جناب عزیز احسن او ران کے نعتیہ کلام کا ایک طالب علمانہ مطالعہ۔ ڈاکٹر عبد الکریم

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


کلیات عزیز احسن پر لکھا گیا ایک مضمون

جناب عزیز احسن او ران کے نعتیہ کلام کا ایک طالب علمانہ مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت اب اردو شاعری کی صرف ایک صنف ہی نہیں بلکہ باقاعدہ ایک فن کا رتبہ حاصل کرچکی ہے۔ اس کے ساتھ پہلے صرف عشقِ مصطفیٰ ﷺکا پہلو وابستہ تھااور اب اس کے ساتھ بے شمار کاروبار بھی منسلک کر دیے گئے ہیں۔ اب شعراء اور نعت خواں حضرات کی روزی روٹی بھی اس صنف سے منسلک ہے اور اکیسویں صدی نے اس فن کو مزیدبڑھوتری دی ہے۔ اب میوزک بھی اس کا جزو بن چکا اور محفلوں کی جان اب نعت بھی ہوسکتی ہے۔یہ سب کچھ ایک حد تک تو ٹھیک تھالیکن مملکت خدا داد میں کچھ عبقریوں نے اسے فرقہ پرستی کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور عشق رسولؐ اور گستاخ رسولؐ کے فتوے پر جنت کے ٹکٹ بھی جاری کرنا شروع کردیے ہیں۔ عملیت ویسے بھی اب خواب و خیال بنتی جارہی ہے تو اس ماحول میں کچھ لوگوں کاتزکیہ نعت اور مرثیہ بنتے جا رہے ہیں۔تاہم اس ماحول میں بھی جناب عزیز احسن جیسے کچھ شعراء موجود ہیں جو نعت کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ جو خالق اور مخلوق کے درمیان فرق کو جانتے ہیں اور شعوری کوشش کرتے ہیں کہ نعت کے دامن کو شرک سے بچایا جائے۔ تاکہ محبت رسول اورا تباعِ رسول کے دونوں پہلوسامنے آئیں۔


جناب عزیز احسن سے میری یاد اللہ زیادہ پر انی نہیں۔ ڈاکٹر سہیل شفیق صاحب٭ کے ارسال کردہ ’’نعت رنگ‘‘٭٭ میں جناب عزیز احسن کی تحریریں پڑہیں اور انہی سے جناب عزیز احسن کا نمبر لیا اور پھر ایک دفعہ فون کرکے ان کے نعتیہ مجموعے طلب کیے جوانہوں نے کمال محبت سے ارسال فرمادیے۔جناب عزیز احسن صرف نعت لکھتے ہیں، یہ پڑھ کر اور بھی اچھا لگا اور پھر ان کی کتاب ’’پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر‘‘ پڑھ کر ان کا نعت گوشعراء کے فن کو جانچنے کے پیمانوں کا بھی اندازہ ہوگیا۔ (۱) ان سے ایک اور تعلق یہ بھی نکل آیا کہ وہ بھی اقبالیا ت میں ایم فل ہیں اور تحریر کرتے ہیں بلکہ فون پر گفتگو میں بھی انہوں نے اظہار کیا ہے کہمیرے موضوعات دوہی ہیں:اقبال اور نعت۔‘ (۲) اقبالیا ت میں بھی انہوں نے ’رموزبیخودی‘٭٭٭ کا انتخاب کیا۔ ہم فارسی سے نا بلد ہی ہیں لیکن جناب عزیز احسن فارسی کے بھی ماہر ہیں۔ اس طرح عربی، فارسی اور اردو کے عالم ٹھہرے۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ’میرے نزدیک حمد ونعت کے علاوہ کوئی اور صنف شاعری دینی سچائیوں کی امین نہیں ہے۔‘ (۳)اس سلسلہ میں وہ کچھ انتہا پسند بھی ہیں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ’اردو شاعری اپنے ارتقائی مراحل سے گزری تب بھی حمد ونعت سے اس کا سلسلہ جڑا رہا۔گویا اردو ابتدا ہی سے مومنہ رہی ہے‘۔(۴) جناب عزیز احسن تحریر کرتے ہیں کہ’شعرگوئی کی صلاحیت رکھنا ایک سعادت ہے لیکن اس سعادت کے مثبت استعمال کی توفیق اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس سعادت کی عظمتوں اور رفعتوں کا تصور بھی انسانی ذہن کے افق سے بلند تر ہے۔‘(۵)ان کے نعتیہ مجموعے ’امید طیبہ رسی‘، ’شہپر توفیق‘ اور ’کرم و نجات کا سلسلہ‘کے حرف حرف کامیں نے مطالعہ کیا ہے اوران مجموعوں میں عشق مصطفیٰؐسے سرشار ایک باعمل مسلمان سکالر کو تلاش کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔’کرم و نجات کا سلسلہ‘ ۲۰۰۵ئ،’شہپر توفیق‘ ۲۰۰۹ء اور امید طیبہ رسی‘۲۰۱۲ء میں منظر عام پر آئے۔’شہپر توفیق‘ کی ضخامت زیادہ ہے۔تینوں کو ’نعت ریسرچ سنٹر، کراچی نے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔’کرم و نجات کا سلسلہ‘ کے پیش لفظ سے معلوم ہوا کہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’تیرے ہی خواب میں رہنا‘ ہے جو ۲۰۰۰ء میں منصہ شہود پر آیا۔وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’میرے شعری عمل میں زیادہ تر میری تمنائوں کے shades ہیں۔میرا ننھیال روایتی مذہبی تھااور سکول کا ماحول بھی جو میلاد النبیؐ پر نعتیں پڑھنے تک محدود تھا‘۔وہ اس دور میں شوق سے نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ اس مجموعے کا پہلانام ’عبدہ ورسولہ‘رکھنا چاہا تھا اور کبھی ’سلسبیل نور‘‘۔

اس مجموعے کے ابتدائی ۲۶ صفحات میں حمدیہ اور مناجاتی شاعری ہے جس میں یہ تمنا موجود ہے کہ کاش کوئی عیسٰی نفس ہمارے مسائل کو حل کردے:


طبیب عصر ہو عیسیٰ نفس کوئی ہم میں

جو کرسکے تن ملت سے دور زخم کا سم (۷)


تاہم ’تضمین بر مناجات حضرت ابوبکر صدیقؓ‘ کے عربی اشعار پر حواشی ضروری تھے۔صفحات ۴۴ تا ۱۳۶ میں نعتیہ غزلیں ہیں۔پہلا ہی شعر استناد چاہتا ہے کہ اس کے لیے جو حدیث ہے وہ ضعیف ہے اور محققین کو اس طرح کی روایات سے مجتنب ہی رہنا چاہیے:


آقاؑ جو نہیں تھے تو امانت بھی نہیں تھی

آدمؑ بھی نہ تھے ان کی خلافت بھی نہیں تھی

اسی طرح جناب عزیز احسن تحریر کرتے ہیں ’کہ درود پاک پہ ختم ہو مری بات بات کا سلسلہ‘۔(۸)لیکن اسوئہ صحابہ یہ نہیں تھا۔اور آج کے دور میں ایک اور المیہ یہ ہے کہ لوگ اب نماز کی نہیں درود کی بات کرتے ہیں۔قرآن نہیں پڑھتے۔دستی کیلکولیٹر ایجاد ہوچکے درود پڑھنے کے اور وہ بھی مسنون نہیں۔اپنے ایجاد کیے ہوئے۔کچھ کے نزدیک درود ہی اصل ایمان ہے۔بہرحال یہ تصور اسلام کی روح سے متصادم ہے اور اس پر ضرب اگر نہیں لگائی جا سکتی تو اس سے مجتنب تو رہا جا سکتا ہے۔


شفاعت کا تصور آپؑ کی اتباع سے مشروط ہے اور اس تصور کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے۔عزیز احسن نے ایک باعمل شاعر کی طرح اسے خوبصورت انداز میں اس شعر میں بیان کیا ہے:


جس نے ان کی پیروی کا ہر قدم رکھا خیال

وہ تو محشر میں بلا ریب و گماں بخشا گیا (۹)

نعتیہ غزلوں کے ساتھ ساتھ قطعات بھی شامل ہیں۔ایک قطعے میں آپ نے اس عام تصور پر بھی ایک قطعہ لکھا ہے کہ یہ کائنات آپؐ کی بدولت اور آپؐ کے لیے سجائی گئی۔اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔آپؐ انبیاء کے خاتم ہیں اور کیا ہم کو یہ مناسب ہے کہ ہم انبیاء میں کسی ٹھوس دلیل کے بغیر امتیاز کریں۔اسی طرح یہ بات بھی مناسب نہیں کہ ’ن میں کن کے جو سمٹا تو وہ نقطہ ٹھہرا‘۔ (۱۰)آپ نے مرکب الفاظ کو طویل بحرمیں خوب استعمال کیا ہے جیسے یہ بحر ’اب جہاں میں ہوں‘۔مرکب تراکیب بھی خوب ہیں جیسے ’مہر و ماہ و انجم و برق و شرار و کہکشاں‘ (۱۱)تکرار لفظی ہے جیسے ’یا نبیؐ یا نبیؐ‘کی ردیف والی نعتیہ غزل۔اور کہیں تلمیحات ہیں جیسے بوذرؓ و سلمانؓ۔(۱۲)


جناب عزیز احسن حرم کے پاسبانوں سے شاکی بھی ہیں۔یہ پاسبان سعودی حکمران تو ہیں ہی لیکن ہم بھی ان سے کم نہیں۔مایوسیوں کے اتھاہ ساگر میں یہی حکمران تو ہم کو اتار رہے ہیں اور یہی حرم کے پاسبان بھی۔ہمارے کرتوت دیکھ کر ان کا یہ شعر حسب حال معلوم ہوتا ہے:


دیکھتا ہوں جب حرم کے پاسبانوں کو عزیز

ٹوٹتی ہے ظلمتِ شب میں سحر ہونے کی آس(۱۳)

ذیل کا یہ شعر بھی استناد چاہتا ہے کیوںکہ آپؐ نے کبھی ایسا نہیں فرمایا اور نہ ہی قرآن میں ایسا بیان ہوا:

عزیز احسن یقینا بعد رب ہیں

میرے آقاؑ ہی سب سے برگزیدہ(۱۴)

اس کی بھی کوئی مستند حیثیت نہیں کہ ’نور جن کا ہے اولین تخلیق‘۔(۱۵)

جناب عزیز احسن کے کچھ نعتیہ اشعار میں سے بھی رومانوی فکر کو تلاش کیا جا سکتا ہے جیسے:

آرزو صرف ایک باقی ہے

ان کی دہلیز پر ہو کام تمام(۱۶)

جناب عزیز احسن نے اس تاریخی سچائی کو خوب بیان کیا ہے کہ ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ آپؐ کی وجہ سے صدیقؓ و فاروقؓ و غنیؓ و مرتضیٰؓ کہلائے اور پارس و پاریکھ تو آپؐ کی ذات تھی اور وہ پیغام تھا جس نے ایک کٹی پھٹی عرب قوم کو منظم و مرتب کیا :


انہی کے قرب سے بوبکر بن گئے صدیقؓ

ملی علیؓ کو اس ذات سے سیادت بھی(۱۷)


ایک تکلیف دہ حقیقت یہ دیکھی کہ اب صرف نسبتیں رہ گئی ہیں۔کوئی سید ہے تو اس نسبت کو ہی کافی سمجھتا ہے۔کوئی علیؓ اور کوئی حسینؓ کی نسبت کا نعرہ لگاتا ہے۔اور کوئی فاطمہؓ کو وسیلہ بناتا ہے۔کچھ دن پہلے کی بات ہے ایک دوست کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی۔نام پر جھگڑا ہوگیا اور حریم پر قرعہ پڑا۔اس نے فاطمہ کا اضافہ کیا۔میں نے استفسار کیا تو کہنے لگا کہ یہ نسبت ہے۔اور میرے یہ کہنے پر برا منا گیا کہ دین و ایمان سے بڑی کیا نسبت ہوسکتی ہے۔آپ کا ان حالات میں یہ کہنا بجا ہے کہ:


چھوڑ کر اک جادئہ روشن کو اُمت آپؐ کی

چاہتی ہے ساتھ ہی پاتی رہے نسبت کا پھل(۱۸)


اور اب اسلام نسبت نہیں رہا۔کچھ مقامات سخت پر جناب عزیز احسن عجیب کشمکش کا شکار نظر آتے ہیں۔وہ اطاعت کی بات کرتے ہیں اور واعظ پر طنز بھی کرتے ہیں کہ کسی شریعت کی پیروی کی ضرورت نہیں اور اس کے تقاضے واعظ جانے ہم تو شفایاب ہوجائیں گے۔یہ ایک عامی کا تصور ہے اور اگر محدود رہے تو بہتر ہے۔عمل سے یہ امت ویسے بھی دور ہے۔اور مزید دور ہورہی ہے:


واعظ کی نظر میں ہیں شریعت کے تقاضے

عاصی ہوں محمدؐ کی شفاعت ہے نظر میں(۱۹)


ہرمسلمان کے سامنے شریعت کے تقاضے رہنے چاہیے اور اسے اس بات پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ زاد راہ کے بغیر گیا تو رب اور آپؐ کو کیا منہ دکھائے گا اور کیا وہاں آپؐ کے حضور شرمندہ نہیں ہوگا اور کس منہ سے شفاعت کی بات کرے گا۔تاہم ذیل کے شعر میں آپ کا کم مائیگی کا احساس ہی اصل میں ایک موحد کی سوچ ہے:


ایسے اعمال ہیں اپنے کہ نہ پوچھیں آقاؑ

شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے ہم آپؐ کے ہیں(۲۰)


جناب ایک سوال یہ بھی ہے کہ ’کیا وضعی اور ضعیف روایات کو بیان کرنے کا عام انداز ہی اپنانا چاہیے یا اس روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘۔’لولاک لما۔۔۔‘ کی طرح کی روایات کو کچھ عاقبت نا اندیش عقیدت کے لیے استعمال کرتے کرتے عقیدوں میں شامل کر رہے ہیں۔اسی طرح آپؐ غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے آئے اور اس روش کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے کہ’بخش دیجیے اب غلامی کی سند یا شاہ دیں‘۔(۲۱)’کبھی تو میری قوم میں کچھ ایسا اتحاد ہو‘(۲۲)ایک آرزو ہے اور کیا کیا جائے کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ چار مسلمان صرف اس وقت ہی اکٹھے ہوتے ہیں جب پانچواں میت کی صورت ان کے کندھوں پر ہو۔اسی طرح ’ہم مدحت رسولؐ گرامی اگر کریں‘ (۲۳)عمل پر ابھارتی ہے۔کیوںکہ دعویٰ محبت آسان ہوتا ہے جبکہ پیروی ایک تھکا دینے والا لیکن آخرت میں نجات دلانے والا عمل ہے۔یہ شعر بھی رومانوی فکر کو سامنے لا رہا ہے کہ:


صحرائے جنوں میں، میں اکیلا ہی کھڑا ہوں

آتی نہیں خود اپنی بھی آواز پلٹ کے(۲۴)

مسلسل نعتیہ غزل بھی جناب عزیز احسن نے خوب لکھی ہے جیسے ’بس قتیل لذت گفتار ہیں‘۔(۲۵)یہ بات بھی تحقیق طلب ہے کہ آپؐ سے پہلے تعلیم جزوی تھی۔نبوت کے باب میں یہ کہا جائے گا کہ وہ علم آپؐ پر پختہ کردیا گیا اور اس کا در آپؐ پر بند کر دیا گیا لیکن علم کا معاملہ یہ نہیں۔غزوہ بدر کے قیدیوں سے آپؐ نے صحابہ کو تعلیم دلائی اور یہی ان کا رہائی کا پروانہ قرار پایا۔یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپؐ کو ایک فرقہ علم کا شہراور صرف علیؓ کو دروازہ کہتا ہے اور ان کے علاوہ علم کی تحصیل کو باطل قرار دیتا ہے۔مزید یہ کہ آپؐ نے بھی اپنے معلم ہونے پر فخر کیا اور ہمیشہ اپنے علم میں اضافے کے لیے رب سے دعا کی:


رہی تعلیم جزوی سید الکونینؐ سے پہلے معلم بن کے سب آئے نبی آدمؑ سے تا عیسیٰؑ (۲۶)

طویل بحر کی نعتیہ غزل بھی جناب عزیز احسن کے ہاں ملتی ہے اور اس میں خوب صورت ردھم پایا جاتا ہے جیسے :


صرف الفت کا دعویٰ ہی کافی نہیں شاہ طیبہ سے وابستگی کے لیے(۲۷)


مسلم امہ اور اس کے رہنمائوں کو انا پرستی نے تباہ و برباد کیا۔حضرت عثمانؓ کی شہادت سے لے کرآج تک کی مسلم امہ کی تاریخ کا مطالعہ کرلیں۔مشرق و مغرب میں ان اناپرستوں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں جو خود تو تاریخ کی غلام گردشوں میں نابو د ہوگئے لیکن امت کو بھی برباد کرگئے۔آج کے دور میں فلسطین و کشمیر کے حل طلب مسائل، افغانستان و عراق و شام۔پاکستان میں دہشت گردی،نئے پاکستان کے نعرے اور دھرنے یہ سب کیا ہیں۔’وفائوں‘ کے نعرے اور اناپرستی کے ہمالیہ:


پیروی کی بھی بنا ہم نے انا پر رکھی

ہائے افسوس کہ تہمت ہی وفا پر رکھی(۲۸)


’درود پاک‘ ایک اچھی نظم ہے تاہم کسی چیز کے کھو جانے پر ’انا للہ۔۔۔‘پڑھنے کا حکم ہے۔’سلسبیل نور‘ طویل بحر کی شاندار نظم ہے جس میں تاریخ اسلام کے ابتدائی نقوش واضح ہیں۔’التماس بحضورؐ رسالت مآب‘ موثر پیرائے میں لکھی گئی نظم ہے تاہم ضرورت پھر اس بات کی ہے کہ شفاعت کا وہ تصور سامنے لایا جائے جو شریعت نے دیا ہوا ہے۔جناب عزیز احسن کے ہاں اگر ملت واحدہ کے فرقوں میں بٹنے کا گلہ ہے تو وہیں زمین کو سجدہ گاہ کی بنیاد پر علائق سے پاک کرنے کی تمنا بھی ہے۔تاہم اس بحث میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے کہ:


وہ جس کا سایہ کبھی نہ دیکھا گیا جہاں میں


’بنیاد پرست‘ ایک اچھی مسدس ہے جو ہماری تاریخ بھی ہے اور نوحہ بھی۔تاہم جناب عزیز احسن نے اس نظم کے ذریعے یہ احساس بھی دلایا ہے کہ ہماری عافیت اپنی بنیادوں کی طرف پلٹنے میں ہی ہے اور ہم کو پلٹنا ہی پڑے گااور اس میں شرم کی بھی کوئی بات نہیں۔ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ پر‘ پراثر نظمیں ہیں لیکن ایک تاریخی درستی کی ضرورت ہے کہ عثمانؓ کے دور میں اسپین فتح نہیں ہوا{}۔اسی طرح علیؓ پر نظم میں ولایت اور ولی برحق کا دعویٰ علیؓ نے کبھی نہیں کیا اور یہ تصور بھی ایک فرقے کا ہے۔ان سے اس طرح کی باتیں منسوب کرنا بھی درست نہ ہوگا۔مسئلہ یہ ہوچکا ہے کہ غلو نے حقیقتوں کو غائب کردیا ہے اور اس کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔


’امید طیبہ رسی‘ کے انتساب میں جناب عزیز احسن لکھتے ہیں کہ ’میرے الفاظ میں /فیض کا فیض ہے / اس لیے انتساب کتاب تمنا بھی/ تابندہ ہے۔(۳۰) میں اس بات سے تھوڑا اختلاف کروں گا۔ اللہ، رسولؐ اور عام بندے کے بارے میں تحریر میں فرق ہونا چاہیے۔ عام فرد خواہ کتنا ہی بزرگ و برتر کیوں نہ ہو اس کے مقام کو نبیؐ کے مقام کے برابر نہیں لایا جانا چاہیے۔ اسی طرح نبیؐ کے لیے لکھے گئے اشعار اور اللہ کے لیے لکھے گئے اشعار میں فرق روا رکھا جانا چاہیے کہ ایک خالق ہے اور دوسرا مخلوق۔ تاہم حد ادب لازم ہے۔


فیض نے ذومعنی اشعار لکھے ہیں اور آپ کے سامنے انہیں نعتیہ اشعار قرار دیا ہے تو پھر ہندوستانی گانے ’بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘ سے بھی کیا اس قسم کے معانی اخذ نہیں کیے جا سکتے اور کر لیے جائیں تو یہ عمل کہاں تک درست ہو گا؟ اس طرح فیض کی اس بات کی بناپر میں نہیں سمجھتاکہ آپ کے الفاظ میں فیض کا فیض ہے۔ آپ نے ماشاء اللہ نعت لکھی ہے اور خوب لکھی ہے۔ فیض نے اپنے محبوب کے چرچے غزل کی صورت میں لکھے ہیں اور خوب لکھے ہیں لیکن ’کتھے مہر علی کتھے تیری ثنائ‘۔


جناب عزیز احسن نے خود تحریر کر دیا ہے کہ ۱۹۴۸ء میں آپ شیر خوار بچے کے طور پر پاکستان ہجرت کر آئے تو ما شاء اللہ آپ پاکستان کے ہم عمر ہی ہوئے اور ہم آپ کی تعلیمی اسناد پر لکھی تاریخ پیدایش کو بنیاد بنا کر آپ سے یہ اعزاز نہیں چھینیں گے اور آپ کی درست تاریخ پیدائش ۳۱؍اگست۱۹۴۷ء کو ہی درست تسلیم کریں گے (اللہ آپ کی صلاحیتوں اور عمر میں برکت دے)۔(۳۱)


عرض مرتب میںمنظر عارفی کا یہ جملہ ہی جناب عزیز احسن کی شاعری کامرکزہ ہے کہ’نعت کے ذریعے اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات، اقوال و افعال اور آپؐ کی سیرت طیبہ جسے قرآن مجید نے اسوئہ حسنہ فرمایا ہے، کا صحیح، بھرپور اور مسلسل ابلاغ اور یہ تمام آپ کی نعت میں موجو دہے‘۔(۳۲) ’جوازِحرفِ آرزو‘میں جناب عزیز احسن نے اقبال کے ایک شعر پر بات کی ہے تاہم سوال یہ بھی ہے کہ نبیؐ جب نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اس وقت سے قابل تقلید ہوتا ہے یا پیدایش سے ہی؟ 


نعتیہ مجموعوں میں حمد و مناجات کے سلسلہ کو تو ختم ہی کیا جا رہا ہے جو اچھا شگون نہیں کیوںکہ تمام پیغمبر اس برترذات کی پہچان کرانے کے لیے ہی تشریف لائے۔ مناجات میں جناب عزیز احسن کا انداز واقعی ایک بندے کا ہے جو اپنے خالق سے ہی مانگتا ہے جیسے یہ دو اشعار:


یارب! زوالِ ملتِ بیضا کو ٹال دے

پھر اس کو حسنِ ذوقِ عملِ بے مثال دے (۳۳)


جناب عزیز احسن تحریر کرتے ہیں کہ’میرا نظریہ اور مشاہدہ بھی ہے کہ ثقہ شعراء بھی مذہبی شاعری کرتے وقت اپنا مخصوص آہنگ اور شعری لہجہ اس سطح پر نہیں رکھ پاتے جس سطح پر وہ اپنی عمومی شاعری میں اپنا اسلوب بنا چکے ہوتے ہیں۔اس کی بہت سی وجوہات میں ایک یہ ہے کہ مذہبی خیالات،افکار اور ان کے جذبات، ان کی تخلیقی دانش کا جزو نہیں بن پاتے‘۔(۳۴)جناب عزیز کے ساتھ ایسا محسوس نہیں ہوتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شعوری نعتیہ شاعر ہیں۔


جناب عزیز احسن نعت کی تنقید کے اصول بھی وضع کرتے ہیں اور تحریر کرتے ہیں کہ ’پہلا اصول تو یہ طے ہوجاتا ہے یا طے ہوجانا چاہیے کہ اس شاعری کے متن کو قرآن، حدیث، تاریخ وسیئر،آثار صحابہ کرام کے عین مطابق اور واقعاتی لحاظ سے صد فی صد سچائی پر مبنی ہونا چاہیے‘۔(۳۵)اور اس کے کامیاب تجربات انہوں نے اپنی شاعری میں کیے ہیں۔موجودہ نعت میں اس رنگ کی ضرورت ہے کہ عشق محمدؐ کو عمل سے جوڑا جائے اور تبدیلی کی بنیاد اس محبت کو بنایا جائے۔ امت کو ایک شخصیت (محمدؐ) کے گرد ہی اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور تمام فرقے کم از کم ایک شخصیت سے نور حاصل کرنے پر تو متفق ہیں۔ ’شہپر توفیق‘، ’امید طیبہ رسی‘ کا ایک امتیاز حواشی ہیں جو نعتیہ مجموعوں میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ جناب عزیز احسن نے کمال کی تضمینیں کی ہیں جیسے:


قریب منبر و محراب دل پکار اُٹھا

’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘(۳۶)


عزیز صنعتوں کو محض صنعت گری کے لیے برتنے والے شاعر کولفظوں کا بڑھئی قرار دیتے ہیں اور ایسے شاعر کو بڑا شاعرتسلیم نہیں کرتے۔نعت میں لفظ سے زیادہ معانی پر زور جناب عزیز احسن کا ایک اور امتیاز ہے۔ اتباع رسولؐ کو انہوں نے اپنی نعتوں میں خوبصورتی سے پرو دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپؐ کے سراپے کے تذکرے کے بغیر نعت پر وہ رنگ نہیں چڑھتا لیکن عمل اتباع کا دوسرا نام ہے:


اے کاش! ہو پیروی کی مظہر

نعتوں میں جو آج آ گہی ہے

گہرا ہو وہ رنگ پیروی کا

کردار کہے ’محمدیؐ‘ ہے(۳۷)


اور اس میں شک نہیں کہ وابستگی کا اعلان ہر وقت ہونا چاہیے کہ یہ محبت کی اساس ہے کیوںکہ ’یہ عہد لشکرِ شیطاں‘ میں تو کھینچے گا۔ جناب عزیز احسن نے ’سبق کتاب الہیٰ‘ کو عمل میں ڈھالنے کی جہاں نعت میں بات کی ہے وہیں اس کی بھی تمنا کی ہے کہ آپؐ سے خاص عنایات کی ضرورت ہے کیوںکہ کردار بو لہب کو رواج پاتے وقت نہیں لگتا۔ اس کے ساتھ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ مصطفوی دنیا میں خوار و زبوں اسی وجہ سے ہیں کہ وہ اغیار کی مثالیں سامنے رکھتے ہیں۔اس کے آئیڈیل اغیار ہیں۔ ان کی تہذیب، ان کا کلچر، ان کی ثقافت، زوالِ بندۂ خاکی ہی نہیں زوالِ امت بھی اس وجہ سے ہے۔


جناب عزیز احسن نے عربی تلمیحات کو بھی نعت میں خوبصورتی سے برتا ہے اور اس معاملے میں وہ روایتی نعت سے اپنے تعلق کو مضبوط کرتے نظر آتے ہیں۔اسی طرح فراقِ مدینہ، مدفنِ مدینہ، درو دیوارِ مدینہ، آثارِ مدینہ، انوارِ مدینہ، درِ مدینہ، شہرِ سرکار، ہجرِ مدینہ:ایک انداز ہے جوہر شاعر کے ہاں منفرد ہے اور جناب عزیز احسن کا بھی اس سلسلے میں اپنا مخصوص انداز ہے۔ وہ فضائے قدس سے واپس نہیں آناچاہتے۔ انہوں نے ان سے بھی اعلان برات کر دیا ہے جو تفریق کے قائل ہیں اور دین سے دوری کو اس قطعے میں کیا خوبی سے بیان کیا ہے کہ: 


حضورؐ! میری طرف بھی ہو اک نگاہ کرم

بنا رہی ہے نکما شکستہ پائی مجھے

فرازِ دیں سے گرا ہے جو کارواں تو عزیز

قدم قدم پہ نظر آ رہی ہے کھائی مجھے(۳۸)


جناب عزیز احسن نے نعت میںہائیکو (جاپانی صنف) کو بھی خوبی سے برتا ہے۔ ’امیدِ طیبہ رسی‘ کی ایک اور خوبصورتی ’مناقب‘ ہے جس میں ابوبکرؓ، علیؓ، اصحاب النبیؓ، حسینؓ اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی منقبت بیان کی ہے اور ایک مسلمان کے شعار کو کھول کر بیان کر دیا ہے تاہم غوث پاک، غوث اعظم، قطب پر لکھتے اور پڑھتے یہ سوچنا چاہییے کہ کیا واقعی اس دنیا کا کوئی روحانی علیحدہ نظام ہے جس کے لیے ہم نے غوث، قطب، ابدال تخلیق کیے ہیں اور ان کی شرعی حیثیت کیا ہو گی ؟ کیوںکہ کچھ نے انہیں باقاعدہ دین کا حصہ قرار دے لیا ہے۔ اس لیے احتیاط ضروری ہے۔’شہپر توفیق‘ کا یہ انداز منفرد لگا کہ ہرنعت اور قصیدے پر جناب عزیز احسن نے صلی اللہ علیہ وسلم لکھ دیا ہے۔ اس نعتیہ مجموعے میں بھی فکر غالب ہے اور حب رسولؐ کو عمل کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔


اُمت کی مشکلات کا حل صرف ایک ہے

اپنائیں ذو ق و شوق سے سب اُسوۂ نبیؐ(۳۹)


اپنی کم مائیگی کا احساس نعت گو شعراء میں پایا جاتا ہے لیکن اس کا اظہار کچھ عجیب انداز سے ہوتا ہے۔ تاہم جناب عزیز احسن کا انداز ان سب سے منفرد ہے۔ اپنے آپ کو آج کے دورِ فتن میں خرافات سے دور رکھنا اور دین پر چلتے رہنا یقینا ایک کام ایساہے جس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جناب عزیز احسن نے اس سوچ کو الفاظ کے سانچے میں خوب ڈھالا ہے کہ :


زہد و تقویٰ کے تو آثار نہیں ہیں لیکن

شکر صد شکر، بہت دُور خرافات سے ہوں (۴۰)

فراق گورکھپوری نے لکھا تھا کہغزل کہنے کے لیے آدھا مسلمان ہونا پڑتا ہے اور احسن اپنے انداز میں بہت گہری اور بہت مزیدار بات کہہ گئے کہ’نعت میں غزل کی ہیئت کا استعمال عشق محمدیؐ کا اشاریہ ہے۔علاوہ ازیں اپنے عہد کے شکاری کتوں میں گھر جانے کے بعد کمزور مخلوق کے حلق سے نکلنے والی کربناک آواز کو حضورؐ تک پہنچانا بھی مقصود ہے‘۔(۴۱)جناب عزیز احسن نے جہاں نبیؐ کے عشق کو عمل میں ڈھالنے کی بات کی ہے تو وہیں دین کے نفاذ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں بے بس ہونے پر ہجرت کی بات بھی کی ہے۔ یہ سنت بھی ہے اور یہ ایک منفرد انداز فکر بھی ہے۔ہمارے نعت گو شعراء اس بات کے کم ہی قائل ہیں:


نفاذِ دیں میں ہو مشکل تو چھوڑ دو مکہ

اسی اصول پہ، پھر خیر کا سفر ہو جاتے (۴۲)


عزیز احسن کا موقف ہے کہ’ردیف کی پابندی کے ساتھ کی جانے والی شاعری میں زیادہ تر ’آورد‘ کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں‘۔(۴۳)جو درست نہیں لگتا۔انہوں نے دوسرے شعراء کی طرح چھوٹی اور بڑی دونوں طرح کی بحور کے ساتھ معیاری شاعری کی ہے اور کہیں آورد کے آثار نہیں۔غزل گو شعراء نے تو غزل میں چھوٹی بحروں کا استعمال کیا توجناب عزیز احسن نے مناجات اور نعتوں میں چھوٹی بحروں کو کامیابی سے برتا ہے جیسے اس مناجات میں:


دعا کو بھیک مل جائے اثر کی

ملے توفیق طیبہ کے سفر کی

شعورِ پیرویٔ مصطفیؐ دے

مرے اللہ! سن لے چشمِ تر کی (۴۴)


جناب عزیز احسن کی یہ بات بھی وزن رکھتی ہے کہ ’جب سے میں نے نعت پر سوچا غزل ہوتی نہیں‘۔یہ حقیقت بھی ہے۔میں نے کسی غزل گو شاعر کو با عمل نعت گو شاعر کم ہی دیکھا ہے اور جناب عزیز احسن خوش قسمت ہیں کہ:


اک صنفِ سخن جس کا تعلق ہے نبیؐ سے

صد شکر کہ نسبت ہے طبیعت کو اسی سے (۴۵)


آپؐ دنیا سے غلامی کے اندھیروں کو روشنیوں میں بدلنے آئے اور اسی لیے فرمایا کہ ’تم سب آزاد ہو‘ تم کو ماؤں نے آزاد جنا ہے۔ کالے اور گورے کی تفریق ختم کی، انسانیت کو اولاد آدم کی حیثیت سے تکریم دی اور کسی عربی کو عجمی پر اورکسی عجمی کو عربی پر کسی بھی طرح کی فوقیت کا انکار کیا۔ یہ بات محل نظر ہے کہ :


میں ان کے غلاموں کے غلاموں میں ہوں احسن(۴۶)


جناب عزیز احسن نے نعت میں صنعت تضاد کا بھی خوب استعمال کیا ہے اور کیا بھی چھوٹیبحر کی نعت میں جیسے :


تڑپ رہے ہیں یہاں ہزاروں

پہنچ رہے ہیں وہاں ہزاروں

عجیب در ہے کہ جس کے زائر

نہاں ہزاروں عیاں ہزاروں(۴۷)


’ہزاروں‘ کی ہی ردیف میں کیا خوب طویلبحر کی نعت لکھی ہے اور تاریخی شعور کو کیا خوبی سے برتا ہے۔ اس طرح کی طویل بحر کے تجربات جناب عزیز احسن نے خوب کیے ہیں، اگرچہ کم ہیں:


ابھی کلیسا کا جبر بھی ہے، ابھی ہے جورِ یہود پیہم

ستم رسیدہ ہوئے مسلماں، یہاں غریب الوطن ہزاروں

اسی کی قربانیوں سے پھیلے گا دینِ حق ایک دن جہاں میں

جو سہہ سکے گا یہاں، مثالِ بلالؓ رنج و محن ہزاروں(۴۸)


جناب عزیز احسن کا تاریخی شعور خاص طور پر ’نعتیہ قطعہ بطرزِ شہر آشوب‘ میں نتھر کر سامنے آتا ہے۔ آپ نے تاریخ اور حال کی اسلامی دنیا کے حالات کو پوری دردمندی کے ساتھ مسلم امہ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب یہ امہ پر ہے کہ وہ اس پر کتنا غور و فکر کرتی ہے جیسے :


عرب، اُردن، عراق و شام، مصر و ترکی و ایراں

زمیں پر جب وطن اُبھرے مٹی خوئے مسلمانی(۴۹)


اس میں کیا شک ہے کہ ہم پہلے اپنی قوم کا دفاع کرتے ہیں اور مسلمانی کہیں بہت بعد میں آتی ہے۔اسی لیے تو مملکت خداداد میں آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ ہم آٹھ ہزار سال سے سندھی، آٹھ سو سال سے مسلمان اور۶۵سال سے پاکستانی ہیں۔عزیز نے نعتیہ شاعری میں متنی رشتوں کی تلاش بھی کی ہے جو دلچسپ بھی ہے اور معلومات افزا بھی۔تاہم یہ ٹونے اور ٹوٹکے ہم کو تو نہیں بھاتے۔عزیز وفا اور یکسوئی پر بھی زور دیتے نظر آتے ہیں،وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’اگر آپ کی وفا کمزور اور commitment بودا ہو تو آپ لاکھوں کتابیں لکھ کر بھی حشر میں اللہ اور اس کے سچے رسولؐ کے سامنے شرمندہ ہوں گے اوردنیا میں کوئی اہل نظر، اہل علم اور دانندئہ فن آپ کو منہ نہیں لگائے گا۔اپنے حلقے میں آپ جتنی چاہیں قبولیت حاصل کرلیں ادب کا حلقہ آپ کو شاعر تسلیم نہیں کرے گا‘۔(۵۰)


ہمارے سماج میں ریاکاری زیادہ ہے اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہ سماج کے لیے زہر ہے جاری و ساری ہے۔اخلاص کے ساتھ کم عمل بھی بہت ہے لیکن عالمِ با عمل خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ اس شعر میں اس درد کو محسوس کیا جا سکتاہے :


جہاں اخلاص ہے کچھ، طاقتِ سعی و عمل گم ہے

جہاں اعمال ہیں، اخلاص کی ہے تنگ دامانی(۵۱)


انسان جہاں بہت طاقتور ہے وہیں کم زور بھی بہت ہے خاص طور پر حساس انسان۔ ہمارے سماج میں جو کچھ ہو رہاہے جو قانون، مذہب، اخلاقیات کی حالت ہے۔ جو قدروں کی پامالی ہے اور جو بے حسی ہے تو ان حالات میں جناب عزیز احسن درست فرماتے ہیں کہ:


بے مہر ہے زمانہ، نایاب صدق گوئی

پھر کیوں نہ آئے احسن تلخی مرے سخن میں(۵۲)


اور یہ تلخی اس وقت مزید بڑھتی ہے جب دلیل سے بات سننے والا نہ ہو۔ وفاؤں کے دعوے ہوں اور تفریق ہو اور فتوے ہوں۔ حضورؐ نے جس نئے سماج کی بنیاد رکھی اس میں معیار تقویٰ تھا اور سارے رشتے مذہب کی بنیاد پر جانچے اور تولے جاتے تھے۔ نفاذِدین نے عرب جیسے غیر محفوظ خطے کو یمن تا حضر موت امن کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ وہ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے حقیقت میں ایک دوسرے کی جان، مال اور عزت کے محافظ بنے۔ جناب عزیز احسن نے خواب تو خوب دکھایا ہے لیکن ہم دور نبوت سے۱۴۳۵سال دور ہیں مایوسی تو نہیں امید موہوم ہی ہے کہ یہیں پہ خلد کا منظر دکھائی دینے لگے، نفاذ دیں سے وہ امن و امان ہو جائے۔ جس امت کو دین کی بنیاد پر اکٹھا کیا گیا وہ تفرقوں میں پڑی ہے۔ رنگ، نسل،علاقہ، قوم، برادری، فرقہ غرض کون سی تفریق ہے جو اس امت کے درمیان نہیں۔ آج ہم سب پر اعتماد کرتے ہیں اگر نہیں کرتے تو اپنے مسلمان بھائی پر اور اب تو صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ پہلے فرقہ اور قوم پوچھے جاتے ہیں اور اس کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ:


اعتماد آج مسلماں کو مسلماں پہ نہیں

غیر مسلم بھی تو جھوٹا ہمیں گردانتے ہیں (۵۳)

سماج کو عمل کی ضرورت ہے اور ہمارے ارباب اختیار کو عدل کرنے کی ضرورت ہے۔ عمل سے دوری اور ظلم نے ہمارے سماج کو کانٹوںمیں دھکیل دیا ہے۔’شہپر توفیق‘ میں جناب عزیز احسن نے ’مثنویٔ مہرِ رسالتؐ‘‘ بھی تحریر کی ہے اور ماضی کو حال اور مستقبل کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ نظام نے تیرگیوں سے روشنیوں کا سفر کیا اور کارواںپھر تاریکیوں میں ڈوبتے چلے گئے۔ اب بھی یہ کارواں کہیں ڈوبتا ہے اور کہیں نکلتا ہے۔ بے توقیری کی انتہا ہے کہ عراق و شام و افغانستان کے مسلمانوں پر امریکی افواج حملے کرتی ہیں اور ہم ان کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔ ہم نے نفرتوں اور محبتوں کے درمیان توازن قائم نہیں رکھا۔ یورپ مذہبی جنگوں کے بعد شیر و شکر ہو گیا، جانے ہم ان مسلکی جنگوں کو کب ترک کریں گے اور علمی محاذوں پر جھنڈے گاڑیں گے۔ اختلاف تو رہے گا۔کاش یہ اختلاف علمی سطحوں پر رہے اورمعیار فضیلت تقویٰ ہو اور قبیلے صرف شناخت ہوں کہ :


رب نے جو بنائے ہیں قبیلے

ہیں صرف شناخت کے یہ حیلے

ہے نسل و نسب پہ فخر بے جا

سب کو ہی کیا ہے اس نے پیدا

یہ فخر قبول حق نہیں ہے

تقویٰ کی فضیلت ہر کہیں ہے(۵۴)


تاہم جناب عزیز احسن میں یہ خوبی ہے کہ وہ جب مایوس ہونے لگتے ہیں تو ماضی کے در واکر لیتے ہیں’کاش ایسا ہو‘ ایک ایسی ہی نعت ہے جس میں مایوسیاں ہیں لیکن دعائیں بھی ہیں۔ یہ نعت ملت کانوحہ بھی ہے جس کو اپنے ادبار کا احساس نہیں، نہ احساس زیاں ہے کہ امت خود زیاں کار ہے اور خود فراموش بھی ہے۔ اس کے اعمال کا خمیازہ ہے جو وہ بھگت رہی ہے۔ اچھے دنوں اور برے دنوں کا آنا قوموں کی زندگیوں پر منحصر ہے۔ بڑی بڑی تہذیبیں مٹ گئی ہیں اور مٹ رہی ہیں۔ ہم بنے، مٹے پھربنے اور پھر مٹ گئے۔ آج مشرق و مغرب میں سامراج کا دور ہے۔ ہوائیں ان کی، فضائیں ان کی، سمندر ان کے، پہاڑ ان کے اور ہم تقدیر پرست، ان حالات میں یہ تجزیہ بالکل درست لگتا ہے کہ:


غیر سے کچھ بھیک پا لینے کی سب کو آس ہے

بے حسی کا دور ہے، ناکامیوں کا عہد ہے

کونسی بستی ہے جس میں صاحبِ ایماں نہیں

اکثریت پھر بھی اس ادبار سے نالاں نہیں

حرفِ حق کس لب پہ آئے عیش کے ماحول میں

آسکے پھر کیسے ہم رنگی عمل اور قول میں (۵۵)


’پیغامِ عمل‘ کے ذریعے سے جناب عزیز احسن کا دیا گیا پیغام اپنے اندر وزن رکھتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ حضورؐسے لے کر حضرت علیؓ تک کا دور حسینؓ نے دیکھا تھا وہ یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ان کے سامنے خلافت ملوکیت میں بدل جائے، کاش وہ دور جناب حسینؓ اور ان کے رفقاء کے خروج کے درد کو سمجھتا اور نظام میں اصلاح پر زوردیتا لیکن بے حسی تو اس دور میں بھی تھی۔ کرسی کے لیے طویل جنگوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ اچھے لوگ اٹھ چکے تھے جو باقی بچے تھے وہ مایوس تھے کہ کدھر جائیں شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد اچھے لوگ بتدریج سیاست کے بکھیڑوں سے دور ہوتے چلے گئے اور دین اور دنیا کی تفریق پید اہوئی جو آج بھی جاری ہے۔


اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ حسینؓ کے پیغام کو جانچا اور پرکھا جائے۔ان کے نام کو صرف فرقہ پرستی اور گردنیں مارنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ نفاذِ دین کے لیے جہاد بالسیف ہی ضروری نہیں، حسینؓ نے اپنی جان دے کر جو حاصل کر لیا وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے لیکن حقیقت وہی ہے جو جناب عزیز احسن نے ابتدائی اشعار میں بیان کر دی ہے کہ ’نفاذِ دین ہے عمل کے بغیر نا ممکن‘۔’مناقب‘ میں مقامِ صدیقِ اکبرؓ، قوتِ امت عمرؓ، سیدنا عمر فاروق اعظمؓ، جنابِ ذوالنورینؓ، اصحابِ النبیؐ، حسینؓ ابن علیؓ خوبصورت نظمیں ہیں لیکن ان سب کا ملخص یہ بند ہے کہ: 

وہ مورخ وہ مقرر وہ محدث وہ فقیہہ

جو بزرگوں پہ کرے طعن وہ خود جاہل ہے

اپنے اس فعل سے کرتا ہے وہ خود کو ہی خراب

ایسے افراد کی لاریب، سقر منزل ہے

ایسے ناری سے محبت تو نہیں ہو سکتی (۵۶)


اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ کے بغیر بات بنے گی نہیں جو جناب عزیز احسن کا پی ایچ ڈی (اُردو) کا مقالہ ہے جس کے کامیاب دفاع کے بعد انہیں ۲۶ ستمبر ۲۰۱۲ء کو سند سے نوازا گیا۔یہ طویل مقالہ ہے اور اسے پڑھنے کے لیے صبر ایوبی کی ضرورت ہے۔مقالے کو بھی ’نعت ریسرچ سنٹر، کراچی‘ نے شایع کیا ہے۔مقالہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے جن میں تنقید کی تعریف اور تنقیدی روایت،قرآن و سنت میں نعت کے متن کی صحت کے اصولی اشارے،نعتیہ شاعری میں فارسی اور اردو شعراء کے تنقیدی شعور کا انعکاس،نعتیہ شعری مجموعوں اور دواوین میں دیباچوں،تقاریظ اور مقدمات کی صورت میں تنقیدی عمل کا جائزہ،انتخاب ہائے نعت میں چھپنے والے مقدمات،دیباچوں اور تحقیقی مقالوں میں تنقیدی آراء کا جائزہ،نعت رنگ اور دیگر کتابی سلسلوں،مجلوں اور رسائل میں شایع ہونے والے تنقیدی مضامین کا جائزہ،نعتیہ شاعری کے حوالے سے وجود میں آنے والی تنقیدی کتب کا جائزہ اور مذکورہ مباحث کی روشنی میں تنقید نعت کے مجوزہ اصول شامل ہیں۔ان میں سب سے اہم آخری باب ہے جو جناب عزیز احسن کے تنقیدی افکار کا گلدستہ ہے۔یہ مقالہ کتابی شکل میں مارچ۲۰۱۳ء میں منظر عام پر آیا۔

جناب عزیز احسن نے اس مقالے میں تنقید کے چاروں پہیے استعمال کیے ہیں یعنی تقابل،تجزیہ،امتیاز اور تعین قدر۔ان کا یہ فرمانا درست ہے کہ ’معروضیت کا فقدان عمومی ادبی تنقید میں بھی محسوس کیا جاتا ہے لیکن مذہبی شاعری میں اس فقدان کی وجوہات سہ ابعادی ہیں:شاعر سے عقیدت،مسلکی شدت پسندی اور موضوع کا احترام‘۔(۵۷)


پہلے باب میں ان کا یہ تجزیہ بھی درست ہے کہ اردو ادب کے ابتدائی نقوش میں نعت کا حوالہ کمیاب ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عہد کا کلچر غزل کا تھا۔اس دور میں اردو نعتیہ شاعری پر تنقید ی رائے دینے کارواج اس لیے عام نہیں ہوا تھاکہ اردو میں نعتیہ شعری سرمایہ اتنا نہیں تھا۔باب چہارم میں انہوں نے احمد ندیم قاسمی کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق نعت نگاری کا حق ادا کرنے کا تقاضا ہے کہ تیس چالیس سال تک معیاری اردو غزل اور نظم لکھی ہو اور ولی سے لے کر فراق اور یگانہ تک کی شاعری اور حسن اظہار کو اپنے خون میں کھپایا ہو۔(۵۸)میں اس سے اختلاف رکھتا ہوں جن شعراء کا وہ تذکرہ کرتے ہیں ان میں سے اکثر کو تو اسلام اور نبی امیؐ کی تعلیمات تک سے آگہی نہیں تو ان کی پیروی سے کیسے اچھی نعت کہنے کا شعور آئے گا۔ اسی باب میں ایک اور دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ بعض کتابوں کے مقدمات، پیش لفظ وغیرہ ان افراد کے لکھے ہوئے نہیں ہوتے جن کا نام لکھ کر کیش کروایا جاتا ہے۔کچھ اس طرح کے تجربات میرے بھی ہیں اور ان کو اس بات سے مزید تقویت ملی ہے۔اسی باب میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ عاصی کرنالی پہلے محقق ہیں جنہوں نے اپنے مقا لے میں باقاعدہ تنقید کا باب باندھا اور ڈاکٹر شوکت زریں کے مقالے کو ایک تنقیدی کاوش قرار دیا ہے۔جبکہ شوکت زریں نے اقبال کو دور جدید کے سب سے اہم اور ممتاز نعت گو کے طور پر پیش کیا ہے لیکن معذرت کے ساتھ علامہ اقبال جیسے باعلم و باعمل عالم بھی اپنے دوست کوتحریر کرتے ہیں کہ آپ کے نانا کا کلمہ(استغفراللہ) پڑھتا ہوں اور بس۔یہ مطالعہ ہے اقبال کا اسلامی تاریخ کا۔اس مقالے کے اہم ترین ابواب باب ششم اور ہفتم ہیں جن میں جناب عزیز احسن نے گراں قدر معلومات بہم پہنچائی ہیں۔باب ششم میں آپ کے اس موقف سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے کہ ’بعض نقادوں نے جس پہلو کو حدود شرع سے متجاوز جانا اور اس کے خلاف رائے دی وہی پہلو دوسرے نقادوں کے نزدیک حقیقت سے زیادہ قریب ہے۔ایسی صورت میں نعتیہ شاعری کی تنقید میں تنازع پیدا ہوتا ہے‘۔اختلاف کا حل یہ ہے کہ اسے قرآن اور سنت کی طرف موڑ دیا جائے اور کسی کی تنقید کو وزن نہ دیا۔کیوںکہ تحقیق و تنقید کا مقصد حقیقت کی بازیافت ہی ہونا چاہیے۔


کچھ مضامین کو جو مقالہ نگار کے اپنے ہیں،کو جناب عزیز احسن نے شامل تحقیق نہیں کیا اور انہیں تکنیکی وجوہات قرار دیا لیکن ان کو شامل کیا جانا چاہیے تھا۔باب ششم کے بعض مقامات پر جناب عزیز احسن جذباتی بھی ہوئے ہیں جو فطری ہے کہ وہ نعت کے شاعر ہیں۔تاہم ہم اس بات کو تسلیم نہ بھی کریں لیکن نعتیہ شاعری تقدس آمیز شاعری بن ہی چکی ہے۔آپ کا یہ انداز درست ہے کہ نعت کے اشعار میں اسقام کی نشاندہی پر تاویلات پیش کرنے سے بہتر ہے کہ شعر میں پایا جانے والاابہام دور کردیا جائے۔اور ایسے معاملات میں ’انا‘ کو قربان کردینا ہی بہتر ہے۔(۵۹)لیکن جناب شاعر انا پرست بڑے ہوتے ہیں اور وہ ایسا نہیں کرتے۔


باب ہشتم میں جناب عزیز احسن نے شعری اور شرعی معیارات کی پرکھ کے اصول تحریر کیے ہیں جو اس مقالے کا ملخص بھی ہے۔انہوں نے تاریخی استناد پر جہاں زور دیا ہے وہیں ممنوعات نعت پر بھی بات کی ہے۔حدیث قدسی سے انحراف اور غلط العام و غلط العوام روایات سے مجتنب رہنے بلکہ محتاط رویہ اپنانے پر بھی زور دیا ہے(۶۰)مقالہ طویل لیکن دلچسپ ہے اور نعتیہ ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ان کے نگران کا یہ کہنا بے جا نہیں کہ آیندہ پندرہ بیس سال تک کوئی شخص اس میں اضافہ نہیں کرسکے گا۔


پی ایچ ڈی کے مقالے اکثر صرف ڈگری کے حصول کے لیے ہی لکھے جاتے ہیں اور اسی لیے وہ تحقیقی و تنقیدی تاریخ کا حصہ تو بنتے ہیں لیکن سماج کے لیے کوئی گراں قدر خدمت سرانجام نہیں دے سکتے۔جناب عزیز احسن کے مقالے کے ساتھ ایسا نہیں۔مسئلہ صرف ضخامت کا ہے جو عام قاری کو خوفزدہ کرتی ہے ورنہ اس میں اتنا کچھ ہے کہ یکسو قسم کے قاری کو اس وقت تک چین نہیں آئے گا جب تک وہ اسے پورا پڑھ نہ لے۔


26 ستمبر 2012 سے مارچ2013 ء تک تقریباً پانچ ماہ بنتے ہیں اور اتنا جلدی پی ایچ ڈی کے مقالے کا کتابی صورت میں عام قارئین تک پہنچنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جناب عزیز احسن کا کام معیاری اور وقیع ہے۔وہ یہاں رکے نہیں بلکہ جولائی 2014ء میں ایک اور تحقیقی مقالہ بھی کتابی شکل میں ’پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر‘ کے نام سے قارئین کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں۔مقام انبساط یہ ہے کہ جناب عزیز احسن کی نعتیہ شاعری اور ان کے تحقیقی مقالات میں فکر وفن کے حوالے سے کوئی بعد نظر نہیں آتااور نہ ہی کہیں ٹکرائو کی کوئی کیفیت ہے۔ان کی تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی نعت کا سفر جاری ہے اور ہم ان کی صلاحیتوں اور عمر میں برکت کے لیے دعا گو ہیں۔

مضمون نگار کے حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔عزیز احسن، ڈاکٹر،پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،جولائی ۲۰۱۴،ص ص ۳۰ تا ۳۱

۲۔عزیز احسن،ڈاکٹر،مثنوی رموز بیخودی کا فنی و فکری جائزہ،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،مارچ ۲۰۱۱ئ،ص۱۲

۳۔عزیز احسن،ڈاکٹر،نعت کے تنقیدی آفاق،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،ستمبر ۲۰۱۰ئ،ص۱۳۴

۴۔نعت کے تنقیدی آفاق،ص ۱۳۸

۵۔نعت کے تنقیدی آفاق،ص ۱۸۹

۶۔عزیز احسن،ڈاکٹر،کرم و نجات کا سلسلہ،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،مئی ۲۰۰۵،ص ص ۱۲ تا ۱۵

۷۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص ۳۰

۸۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۴۷

۹۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۶۰

۱۰۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۶۳

۱۱۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۶۸

۱۲۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص ص ۶۹ تا ۷۱

۱۳۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۷۴

۱۴۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۷۵

۱۵۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۷۶

۱۶۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۷۷

۱۷۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۸۱

۱۸۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۸۸

۱۹۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۹۷

۲۰۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۹۸

۲۱۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۱۰۱

۲۲۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۱۰۲

۲۳۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۱۰۸

۲۴۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۱۱۵

۲۵۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۱۱۷

۲۶۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۱۳۲

۲۷۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۱۳۵

۲۸۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۱۳۶

۲۹۔کرم و نجات کا سلسلہ،ص۱۶۷

۳۰۔عزیز احسن،ڈاکٹر،امید طیبہ رسی،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،جولائی ۲۰۱۲،ص۱۰

۳۱۔امید طیبہ رسی، ص ۱۵

۳۲۔امید طیبہ رسی، ص ۱۷

۳۳۔امید طیبہ رسی، ص ۳۴

۳۴۔نعت کے تنقیدی آفاق،ص۱۱۴

۳۵۔نعت کے تنقیدی آفاق،ص۹

۳۶۔امید طیبہ رسی، ص ۵۸

۳۷۔امید طیبہ رسی، ص ص۶۰ تا۶۱

۳۸۔امید طیبہ رسی، ص ۹۸

۳۹۔عزیز احسن،ڈاکٹر،شہپر توفیق،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،جنوری ۲۰۰۹ئ، ص ۳۷

۴۰۔شہپر توفیق، ص ۴۸

۴۱۔نعت کے تنقیدی آفاق،ص ۱۷۶

۴۲۔شہپر توفیق، ص ۶۳

۴۳۔نعت کے تنقیدی آفاق،ص ۴۳

۴۴۔شہپر توفیق، ص ص ۲۵ تا ۲۶

۴۵۔شہپر توفیق، ص۷۸

۴۶۔شہپر توفیق، ص۷۹

۴۷۔شہپر توفیق، ص۸۳

۴۸۔شہپر توفیق، ص۸۶

۴۹۔شہپر توفیق، ص۹۵

۵۰۔نعت کے تنقیدی آفاق،ص ۸۷

۵۱۔شہپر توفیق، ص۹۷

۵۲۔شہپر توفیق، ص۱۰۱

۵۳۔شہپر توفیق، ص۱۲۲

۵۴۔شہپر توفیق، ص۱۴۱

۵۵۔شہپر توفیق، ص۱۵۰

۵۶۔شہپر توفیق، ص۱۹۶

۵۷۔عزیز احسن،ڈاکٹر،اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی جائزہ، نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،مارچ ۲۰۱۳ئ، ص ۲۶

۵۸۔اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی جائزہ،ص ۱۹۱

۵۹۔اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی جائزہ،ص۴۷۳

۶۰۔اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی جائزہ،ص ۵۹۴

کتابیات:


٭ عزیز احسن،ڈاکٹر،کرم و نجات کا سلسلہ،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،مئی ۲۰۰۵ء ٭ شہپر توفیق،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،جنوری ۲۰۰۹ء ٭ نعت کے تنقیدی آفاق،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،ستمبر ۲۰۱۰ء ٭ مثنوی رموز بیخودی کا فنی و فکری جائزہ،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،مارچ ۲۰۱۱ء ٭ امید طیبہ رسی،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،جولائی ۲۰۱۲ء ٭ اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی جائزہ، نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،مارچ ۲۰۱۳ء ٭ پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر،نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،جولائی ۲۰۱۴ء

{}کلیات میں یہ غلطی درست کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ! ڈاکٹرعبدالکریم صاحب کو خوش رکھے ! (ع۔ا)


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مضامین میں تازہ اضافہ
نئے صفحات

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659