مقدمہ، تقریظ اور دیباچہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مقدمہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو لغت بورڈ کی مرتب کردہ لغت میں مقدمہ کے معانی اس طرح لکھے ہیں:]


(i) ۔وہ مضمون جو کتاب وغیرہ میں متن سے پہلے فہمِ مطالب میں آسانی کی غرض سے بطور پیش لفظ بیان کیا جائے، دیباچۂ کتاب، عنوان۔

(ii)وہ امر جو اصل مقصد سے پہلے تمہیداً ہو، پیس خیمہ۔

(iii )وہ بات یا مسئلہ جس کے جانے بغیر زیر نظر مبحث سمجھ میں نہ آسکے، وہ امر جس پر زیر بحث موضوع کا سمجھنا سمجھانا منحصر ہو،مبادی…بقیہ معانی قانونی اصطلا حات کے تحت دیئے گئے ہیں جس میں نالش اور مقدمہ بازی وغیرہ کا حوالہ آتا ہے۔ مقدمہ کے ’’د‘‘ کو کسرہ کے ساتھ پڑھیں تو معانی یہ ہوں گے:۱ـ۔آگے جانے والا [شخص یا گروہ وغیرہ ]خصوصاً لشکر کا وہ حصہ جو آگے بھیج دیا جائے، ہراول دستہ۔


مولانا محمد حبیب الرحمٰن خاں شروانی نے اشا رۃً ذکر کیا ہے کہ مقدمہ ’’مقدمۃ الجیش‘‘ سے ماخوذ ہے۔ ۵؎… مقدمۃ الجیش لغوی اعتبار سے وہ لشکر ہوتا ہے جو آگے بھیجا جاتا ہے جسے پیشرو لشکر، ہراول فوج بھی کہتے ہیں۔ سپہ سالار کو بھی اسی لیے مقدمۃ الجیش کہتے ہیں کہ اس کی حیثیت فوج میں سردار اور رہنما کی ہوتی ہے ۔

مقدمہ کا لفظ ہمارے ہاں کتاب کے جملہ محاسن کی نشاندہی کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔اس لفظ سے یہ بھی متبادر ہوتا ہے کہ یہ لفظ اس تحریر کے لیے مستعمل ہے جو کتاب کے اصل متن کے آغاز سے پہلے کتاب کے بارے میں اختصاراً کچھ معلومات فراہم کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔کبھی کبھی یہ مقدمہ خود مصنف لکھتا ہے لیکن زیادہ تر مقدمہ لکھنے کے لیے کسی دوسری معروف شخصیت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ہمارے دینی،ادبی اور تاریخی ادب میں مقدمہ کا لفظ بہت استعمال ہوا ہے۔اردو کی ادبی تاریخ میں مولوی عبدالحق(بابائے اردو)نے اتنے مقدمے لکھے کہ ان کی یکجا طباعت ہوئی تو ایک ضخیم کتاب بن گئی جس کا نام ہی ’’مقدماتِ عبدالحق‘‘ رکھا گیا۔ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مقدمے کے لیے کچھ لوازم و عناصر کا تذکرہ بھی کیا ہے لیکن مقدمہ ان کے نزدیک ادب کی کوئی مستقل صنف نہیں ہے۔وہ لکھتے ہیں:

’’مقدمہ نگاری کی حیثیت کسی مستقل صنفِ ادب کی نہیں ہے۔کسی زبان کے ادب میں بھی اس کو ادب کی ایک باقاعدہ شاخ نہیں سمجھا گیا ہے کیوں کہ مقدمے تو کسی مصنف یا کسی کتاب کے بارے میں محض تعارف کے طور پر لکھے جاتے ہیں۔‘‘

مقدمے لکھنے کے لیے راست بازی شرط اول قرار دی گئی ہے ۔

’’لکھنے میں اس کا سلیقہ ہو کہ دل کش پیرایے میں کیا لکھا جائے اور کیا نہ لکھا جائے،کتاب کا کونسا حصہ نمایاں کیا جائے اور کونسا مخفی رہے،تفصیل ایسی ہو کہ کتاب پڑھنے کے بعد مایوسی نہ ہو بلکہ یہ اعتراف ہو کہ مقدمہ نگار راست نگار تھا۔اگر مقدمہ نگار مطالب ِ کتاب میںترقی پیدا کرسکے اور پڑھنے والوں کے لیے مناسب موقع مزید معلومات بہم پہنچا ئے، اس طرح کہ یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کتاب پڑھوارہاہے تو اس کو کمال مقدمہ نگاری ماننا چاہیے۔‘‘۸؎

اہم مقدمے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مقدمہ ابن خلدون[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مقدمہء ابنِ خلدون تو خود ہی ایک مکمل تصنیف ہے جو تاریخِ ابنِ خلدون سے زیادہ مشہور ہوا اور پڑھا گیا۔روزگارِ فقیر میں لکھا ہے کہ فقیر سید نجم الدین نے علامہ اقبال سے عرض کی کہ میں نے انہیں اپنے بیٹے( فقیر وحید الدین) کو تاریخِ ابنِ خلدون پڑھنے کا مشورہ دیا ہے، تو علامہ اقبال نے فرمایا:

’’پوری کتاب نہیں، صر ف مقدمہ‘‘۔

مقدمہ شعر و شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دوسری مثال اردو ادب میں ’’مقدمہ ء شعروشاعری‘‘ کی ہے، جو الطاف حسین حالی نے لکھا اور اردو تنقید کا پہلا شاہکار ثابت ہوا۔

تقریظ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"تقریظ " کے لغوی معنی ہیں

(i)مصنف کے علاوہ کسی اور کا کسی کتاب یا مضمون وغیرہ پر اپنی رائے ظاہر کرنا[عام طور پر تعریفی اور تائیدی رائے] جو کتاب کے آغاز یا اختتام میں شامل ہو۔

(ii) تعریف ،زندگی کی تعریف، ساتھی یا دوست کی تعریف [خواہ راست ہو خواہ دروغ]۔(iii ) داد دینا، سراہنا۔ ۹؎

دیباچہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(i)وہ تحریر جو کسی کتاب کے شروع میں ہو اور جس میں نفسِ مضمون وغیرہ سے متعلق یا دوسری ضروری باتیں بطور تعارفِ کتاب کے لکھی گئی ہوں۔مترادف:مقدمہء کتاب، پیش لفظ، تعارف،تمہید۔

(ii)دیوان کے شروع میں مصنف کا خود تحریر کردہ اشعار کا وہ مجموعہ جو حمد، نعت ، مدح یا سبب ِ تالیف وغیرہ پر مشتمل ہو۔

(iii) زمانۂ قدیم میں کتابوں کے سرِورق کی زیبائش،سرِورق پر اس کی خوبصورتی کے لیے بنائے گئے بیل بوٹے۔

(iv )کسی چیز کا پہلا اور لازمی جزو، کسی چیز کے لیے پہلی شرط۔(v) کسی چیز کا ابتدائی حصہ ، ابتدائی دور، پہلا زینہ، تمہید۔

(vi ) پیش خیمہ ، کسی چیز کے ظہور کی علامت۔(vii ) مجازاً، سب سے پہلا شخص ، سب سے پہلی چیز۔ ۱۰؎

مقدمہ،تقریظ اور دیباچہ ، کے الفاظ عموماً ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔ اسی لیے احمد ندیم قاسمی نے لکھا تھا:

’’دیباچہ، مقدمہ، تمہید،پیش کلام، پیش لفظ، تعارف وغیرہ کے درمیان کسی قسم کا کوئی فرق ، کم سے کم اردو کتابوں کی حد تک روا نہیں رکھا گیا۔یہ لکھنے والے پر موقوف ہے کہ کتاب یا مصنف کے بارے میں جو کچھ کہنا چاہتا ہے اس کا کیا عنوان رکھتا ہے۔‘‘ ۱۱؎

مقدمے ، دیباچے اور تقریظ میں فرق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’مقدمہ‘ کسی تصنیف کے ذرا تفصیلی تعارف کو کہتے ہیں۔’دیباچہ‘ مقدمے سے مختصر ہوتا ہے اور’ تقریط ‘محض اشتہار کے طور پر تحسینی کلمات پر مبنی عبارت پر مشتمل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر معین الرحمٰن کی ایک تحریر کا اقتباس دینے سے ہمارا موقف زیادہ واضح ہوسکتا ہے ’’مقدماتِ عبدالحق پر ایک نظر‘ ‘کے زیر عنوان ،وہ لکھتے ہیں:

’’مقدماتِ عبدالحق، تقریظ نگار ی کے نمونے نہیں۔ان سے کسی ادیب یا شاعر کی غیر ضروری تشہیر مقصود نہیں۔‘‘ ۱۲؎


اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سید معین الرحمٰن’ مقدمہ ‘ کو ’تقریظ‘ سے نہ صرف ممیز کرتے ہیں بلکہ اسے مؤخرالذکر سے اعلیٰ چیز جانتے ہیں۔ با ایں ہمہ، اردو کی کتابوں میں ان الفاظ (مقدمہ، دیباچہ،تقریظ)کے استعمال میں اور ایسی تحریروں میں جو کسی کتاب کے تعارف کے طور پر لکھی گئی ہوں، کوئی معنوی اور اصولی حد بندی نظر نہیں آتی ہے ۔اسی لیے احمد ندیم قاسمی نے عنوان رکھنے کا حق ’لکھنے والیـ، کو سونپ کر، دیباچہ،مقدمہ،تمہید، پیش کلام، پیش لفظ اور تعارف وغیرہ کے الفاظ کو مترادفات کے طور پر قبول کرلینے کا جو عندیہ ظاہر کیا ہے اس کو تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا۔۱۳؎

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]