تضمین ِ دل پذیر بر کلام نصیر ؔ
اپنی پلکوں پہ ستارے سے ٹکائے ہوئے ہیں
ہم دیا عشق رسالت کا جلائے ہوئے ہیں
گنبد سبز تصور میں بسائے ہوئے ہیں
لَو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں
اپنی سوئی ہوئی تقدیر جگائے ہوئے ہیں
ان کی چوکھٹ پہ کھڑے ہاتھ اُٹھائے ہوئے ہیں
بات بگڑی ہوئی ہر ایک بنائے ہوئے ہیں
کشتیاں اپنی کنارے سے لگائے ہوئے ہیں
کیا وہ ڈوبیں جو محمد ﷺ کے ترائے ہوئے ہیں
ان کے دیدار سے ہٹ کر کوئی ارمان نہ تھا
سیرِ محشر کی طرف بھی کوئی رجحان نہ تھا
پھر ملائک سے بھی ایسا کوئی پیمان نہ تھا
قبر کی نیند سے اُٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں انہیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں
اس ادب گاہ میں آرام سے چل تیز نہ دوڑ
منطق و فلسفہ و جہل سے منہ خیر سے موڑ
فرقہ وارنہ خیالات کے اصنام کو توڑ
حاضر و ناظر و نور و بشر و غیب کو چھوڑ
شکر کر وہ ترے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں
بعد سرکار وہ دونوں ہیں بزرگ و برتر
ساتھ رہتے تھے جو سرکار کے سایہ بن کر
جز رسولوں کے بھلا کوئی ہے ان سے بہتر
نام آتے ہی ابوبکر و عمر کا لب پر
تو بگڑتا ہے وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں
اپنا دیدار کرا گنبد خضریٰ کے مکیں
در پہ حاضر ہیں گنبد خضریٰ کے مکیں
آن کی آن ہی آ گنبد خضریٰ کے مکیں
اک جھلک آج دکھا گنبد خضریٰ کے مکیں
کچھ بھی ہیں دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں
فرش کو عرش بنا گنبد خضریٰ کے مکیں
طور کو وجد میں لا گنبد خضریٰ کے مکیں
پردۂ میم ہٹا گنبد خضریٰ گنبد خضریٰ کے مکیں
اک جھلک آج دکھا گنبد خضریٰ کے مکیں
کچھ بھی ہیں دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں
فیض جب مسند محمود کا جاری ہو نصیرؔ
ہر گنہ گار پہ اک کیف سا طاری ہو نصیر ؔ
لب پہ شہزادؔ کے مصرع یہی جاری ہو نصیر ؔ
کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیرؔ
اب تو سرکار بھی میزان پہ آئے ہوئے ہیں
|