ؟ تاریخ ادب ان کے بارے میں فیصلہ دے چکی ہے ، نئی روایات کسی شعوری کوشش سے ایک دو دن میں نہیں قائم ہوتئیں اس کے لئے صدیوں کا ریاض در کار ہے۔ آزادؔ کی یہ خواہش ایک حسرت نا تمام ہی رہی۔

عمومی جائزہ

آزادؔ کی مدحیہ شاعری کے اس اجمالی تذکرے کے بعد یہ حقیقت الم نشرح ہو جاتی ہے کہ آزادؔ کو شعر گوئی کی صلاحیت فیاض ازل کی طرف سے تفویض ہے ، آزادؔ مطبوع شاعر تھے وہ صاحب علم انشأ پرداز تھے ، معلومات کی وسعت نے ان کی شاعری میں خیالات کا تنوع اور مضامین کی کثرت پیدا کردی ہے۔ مگر ہندی زبان و ادب کے مطالعے نے ان کی عربی شاعری پر ایسے اثرات بھی ڈ الے ہیں جن کی وجہ سے بعض اوقات پیوند کاری کا احساس ابھرتا ہے ، ان کی شاعری کا احصأ کیا جائے تو چند بنیادی خصائص کی نشان دہی ہوتی ہے۔

مفاہیم کے اعتبار سے آزاد کی شاعری کا دامن بہت وسیع ہے ، ان کے خیا لات میں اس قدر تنوع ہے کہ بر صغیر کا کوئی اور شاعر اس پہلو میں ان کا مثیل و سہیم نہیں ہے۔ مدح کی قدیم روایت سے انہوں نے ہر موتی کھنگال نکالا ہے مگر اس پر اپنے ذوق علمی و ادبی سے بیش قیمت اضافے بھی کئے ہیں مدح نگاری میں آزادؔ نے جدلیت کا انوکھا رنگ پیدا کیا ہے در اصل وہ جس ماحول میں رہ رہے تھے اس میں بلا دلیل کوئی دعویٰ مناسب نہ تھا ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تو دینی موضوعات کو بھی عقلی استدلال عطا کر رہے تھے۔

آزادؔ نے مضامین مدح کو مستند حقائق کے طور پر قبول کیا تھا مگر قاری کی ذہنی تشفی کی خیال سے انہوں نے معجزات تک کو عقلی و عملی اسناد عطا کی ہیں۔


نور تجاوز سبعا و ھی ما احترقت کنا ظر العین فاسبقط ولا تنم۷۸؎

آزادؔ کی شاعری میں صنائع بدائع کا استعمال کثیر ہے روایتی صنائع کے ساتھ انہوں نے بعض مخترعات بھی کی ہیں ، یہ رجحان حضرت امیر خسرو ؔ سے شروع ہو گیا تھا ، صنائع کا استعمال ایک حد تک رہے تو مضائقہ نہیں ، مگر جب یہی مطلوب بن جائے تو تکلف آمیز ادب پیدا ہوتا ہے ، سید آزادؔ بلگرامی کی شاعری میں کہیں کہیںایسی صورت حال نظر آتی ہے۔ مگر المدائح النبویہ میں ان کا استعمال کم ہے۔ اس لئے صنائع کی بنیاد پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں تو یہ عمومی شاعری کے نقطۂ نظر سے ہیں۔ مدحیہ شاعری پر یہ مطلقاً منطبق نہیں ہوتے۔ البتہ تاریخی اشارے ، علمی ،نحوی اور فنی مصطلحات فقہی استخراجات اور دینی معتقدات کے حوالے قاری سے وسعت علم کا تقاضہ کرتے ہیں صرف عربی زبان کے مطالعے پر آزادؔ کی شاعری کا حق ادا نہیں ہو سکتا جو ان کے اسلوب پر علمی و دینی تلمیحات و اشارات کی گہری چھاپ ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

آزادؔ اختصار پسند ہیں واقعات کو تاریخی ترتیب اور جزیات کی تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کرتے بلکہ اشاروں کنایوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کے قصائد امام بو صیری یا امام صرصری کے قصائد کی طرح طویل نہیں ہیں۔اگر قصائد بیس سے تیس شعروں کے درمیان ہیں تو یہ ان کے نزدیک قصیدے کا معیاری حجم ہے۔ اس اختصار و ایجاز کی وجہ سے وہ بعض مصطلحات یا تلمیحات استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں یہ بھی احساس ہے کہ ان کا ممدوح ہم صفت موصوف ہے۔ اور ممدوح کے فضائل اس قدر بے حد و حساب ہیں کہ حصر ممکن نہیں۔ کہنے کے لئے مضامین کی کثرت ہے اس لئے ہر موضوع کو مختصراً پیش کرنا ہی مناسب ہے۔ اس اختصار پسندی کی وہ عمدہ توجیہ کرتے ہیں۔ ؎


اوصافہ من قبول الحصر ابیۃ

ما طول مدحتۃ اولی من القصر

کیف الموصوف یقضی حق مدحتہ

یری مزایاد فوق الانجم الذہر

یشی یراعی و نبوی قصر مدحتہ

قصر العبادۃ حکم اللہ فی سغر۷۹ ؎

طویل سفر میں عبادت میں قصر کا حکم ہے ، مدح رسالت ﷺ بھی مندوبات میں سے ہے۔ مدح کا سفر طویل ہے اس لئے یہ قصر کی مقتضی ہے مقصد تکمیل مدح نہیں اپنی بے چارگی اور ارادت کا اظہار ہے وگر نہ حق مدح ادا کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ ؎


انی لسان یودی حق مدحتہ

من لم یاتی بھا آزاد معتزوراً۸۰ ؎

آزادؔکی شاعری میں مقامی اثرات بڑے نمایاں ہیں یہ اثرات معنوی بھی ہیں اور لفظی بھی مثلاً


تبارک اللہ رعوت معشرا ظمتوا

انھار ہ الخمسۃ العلیأ بسلسال ۸۱ ؎

انہار خمسہ کا تصور بر صغیر سے لیا گیا ہے۔ جہاں پورا صوبہ ان کی مناسبت سے ’’ پنجاب‘‘ کہلاتا ہے۔ آزادؔ کو بر صغیر کی قدامت اور تاریخی عظمت کا بہت احساس تھا۔ سبحۃ المرجان کا پہلا باب’’ شمامۃ العنبر‘‘ ان کی اپنی سر زمین سے عقیدت مندانہ گرویدگی کا اظہار ہے۔ اشعار میں بھی ہندی رابطے پر انہیں فخر ہے۔


والہند مہبط جدنا و مقامہ

قول صحیح جید الانسان فسواد ارض الہند ضأ بدایتہ

من نور احمد خیر الامجاد ۸۲؎

آزادؔ کا تخلص بذات خود ایک عجمی اثر ہے جسے وہ بالالتزام عربی اشعار میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ فارسی ، عربی اشعار کے آخر کے قریب ایک عجیب عجمی فضا پیدا کر دیتا ہے اور ایسے عجمی جزیرے ان کے دریائے عربی میں متعدد ہیں ا س لئے ان پر عجمیت کا الزام لگایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے ’’ الفاضل ما عُدّ سقطاتہ‘‘ چنانچہ سید آزادؔ بلگرامی کی فضیلت کے اعتراف کے ساتھ ان پر بعض اعتراضات بھی اُٹھائے گئے ہیں بلکہ بعض علمأ نے تو معاندانہ روش بھی اختیار کی ہے مثلاً :

غلام حسن ثمین نے ’’ شرائف ِعثمانی ‘‘ کے عنوان سے ماثرالکرام اور سرو آزاد کی تردید کی ہے۔

محمد صدیق سخنور عثمان بلگرامی نے ’’ تحقیق السداد فی مزارات الآزاد ‘‘ میں درشت اور انتقامی لہجہ میں ماثر الکرام اور سرو آزاد کو رد کیا ہے۔

وارستہ سیال کوٹی نے’’ تذکرۃ الشعرأ وارستہ‘‘یا’’ جنگ رنگا رنگ‘‘ میں بعض اعتراضات کئے ہیں۔

ملاّ محمد باقر آگاہ نے ’’ چہارصدایئراد بر کلام آزاد ‘‘ میں آزاد کی شاعری اور تصانیف میں چار سو اغلاط کی نشان دہی کی ہے۔

یہ اعتراضات سیدآ زاد ؔ بلگرا می کی عظمت کو دھندھلا نہیں سکے۔ ان کی تصانیف کی کثرت اور معلومات کی جامعیت نے اپنی اہمیت منوا لی ہے۔ اور ان کی علمی ، تاریخی اور دینی خدما ت نے ان کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ جہاں تک عربی شاعری کا تعلق ہے سید آزادؔ بر صغیر کے سب سے زیادہ پُر گو شاعر ہیں انہوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آ زمائی کی ، قصائد کے متعدد دیوان ترتیب دئے۔ مثنوی کو عربی شاعری میں متعارف کرایااور کامیاب مثنویاں لکھیں مستزاد کی مشکل راہ پر چلے اور ایک مکمل دیوان تدوین کر دیا۔ ردیف کا لتزام کر کے شاعری کو ایک نیا حسن عطا کیا۔ اور اپنی وجاہت علمی سے کامیاب تجربہ کر دکھایا۔ معنی کے لحاظ سے عربی شاعری کو نیا خون مہیا کیا۔ تشبیہات و استعارات میں جدّت پیدا کی۔ صنائع اور بدائع کا بھاری پتھر بھی اُٹھایا یہ نئے تجربات اور غیر مقاد راہیں بعض علماء کو پسند نہ آئیں کہ تاریخ نقد و ادب میں بھی روایت پرستی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ جاہلی دور میں ایسا نہ ہوا اس لئے بعد کے کسی ادیب کو مقرر راستے سے ہٹ کر چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ الغرض ہر دور میں ریاضی کے سے کلیے ادب کو پابند سلاسل کئے رہے ہیں۔ اسی لئے تو ابن قتیبۃ (م ۲۷۶ھ) نے کہا تھا ’’ لم لقصر اللہ الشعر والعلم و البلاغۃ علی زمن دون زمن، ولاخص بہ قوماً دون قوم ، بل جعل ذالک مشتسرکامقسرماً بین عبادہ۔ ۸۳ ؎

آزادؔ کے معتقدین میں بعض نامور بزرگ بھی ہیں۔ مولانا فضل حق خیرآبادی ( م ۱۲۷۸ھ) نے مولانا نور الحسن ( م ۱۲۸۵ھ) کو اپنا قصیدہ تایۂ ارسال کرتے وقت کہا کہ وہ اس قصیدے کا مطالعہ کریں اور فیصلہ دیں کہ این بزبان عربی مناسبتے دارد یا از قبیل کلمات غلام علی آزاد ؔ است کہ حروف آن عربی است و در حقیقت آں زبان دیگر است ۸۴ ؎

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مولانا کہ یہ رائے یا تو تفنن طبع کی خاطر ہے یا اپنے مقام و مرتبہ کے پیش نظر کہ ان کی اپنی عربیت چونکہ خالص عرب ماحول سے مطابقت رکھتی ہے اور عربی صمیم ہے اس لئے انہیں آزاد ؔ کی جدّت طرازیاں بھلی نہیں لگتیں۔

مولانا شبلی نعمانی نے خزانہ ٔ عامرہ اور ید بیضأ کے مجموعوں میں انتخاب شعر کے معیار کو پست بتایا ہے اگرچہ سروِ آزاد سے انہیں ایسی شکایت نہیں لکھتے ہیں۔

’’ سرو آزاد خالص شعرائے متاخرین کا تذکرہ ہے۔ یہ تذکرہ جامعیت حالات کے ساتھ یہ خصوصیت بھی رکھتا ہے کہ اس میں جو انتخابی اشعار ہیں اعلیٰ درجے کے ہیں ورنہ آزادؔ کے متعلق یہ تمام شکایت ہے کہ ان کا مذاق شاعری صحیح نہیں اور خزانہ ٔ عامرہ اور ید بیضا میں انہوں نے اساتذہ کا جو کلام انتخاب نقل کیا ہے اکثر ادنیٰ قسم کے اشعار ہیں ۸۵؎ اور ان کے اپنے اشعار کے بارے میں علامہ شبلی کی رائے ہے۔

’’ آزادؔ کا عربی اور فارسی کلام اگر چہ کثرت سے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا چہرہ ٔ کمال کا داغ ہے۔ اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ عربی زبان کے بہت بڑے شاعر ہیں اور ادیب ہیں۔ نہایت نادر کتب ادبیہ پر ان کی نظر ہے۔ لغات اور محاورات ان کی زبان پر ہیں لیکن کلام میں اس قدر عجمیت ہے کہ اس کو عربی کہنا مشکل ہے ان کو اس پر ناز ہے کہ انہوں نے عجم کے خیالات عربی زبان میںمنتقل کئے ہیں بلکہ نکتہ سنج جانتے ہیں کہ یہ ہنر نہیں بلکہ عیب ہے۔‘‘ ۸۶ ؎

ڈاکٹر محمد یوسف کی رائے بھی مولانا شبلی کے قریب قریب ہے کہتے ہیں۔

’’ ویسے تو سات سو ( سبعہ سیارہ ) سے زیادہ دیوانوں کے باوجود عربی ادب کی وسیع دنیا میں کوئی مقام نہ حاصل کر سکے۔ اس میں شک نہیں کہ انہوں نے جدّت طرازی کا راستہ دریافت کر لیا تھا۔ انہوں نے ہندی سے معانی صنائع و بدائع اخذ کرکے عربی میں رو شناس کرائے۔ یہ آزاد ؔ کی امتیازی شان ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ دوسروں کے لئے بھی یہ دل چسپی کا باعث ہو۔‘‘ ۸۷ ؎

اس لئے ان کا فیصلہ ہے کہ ’’ تا ہم اتنی شہرت کا مدار جودت کی بہ نسبت کثرت پر ہی ہے ‘‘۔ ۸۸ ؎

ان بزرگوں کی آرأ مستند ہیں لیکن بہتر ہوگا کہ ان کا تجزیہ کر لیا جائے۔ مولانا شبلی نے آزادؔ بلگرامی کی عربیت کو تسلیم کیا ہے انہوں نے صرف ان مفاہیم پر اعتراض کیا ہے جو عجم سے اُٹھائے گئے ہیں۔ عجمی خیالات کا عر بی پیراہن ان کے نزدیک عیب ہے۔ مولانا کی رائے وقیع ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خیالات میں عربیت و عجمیت کی تقسیم کا کلیہ کوئی علمی حیثیت رکھتا ہے خیال تو انسانیت کی مشترک متاع ہے اگر اسے بھی عرب و عجم کے حوالوں سے پرکھا جانے لگا تو ذہن انسانی تنگ و ناتوں میں محصور ہو کر رہ جائے گا۔ خیالات پر مقامی اثرات تو ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ آزادؔ کی شاعری کا مخزن ان کا مدحیہ کلام ہے اور مدحیہ شاعری کے مضامین ذات رسالت مآب ﷺ کے حوالے سے چنے جاتے ہیں۔ عہد صحابہ سے آج تک مدحیہ شاعری کی بنیاد ی مباحث ایک سے ہیں۔ آزاد ؔ نے بعض تشبیہات یا استعارات میں مقامی ماحول سے اثر ضرور لیا ہے ہو سکتا ہے یہ مقامیت دِقّت کا باعث بنے اگر چہ ایسی صورت نظر نہیں آتی عبدا لمقصود الثلقامی اس کی گواہی دیتے ہیں۔

’’ لا شک کل ادیب صورۃ لمجتمعہ و مرآۃ لعصرہ و سجد حافہ بتاریخہ وفنہ و قد کان آزاد فی شعرہ العربی مقلداً یتخذ من خیال غیرہ و تفکیرہ قدوۃ و ینقذ عن احساس شاعرا لی آخر و یتخیل آنہ ینزل الا ماکن العربیۃ و یتعشق العربیات متصنعا و لکنہ علی الرغم من ذالک کان یحس بالبئۃ التی یحیا بینھا مجامدت منہ عناصر صالحۃ توضح معا لما و تبین مستویاتھا۔‘‘ ۸۹؎

ادیب یا شاعر کا مقامی حالات سے متاثر ہونا اس کے زندہ ادیب ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔ جس شاعر کی آنکھ بند ہو اور صرف تصور میں زندہ رہے تو نہ تو اپنے دور کا نمائندہ شاعر ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا ادب ترجمان حقیقت۔ مقامی اور جغرافیائی حالات اور معاشرتی اقدار سے متاثر ہونا نہ صرف یہ کہ ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر سچا ادب تخلیق نہیں ہوتا۔ الثلقامی کو شکایت ہے کہ آزادؔ مصنوعی ماحول پیدا کرنے کے لئے کو شاں رہے ہیں انہیں اپنے ماحول میں زندہ رہنا چاہئے تھا جبکہ مقامی ناقدین کو شکایت ہے کہ وہ عجمی اثرات کو کیوں عربی میں منتقل کر رہا ہے۔ الثلقامی فیصلہ دیتے ہیں۔

’’ اما آزاد فانہ بقصداتی الآعجمی و جعلہ ھدنا یصیب منہ فی شعرہ العربی و یستخدمہ فی بدیعہ و ھذا ھو موطن العیب فیہ و لکن خفّت من حدہ ھذا العیب آن اعجمیا مۃ اذا قلیت بالنسبۃ لانتاجہ الضخم فانھا لن تساری شیاًنااھمیۃ و لذا نستطیع ان نقول ، ان آزاد علی الرغم من اعجمیاتہ بعد من کبائر الشعرأ فی عصرہ۔‘‘ ۹۰؎

ڈا کٹریوسف صاحب کا یہ فرمانا کہ آزادؔ کہ شہرت کا راز کثرت کلام میں ہے۔ جودت کلام میں نہیں اور یہ کہ آزادؔ کو عرب دنیا میں کوئی مقام حاصل نہ ہوسکا۔ سچی بات یہ ہے کہ علمی و فنی نگارشات سے استفادہ میں علاقائی تعصب روا نہیں رکھا جاتا مگر شعر و شاعری کو ہمیشہ اس تنگ فکر سے سابقہ رہا ہے۔ ایران نے خسروؔ سے لیکر اقبال تک جو سلوک کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے کثرت آزادؔ کی شہرت کا سبب نہیں قدرے بد نامی کا باعث ہے انتخاب اشعار شاعر کا اصلی امتحان ہوتا ہے۔ تخلیق کسے پیاری نہیں ہوتی مگر پیش کش میں عوامی مذاق اور سامعین کے ذوق کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے جب کوئی شاعر اپنی تمام تر تخلیقا ت کو قوم کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ تو اپنا تاثر خراب کر تاہے۔ آزادؔ بلگرامی کے کلام کی کثرت نے ان کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے۔ بھرتی کس شاعرمیں نہیں ہوتی۔ قلم زد اشعار کسی شاعر کے پاس نہیں ہوتے۔ یہ تو ناقدانہ نظر کا کمال ہے کہ وہ کثیر کلام سے چند منتخب اشعار کو قوم کے سامنے لاتی ہے۔ پتھروں سے جواہر ریزے نکالنا ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ آزاد ؔ بلگرامی کو ایسا ہمدرد ناقد میسر نہیں آیا۔ جو ان کے ستر ہزار سے زائد اشعار میں ایک یا دو عمدہ اور بلند پایا دیوان مرتب کر دیتا جو ان کی شعری عظمت کا حوالہ بنتے۔ صنائع بدائع کا الزام بھی مدحیہ شاعری کی حد تک نا قابل فہم ہے۔ اور پھر یہ بھی خیال رہے کہ عرب دنیا میں بھی بد یعات کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا اگر آزادؔ نے اس دور میں حصہ لے لیا تو پریشانی کا کوئی مقام نہیں اصل بات جو آزادؔ کے کلام میں کھٹکتی ہے وہ ان کا بر صغیر کے بارے میں شدید ترین حسن ظن ہے۔ اور عقیدت کی حد تک ذہنی تعلق ہے۔ انہوں نے بر صغیر کی عظمت ثابت کرنے کے لئے استخراجات استباطات کے بہت سے مرحلے طے کئے۔ وطن مالوف سے محبت انہیں مجبور کرتی ہے۔ کہ عربی شعر میں ہندی مظاہر کو جگہ دی۔ یہ ان کی علاقائی مجبوری کہی جا سکتی ہے۔

مولوی مرتضیٰ مدراسی حیدرآبادی کی رائے ہے کہ آزاد ؔ اور باقر آگاہ کی عربی تحریر پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ’’ حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ کی عربی تحریر سے پست ہے اور اس سے عربی ادب میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ۹۱ ؎

یہ تقابلی جائزہ بھی خوب ہے کہ آزاد ؔاور باقر آگاہ کی عربی تحریروں کا مقابلہ ’’ حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ سے کیا جا رہا ہے۔ جو اس دور کی ہی نہیں بر صغیر کی پوری تاریخ میں معرکے کی ایک کتاب ہے۔ ایک غیر فانی تصنیف کو معیار بنا کر دیگر تصانیف کو ردّ کر دینا تاریخ ادب میں بہت مہنگا سودا ہے۔ وگرنہ ابوالطیب المتنبی کے ارد گرد کوئی شاعر نہ بچے گا۔

ان معترضین کے بر عکس کثیر تعداد ان بلند پایہ اصحاب کی بھی ہے۔ جنہوں نے آزادؔ کی شعری عظمت کو سلام کیا ہے۔ اور ان کی عربی شاعری کو موجب فخر گردانا ہے۔ ڈاکٹر زبید احمد نے بیرون ہند عدم مقبولیت کا جواز پیش کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ بعض خارجی عوامل یعنی عدم التصال خامی طبیعت اور علاقائی بغض کی وجہ سے آزادؔ کی شاعری اپنا حق حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وگرنہ فی نفسہ ٖ اس میں کوئی خامی یا کوتاہی نہ تھی۔ ۹۲ ؎

نواب صدیق حسن خاں کا خیال ہے ’’ ولا لبعوق لاحد من علمأ الہند من یکون لہ الشعر العربی لھذہ الکثرۃ والثابتہ ‘‘ ۹۳ ؎

بالفاظِ دیگر ’’ ہیچ شاعر قبل ایشاں ایں چناں نظم نکردہ و ہر گز از اہل ہند سماعت نرسیدہ کہ اور ایک دیوان عربی باشد تا ہفت دیوان چہ رسد۔ ۹۴ ؎

علامہ حسنی کہتے ہیں ’’انہ حسان الہند مدّاح النبی ﷺ او جد فی مدحہ کثیرۃ قادرہ لم یتفق مثلھا لاحد من الشعرأ المغلقین و ابدع فی قصائدہ المدحیۃ منی الصالم یبلغ مداھا فرد من الفصحأ المتدّقین ‘‘ ۹۵؎

آزادؔ کی یہ مدحیہ شاعری میں عظمت ہی تھی کہ انہیں ’’ حسان الہند ‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ آزادؔ کے تمام تذکرہ نگار انہیں حسان الہند کے لقب سے یاد کرتے ہیں جیسے۔نواب صدیق حسن خاں لکھتے ہیں۔

’’ و اعطی لقب حسان الہند من جھۃ الاستاد ‘‘ ۹۶ ؎ اور مزید یہ کہ ’’ وی حسان الہند است ‘‘ ۹۷ ؎ فقیر محمد جہلمی کہتے ہیں ’’ حسان الہند لقب اور آزادؔ تخلص تھا ‘‘ ۹۸ ؎ مولوی رحمن علی نے لکھا ’’ حسان الہند غلام علی آزاد‘‘ ۹۹ ؎ ڈاکٹر زبید احمد لکھتے ہیں ’’ غلام علی آزادؔ کو بجا طور پر حسان الہند کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ۱۰۰ ؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

الزرکلی بھی حسان الہند کہ کر تعارف کراتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں ’’ و لم یظم قبلہ فی شعرأ الہند من لہ دیوان عربی مثلہ ‘‘ ۱۰۱ ؎

ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ حسان الہند کا لقب ان کے لئے مخصوص ہے۔ مگر یہ لقب انہیں کیسے ملا اس کے بارے میں قدرے اختلاف ہے۔

’’ دائرہ ٔ معارف اسلامیہ میں ہے ‘‘ نبی کریم ﷺ کی شان میں آپ کے قصیدہ مدحیہ پر علماء مکہ معظمہ نے آپ کو حسان الہند کا خطاب دیا۔ ڈاکٹر عبد الوحید قریشی کہتے ہیں ’’ خود ان کی زندگی میں انہیں حسان الہند کے لقب سے یاد کیا جاتاتھا۔ ‘‘ ۱۰۲ ؎ ڈاکٹر الثلقامی نے ان آرأ کا محاسبہ کیا ہے۔ دائرہ ٔ معارف اسلامیہ کی روایت کی تردید کی ہے کہ انہوں نے سبعہ سیارہ کے مختلف نسخے دیکھے ہیں کسی میں اس لقب کی نشان دہی نہیں ہوتی۔ آخر پر لکھا۔

’’ فاننامع احترامنا تقدیرنا لکاتب مقال آزاد فی دائرۃ المذکور فکان نجزم بآتہ لم یر ’’ السبع السیارۃ ‘‘ ۱۰۳ ؎ اذا فکیف یرخ لہ ضمیرہ و آمانتہ العلیہ ان یذکر مر جعا لم یطلع علیہ ۱۰۴ ؎ الثلقامی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ آزادؔ کو یہ لقب ان کی زندگی میں نہیں دیا گیا ’’ و قد صحبنا و عشامعہ فلم نعثر علی ٰاثر لھذاالقب فی مضفامۃ و اشارہ مما یجعلنا نجزم بانہ لم یلقب بھذاالقب الا بعد مماتہ من جھت للامید ہ والمحبین بہ۔‘‘ ۱۰۵ ؎

الثلقامی کو صرف یہ اصرار ہے کہ یہ لقب زندگی میں نہ ملا تھا لیکن ان کے حسا ن الہند پکارے جانے پر اعتراض نہیں ہے بلکہ ان کی رائے ہے۔

’’لم یوجد فی شعرأ الھند الی الآن من لہ انتاج مثل آزاد لا فی نغزل ولا فی المدیح النبوی و کما دافع حسّان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن الرسالۃ و صاحبھا ’’ علیہ التحیۃ و السلام ‘‘ فان ّ آزاد اقتفی اثرہ فی المدح و حاول وان لم یبلغ مبلغہ ، فاذا ما نظرنا الی النسبۃ فی ھذااللقبامکن لنا نقبلہ بدون اعتراض ‘‘ ۱۰۶؎

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ حسان الہند کا لقب آزادؔ کا حق ہے۔ متنازعہ فیہ امر یہ ہے کہ یہ لقب انہیں زندگی میں ملا تھا یا بعد میں ، درج بالا بحث سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ لقب ان کی زندگی کے بعد کسی عقیدت مند نے ان کے نام کے ساتھ ملحق کر دیا ، ڈاکٹر الثلقامی نے بڑے اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ لقب ان کی کسی تحریر میں موجود نہیں اور نہ ہی ان کی زندگی میں اس کا کوئی حوالہ دستیاب ہے ، حالانکہ دائرہ ٔ معارف کے فاضل مقالہ نگار کی طرح خود الثلقامی کا دعویٰ بھی عدم معلومات کی وجہ سے ہے ، حقیقت یہ ہے کہ یہ لقب انہیں زندگی میں ہی مل چکا تھا اور انہیں اس پرفخر و ناز تھا آزادؔ کا شعر ہے۔ ؎


چوں مدح ِرسول کامِ من شد

حسان الہند نامِ من شد ۱۰۷ ؎

الغرض سید آزادؔ بلگرامی بر صغیر کی عربی نعتیہ شاعری کے وہ گل سر سبد ہیں کہ جن کو بر صغیر پاک و ہند کا سب سے بڑا عربی شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔

حوالے

۱۔اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد نمبر-۱ ص ۱۰۴(۲)مقالات شبلی جلد پنجم ص۱۱۲ (۳)مقالات شبلی جلد پنجم ص۱۱۲(۴)نزھۃ الخواطر الجزالسادس ص۲۰۱،تذکرہ ماباد ہندی ص۳۶۳ (۵) ماثر الکرام مقدمہ ص۳۲(۶)ماثر الکرام مقدمہ ص ۳۷(۷) حدائق الحنفیہ ص۴۷۲؍۴۷۳(۸)۔ اتحاف النبلأ ۳۲۰( ۹)مقالات شبلی جلد پنجم ص۱۱۷(۱۰) مقالات شبلی جلد پنجم ص۱۱۷ (۱۱)اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۱ص۱۰۶(۱۲)اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۱ص۱۰۵؍۱۰۶(۱۳) ماثر الکرام ص ۲۹۲(۱۴)نزھۃ الخوا طر الجز السادس۲۰۲۔ (۱۵)ابجد العلوم الجز الثالث ص ۹۲(۱۶)نزھۃ الخواطر ص۲۰۲تا۲۰۴(۱۷) شعر غلام علی آزاد بلگرامی فی العربیہ ، الشلقامیص۴۱؍۴۲ (۱۸)ماثر الکرام مقدمہ ص۵۰(۱۹)نزھۃالخواطر الجزالسادس ص۳۰۲(۲۰)علم حدیث میں پاک و ہند کا حصہ ص ۱۸۴(۲۱ ) شعر غلام علی آزاد بلگرامی فی العربیہ، الشلقامی ص۳۴(۲۲)عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ص ۴۱۱(۲۳)تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند جلد ۲، عربی ادب ص۳۶۲(۲۴) مقالات شبلی جلد پنجم ص ۱۲۲(۲۵) شعر غلام علی آزاد بلگرامی فی العربیہ ، الشلقامی ص۴۵(۲۶)ماثر الکرام مقدمہ ص۵۵(۲۷) دیوان ثانی ص ۳(۲۸)دیوان اول ص۲(۲۹)دیوان اول ص۲(۳۰)دیوان اول ص۱۵(۳۱) دیوان ثانی ص ۲ (۳۲)دیوان اول ص ۳ (۳۳) دیوان اول ص۷ (۳۴) دیوان اول ص ۸( ۳۵) دیوان اول ص ۳۳ (۳۶) دیوان ثالث ص۳(۳۷) دیوان ثالث ص ۱۰(۳۸) دیوان اول ص ۳(۳۹) دیوان اول ص ۲۱؍۲۲؍۳۰؍۴۶(۴۰) دیوان ثالث ص ۴؍۸ (۴۱) دیوان اول ص ۲۳؍۲۴(۴۲) دیوان ثالث ص ۱۱ (۴۳) دیوان اول ص۴۰ ( ۴۴) دیوان اول ص ۴۲(۴۵) دیوان ثالث ص۵(۴۶)دیوان او ل ص ۲۴؍۳۷(۴۷) دیوان ثالث ص۱۶؍۴۰(۴۸)دیوان او ل ص ۲۰(۴۹)دیوان اول ص ۳۸(۵۰) دیوان ثالث ص ۱۱(۵۱) دیوان اول ص ۳؍۳۰؍۲۸(۵۲) دیوان ثالث ص ۱۷( ۵۳) دیوان ثالث ص ۳؍۶ ( ۵۴) دیوان اول ص ۳۰(۵۵) دیوان ثالث ص ۳؍۱۱ (۵۶)دیوان اول ص ۳۰(۵۷) شعر غلام علی آزاد بلگرامی الشلقامی ص۸۷(۵۸) دیوان اول ص ۹؍۲۶؍۲۸(۵۹)دیوان اول ص ۴۴؍۳۴؍۴۱(۶۰)دیوان اول ص ۱۰؍۱۶(۶۱)دیوان ثانی ص۳(۶۲) دیوان اول ص ۳۴(۶۴) دیوان اول ص ۲۲؍۴۷(۶۵)دیوان اول ص۳؍۵(۶۶) دیوان اول ص۱۱(۶۷)دیوان اول ص۴ (۶۸) دیوان ثالث ص۵(۶۹) شعر غلام علی آزاد بلگرامی الشلقامی ص ۲۹۴(۷۰) دیوان اول ص ۷ (۷۱) دیوان ثالث ص ۵؍۱۰(۷۲)دیوان اول ص ۲۳(۷۳) دیوان ثالث ص ۷ (۷۴)دیوان اول ص ۷؍۱۶؍۲۷(۷۵)دیوان ثالث ص ۱۳(۷۶) دیوان اول ص ۱۵( ۷۷) سبحۃ المرجان ص ۱۲۵(۷۸) سبحۃ المرجان ص ۱۲۵(۷۹) دیوان اول ص ۴۱(۸۰) شعر غلام علی آزاد بلگرامی الشلقامی ص ۵۲(۸۱) شعر غلام علی آزاد بلگرامی ص۵۲(۸۲)دیوان اول ص ۳۴(۸۳)دیوان اول ص۱۶(۸۴)ماثر الکرام پیش لفظ از ڈاکٹر وحید قریشی ص ۲۰ تا ۲۲(۸۵) الشعر والشعرأ ص ۷ (۸۶) تذکرہ اسلاف حالات مشائخ کاندھلہ ص ۱۵۲(۸۷)الہلال ۱۱؍محرم ۱۴۳۲؍۱۰؍دسمبر ۱۹۹۲ص۱۳(۸۸)مقالات شبلی جلد پنجم ص ۱۲۲(۸۹)تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند جلد دوم عربی ادب ص ۲۴(۹۰)تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند جلد دوم عربی ص۲۲ شعر غلام علی آزاد بلگرامی ص ۲۱۸(۹۱) شعرغلام علی آزاد بلگرامی ص ۱۸۷(۹۲)اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۱ ص ۱۰۹ (۹۳ ) عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ص ۱۴۵(۹۴)ابجد العلوم الجز الثانی ص ۹۲۲ (۹۵) اتحاف النبلأ ص ۳۳۱(۹۶) نزھۃالخواطر الجز السادس ۲۰۴(۹۷) ابجد العلوم الجزٔ الثالث ص ۹۲۲(۹۸) اتحاف النبلأ ص ۳۳۱(۹۹)حدائق الحنفیہ ص ۴۷۲ص(۱۰۰) تذکرہ ٔ علمائے ہند ۳۶۲(۱۰۱) عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ص ۲۲۱(۱۰۲)الاُعلام الجزٔ الخامس ص۳۱۴(۱۰۳)اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۱ ص۱۰۵(۱۰۴)ماثر الکرام پیش لفظ ص ۱۹(۱۰۵)شعر غلام علی آزاد بلگرامی فی العربیہ۔الشلقامی ص۲۹(۱۰۶)شعر غلام علی آزاد بلگرامی فی العربیہ۔الشلقامی ص۲۹(۱۰۷) شعر غلام علی آزاد بلگرامی فی العربیہ۔الشلقامی ص۲۹(۱۰۸)خزانہ عامرہ ص ۴ (۱۰۹)ماثر الکرام مقدمہ ص ۵۴۔

نئے صفحات