اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


کتاب : اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ

مصنف : ڈاکٹر عزیز احسن

نوعیت : تحقیق و تنقید

اشاعت : 2013

ناشر : نعت ریسرچ سنٹر، کراچی

صفحات : 648

قیمت : 700 روپے

ڈاکٹر عبدالکریم نے اپنے ایک مضمون میں اس کا تفصیلی تعارف پیش کیاہے ۔


اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ پر ڈاکٹر عبدالکریم کی رائے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ کے بغیر بات بنے گی نہیں جو جناب عزیز احسن کا پی ایچ ڈی (اُردو) کا مقالہ ہے جس کے کامیاب دفاع کے بعد انہیں 26 ستمبر 2012 کو سند سے نوازا گیا۔یہ طویل مقالہ ہے اور اسے پڑھنے کے لیے صبر ایوبی کی ضرورت ہے۔مقالے کو بھی ’نعت ریسرچ سنٹر، کراچی‘ نے شایع کیا ہے۔مقالہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے جن میں تنقید کی تعریف اور تنقیدی روایت،قرآن و سنت میں نعت کے متن کی صحت کے اصولی اشارے،نعتیہ شاعری میں فارسی اور اردو شعراء کے تنقیدی شعور کا انعکاس،نعتیہ شعری مجموعوں اور دواوین میں دیباچوں،تقاریظ اور مقدمات کی صورت میں تنقیدی عمل کا جائزہ،انتخاب ہائے نعت میں چھپنے والے مقدمات،دیباچوں اور تحقیقی مقالوں میں تنقیدی آراء کا جائزہ،نعت رنگ اور دیگر کتابی سلسلوں،مجلوں اور رسائل میں شایع ہونے والے تنقیدی مضامین کا جائزہ،نعتیہ شاعری کے حوالے سے وجود میں آنے والی تنقیدی کتب کا جائزہ اور مذکورہ مباحث کی روشنی میں تنقید نعت کے مجوزہ اصول شامل ہیں۔ان میں سب سے اہم آخری باب ہے جو جناب عزیز احسن کے تنقیدی افکار کا گلدستہ ہے۔یہ مقالہ کتابی شکل میں مارچ۲۰۱۳ء میں منظر عام پر آیا۔

جناب عزیز احسن نے اس مقالے میں تنقید کے چاروں پہیے استعمال کیے ہیں یعنی تقابل،تجزیہ،امتیاز اور تعین قدر۔ان کا یہ فرمانا درست ہے کہ ’معروضیت کا فقدان عمومی ادبی تنقید میں بھی محسوس کیا جاتا ہے لیکن مذہبی شاعری میں اس فقدان کی وجوہات سہ ابعادی ہیں:شاعر سے عقیدت،مسلکی شدت پسندی اور موضوع کا احترام‘۔(۵۷)


پہلے باب میں ان کا یہ تجزیہ بھی درست ہے کہ اردو ادب کے ابتدائی نقوش میں نعت کا حوالہ کمیاب ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عہد کا کلچر غزل کا تھا۔اس دور میں اردو نعتیہ شاعری پر تنقید ی رائے دینے کارواج اس لیے عام نہیں ہوا تھاکہ اردو میں نعتیہ شعری سرمایہ اتنا نہیں تھا۔باب چہارم میں انہوں نے احمد ندیم قاسمی کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق نعت نگاری کا حق ادا کرنے کا تقاضا ہے کہ تیس چالیس سال تک معیاری اردو غزل اور نظم لکھی ہو اور ولی سے لے کر فراق اور یگانہ تک کی شاعری اور حسن اظہار کو اپنے خون میں کھپایا ہو۔(۵۸)میں اس سے اختلاف رکھتا ہوں جن شعراء کا وہ تذکرہ کرتے ہیں ان میں سے اکثر کو تو اسلام اور نبی امیؐ کی تعلیمات تک سے آگہی نہیں تو ان کی پیروی سے کیسے اچھی نعت کہنے کا شعور آئے گا۔ اسی باب میں ایک اور دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ بعض کتابوں کے مقدمات، پیش لفظ وغیرہ ان افراد کے لکھے ہوئے نہیں ہوتے جن کا نام لکھ کر کیش کروایا جاتا ہے۔کچھ اس طرح کے تجربات میرے بھی ہیں اور ان کو اس بات سے مزید تقویت ملی ہے۔اسی باب میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ عاصی کرنالی پہلے محقق ہیں جنہوں نے اپنے مقا لے میں باقاعدہ تنقید کا باب باندھا اور ڈاکٹر شوکت زریں کے مقالے کو ایک تنقیدی کاوش قرار دیا ہے۔جبکہ شوکت زریں نے اقبال کو دور جدید کے سب سے اہم اور ممتاز نعت گو کے طور پر پیش کیا ہے لیکن معذرت کے ساتھ علامہ اقبال جیسے باعلم و باعمل عالم بھی اپنے دوست کوتحریر کرتے ہیں کہ آپ کے نانا کا کلمہ(استغفراللہ) پڑھتا ہوں اور بس۔یہ مطالعہ ہے اقبال کا اسلامی تاریخ کا۔اس مقالے کے اہم ترین ابواب باب ششم اور ہفتم ہیں جن میں جناب عزیز احسن نے گراں قدر معلومات بہم پہنچائی ہیں۔باب ششم میں آپ کے اس موقف سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے کہ ’بعض نقادوں نے جس پہلو کو حدود شرع سے متجاوز جانا اور اس کے خلاف رائے دی وہی پہلو دوسرے نقادوں کے نزدیک حقیقت سے زیادہ قریب ہے۔ایسی صورت میں نعتیہ شاعری کی تنقید میں تنازع پیدا ہوتا ہے‘۔اختلاف کا حل یہ ہے کہ اسے قرآن اور سنت کی طرف موڑ دیا جائے اور کسی کی تنقید کو وزن نہ دیا۔کیوںکہ تحقیق و تنقید کا مقصد حقیقت کی بازیافت ہی ہونا چاہیے۔


کچھ مضامین کو جو مقالہ نگار کے اپنے ہیں،کو جناب عزیز احسن نے شامل تحقیق نہیں کیا اور انہیں تکنیکی وجوہات قرار دیا لیکن ان کو شامل کیا جانا چاہیے تھا۔باب ششم کے بعض مقامات پر جناب عزیز احسن جذباتی بھی ہوئے ہیں جو فطری ہے کہ وہ نعت کے شاعر ہیں۔تاہم ہم اس بات کو تسلیم نہ بھی کریں لیکن نعتیہ شاعری تقدس آمیز شاعری بن ہی چکی ہے۔آپ کا یہ انداز درست ہے کہ نعت کے اشعار میں اسقام کی نشاندہی پر تاویلات پیش کرنے سے بہتر ہے کہ شعر میں پایا جانے والاابہام دور کردیا جائے۔اور ایسے معاملات میں ’انا‘ کو قربان کردینا ہی بہتر ہے۔(۵۹)لیکن جناب شاعر انا پرست بڑے ہوتے ہیں اور وہ ایسا نہیں کرتے۔


باب ہشتم میں جناب عزیز احسن نے شعری اور شرعی معیارات کی پرکھ کے اصول تحریر کیے ہیں جو اس مقالے کا ملخص بھی ہے۔انہوں نے تاریخی استناد پر جہاں زور دیا ہے وہیں ممنوعات نعت پر بھی بات کی ہے۔حدیث قدسی سے انحراف اور غلط العام و غلط العوام روایات سے مجتنب رہنے بلکہ محتاط رویہ اپنانے پر بھی زور دیا ہے(۶۰)مقالہ طویل لیکن دلچسپ ہے اور نعتیہ ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ان کے نگران کا یہ کہنا بے جا نہیں کہ آیندہ پندرہ بیس سال تک کوئی شخص اس میں اضافہ نہیں کرسکے گا۔


پی ایچ ڈی کے مقالے اکثر صرف ڈگری کے حصول کے لیے ہی لکھے جاتے ہیں اور اسی لیے وہ تحقیقی و تنقیدی تاریخ کا حصہ تو بنتے ہیں لیکن سماج کے لیے کوئی گراں قدر خدمت سرانجام نہیں دے سکتے۔جناب عزیز احسن کے مقالے کے ساتھ ایسا نہیں۔مسئلہ صرف ضخامت کا ہے جو عام قاری کو خوفزدہ کرتی ہے ورنہ اس میں اتنا کچھ ہے کہ یکسو قسم کے قاری کو اس وقت تک چین نہیں آئے گا جب تک وہ اسے پورا پڑھ نہ لے۔


26 ستمبر 2012 سے مارچ2013 ء تک تقریباً پانچ ماہ بنتے ہیں اور اتنا جلدی پی ایچ ڈی کے مقالے کا کتابی صورت میں عام قارئین تک پہنچنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جناب عزیز احسن کا کام معیاری اور وقیع ہے۔وہ یہاں رکے نہیں بلکہ جولائی 2014ء میں ایک اور تحقیقی مقالہ بھی کتابی شکل میں ’پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر‘ کے نام سے قارئین کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں۔مقام انبساط یہ ہے کہ جناب عزیز احسن کی نعتیہ شاعری اور ان کے تحقیقی مقالات میں فکر وفن کے حوالے سے کوئی بعد نظر نہیں آتااور نہ ہی کہیں ٹکرائو کی کوئی کیفیت ہے۔ان کی تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی نعت کا سفر جاری ہے اور ہم ان کی صلاحیتوں اور عمر میں برکت کے لیے دعا گو ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

نئے صفحات

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659