نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث ۔ نعت ،صنف سخن کی حیثیت سے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


Naat kainaat - naatia masail.jpg

مصنف  : ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

کتاب : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث ۔ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

(مدیر نعت رنگ کو لکھے گئے خطوط کے آئِینے میں )

کتاب کا پی ڈی ایف ربط : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث

نعت ،صنف سخن کی حیثیت سے:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جناب انور خلیل نے کہا ہے:


میرے خیال میں نعت کو علاحدہ صنف سخن کہنا صائب نہیں۔۔۔ ہیئت کے لحاظ سے اصنافِ سخن شمار ہوتی ہیں جب کہ نعت کسی بھی صنفِ سخن میں کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے میں نعتیہ ادب کی اصطلاح کو صنفِ سخن پر ترجیح دیتا ہوں۔

عارف منصور ص ۴۰۸ پر لکھتے ہیں:


اصنافِ سخن کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک ہیئت کے حوالے سے جیسے نظم، مسدس، ہائیکو وغیرہ اور دوسرے موضوعات کے حوالے سے جیسے حمد، نعت نوحہ مرثیہ۔


عارف منصور کی اس توضیح سے ص۵۲۲ پر لکھے گئے جناب کوکب نورانی کے اس اعتراض کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔ جناب کوکب نورانی لکھتے ہیں:


لوگوں نے کتنی غلطی پھیلا رکھی ہے کہ حمد کے معنی ہیں خدا کی تعریف اور نعت کے معنی ہیں رسول کی تعریف۔(احمد صغیر صدیقی ص،۷۹)


بایں ہمہ عقیدے کی حد تک نعت شعرا اور غیر شعرا کا ہمیشہ مرکزِ نگاہ رہی ہے، البتہ فکری وفنی نقطئہ نظر سے نعت کو کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا ہے۔ جس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ تاحال یہ فیصلہ نہیں ہوسکا ہے کہ نعت ایک باقاعدہ صنف سخن ہے یا نہیں۔ـــ (قیصر نجفی ص،۷۴۵)


تعجب ہے کہ ارباب نقدونظر نے صنف نعت کو اپنی تحریروں میں وہ مقام اور درجہ نہیں دیا جو دوسری اصناف سخن کو دیا ہے آخر کیوں؟ غالباً اس کی وجہ مذہب سے کم تعلقی اور رسولV کی تعریف وتوصیف کے حوالے سے اس کو (نعوذباللہ) یک رخہ سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا، صنف نعت پر جستہ جستہ کام ہوا جو نہ ہونے کے برابر ہے، نعتوں کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں اور ایک آدھ کتاب تاریخ نعت کے حوالے سے منظرعام پرآئی ہے جس سے سیری نہیں ہوتی۔ آپ کاکام ٹھوس ہے اور آپ نے نعت کو ادبیات کی اعلیٰ اصناف میں شامل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔(تابش دہلوی ص،۲۴۲)


اردو میں جب سے شعروادب لکھا جارہا ہے اس وقت سے حمد و نعت بھی کہی جارہی ہے لیکن برکت و تبرک کے لیے.....اس جذبے سے بلند ہوکر جن شعرائے کرام نے نعت کو ایک صنفِ سخن کی حیثیت سے اپنایا۔ان میں حضرات محسن کاکوروی، امیر مینائی، احمد رضاخان بریلوی کے نام خصوصیت سے لیے جاسکتے ہیں۔ اب رہی بات علامہ اقبال کی ..... انھوں نے واقعی حمد اور نعت کو ایک نیا رخ دیا ہے اور کشفی صاحب کے مطالبہ پر پوری اترتی ہے...... یعنی اقبال کے یہاں قرآن و حدیث کا مطالعہ اور کائنات کا مشاہدہ نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑوںسے نسبت ہی بڑا بناتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری اسی وجہ سے سے بلند تر ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے اکتساب نور کرتے ہیں۔ اب رہی مولانا الطاف حسین حالیؔ کی نظم’’مدّو جزر اسلام‘‘ تو اس کے ادبی محاسن اپنی جگہ لیکن برادرِ محترم جمال پانی پتی صاحب نے نہایت پتے کی بات کہی ہے ۔ فرماتے ہیں: ’’انھوں نے (مولانا حالیؔ نے) اس بات پر غور نہیں کیا کہ حضور نبی کریم V کی بے مثل بشریت اور عبدیت کاملہ کو ہم جیسے عام انسانوں کی سطح کے برابر لانے سے نعت گوئی کا حق تو رہا درکنار، خود ایمان کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘‘(سلطان جمیل نسیم ص،۴۳۲ ۔۴۳۱)


جناب سید حسین احمد نے اصنافِ سخن کی تعریف و تقسیم کرنے والوں کے حوالے سے (شاید) یہ لکھا ہے ، مجھ سا کم علم و کم فہم یہ جاننا چاہتا ہے کہ ’’ صنفِ سخن ‘‘ کی تعریف کی بنیاد کیا ہے ؟ ’نعت کو ’’ مضامین سخن ‘‘ اور ادب تو خود انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے یعنی نعت بلا شبہ سخن تو ہے صرف ’’صنف ‘‘ کا سابقہ اس کے ساتھ لگانے کے لئے فنی طور پر جو اعتراض انہیں مانع ہے وہ فارم اور اجزائے ترکیبی کے تعین و تقرر کا ہے - اس بارے میں مروجہ فنی اور تیکنیکی قواعد و ضوابط سے واقف نہ ہونے کے باوجود یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اُردو معاشرے میں اصناف ِ سخن کی تعریف و تقسیم وغیرہ سے پہلے بھی نعت تھی بلکہ اُردو نہیں تھی اور نعت تھی ، شاعری میںغزل ، نظم ،رباعی ، مرثیہ وغیرہ کی تقسیم سے پہلے نعت تھی اور اسےنعت ہی کہا اور شمار کیا گیا - نعتیہ غزل یا نعتیہ رباعی کے نام تو بہت بعد کے دَور میں لکھے پکارے گئے ہیں - اس پہلے سے موجود نعت کو کیا کہا جائے گا ؟ اُردو دان طبقے کا اپنے معاشرے میں حمد و نعت کی اصطلاحی تقسیم طے کرلینے کا یہ مطلب نہیں کہ عربی دان طبقے اور عرب معاشرے میں بھی یہی استعمال بلفظہ منوایا جائے - لفظ ’’ ثناء ‘‘ کی مثال سامنے ہے ، اُردو دان طبقہ اس کی معنوی حد بندی پر کوئی اصرار نہیں کرتا - متعدد لفظوں کی ایک فہرست یہ فقیر ہی فراہم کرسکتا ہے جن کے اصل لغوی اور ہمارے ہاں اصطلاحی معنوں کا استعمال مختلف ہے ، اس کے باوجود ان الفاظ کے وسیع استعمال پر اختلاف نہیں کیا جاتا - شعر کہنے والے کو صرف شاعر کہا جاتا ہے خواہ وہ کسی ایک مروجہ صنف ہی میں کلام کہے ، ہر صنف کے حوالے سے اس کا نام نہیں پُکارا جاتا، یعنی نظم کہنے والے کو صرف ناظم نہیں کہا جاتا بلکہ نظم کالفظ بھی لغت میں وسعت رکھتا ہے اور کئی معنی دیتا ہے اور کیا باقی اصنافِ سخن میں ’’ نظم ‘‘ نہیں ؟ کیا بے نظمی اور بدنظمی پائی جاتی ہے ان میں ؟ ’’ غزل ‘‘ کے لفظ کے لئے ذرا لغت کھولئے اور دیکھئے کیا کیا معانی درج ہیں - غزل نگار کو غازل کیوں نہیں پکارا جاتا ؟ کیا غزل ’’ سیاسی ‘‘ نہیں ہوتی ؟ کیا مضامین اور موضوعات کا سابقہ دیگر مروجہ اصنافِ سخن کے ساتھ نہیں پکارا جاتا ؟جب معاشرے میں ’’نعت ‘‘ کے اصطلاحی طور پر ایک معنی و مفہوم پر اتفاق کیا جاسکتا ہے تو اس کے ’’ صنف ِ سخن ‘‘ مانے جانے میں کیا حقیقی عذر مانع ہے ؟ میری یہ عرض اگر شاعری کے متفقہ اصول و قواعد کے مطابق فضول ہے تو معذرت خواہ ہوں - (کوکب نورانی ص،۳؍۱۹۳۔۱۹۲)

ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا مضمون ’’نعت ، بحیثیت صنف سخن‘‘ اہم مضمون ہے۔ ہمارے بعض ناقدین صرف مخصوص موضوع اور کوئی مخصوص ہیئت نہ ہونے کی بنا پر نعت کو ’’صنف سخن‘‘ تسلیم نہیں کرتے جبکہ یہی ناقدین ’’مرثیے‘‘ کو صنف سخن کا درجہ دیتے ہیں جبکہ یہ بھی موضوعی صنف ہے اور جو لوگ ’’مسدس‘‘ کو اسکی ’’ہیئت‘‘ قرار دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ اس کی مسدسی ہیئت تو انیسؔ و دبیرؔ کی وجہ سے مقبول ہوگئی ورنہ ان سے قبل اور آج بھی مسدس کو مرثئے کی حتمی ہیئت تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس طرح رباعی کی ہیئت تسلیم شدہ ہے، آج بھی دیگر شعری ہئیتوں میں مرثیے کہے جارہے ہیں اس لیے جس طرح مرثیے کو موضوع کے اعتبار سے صنف سخن کا درجہ دیا گیا ہے اسی طرح نعت کو بھی ’’صنف سخن ‘‘ تسلیم کرلینا چاہئے۔(ڈاکٹر اشفاق انجم ص،۲۷؍۴۹۸)


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659