مرحبا سید مکی مدنی العربی ۔ تضمین از غالب

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


کلام:۔ مرحبا سید مکی مدنی العربی - جان محمد قدسی

تضمین :۔ مرزا اسد اللہ خان غالبؒ

توضیح و ترجمانی:۔ اویس قرنی (جوگی جادوگر)

پیشکش:۔ طلسماتِ غالب

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

غالب کی تضمین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حاجی جان محمد قدسیؒ کی اس شہرہ آفاق نعت پر اردو اور فارسی زبانوں میں تب سے تاحال تضامین لکھی جا رہی ہیں۔ اور امید ہے لکھی جاتی رہیں گی۔ اس نعت پر اردو میں تضمین کے جوہر مومن خان مومن اور بہادرشاہ ظفر نے بھی دکھائے ہیں۔ لیکن معیار اور تضمین کی شرائط پر دونوں ہی پوری نہیں اترتیں۔ یا شاید غالب کی اس فارسی تضمین کو پڑھنے کے بعد جو معیارسخن فہموں کے دل میں قائم ہو گیا ، اس کے سامنے کوئی تضمین نہیں ٹھہرسکی۔ غالب نے تضمین نگاری میں ایسا بلند تر معیار قائم کر دیا ہے کہ بقول نجاشی "اب اس پر اضافے کی ایک تنکہ بھر بھی گنجائش باقی نہیں رہی" لیکن راہِ مضمونِ تازہ بالکل بھی بند نہیں ہے۔ کوششیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔

اس نعت میں قدسی کے مصرعے "واوین" سے نشانزد کیے گئے ہیں۔ اور واوین کی قید سے آزاد ہر بند کے تین مصرعے مرزا غالب کے ہیں۔

نعت گو جان محمد قدسی اور تضمین نگار مرزا اسد اللہ خان غالبؔ پر اللہ کی رحمت سدا سایہ فگن رہے۔ اور فارسی سے اردو میں ترجمہ نگار اویس قرنی (جوگی جادوگر) پہ اللہ رحم فرمائے۔ آمین ثم آمین

نعتیہ کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اے کہ روئے تو دہد روشنی ایمانم

کافرم کافر اگر مہرمنیرش خوانم

صورتِ خویش کشید است مصور، دانم

"من بے دل بہ جمالِ تو عجب حیرانم

اللہ اللہ! چہ جمال ست ، بدین بوالعجبی"


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور سے میرے ایمان کو روشنی نصیب ہوئی۔ (خدانخواستہ ) میں کافروں سے بھی بڑا کافر ہوجاؤں اگر اسے روشن سورج سمجھ لوں۔ (یعنی آپ کے نورانی چہرہ مبارک کو روشن سورج سے تشبیہہ دینا بھی میرے لیے بہت بڑی بے ادبی ہے)

میں سمجھتا ہوں ، کہ مصور (صورت گرِ حقیقی) نے اپنی صورت ہی نقش کردی ہے۔

میں جو آپ کی محبت میں مبتلا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال کو دیکھ کر ایک انوکھی حیرانی میں گھرا ہوں۔

(اور خود کلامی کے انداز میں کہہ رہا ہوں) اللہ اللہ ، یاحیرت! محبوب کا یہ جمال کیسا نادر جمال ہے۔


اے گلِ تازہ کہ زیبِ چمنی آدم را

باعث رابطہ جان و تنی آدم را

کردہ دریوزہ قبضِ تو غنی آدم را

"نسبتے نیست بہ ذاتِ تو ، بنی آدم را

برتر ازعالم و آدم ، تو چہ عالی نسبی"


آدم علیہ السلام کے چمن میں (یعنی تمام اولاد آدم کے ہجوم میں) آپ ایسا گُلِ تازہ ہیں ، جو اس چمن کی زینت کا باعث ہے۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور دراصل زیبِ انسانیت ہے)

آدمیت کی جان اور تن (یعنی خاکی جسم اور نورانی روح) کے درمیان وسیلہِ ربط آپ ہیں۔ (جیسے کمپیوٹر کے ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کے درمیان کورآڈینیشن کی ذمہ داری آپریٹنگ سسٹم پر ہوتی ہے۔ چاہے وہ ونڈوز ہو ، لینکس ہو ، یا اینڈرائیڈ ہو)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائرہ اختیار سے (آپ کی بے بہا سخاوت کے سبب) بنی آدم کو اتنی خیرات ملی کہ وہ غنی ہو گئے ہیں۔ (پس) بنی آدم اور آپ میں کوئی نسبت (برابری) نہیں ہے۔

آپ ایسے عالی نسب ہیں کہ نہ صرف بنی آدم بلکہ عالم سے بھی برتر ہیں۔


اے لبت را بسوئے خلق ز خالق پیغام

روح را لطفِ کلام ِ تو کند شیریں کام

ابرِ فیضے کہ بود از اثرِ رحمت ِ عام

"نخل بستان مدینہ زِ تو سرسبز مدام

زاں شدہ شہرہ آفاق بہ شیریں رطبی"


خالق کا پیغام مخلوق کو پہنچانے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک وسیلہ ہیں۔

آپ کا کلام (قرآن مجید و احادیث مبارکہ) ایسا پُر لطف ہے (کہ اسے سننے اورسمجھنے والوں کی) روح تروتازہ ہو جاتی ہے۔

یہ ابرِفیض ہے جو یقیناً رحمتِ عام کے اثر (بخارات) سے وجود میں آیا ہے۔

باغِ مدینہ منورہ کے نخل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود کی برکت سے ہمیشہ سے (ہمیشہ کیلئے) سرسبز ہیں۔

اور اسی سبب ان کھجوروں کی مٹھاس شہرہ آفاق ہے۔


وصفِ رخشِ تو اگر در دلِ دراک گزشت

نہ ہمیں است کہ از دائرہ خاک گزشت

ہمچو آں شعلہ کہ گرم از خس و خاشاک گزشت

"شبِ معراج ، عروجِ تو ، از افلاک گزشت

بہ مقامے ، کہ رسیدی ، نرسد ہیچ نبی"


اگر کسی صاحبِ ادراک کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری (براق) کے اوصاف سمجھ آجائیں۔

(تو وہ اس حقیقت سے واقف ہو جائے کہ) آپ ہم سے یعنی دائرہ ِخاک سے برتر ہیں۔

جیسے شعلہ اپنی رفعتِ مقام کے سبب خس و خاشاک سے بلند ہوتا ہے۔ (نہایت اعلیٰ تشبیہہ ہے۔ آگ جب تک پوٹیشنل انرجی کی صورت میں ہوتی ہے ، تب تک وہ خس و خاشاک میں ہی پنہاں ہوتی ہے۔ لیکن جونہی اسے ظہور کا حکم ہوتا ہے ، وہ اپنی رفعتِ مقام کے سبب شعلے کی صورت میں اس جلنےوالی چیز (چاہے وہ لکڑی ہو ، کوئلہ ہو ، خس و خاشاک ہو) سے کچھ انچ ، بلکہ بعض اوقات کچھ فٹ اور کچھ میٹرز تک بھی بلند شدہ دکھائی دیتی ہے)

(ویسے ہی) شبِ معراج ، آپ کا عروج افلاک سے بھی بلندی پر چلا گیا۔

(اس رات نے ثابت کردیا کہ) جس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنچے ہیں ، یہاں تک کوئی عام انسان تو کیا ، کوئی نبی بھی نہیں پہنچ سکا۔


مزید دیکھے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مرحبا سید مکی مدنی العربی اصل کلام اور تضامین
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات