جین اورکرسچین نعت گو شعرا ۔ فاروق ارگلی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مضمون نگار : فاروق ارگلی۔بھارت

جین اورکرسچین نعت گوشعرا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Beauty reflected by atmosphere or person, is always instinctively loved by human being. Al-Mighty Allah has bestowed upon His Prophet Muhammad (S.A.W) highest degree of good qualities of character besides unique handsome personality. Hence, every sane writer praises Him (S.A.W) in the shape of prose or poem. Muhammad (S.A.W) has been paid tributes in each and every language spoken in the world without discrimination of relgion. Examples have been cited from Naatia Poetry done by Jane and Christian Urdu poets in praise of Holy Prophet Muhammad (S.A.W), in the article placed herein. Some couplets reflect so deep love for Prophet Muhammad (S.A.W.) that one can hardly belief to have been written by non Muslim poets.

عالم انسانیت کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام رحمت عالم سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس کو دُنیا کی تمام غیر مسلم اقوام میں بھی اپنی نورانی صفات ،پاکیزہ سیرت اور اورآفاقی تعلیمات کے سبب تاریخ انسانی کی سب سے اعلیٰ ،سب سے برتر اورسب سے افضل شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔اسلامی عقائد اورشعائر سے اختلاف اور مسلم قوم سے سیاسی وتہذیبی معاندت یاسخت ترین دشمنی کے باوجود غیر مسلم اقوام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت کی صدیوں سے قائل ہیں۔دنیا کی تمام بڑی چھوٹی رائج و معدوم زبانوں کے علماء اور حکماء گزشتہ چودہ صدیوں سے اپنی تحریروں میں پیغمبراسلام کی تعریف وتوصیف کرتے آئے ہیں سیّدالبشر کی تعریف وتوصیف کے شاعرانہ اظہار کاہی نام نعت ہے ۔توحیدورسالت پرایمان رکھنے والے مسلمانوں کے لیے تو اپنے پیغمبر،اپنے ہادی برحق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح وثنا اور اپنی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے نثر ونظم میں رطب اللسان ہونا ایمانی تقاضا ہے ،لیکن ان اقوام کے لیے جو اسلامی اصولوں کے برعکس مذہبی عقائد رکھتی ہوں ان کے شعر اء اوراہل دانش کاحضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی توصیف کرنا محسن انسانیت پیغمبر اسلام کی عظمتوں کو تسلیم کرنا اور اپنے علم وفن سے مسلمان بھائیوں کی دلداری کرنا ہی کہا جاسکتا ہے۔

ہماراملک ہندوستان صدیوں سے مختلف مذاہب ،گوناگوں عقائد ،رنگارنگ تہذیبوں اور زبانوں کا خوبصورت گلدستہ رہا ہے ۔اس وسیع و عریض دُنیا کے کسی ملک کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے جہاں اتنی مختلف الخیال قومیں بقائے باہم اور مشترک اقدارِ حیات کے ساتھ صدیوں سے شیر وشکر کی طرح ایک سا تھ رہتی آئی ہوں۔کثرت میں وحدت ،احترام کل مذاہب اور انسانی رواداری کا انقلابی فروغ اس سرزمین پر اسلام کی آمد کے بعد ظہور میں آنے والی مشترکہ تہذیب کے ارتقاء کے ساتھ خاص طورپر ہوا۔اسی مشترکہ تہذیب نے ایک نئی عوامی زبان پیدا کی جو تمام بیرونی اور ملکی تہذیبوں کے امتزاج سے بنی تھی۔یہ ہند ی یا اردو زبان ہے جس نے اس ملک کی تمام بڑی قوموں میں سماجی اورانسانی ہم آہنگی پیدا کردی اس طاقتور زبان نے رواداری ،فراخدلی ،روشن خیالی اور انسانی قدروں پر مبنی انقلاب برصغیر کی سرزمین پربرپا کیایہ اسی زبان کا کرشمہ ہے کہ توحید ورسالت پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں نے یہاں کے غیر مسلموں کے مذہب وعقیدے کے احترام میں ان کے مذہبی پیشواؤں کااحترام کیا۔مسلمان صوفیوں اورشاعروں نے شیو جی ،شری رام اور کرشن جی کی مدح وتوصیف کے نغمے سنائے جو اسلامی تعلیمات اوراصولوں کے قطعی برعکس تھا لیکن محبت کا جواب محبت ہوتی ہے یہاں کے غیر مسلموں نے بھی پیغمبر اسلام کی ثنا خوانی میں کوئی کمی نہیں کی ۔ہندو ،مسلم ،سکھ ، جین ،عیسائی سبھی ترقی یافتہ قوموں کی مشترکہ زبان اُردو کا عظیم شعری سرمایہ شاہد ہے کہ ہندوستان مذہبی رواداری اوراحترام کل مذاہب کی دنیا میں یہ سب سے انوکھی مثال ہے۔

ہندوؤں کا ایک نہایت اہم فرقہ جین مت ہے ۔اس کے عقائد اور مذہبی نظریات قدیم اکثریتی ہندو دھرم سے یکسر مختلف ہیں۔مذہب کے معاملے میں یہ طبقہ خاص سخت گیر تصور کیاجاتاہے ،لیکن اردو زبان کی ہمہ گیری نے جین سماج پر گہرااثرڈالا ۔جین برادری میں بھی دوسرے ہندؤں کی طرح بڑے بڑے دانشور اور شاعر پیدا ہوئے جن کے کارنامے اُردو زبان اور تہذیب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔اس جگہ راقم الحروف کو یاد آرہے ہیں دہلوی تہذیب کے نمائندے جین سماج کے سرکردہ رہنما اوراُردو کے قادرالکلام شاعر جناب دکَمبر پرشاد گوہرؔ دہلوی ۔نہایت دھارمک اور باوقار شخصیت کے مالک دکَمبر پرشاد گوہرؔ دہلوی شہر کے نامور جوہری تھے، دریبہ کلاں میں ان کی سونے چاندی اور جواہرات کی بہت بڑی دکان تھی۔شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا،اردو فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اُردو کے بہت بڑے شاعر آغا شاعر قزلباش کے شاگرد ہوئے اور غزل گوئی میں خاصا کمال پیدا کیا۔

گوہر صاحب جب تک زندہ رہے جین سماج کی خدمت اور تجارتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اُردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے بھی کوشاں رہے ،ان کی دکان شاعروں اور ادیبوں کا مرکزبنی رہتی تھی۔متمول اور کشادہ دست بھی تھے،بہت سے اردو والے ان سے فیض پاتے تھے۔مشاعرے اور ادبی شعری محافل کے انعقاد کا انہیں بیحد شوق تھا۔مشاعروں اور نشستوں میں بڑے اہتمام سے شریک ہوتے تھے۔اپنے استاد سے انھیں اس درجہ محبت اور عقیدت تھی کہ اپنا کلام سنانے سے پہلے کچھ اشعار اپنے استاد حضرت آغا قزلباش کے ضرور سناتے تھے۔یہ روایت انھوں نے زندگی بھر نبھائی۔اُردوو زبان وادب کی ترقی کے لیے انھوں نے ادبی جریدہ ’شعلہ وشبنم ‘ جاری کیاتھا جس میں ملک بھرکی علمی ادبی سرگرمیاں اور ہمعصر شاعروں ،ادیبوں کی تخلیقات اہتمام کے ساتھ شائع کرتے تھے۔نئے شاعروں کی خاص طور پرحوصلہ افزائی ان کا پسندیدہ کام تھا ۔ دکَمبر پرشاد گوہرؔصاحب نے اسلامی تاریخ اور مذہبی امور کا خاص طور پر مطالعہ کیاتھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی سے انھیں یقینا گہری عقیدت تھی جوان کی نعتیہ شاعری میں جھلکتی ہے۔ان کی ایک نعت میں شبِ معراج کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کس والہانہ انداز میں بیان کی گئی ہے لگتاہی نہیں کہ یہ ایک غیر مسلم کاکلام ہے جواپنے سماج کی اہم مذہبی شخصیت بھی ہے:


کھل گئے چرخ پہ اسرارِ خدا آج کی رات

پڑ گئی عرش پہ بنیادِ…… آج کی رات

کوئی دیکھے تویہ اندازِ عطا آج کی رات

جوبھی دینا تھا وہ خالق نے دیا آج کی رات

ہے فرشتوں میں یہی شور بپا آج کی رات

عرش پر آتے ہیں محبوبِ خدا آج کی رات

کس کے پر تو سے منور ہے بساطِ عالم

عرش پر کون ہوا جلوہ نما آج کی رات

بمقامے کہ رسیدی نہ رسد ہیچ نبی

خود یہ کہتا ہے محمد سے خدا آج کی رات

نورِ عرفاں سے مرا دِل بھی ہے روشن گوہرؔ

ظلمتِ کفر میں پھیلی ہے ضیا آج کی رات


دکَمبر پرشاد گوہرؔ دہلوی کو تقسیم وطن کے بعدپیداہونے والے نا مساعد حالات نے بہت صدمہ پہنچایا آپ کی نظروں کے سامنے دلّی کی روایات اوراس کی اقدار کوزوال آنے لگاتو دل برداشتہ ہوکر رسالہ بند کردیا اور مشاعروں ،محفلوں سے دور تارک الدنیا کی طرح زندگی بسرکی۔اسی گوشہ گمنامی میں [1988]]ء میں دنیا سے رخصت ہوئے۔


بیسویں صدی کے آغاز میں پانی پت کے ایک مشہور شاعر گزرے ہیں جناب شگن چند جین روشن ۔ان کا شمار اپنے وقت کے مقبول شعرامیں ہوتا تھا۔انھوں نے غزل ،نظم ،قصیدہ،رباعی سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی ،لیکناردو کی بدقسمتی سے ان کے بعد ان کے ورثا کی عدم توجہی سے ان کا کلام ضائع ہوگیا۔روشنؔ صاحب کے ایک طویل نعتیہ مسدس کایہ بند دیکھئے،زبان وبیان کا کیسا پرشکوہ نمونہ ہے ،سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت کاکیسا خوبصورت بیان ہے :


جس کے قدموں کے اشارے پہ رہا تاج و کلاہ

جو فقیری میں رہا جن و بشر کا بادشاہ

فیض قدرت سے ہوئی جس کو عطا ایسی نگاہ

جس کے آگے ماند ہے یہ روشنیٔ مہر و ماہ

اس نے اخلاص و وفا کا بول بالا کردیا

جس نے عالم کے اندھیروں میں اُجالا کردیا


یہ اُردو زبان اور تہذیب کا کرشمہ ہی ہے کہ تقسیم وطن کے بعد جب سماجی اخلاص ومحبت اور مذہبی رواداری کے قدیم جذبوں پر مبنی ہندو مسلم اتحاد زوال پذیر ہونے لگا ،پنجاب اور سندھ سے ترکِ وطن کرکے ہندوستان آنے والوں کی اکثریت نے مسلم مخالف سیاست کا ساتھ دیا۔’پرتاب‘ جیسے پردیسی فرقہ پرست اخباروں نے پورے اُردو سماج کی فضا میں تکدر بھردیا ،لیکن اس ماحول میں بھی اُردو کے ہندوسکھ شاعروں اور ادیبوں نے مشترکہ تہذیبی روایات کے چراغ جلائے رکھے۔محبانِ اُردو کی تنظیم حلقہ تشنگانِ ادب نے اُردو کی اُجڑی ہوئی راجدھانی کوآباد کیا اور شعروادب کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اس علمی اور ادبی تنظیم کی سر گرمیاں گزشتہ نصف صدی میں کبھی ماند نہیں پڑیں،پابندی کے ساتھ ہونے والی ادبی شعری نشستوں میں اس عہد کے نامور ہندو،مسلم،سکھ شعرا نے اُردو تہذیب کے پرچم کو نفرت انگیز سیاستوں کے شہر دلّی میں آن بان اور شان کے ساتھ بلند رکھا ۔اس تاریخ ساز تنظیم کے برسہا برس تک سربراہ رہے نامور اُردو شاعر جناب جگدیش چند جین ۔یہ ان شخصیتوں میں ہیں جنھیں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب وروایات کا علمبردار کہاجاتا ہے۔اس وقت جین صاحب اُردو دنیا کے سب سے معمر اور برگزیدہ شاعر ہیں۔۹۲سالہ جگدیش چند جین کو دہلوی تہذیب کی زندہ علامت بھی سمجھا جاتا ہے آپ کا جنم ۱۹۲۲ء میں دہلی میں ہوا ۔خاندان اور بزرگوں میں اُردو شعروادب کا ماحول تھا، شہری فضا میں بھی اُردو شعروشاعری کی گونج تھی اس کااثر ان کے ذہن پر بھی پڑا ،اسکول اور کالج کے زمانہ سے ہی علمی ادبی سرگرمیوں میں پیش پیش رہنے لگے تھے۔


کالج کی تعلیم سے فراغت کے بعد آپ برطانوی فوج میں میجر کے عہدے پرفائز ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم میں آپ نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔فوج سے سبکدوش ہوکر آپ آزاد ہندوستان کے محکمہ ڈاک وتارسے وابستہ ہوگئے اور اپنی غیر معمولی لیاقت اور صلاحیت سے افسر اعلیٰ کے عہدے تک پہنچے ۔پہلے فوج اور پھر محکمہ مواصلات کی مصروفیات کے زمانہ میں ان کے دل میں بسے اُردو شعرو سخن کا شوق جوان رہا۔۱۹۷۱ء میں دوسری ملازمت سے بھی سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے خود کوپوری طرح اپنے ذوق وشوق کے سپرد کیا۔اس عمر میں بھی نامور شعراکی رہنمائی اورایک طرح کی شاگردی سے گریز نہ کیا ۔ شمیم ؔ کرہانی،ساغرؔ نظامی،رشیؔ پٹیالوی ،ساحر ہوشیار پوری جیسی شخصیات نے ان کے دیر سے شروع ہونے والے شعری سفر میں بھرپور رہنمائی کی ۔غزل ان کی پسندیدہ صنف ہے،انھوں نے اس میدان میں اپنی پختہ ذہانت کے خوب جوہر دکھائے ۔ان کی شاعری پر یادگار ِ داغ ابو الفصاحت پنڈت لبھو رام جوشؔ ملسیانی کارنگ غالب ہے۔ جوشؔ صاحب سے انھوں نے باقاعدہ تلمذ تو حاصل نہیں کیا لیکن وہ انھیں اپنا معنوی استاد مانتے ہیں۔جگدیش جین کاکلام تصوف اور روحانیت سے لبریز ہے:


پردے میں ہرآواز کے شامل تو وہی ہے

میں لاکھ بدل جاؤں مگردل تووہی ہے

ذرّوں میں دھڑکتے ہوئے دل دیکھے ہوں جس نے

نسان کی توقیر کے قابل تو وہی ہے


جینؔ صاحب نے خوبصورت نعتیں کہیں جن سے شاعرانہ تصنع نہیں دل کی گہرائیوں سے محسن انسانیت ،رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عقیدت کااظہار ہوتا ہے ۔نعت کے یہ شعر ثبوت کے طور پر:


بادۂ عشقِ نبی سے جس کا دل سرشار ہے

درحقیقت ایسا میکش خلد کاحقدار ہے

یوں تو دُنیا میں ہزاروں ہی نبی آئے مگر

شاہکارِ بزم فطرت آپ کا کردار ہے مگر

موجِ طوفان وحوادث اس کو چھوسکتی نہیں

جس سفینے کا کھویّا احمدِ مختار ہے

کہنا کیا جگدیش ؔ کی تقدیر کا اے دوستو!

اس کے دل میں بھی حبیبِ کبریا کا پیار ہے


اُردو شاعری کی تاریخ میں جین شعرائے کرام کی خاصی تعداد موجود ہے۔فی زمانہ زندہ شعرا میں ایک نام مشہور ومعروف فلمی موسیقار اور گلوکار رویند ر جین کاہے۔رویندر جین بینائی سے محروم ہیں لیکن ان کی چشم بصیرت بے نظیر ہے۔انھوں نے فلموں میں لازوال نغموں کی تخلیق کی ہے۔اپنی شاعری سے گنگا جمنی اُردو تہذیب کے ایوان کو روشن کیا ہے ،بڑے معیاری شعر کہتے ہیں ،خدا نے انھیں آواز بھی بہت خوبصورت عطا کی ہے،بھجن گائیکی میں بھی ماہر ہیں ۔مشہورومقبول ٹی وی سیریل ’رامائن‘ اور ’مہابھارت ‘ میں جین صاحب کی آواز نے بھکتی کا رس برسایا ہے۔انھوں نے اُرود شاعری کی شاندار روایات کے مطابق اپنے روحانی بھکتی رس میں ڈوب کر نعتیں بھی کہیں۔رویندر جین کی ایک خوبصورت نعت شریف ملاحظہ کریں:


آپ ہیں افضل الانسان رسولِ اکرم

آپ کی شان عجب شان رسولِ اکرم

آپ اللہ کے مہمان رسولِ اکرم

روزِ اول کے ہیں عنوان رسولِ اکرم

اور محشر کے ہیں سلطان رسولِ اکرم

آپ تکمیلِ مساوات ،امین و صادق

آپ ہیں افضل الانسان رسولِ اکرم

آپ کے ماننے والوں میں ضروری تو نہیں

صرف شامل ہوں مسلمان رسولِ اکرم

آپ ہی کی تو بدولت ہے میسر ہم کو

وہ جسے کہتے ہیں قرآن رسولِ اکرم

آپ اکرام ہی اکرام عطائے اول

آپ احسان ہی احسان رسولِ اکرم

آپ کا ذکر ہے وہ ذکر کہ جس کو سن کر

پختہ ہو جاتا ہے ایمان رسولِ اکرم

اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کے لیے انتہائی قابلِ احترام ہیں جو پیغمبر ِ اسلام آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے قبل عالم ِ انسانیت کی رہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے۔عیسائی مذہب اور اسلام میں بنیادی فرق صرف یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی امت کہے جانے والوں نے آپ کو پیغمبر کے بجائے خدا کے بیٹے کادرجہ دیا اور توحید خدا وندی کے بجائے تثلیث کے عقیدے کواپنایا۔آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تشریف آوری کے بعد سابقہ تمام مذاہب اور عقائدمنسوخ ہوگئے ۔ قرآن کریم نے ایک اللہ کی پرستش اور ایک پیغمبر آخرالزماں رحمت عالم کی اطاعت کاحکم دیا۔عیسائیت اور اسلام کے مابین اس واضح فرق نے یہود ونصاریٰ کو مسلمانوں کادشمن بنادیا۔بڑی بڑی صلیبی جنگوں سے لے کرآج تک کسی نہ کسی صورت میں یہ جنگ جاری رہی ہے،لیکن محسن انسانیت ،سیّدالانبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت سے قوم مسیحی کے اہل دانش وبینش بھی منکر نہیں ہیں۔مغرب کے عظیم مسیحی دانشور سرولیم میورے نے تویہاں تک کہہ دیا :


’’ہمیں بلا تامل اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ (تعلیم نبوی) نے ان تمام توہمات کو ہمیشہ کے لیے جزیرہ نمائے عرب سے باہر نکال دیا جو صدیوں سے اس ملک پر چھائے ہوئے تھے۔بت پرستی خارج البلاد ہوگئی ، توحید اورخداکی لامحدودیت کاتصور محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ماننے والوں کے دلوں میں جاگزیں ہوگیا۔‘‘


یوں تو مغربی دُنیا کے بڑے بڑے عیسائی دانشوروں نے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت کا اعتراف کیاہے جن کی تفصیل کے لیے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہے،لیکن اس جگہ روسی ادیب اور فلسفی لیؤ ٹالسٹائی کایہ بیان کافی ہے جو پوری مسیحی دنیا کی نمائندگی کررہا ہے:


’’بلاشبہ وہ( حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)سچے پیغمبر اور کروڑوں انسانوں کے ہادی اوررہبر ہیں۔انھوں نے گمراہ ولوگوں میں نورِ ایمان پیدا کیا،ان کے دلوں میں حق پسندی کا جذبہ بیدار کیا، انھوں نے اعلان کیا کہ اللہ ایک ہے اوراس کے نزدیک سب انسان برابر ہیں۔کسی کوکسی پر فوقیت نہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہایت متواضع ، خلیق ،روشن ضمیر اورصاحب بصیرت تھے،لوگوں سے اچھا برتاؤ کرتے تھے ،اہلِ عرب آپ کی پاکبازی اور دیانت داری کے قائل تھے اورآپ کو الامین کہتے تھے ۔‘‘


یہ اُردو زبان کی دلپذیری اورسحر خیزی ہے کہ ہندوستان میں آکر بس گئے انگریز،فرانسیسی اورعیسائیت قبول کرلینے والے بھی گیسوئے لیلائے اُردو کے اسیر ہوگئے۔شاعری کے کمالات دکھائے،خوبصورت غزلیں اور نظمیں ہی نہیں دلوں کو چھونے والی نعتیں بھی کہیں۔


۱۸۵۷ء سے نصف صدی قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک بڑے افسر سرابراہام کے فرزند جان رابرٹ اُردو کے نامور شاعر گزرے ہیں۔ان کی پیدائش ہندوستان میں ہی ہوئی تھی،اس لیے اُردو ان کی مادری زبان بن گئی۔اپنے وقت کے بڑے شاعروں میں شمار ہوتے تھے ۔جان رابرٹ کاکلام مرصع ،سلیس اور پراثر ہے،انھوں نے غزل کے علاوہ نعت،سلام ،منقبت سب کچھ کہااور خوب کہا۔ انھوں نے اسلامیات کا گہرا مطالعہ کیا ۔حضوصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت و تعلیمات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ حمدونعت میں دل کا جذبہ بھی شامل ہوگیا اور انھوں نے مذہب اسلام قبول کرلیا۔جان رابرٹ کی یہ مرصع نعت ملاحظہ ہو:


ہے عرش پہ قوسین کی جا ، جائے محمد

رشکِ یدِ بیضا ہے کفِ پائے محمد

عیسیٰ سے ہے بڑھ کر لبِ گویائے محمد

یوسفؑ سے ہے بڑھ کر رُخِ زیبائے محمد

والشّمس تھے رخسار تو واللیل تھیں زلفیں

اِک نور کا سورہ تھا سراپائے محمد

اندھیرہوا کفر کا سب دور جہاں سے

روشن ہوا عالم جو یہاں آئے محمد

عصیاں سے بری ہوکے قیامت میں اُٹھے گا

بے شک ہے بہشتی جو ہے شیدائے محمد


یہ نعت شریف ایک نسلاً انگریز شاعر اٹھارہویں صدی میں کہہ رہا ہے جوشاہ حاتم کے بڑھاپے اور ذوقؔ کی جوانی کازمانہ تھا۔اس لحاظ سے زبان کی سلاست اور کلام کی روانی حیرت انگیز ہے جان رابرٹ کا انتقال21 مئی 1828 میں ہوا ۔یعنی ۱۸۵۷ء سے ۲۲ برس پہلے۔اسلامی ادبیات کے محقق نعت گو اور رثائی شاعری کے معروف سخنور عظیم شاعر جناب گوپی ناتھ امنؔ لکھنوی کے صاحبزادے ڈاکٹر دھر میندر ناتھ نے اپنی تحقیقی کتاب ’ہمارے رسول‘ میں جوہر دیو بندی ،مالک رام اور ماہنامہ ’خاتون‘ کراچی کے ’رسول نمبر‘ کے حوالے سے ایک انگریز شاعر جارج فان توم کاذکر کیا ہے جو اُردو اور فارسی دونوں میں طبع آزمائی کرتے تھے وہ صاحبؔ اور جرجیسؔ تخلص کرتے تھے۔۱۸۷۹ء میں ان کا انتقال مرادآباد میں ہوا تھا،انھیں بریلی کالج کے احاطے میں دفن کیاگیا۔جارج فان توم کی ایک فارسی نعت شریف کے یہ شعر کس قدر والہانہ عقیدت کے ساتھ کہے گئے ہیں:


اگرچہ چشمِ ارادت نظر کنی صاحبؔ

برائے صدقِ عقیدت ہمیں بس است دلیل

فروغ داد جہاں را بہ نیّرِ اعظم

زنورِ پاک کہ شہ بخش آں برآلِ خلیلؑ

یکے مسیح مطہر دگر محمدپاک

ضیائے دیدۂ اسحاقؑ و نورِ اسماعیلؑ

بوعدہ ہائے مبارک کہ شد بہ ابراہیمؑ

زبارگاہِ علیٰ حضرتِ خدائے خلیل

شود شفیع یکے بہرِحالِ اسماعیلؑ

رسد نجات زدیگر بہ آلِ اسرائیلؑ


دیسی عیسائی شعرائے کرام میں مسٹر ڈی اے ہیریسن کا شمار بیسویں صدی کے نامور بزرگ شعرا میں ہوتا ہے ۔آپ کی پیدائش ۱۹۱۹ء میں مرادآباد میں ہوئی تھی،یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ابھی حیات ہیں یانہیں ،اگر موجود ہیں تو ان کی عمر ۹۳ سال کی ہوگی ۔ ہیریسن صاحب قربانؔ نے اُردو ادبیات اورانگریزی میں ڈبل ایم اے اور بی ٹی کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں اور محکمہ تعلیم میں ذمہ دار عہدے پرفائز رہے۔ان کی کتابیں شائع ہوکر مقبول ہوئیں جن میں شیکسپئیر کی کہانیاں ،مثنوی داستانِ عجیب ، مسیح جہاں (ڈرامہ) ، علمی ادبی مضامین کا مجموعہ ’فکرحسین‘،حرفِ آرزو‘،’صلیب کادور‘ (شعری مجموعہ) ڈرامہ ’تصویر غالب‘، افسانوی مجموعہ ’سلگتے خواب‘ ۔ شاعری میں محبوب علی اختر فیروزآبادی ، علامہ بشیشور پرشاد منورؔ لکھنوی ،پادری ایس ایس ریحانی لکھنوی ،رتن ؔ پنڈ وری اور بخشی اخترؔ امرتسری جیسے مقتدر شعرا سے فن شعر میں رہنمائی حاصل کی آپ نے اُردو کے مسیحی شعرا کاایک مبسوط تذکرہ بھی مرتب کیا جس میں ہندوستان کے تمام ہی عیسائی شاعروں کاذکر اور نمونۂ کلام تحریر کیا ہے۔ قربانؔ کی ایک مرصع نعت شریف دیکھیں ،اگر نام چھپا لیا جائے توکوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک غیر مسلم کا کلام ہے:


سنی جس کسی نے صدائے محمد

ہوا قلب وجاں سے فدائے محمد

مجھے لے چلو اب مدینے میں یارو

وہاں مل رہی ہے ہوائے محمد

مٹی تیرگی جہالت جہاں سے

جو پھیلی عرب سے ضیائے محمد

اُٹھوں گا نہ اب آستانِ نبی سے

رہوں گا سدا میں گدائے محمد

بچائیں گے امت کو محشر میں وہ ہی

وہاں دیکھ لینا وفائے محمد

سرِ عرش ان کو خدا نے بلایا

کچھ ایسی تھی دلکش ادائے محمد

پسند آیا ان کو بھی قربان ؔ جب سے

جو میں کر رہا ہوں ثنائے محمد


جو لیئس نحیف دہلوی بیسویں صدی کے شعرا میں جانا پہچانا نام ہے۔گزشتہ ساتویں اور آٹھویں دہائی میں ان کے کلام کی خاصی شہرت تھی۔مشاعروں اور نشستوں میں کلام ترنم سے سناتے تھے اور پسند کیے جاتے تھے ۱۹۸۴ء میں ان کا مجموعہ کلام’آوازِدل‘ مکتبہ شانِ ہند سے شائع ہوا تھا۔اس کا پیش لفظ علامہ بشیشور پرشاد منورؔ لکھنوی نے تحریر کیاتھا۔نحیف دہلوی ۱۷ ستمبر ۱۹۲۷ء کو تحصیل باغبث کے موضع جگھولی میں پیدا ہوئے۔ان کے والد پادری تھے،نحیفؔ نے یو نائٹیڈ کرسچین کالج دہلی میں تعلیم پائی۔اس کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے،ان کا گھریلو نام جمشید اللہ بخش تھا،یہی نام ان کے اسکولی سرٹیفکیٹ میں درج تھا ۔۱۹۴۷ء میں اسی وجہ سے فوج کی نوکری چھوڑنی پڑی،اوراس کے بعد اپنانام جولیئس رکھ لیا۔زمانہ طالب علمی سے ہی شعروادب کا شوق تھا۔جب استاد شاعر موجؔ زیبائی سے تلمذ اختیار کیاتو نحیفؔ تخلص اختیار کیا ۔ان کا بے حد معیاری کلام ملک کے اخبارات وجرائد میں مسلسل شائع ہوتا رہا ۔ منورؔ لکھنوی نے ’آوازِ دل‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ جو لئیس کے اشعار میں داغؔ کا رنگ جھلکتا ہے۔ عرشؔ صہبائی کاخیال ہے کہ نحیفؔ کے کلام میں اس دور کے جدید شاعروں کی طرح اُلجھاؤ اور ابہام نہیں ہے،بلکہ بڑے صاف اورواضح انداز میں شعر کہتے ہیں۔ نحیفؔ کی شاعری سلاستِ بیان اورصلابت زبان،سادگی اور بے تکلفی کا بہترین نمونہ ہے۔نحیفؔ دہلوی نے بہترین نعتیں بھی کہیں ‘ ملاحظہ کریں:


مئے توحید سے لبریز پیمانہ محمد کا

ملا ہر امتی کو خوب نذرانہ محمد کا

مبارک ہے جو کہلاتا ہے دیوانہ محمد کا

بڑے ہی ناز سے کہتا ہے مستانہ محمد کا

محبت سارے عالم کو شہِ روزِ جزا کی ہے


ہوئی انسانیت کی شمع روشن شان و شوکت سے

ہر اک دل جگمگا اٹھا چراغِ شانِ وحدت سے

فلک پر چاند بھی شرما گیا حسنِ لطافت سے

منور کیوں نہ ہوجائے زمانہ شمعِ الفت سے

یہ ساری دلکشی دنیا میں شاہِ انبیاء کی ہے


زمیں روشن ، زماں روشن ، ہوا سارا جہاں روشن

فلک پر دیکھیے کیسی ہوئی ہے کہکشاں روشن

تجلی سے نظر آنے لگے کون و مکاں روشن

نحیفِؔ زار کیسے ہیں زمین و آسماں روشن

مہ و انجم میں دیکھو روشنی صلِّ علیٰ کی ہے


مخلصؔ بدایونی گزشتہ صدی کے نصف اوّل کے نامور شعرا میں شمار ہوتے تھے ان کے والد بدایوں میں پان کی دکان کرتے تھے،لیکن چچا مراری لال گوہرؔ اُردو کے شاعر تھے۔ مخلصؔ بدایونی کا اصل نام الن جون تھا،ان کی پیدائش ۱۸۷۹ء میں بدایوں میں ہوئی شعروسخن کاشوق زمانۂ طالب علمی سے ہی تھا،۱۹۰۱ء میں شیخ محمود حسین جلیلؔ بدایونی کے شاگرد ہوئے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مناقب میں غزلوں کا مجموعہ ’فریادِ حزیں‘کے عنوان سے غزلوں کا مجموعہ اور نعتیہ منقبتی شاعری کا مجموعہ ’گلدستۂ نعت‘ مخلصؔ بدایونی کی یادگار ہیں۔ ۱۹۵۵ء میں انتقال ہوا۔ مخلصؔ صاحب کے پانچ بیٹو ں میں تین کو اُن کی شاعرانہ وراثت ملی ۔یہ ہیں سِلن جون عبرت ؔبدایونی،رابنسن جون حیرتؔ بدایونی اور پریم جون عاجز ؔ بدایونی ۔مخلصؔ بدایونی کاایک نعتیہ شعر بہت مقبول ہوا:


اگر تم دیکھنا چاہو خدا کو

کرو راضی محمد مصطفی کو

موجودہ مسیحی شعرا ء میں نذیر قیصر کانام خاصی علمی وادبی اہمیت کا حامل ہے۔اُردواور پنجابی میں یکساں دسترس حاصل ہے اوردونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں،کئی وقیع شعری مجموعوں کے خالق ہیں،صحافت سے بھی تعلق ہے،کافی وقت تک اُردو ہفت روزہ ’صدائے حق‘ کی ادارت کے فرائض انجام دئیے ۔ان کے شعری مجموعے ’تیری آنکھیں ،چہرہ،ہاتھ‘ گنبدِ خوف سے بشارت اُردوکی نئی شاعری میں قابل قدر اضافہ تسلیم کیے گئے ۔قیصر نے نعتیہ شاعری میں بہت شہرت و ناموری حاصل کی۔ان کی نعتوں کا مجموعہ ’اے ہوا مؤذن ہو‘ ۱۹۹۲ء میں شائع ہواتھا ۔پیش ہے عام روش سے ہٹ کر اور بالکل نئے لب ولہجے میں کہی گئی نذیر قیصر کی۔ ایک مرصع اورخیال آفریں نعت شریف ۔


خامشی ، غارِ حرا ، دِل میرا

تیرے قدموں کی صدا دِل میرا

گنبد ِ سبز پہ تاروں کا ہجوم

اورسرِ بابِ دُعا دِل میرا

صبح کے ساتھ جھکی شاخِ گلاب

شاخ کے ساتھ جھکا دِل میرا

لوح در لوح ترے نقشِ قدم

حرف در حرف لکھا دِل میرا

ڈوبتی رات کے سنّاٹے میں

اِک کتاب ،ایک دیا دِل میرا

روشنی طاقِ ابد سے اُتری

اور ستارے نے کہا ،دِل میرا

جن زمانوں میں تری خوشبو تھی

اُن زمانوں کی ہوا ،دِل میرا

قیصرؔکے دو نعتیہ قطعات بھی دیکھیں:


پَل میں ورائے عرش گئے اور آگئے

انساں کاہے مقام کہاں تک بتا گئے

قیصرؔ اب اس سے بڑھ کے ہو کیا درسِ زندگی

جینا سکھا گئے ، ہمیں مرنا سکھا گئے


آسماں آسماں قدم اُس کے

معجزے خاک پر رقم اُس کے

لہر بکھری ہے یم بہ یم اس کی

تارے اُترے ہیں خم بہ خم اُس کے


اورآخر میں مسیحی الہٰ آبادی کا یہ بلیغ شعر:


مسیح ناصری آئے تمہاری دینے خوش خبری

جوروحِ صدق ہے انجیل میں وہ رہنما تم ہو