"لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: __TOC__ '''نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ''' از امام احمد رضا خان بریلوی لم یات نظیرک فی ن...)
 
 
(3 صارفین 25 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{#seo:
|title= لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا
|titlemode=append
|keywords=لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا ۔نعت، نعت گوئی ، نعت خوانی، نعت پاک، نعت رسول، نعت مقبول، نعت رسول، احمد رضا خان بریلوی، امام احمد رضا، صبح طیبہ میں ہوئی ۔ مصطفی جان رحمت، زمین و زماں تمہارے لیے ، واہ کیا جود و کرم ، ahmed raza, naat
|description=لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا ۔  حدائق بخش۔ امام احمد رضا کی شاعری ۔  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ عظیم المرتبت مفسر،جلیل القدر محدث اور بلند پایہ فقیہ تھے۔نعتیہ کلاموں کی مقبولیت کے حوالے جو پذیرائی احمد رضا خان بریلوی کی نعتوں کو ملی ہے وہ بے مثال ہے ۔ ہر قابل ذکر نعت خواں نے آپ کے کلاموں سے اپنی آوازوں کو مزین کیا ۔
}}
{{ٹکر 1 }}
[[زمرہ: خاص نعتیں ]]
شاعر :  [[امام احمد رضا خان بریلوی]]


  __TOC__
  __TOC__
==== لم یات نظیرک فی نظر، مثل تو نہ شد پیدا جانا ====
لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا ۔ سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں




'''نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم '''
اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا


منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا


از [[امام احمد رضا خان بریلوی]]
دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے۔ بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں






یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی


لم یات نظیرک فی نظر، مثل تو نہ شد پیدا جانا
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا


جگ راج کو تاج تو رے سر سو ہے ، تجھ کو شہ دوسرا جانا
اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا ۔ کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی






البحر علا والمود طغےٰ ، من بیکش و طوفاں ہوشربا
لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل


منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا، موری نیّا پار لگا جانا
تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا


آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے ۔ آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں




یا شمس نظرت الیٰ لیلی ، چو بطیبہ رسی عرضے بکنی


توری جوت کی جھلمل جگ میں رچی،  مری شب نے نہ دن ہونا جانا
انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم


برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا


لک بدر فی الوجہ الاجمل،  خط ہالہءِ مہ زلف ابر اجل
میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل ۔ برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا


تورے چندن چندر پرو کنڈل، رحمت کی بھرن برسا جانا




یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک


انا فی عطش و سخاک اتم، اے گیسوئے پاک اے ابر کرم
مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا


برسن ہا رے رم جھم رم جھم، دو بوند ادھر بھی گرا جانا
اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں ۔ میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے






یا قا فلتی زیدی اجلک، رحمے بر حسرتِ تشنہ لبک
وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت


مورا جیر الرجے درک درک،  طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا
جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا


افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی ۔ مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا




واھا لسویعات ذھبت، آن عہد حضور بار گہت


جب یاد آوت موہے کر نہ پرت، دردا وہ مدینہ کا جانا


اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں


پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا


القلب شح والھم شجوں، دل زار چناں جاں زیر چنوں
دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے ۔ میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے


پت اپنی بپت میں کا سے کہوں، مورا کون ہے تیرے سوا جانا




اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا


الروح فداک فزد حرقا، یک شعلہ دگر بر زن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا


مورا تن من دھن سب پھونک دیا، یہ جان بھی پیارے جلا جانا
میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں ۔ میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں






بس خامہءِ خام نوائے رضا، نہ یہ طرز مری نہ یہ رنگ مرا


ارشاد احبا ناطق تھا، ناچار اس راہ پڑا جانا
بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا


ارشاد احبا ناطق  تھا، ناچار اس راہ پڑا جانا <ref> احبا اور ناطق ۔  [[ امام احمد رضا خان بریلوی ]] کےمعتقدین جن کی فرمائش پر یہ کلام لکھا گیا </ref>


رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے ۔ دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی


===اس کلام کی خصوصیات ===


== حدائق بخشش ==
تو یہ اس کلام کا ہر شعر [[ صنعت تلمیع ]] کا حامل ہے ۔ صنعت تلمیع کی شرط دو زبانیں ہوتی ہے اور اس کلام کا ہر شعر چار زبانوں پر مشتمل ہے ۔ ہر شعر کا پہلا مصرع [[عربی]] اور [[فارسی]] جبکہ دوسرا مصرع بھوجپوری ہندی اور [[اردو]] میں ہے ۔ [[پیر نصیر الدین نصیر ]] نے بھی اس صنعت میں ایک رباعی [[ ستار ہے تو نہ کر مجھے بے پردا ۔ نصیر الدین نصیر | ستار ہے تو نہ کر مجھے بے پروا ]] لکھی ہے ۔


[[حدائق بخشش ]]
=== اس کلام کا پس منظر ===
[[علامہ عبدالستار ہمدانی ]] فرماتے ہیں


"چار زبان پر مشتمل یہ نعت نظم فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ احبا اور ناطق نام کے دو شاعر جو [[امام احمد رضا خان بریلوی ]] کے معتقد تھے انہوں حضرت رضا علیہ لرحمہ کی خدمت میں گذارش کی کہ اردو ادب میں صنعت تلمیع  میں بہت کم اشعار پائے جاتے ہیں ۔ لہذا آپ دو زبانوں پر مشتمل ایک نعت نطم فرما ئیں تو اردو ادب پر احسان ہوگا ۔ آپ نے احبا اور ناطق  کی گذارش کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے دو کے بجائے چار زبانوں پر مشتمل مذکورہ نعت نظمر فرمائی اور مقطع میں ارشاد اور ناطق کے لفظ استعمال فرما کر دونوں فرمائش کنندہ کے نام کا ذکر بھی فرما دیا  " <ref> فن شاعر حسان الہند </ref>


== پچھلا کلام ==
=== نعت خوانوں میں مقبولیت ===


اس کلام کو نعت خوان طرحدار، بلبل بستان رضا [[سعید ہاشمی ]] نے پڑھا ۔ [[سعید ہاشمی ]] نفیس اقدار اور لطیف جمالیات والے خوش نوا نعت خواں ہیں جن کے دامن میں اس کے علاوہ بھی بہت سے عمدہ کلام موجود ہیں  ۔ لیکن جو شہرت اس کلام سے انہیں اور ان سے اس کلام کو ملی وہ ایک مثال ہے ۔


[[لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا ]]
[[سعید ہاشمی ]] نے یہ کلام [[1960]] کی دہائی میں پڑھا ۔


== اگلا کلام ==
=== تضامین ===
 
اس کلام پر لکھی گئی تضمینوں میں سے جو دستیاب ہو سکیں وہ یہ ہیں
 
 
* [[لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا ۔ تضمین از خالد رومی ]]
* [[لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا ۔ تضمین از امجد رازی ]]
 
=== مزید دیکھیے  ===
 
[[لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا ]] | [[حدائق بخشش ]] | [[نہ آسمان کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا ]]
 
{{باکس 1 }}
{{منتخب شاعری }}


[[نہ آسمان کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا ]]
=== حوالہ جات ===

حالیہ نسخہ بمطابق 09:30، 17 فروری 2021ء


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

شاعر : امام احمد رضا خان بریلوی

لم یات نظیرک فی نظر، مثل تو نہ شد پیدا جانا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا ۔ سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں


اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا

منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے۔ بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں


یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی

توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا ۔ کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی


لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل

تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے ۔ آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں


انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم

برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل ۔ برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا


یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک

مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں ۔ میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے


وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت

جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی ۔ مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا



اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں

پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے ۔ میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے


اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا

مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں ۔ میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں



بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا

ارشاد احبا ناطق تھا، ناچار اس راہ پڑا جانا <ref> احبا اور ناطق ۔ امام احمد رضا خان بریلوی کےمعتقدین جن کی فرمائش پر یہ کلام لکھا گیا </ref>

رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے ۔ دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی

اس کلام کی خصوصیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تو یہ اس کلام کا ہر شعر صنعت تلمیع کا حامل ہے ۔ صنعت تلمیع کی شرط دو زبانیں ہوتی ہے اور اس کلام کا ہر شعر چار زبانوں پر مشتمل ہے ۔ ہر شعر کا پہلا مصرع عربی اور فارسی جبکہ دوسرا مصرع بھوجپوری ہندی اور اردو میں ہے ۔ پیر نصیر الدین نصیر نے بھی اس صنعت میں ایک رباعی ستار ہے تو نہ کر مجھے بے پروا لکھی ہے ۔

اس کلام کا پس منظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علامہ عبدالستار ہمدانی فرماتے ہیں

"چار زبان پر مشتمل یہ نعت نظم فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ احبا اور ناطق نام کے دو شاعر جو امام احمد رضا خان بریلوی کے معتقد تھے انہوں حضرت رضا علیہ لرحمہ کی خدمت میں گذارش کی کہ اردو ادب میں صنعت تلمیع میں بہت کم اشعار پائے جاتے ہیں ۔ لہذا آپ دو زبانوں پر مشتمل ایک نعت نطم فرما ئیں تو اردو ادب پر احسان ہوگا ۔ آپ نے احبا اور ناطق کی گذارش کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے دو کے بجائے چار زبانوں پر مشتمل مذکورہ نعت نظمر فرمائی اور مقطع میں ارشاد اور ناطق کے لفظ استعمال فرما کر دونوں فرمائش کنندہ کے نام کا ذکر بھی فرما دیا " <ref> فن شاعر حسان الہند </ref>

نعت خوانوں میں مقبولیت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس کلام کو نعت خوان طرحدار، بلبل بستان رضا سعید ہاشمی نے پڑھا ۔ سعید ہاشمی نفیس اقدار اور لطیف جمالیات والے خوش نوا نعت خواں ہیں جن کے دامن میں اس کے علاوہ بھی بہت سے عمدہ کلام موجود ہیں ۔ لیکن جو شہرت اس کلام سے انہیں اور ان سے اس کلام کو ملی وہ ایک مثال ہے ۔

سعید ہاشمی نے یہ کلام 1960 کی دہائی میں پڑھا ۔

تضامین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس کلام پر لکھی گئی تضمینوں میں سے جو دستیاب ہو سکیں وہ یہ ہیں


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا | حدائق بخشش | نہ آسمان کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا


نئے صفحات
زیادہ پڑھے جانے والے کلام

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]