"خزینہ ءِ رحمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: link=خزینہ ءِ رحمت {{بسم اللہ }} زمرہ: مجموعہ ہائے نعت عنوان : "خزینہ ءِ رحمت کا تع...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 15: سطر 15:
خزینہ رحمت“ سمیعہ ناز کی نعتیہ شاعری کادوسرا مجموعہ ہے جس میں پانچ حمدیں، چار مناقب، دس نعتیہ نظمیں اور باقی نعتیں شامل ہیں۔ اس  سے قبل ان کا ایک نعتیہ مجموعہ ”خزینہ نور“ کے نام سے ۲۰۰۷ میںشائع ہو کر نعت پسند طبقہ سے خراج تحسین حاصل کر چکا ہے جو کہ اس وقت ہمارے سامنے موجود نہیں تاہم ہمیں یقین ہے کہ نقاش نقش ثانی بہتر کشد زوال کی مصداق ”خزینۂ رحمت“ میں شامل نعتیہ شاعری یقیناً پہلے سے کہیں زیادہ پسندیدہ قرار پائے گی
خزینہ رحمت“ سمیعہ ناز کی نعتیہ شاعری کادوسرا مجموعہ ہے جس میں پانچ حمدیں، چار مناقب، دس نعتیہ نظمیں اور باقی نعتیں شامل ہیں۔ اس  سے قبل ان کا ایک نعتیہ مجموعہ ”خزینہ نور“ کے نام سے ۲۰۰۷ میںشائع ہو کر نعت پسند طبقہ سے خراج تحسین حاصل کر چکا ہے جو کہ اس وقت ہمارے سامنے موجود نہیں تاہم ہمیں یقین ہے کہ نقاش نقش ثانی بہتر کشد زوال کی مصداق ”خزینۂ رحمت“ میں شامل نعتیہ شاعری یقیناً پہلے سے کہیں زیادہ پسندیدہ قرار پائے گی


سمیعہ ناز کی شاعرانہ ساخت و پرداخت اُن محافل میلاد اور مجالس کا نتیجہ ہے جنھوں نے انھیں حبِ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آفاقی جذبوں سے آشناکیا۔ مبدع فیاض نے انھیں حسن صوت اور طبع موزوں کے ساتھ ، حسن انتظام کے جوہرِووافر سے بھی نوازا ہے۔ وہ ایک معروف نعت خوان ہیں۔ انتظامی صلاحیتوں اور جذبہ ٔحب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں نعت گوئی اور نعت خوانی کو اپنا نصب العین اور مقصد حیات بنانے پر انگیخت دی ، اسی جذبہ کے تحت وہ ” نعت ریسرچ سنٹر“ اور پھر”اکادمی فروغ نعت“ سے منسلک ہوئیں۔ اب ان دونوں اداروں کی رکن رکین اور روح رواں ہیں۔ان دونوں اداروں کے ساتھ وابستگی سے ان کے فنِ شعر کو جلا ملی، مطالعہ سیرت اور مشق سخن کی بدولت آج وہ باقاعدہ نعت گو شاعرہ ہیں۔  
سمیعہ ناز کی شاعرانہ ساخت و پرداخت اُن محافل میلاد اور مجالس کا نتیجہ ہے جنھوں نے انھیں حبِ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آفاقی جذبوں سے آشناکیا۔ مبدع فیاض نے انھیں حسن صوت اور طبع موزوں کے ساتھ ، حسن انتظام کے جوہرِووافر سے بھی نوازا ہے۔ وہ ایک معروف نعت خوان ہیں۔ انتظامی صلاحیتوں اور جذبہ ٔحب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں نعت گوئی اور نعت خوانی کو اپنا نصب العین اور مقصد حیات بنانے پر انگیخت دی ، اسی جذبہ کے تحت وہ ” نعت ریسرچ سنٹر“ اور پھر”اکادمی فروغ نعت“ سے منسلک ہوئیں۔ اب ان دونوں اداروں کی رکن رکین اور روح رواں ہیں۔ان دونوں اداروں کے ساتھ وابستگی سے ان کے فنِ شعر کو جلا ملی، مطالعہ سیرت اور مشق سخن کی بدولت آج وہ باقاعدہ نعت گو شاعرہ ہیں۔  


سمیعہ ناز کاشعری شعور، نعت و مدحت کی مسلسل ریاضت کے سبب اپنی منزل کی جانب مسلسل سفر میں ہے۔ وہ سادہ ، سلیس اور جذبے سے بھرپور نعت کہتی ہیں۔ جس میں عوامی اور محفلی رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ پرتاثیر اشعار اور حب نبی ؐسے بھرے خیالات ان کی شاعری کی ممتاز صفت ہیں۔ لیکن آداب بارگاہِ رسالت سے آگہی اور شعورِ سیرت نے انہیں ، عوامی محافل کے عامیانہ انداز کا  اسیر نہیں ہونے دیا۔ وہ اس موضوع کے تقاضوں سے کماحقہ آگاہ ہیں اور بخوبی جانتی ہیں کہ :
سمیعہ ناز کاشعری شعور، نعت و مدحت کی مسلسل ریاضت کے سبب اپنی منزل کی جانب مسلسل سفر میں ہے۔ وہ سادہ ، سلیس اور جذبے سے بھرپور نعت کہتی ہیں۔ جس میں عوامی اور محفلی رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ پرتاثیر اشعار اور حب نبی ؐسے بھرے خیالات ان کی شاعری کی ممتاز صفت ہیں۔ لیکن آداب بارگاہِ رسالت سے آگہی اور شعورِ سیرت نے انہیں ، عوامی محافل کے عامیانہ انداز کا  اسیر نہیں ہونے دیا۔ وہ اس موضوع کے تقاضوں سے کماحقہ آگاہ ہیں اور بخوبی جانتی ہیں کہ :
سطر 37: سطر 37:




اچھی نعت، فن شعر گوئی سے مکمل شناسائی کے بغیر کہنا ممکن نہیں، بلکہ نعت گوئی کے لیے تو شاعری کا وسیع مطالعہ بہت ضروری ہے۔ سمیعہ ناز کی نعتیہ شاعری میں تغزل کی چاشنی بھی بھرپور ملتی ہے۔جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فن شعر گوئی کی باریکیوں اور لطافتوں سے بھی آگاہ ہیں۔  
اچھی نعت، فن شعر گوئی سے مکمل شناسائی کے بغیر کہنا ممکن نہیں، بلکہ نعت گوئی کے لیے تو شاعری کا وسیع مطالعہ بہت ضروری ہے۔ سمیعہ ناز کی نعتیہ شاعری میں تغزل کی چاشنی بھی بھرپور ملتی ہے۔جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فن شعر گوئی کی باریکیوں اور لطافتوں سے بھی آگاہ ہیں۔  


نبی کی نعت ہمیشہ دل و نظر میں رہی
نبی کی نعت ہمیشہ دل و نظر میں رہی
سطر 147: سطر 147:
ہراک مشکل ہو آساں جب یہ شامل ہوں دعاؤں میں  
ہراک مشکل ہو آساں جب یہ شامل ہوں دعاؤں میں  


مری سانسیں معطر ہوں درودِ پاک پڑھنے سے
مری سانسیں معطر ہوں درودِ پاک پڑھنے سے


شکستہ دل سکوں پائے درودوں کی صدائوں میں
شکستہ دل سکوں پائے درودوں کی صدائوں میں


جہاں صلُّوا علی المولائےؐ طیبہ کا وظیفہ ہو
جہاں صلُّوا علی المولائےؐ طیبہ کا وظیفہ ہو

حالیہ نسخہ بمطابق 21:25، 25 نومبر 2018ء

Khazeena e naat.jpg

عنوان : "خزینہ ءِ رحمت کا تعارف "

شاعرہ: سمعیہ ناز

مضمون نگار : سید شاکر القادری

خزینہ رحمت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خزینہ رحمت“ سمیعہ ناز کی نعتیہ شاعری کادوسرا مجموعہ ہے جس میں پانچ حمدیں، چار مناقب، دس نعتیہ نظمیں اور باقی نعتیں شامل ہیں۔ اس سے قبل ان کا ایک نعتیہ مجموعہ ”خزینہ نور“ کے نام سے ۲۰۰۷ میںشائع ہو کر نعت پسند طبقہ سے خراج تحسین حاصل کر چکا ہے جو کہ اس وقت ہمارے سامنے موجود نہیں تاہم ہمیں یقین ہے کہ نقاش نقش ثانی بہتر کشد زوال کی مصداق ”خزینۂ رحمت“ میں شامل نعتیہ شاعری یقیناً پہلے سے کہیں زیادہ پسندیدہ قرار پائے گی

سمیعہ ناز کی شاعرانہ ساخت و پرداخت اُن محافل میلاد اور مجالس کا نتیجہ ہے جنھوں نے انھیں حبِ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آفاقی جذبوں سے آشناکیا۔ مبدع فیاض نے انھیں حسن صوت اور طبع موزوں کے ساتھ ، حسن انتظام کے جوہرِووافر سے بھی نوازا ہے۔ وہ ایک معروف نعت خوان ہیں۔ انتظامی صلاحیتوں اور جذبہ ٔحب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں نعت گوئی اور نعت خوانی کو اپنا نصب العین اور مقصد حیات بنانے پر انگیخت دی ، اسی جذبہ کے تحت وہ ” نعت ریسرچ سنٹر“ اور پھر”اکادمی فروغ نعت“ سے منسلک ہوئیں۔ اب ان دونوں اداروں کی رکن رکین اور روح رواں ہیں۔ان دونوں اداروں کے ساتھ وابستگی سے ان کے فنِ شعر کو جلا ملی، مطالعہ سیرت اور مشق سخن کی بدولت آج وہ باقاعدہ نعت گو شاعرہ ہیں۔

سمیعہ ناز کاشعری شعور، نعت و مدحت کی مسلسل ریاضت کے سبب اپنی منزل کی جانب مسلسل سفر میں ہے۔ وہ سادہ ، سلیس اور جذبے سے بھرپور نعت کہتی ہیں۔ جس میں عوامی اور محفلی رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ پرتاثیر اشعار اور حب نبی ؐسے بھرے خیالات ان کی شاعری کی ممتاز صفت ہیں۔ لیکن آداب بارگاہِ رسالت سے آگہی اور شعورِ سیرت نے انہیں ، عوامی محافل کے عامیانہ انداز کا اسیر نہیں ہونے دیا۔ وہ اس موضوع کے تقاضوں سے کماحقہ آگاہ ہیں اور بخوبی جانتی ہیں کہ :

ع: ’’آہستہ کہ رہ بر سرِ تیغ است قلم را ‘‘

وہ ہمیشہ اپنے خیال کوباوضو رکھتی ہیں اور پھر اہتمام نعت کرتی ہیں۔وفورِ شوق اور جذبے کی سچائی میں بے ساختہ پن اور محفلی انداز ان کی شاعری میں جا بجا دیکھا جا سکتا ہے:

الفت مصطفی ہی مری جان ہے

جان بھی ان کی سنت پہ قربان ہے


نعت جب بھی پڑھی محفلِ نعت میں

سب پریشان حالوں کو راحت ملی

مدحت کا یہ صلہ مرے مالک نے دے دیا

محفل میں نعت خوان پکاری گئی ہوں میں


اچھی نعت، فن شعر گوئی سے مکمل شناسائی کے بغیر کہنا ممکن نہیں، بلکہ نعت گوئی کے لیے تو شاعری کا وسیع مطالعہ بہت ضروری ہے۔ سمیعہ ناز کی نعتیہ شاعری میں تغزل کی چاشنی بھی بھرپور ملتی ہے۔جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فن شعر گوئی کی باریکیوں اور لطافتوں سے بھی آگاہ ہیں۔

نبی کی نعت ہمیشہ دل و نظر میں رہی

سو میری روح مہکتے ہوئے نگر میں رہی

آنے سے ان کے آئی ہے رحمت کی جو ہوا

دنیائے خار زار کو گلزار کر دیا

نعت میں جب آگئے سارے حروف

بن گئے روشن دیے سارے حروف

میری پلکوں پہ ستارے سے امڈ آئے ہیں

میری آنکھوں سے ہوئی مدح کی تمہید طلوع

سمیعہ ناز کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ نعت گوئی کے لیے کن لوازمات کا ہونا ضروری ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ بغیر عشق رسالت کے نعت ممکن نہیں اسی طرح حسن ارادت، حدِادب، حسن بیان کے ساتھ ساتھ مطالعہ سیرت بھی نعت گوئی کے لیے ضروری ہے ان کے خیال میں یہ ساری چیزیں صرف نعت گو شاعر کے لیے ہی ضروری نہیں بل کہ یہ بھی ضروری ہے کہ نعت ایسے مضامین کی حامل ہو جو اپنے قاری یا سامع کو بھی ان چیزوں کی تعلیم دے:

دلوں میں عشق احمدؐ کو بڑھائے ایسی مدحت ہو

ادب کا منصبِ اعلیٰ دلائے ایسی مدحت ہو

عطا حسنِ ارادت ہو، بصیرت بھی ملے مجھ کو

سبق سیرت کا جو ازبر کرائے ایسی مدحت ہو

سلیقہ مجھ کو بھی حسنِ بیاں کا دے مرے مولا

حریمِ حرف میں خوشبو بسائے ایسی مدحت ہو

وہ ایک نعت گو شاعر یا ایک نعت خوان سے اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہیں کہ نعت گوئی یا نعت خوانی کو محض اظہار فن، طلب شہرت یاحصول مراتب کا ذریعہ نہین بنانا چاہیئے بل کہ نعت گوئی یا نعت خوانی کے اثرات و ثمرات اور فیوض و برکات کا اظہارشاعر یا نعت خوان کی عملی زندگی میں بھی ہونا چاہیے ورنہ محض گفتار کا غازی بننا کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا:

نعتِ سرکار لبوں پر جو سجا لی جائے

اس کی خوشبو بھی دل و جاں میں بسا لی جائے

دل کے آنگن میں جو اتری ہے محبت ان کی

یہ محبت ہی رہِ زیست بنا لی جائے

ذکرِ محبوب سے ہر روز ہو روشن میرا

یادِ محبوب سے ہر رات اُجالی جائے

تیرگی ذات کی چھٹ جائے ہمیشہ کے لیے

دل میں سیرت کی اگر شمع جلا لی جائے

نازؔ ، شیطان کے ہر وار سے بچنے کے لیے

ڈھال اب اُسوۂ حسنہ کی اٹھالی جائے


اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت ورہبری کے لیے انبیاء ورسل کو بھیجا تو انہیں اپنی طرف سے کچھ نشانیاں بھی دیں تاکہ ان کی نبوت ورسالت کی تائید وتصدیق ہوسکے ،جن میں ایک ظاہری اور ٹھوس نشانی یہ ہے جسے ہم معجزہ کہتے ہیں۔ دیگر انبیائے کرام کی طرح اللہ تعالیٰ نے رسول اعظم و آخر نبیٔ کائنات کو بھی بے شمار نشانیاں بطور معجزہ عطا فرمائیں۔سلسلہ نبوت کی انتہا چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتی ہے،آپ کے بعد کوئی نبی آنے واا نہیں تھا،اس لیے اللہ تعالی نے آپ کو جو معجزات دیئے ان کی تعداد بھی زیادہ ہےاور ندرت میں بھی ان کی شان اعلی ہے۔


حسنِ یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری

آن چہ خوبان ہمہ دارند ، تو تنہا داری


ان معجزات نبوی کو ہر زمانے کے نعت گو شعرا نے اپنے اپنے انداز سے پیرایہ شعر میں ڈھالاہے بعض شعرا نے تو باقاعدہ” معجزہ نامہ“ کے عنوان سے مختلف معجزوں کو یکجا،یا ایک ایک معجزہ کو علیحدہ علیحدہ منظوم کیا ہے۔ اس سلسلہ میں اگر صرف معجزہ معراج النبی کو ہی لیا جائے تو ”معراج ناموں“ کی ایک طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔ غرض اردو نعتیہ سرمائے میں معجزات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اس قدر کثرت سے کیا گیا ہے کہ” اردو نعت گوئی میں معجزات نبوی“ ایک مستقل تحقیقی کام کا موضوع بن سکتا ہے۔ سمیعہ ناز نے بھی اپنی نعتیہ شاعری میں مختلف معجزات کو بحسن و خوبی پیراہن شعر میں ملبوس کیا ہے۔ ان کی ایک نعت کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے جس میں ایک تسلسل کے ساتھ مختلف معجزات کا ذکر موجود ہے:


لگے دینے رسالت کی شہادت بند مٹھی میں

ملا جب اذن گویائی تو کنکر بھی صراحت سے

وہ چشمہ آب کا آقاؐ کی اُنگلی سے ہوا جاری

کیا جس کو سبھی لوگوں نے نوشِ جاں محبت سے

چلیں جس راہ پر آقاؐ وہاں کے فاصلے کم ہوں

زمیں جیسے سمٹ جائے مرے آقاؐ کی عظمت سے

مرے آقاؐ ہی لائے ہیں یہ عرشِ پاک کا تحفہ

جو پانچوں وقت کی معراج ملتی ہے عبادت سے

وہ رستے بھی معطر ہوں جہاں سے ہو گذر اُن کا

کریں وہ نازؔ قسمت پر مرے آقاؐ کی نسبت سے


اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر مسلمان کو درود و سلام بھیجنے کا حکم فرمایا ہے۔ درود و سلام اللہ تعالیٰ کی ان با برکت نعمتوں میں سے ہے جو اپنے دامن میں بے پناہ فیوض و برکات سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہ ایسی لازوال دولت ہے کہ جسے مل جائے اس کے دین و دنیا سنور جاتے ہیں۔ درود و سلام محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف، اللہ تعالیٰ کی رحمت کا خزانہ، گناہوں کا کفارہ، بلندیِ درجات کا زینہ، قربِ خداوندی کا آئینہ، خیر و برکت کا سفینہ ہے۔ مجلس کی زینت، تنگ دستی کا علاج، جنت میں لے جانے والاعمل، دل کی طہارت، بلاؤں کا تریاق، روح کی مسرت، روحانی پریشانیوں کا علاج، غربت و افلاس کا حل، دوزخ سے نجات کا ذریعہ اور شفاعت کی کنجی ہے۔


احادیث مبارکہ میں درود و سلام کے بے شمار فضائل و برکات کا ذکر ملتا ہے جن کی تفصیلات کی یہاں گنجائش نہیں مختصر یہ کہ درود و سلام پڑھنا، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلیل ہے۔ کثرت سے درود و سلام پڑھنے والے کو روزِقیامت قربِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت سے فیض یاب کیا جائے گا۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :


أوْلَی النَّاسِ بِي يَومَ القَيَامَةَ أَکْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً.

(ترمذی: باب ماجاء في فضل الصّلاة علی النّبي)

’’قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو اس دنیا میں کثرت سے مجھ پر درود بھیجتا ہے۔‘‘


درود وسلام وہ پاکیزہ عمل ہے جو انسان کے تن اور من کو ہر قسم کی آلائشوں، کثافتوں اور آلودگیوں سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ درود و سلام شرفِ زیارت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ ہے۔درود و سلام کی سب سے بڑی فضیلت اور خصوصیت یہ ہے کہ کثرت سے درود و سلام پڑھنے والے کو خواب یا حالتِ بیداری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بہت بڑی سعادت ہے جو ہر ایک کو میسر نہیں آتی بلکہ خال خال ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔


نعت کیا ہے۔میرا ایمان ہے کہ نعت بھی درود و سلام ہی کی ایک صورت ہے۔سمیعہ ناز کو درود و سلام سے والہانہ لگاؤ ہے وہ ہمیشہ اپنی سانسوں کو اس سے معطر رکھتی ہیں:


درودِ پاک رکھتی ہوں اسی خاطر نوائوں میں

ہراک مشکل ہو آساں جب یہ شامل ہوں دعاؤں میں

مری سانسیں معطر ہوں درودِ پاک پڑھنے سے

شکستہ دل سکوں پائے درودوں کی صدائوں میں

جہاں صلُّوا علی المولائےؐ طیبہ کا وظیفہ ہو

یقینا نور کی برسات ہوتی ہے فضاؤں میں

درودِ پاک پڑھنے کا ثمر یہ خواب میں دیکھا

گلاب آکاش سے برسے عجب رنگیں رِداؤں میں

”اکادمی فروغ نعت پاکستان“ کے ساتھ وابستگی اور اگادمی کے سوشل میڈیا گروپ میں منعقد ہونے والے تنقیدی طرحی اور ردیفی مشاعروں میں سمیعہ ناز کی بھر پور شرکت اور مشق سخن نے سمیعہ ناز کے رنگ سخن میں بھی نمایاں تبدیلیاں پیدا کی ہیں اب ان کی نعت میں شعری نزاکتوں اور مضامین کی ندرتوں نے بھی جلوے دکھانے شروع کیے اور ان کی نعت کا رنگ و اسلوب جداگانہ ہونے لگا ہے۔یہ اشعار دیکھیے:


خاورِ دل سے ہوا نعت کا خورشید طلوع

نا امیدی میں ہوئی صبح کی امید طلوع

میری پلکوں پہ ستارے سے امڈ آئے ہیں

میری آنکھوں سے ہوئی مدح کی تمہید کی طلوع

سجدۂ شکر میں ہے میرا قلم کاغذ پر

صاحبِ نعت کی ہونے لگی تائید طلوع


اور یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں:


ہمیشہ خواب میں دشتِ حجاز دیکھتی ہوں

تمام عمر مدینہ کی رہ گذر میں رہی

نبی کی نعت رقم کی ہے جب بھی کاغذ پر

تو اس دیار کی تصویر چشم تر میں رہی


سمیعہ نازکے ہاں نعت کے عمومی مضامین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اظہار محبت ، رحمۃ للعالمینی، شفاعت کبری، عجزذات، آداب رسالت، اخلاق و کردار سرورِکونین، طلبِ زیارتِ مدینہ، میلاد النبی، معجزات نبوی اور استغاثہ و فریاد شامل ہیں۔ یہ تمام موضوعات ایسے ہیں جنہیںسبھی نعت گو شعرا نے اپنے اپنے انداز میں استعمال کیا ہے۔ سمعیہ ناز نے بھی ان سبھی موضوعات کو برتا ہے لیکن ان کا انداز ہر ذہنی سطح کے لوگوں کے لیے عام فہم، سلیس ، سادہ اورپر تاثیر ہے۔قرآن و حدیث سے استفادہ اور پیغام سیرت کو عام کرتے ہوئے اشعارذہن ، قلب اور روح کی شادابی کا سامان بنتے ہیں۔


سمیعہ ناز نے حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں اپنے پاکیزہ خیالات و احساسات کو جس خلوص، محبت اور وارفتگی سے اشعار کا جامہ پہنایا ہے وہ قابل قدر ہےانہوں نے نعت کے موضوعات اور اسالیب کو خوبصوتی سے برتا ہے سرورکائنات کی حیات طیبہ اور سیرت کے حوالےسے انسانی زندگی کے مختلف مذہبی، سماجی اور تہذیبی پہلوئوں کو اپنا موضوع بنایا حضورؐ کے اسوۂ حسنہ، شمائل و فضائل، عبادات، آدابِ مجلس، معجزات کے ساتھ حضوری کی کیفیات کو بھی نہایت دِل گداز انداز میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے عشقِ رسول اور جذبے کی سچائی کے ساتھ نعت لکھی ہے۔مجھے یقین ہے کہ ”خزینہ رحمت “ کی صورت میں ان کی اس کاوش کو نعت پسند حلقوں میں سراہا جائے گا۔خواتین میں بالعموم اور محافل میلاد سے منسلک خواتین میں بالخصوص اس مجموعہ نعت کو پذیرائی حاصل ہوگی۔


آخر میں ایک قطعہ تاریخ اور اس دعا کے ساتھ اپنی گزارشات کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش نعت کو  قبول فرمائے۔سرورِ کائنات کے حضور ان کا یہ ہدیہ عقیدت مقبول بارگاہ قرار پائے اور ان کے لیے توشہ آخرت بن جائے۔۔۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین، والہ اطیبین الطاہرین!


قطعۂ تاریخ طباعت


مدحِ شاہِ مدینۂ رحمت

خوش نما آبگینۂ رحمت

بہرِ عشاق ناز آوردہ

ارمغانِ خزینۂ رحمت

بہرِ تاریخِ طبع، فکرِ من

رفت چوں سوئ زینۂ رحمت

گفت ہاتف بہ ”حسنِ طبع“ بگو

”بہجت افزا خزینۂ رحمت“

۱۸۱۹ + ۱۹۹ = ۲۰۱۸ عیسوی


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات