نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث ۔ نعتیہ ادب اور احتیاط کے تقاضے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


Naat kainaat - naatia masail.jpg

مصنف  : ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

کتاب : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث ۔ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

(مدیر نعت رنگ کو لکھے گئے خطوط کے آئِینے میں )

کتاب کا پی ڈی ایف ربط : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث

= نعتیہ ادب اور احتیاط کے تقاضے:

حافظ(افضل فقیر) صاحب کو اللہ نے جو غیرمعمولی بصیرت اور بیان کا جو حیران کن سلیقہ عطا کیا تھا وہ اس دیباچے سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ انھوں نے شعر و شاعرکے ضمن میں جن چار مقدمات کا ذکر کرنے کے بعد کمال وسعت نظر کے ساتھ ان کی جو توضیح کی ہے اس سے خود میرے بعض اشکالات رفع ہوئے۔ البتہ مضمون کے آخر میں عرفی شیرازی کے نعتیہ قصیدے کے جو دو شعر انھوں نے درج فرمائے ان میں سے پہلے میں عرفی وہ احتیاط ملحوظ نہ رکھ سکا جس کی اس جیسے عالی دماغ شاعر سے توقع تھی۔ عرفی بعض اور مقامات پر بھی ایسا پیرایۂ بیان اختیار کرتا ہے مثلاً اس کے ایک اور نعتیہ قصیدے کا ایک شعر ہے:

عیسیٰ مگسِ تکلم تو

حلوائے دکانِ آفرینش


اب آپ غور فرمایئے کہ کیا اس شعر سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخفیف کا پہلو صاف نمایاں نہیں؟ بہرحال کہنا یہ ہے کہ متقدمین خواہ وہ فارسی ادب سے متعلق ہوں خواہ اردو سے، ان امور پر وہ توجہ نہیں دے سکے جس کا تقاضا نعت گوئی کرتی ہے۔ اس تمام تر کے باوجود اردو اور فارسی کا کلاسیکی نعتیہ ادب اس کا مستحق ہے کہ اس کے قابل لحاظ حصے کو ادب عالیہ میں شمار کیا جائے۔(ڈاکٹر تحسین فراقی ص،۲۴۵)


نعت میں محتاط رویوں کی ضرورت کو ہمیشہ محسوس کیا گیا، لیکن دورِ موجود میں یہ ضرورت کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے کہ پہلے عام طور پر وہ لوگ نعت کہتے تھے جن کا فطری رجحان اس موضوع کی طرف ہوتا تھا اور وہ دینی تعلیم رکھتے تھے لیکن پاکستان میں ہر شاعر نعت کہنے کی سعادت حاصل کررہا ہے اور نعت کے موضوعات میں بہت وسعت آرہی ہے۔ اس لیے نعت میں احتیاط کے تقاضوں کو سامنے لانے کی ضرورت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ غالباً یہی محسوس کرتے ہوئے رشید وارثی اورعزیز احسن نے اس کام کے لیے بڑے بھرپور انداز میں قلم اُٹھایا ہے۔ دونوں حضرات قرآن پاک اور حدیث مبارکہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور اُن کا ادبیات کا مطالعہ بھی وافر ہے، پھر انھوںنے پہلے ہونے والے احتساب سے بہتر انداز اختیار کیا ہے۔۔۔ رشید وارثی نے ذم کے پہلو رکھنے والے اشعار کی نشان دہی کی، لیکن شعرا کرام کے نام نہیں دیے۔ یہ روش اس اعتبار سے بہتر ہے کہ مقصود نعت نگاروں کی تحقیر نہیں، بلکہ ذم کے پہلوئوں کو سامنے لانا ہے، تاکہ نعت، معیاری بن سکے۔ عزیز احسن نے البتہ پورے اعتماد اور جرأت سے شعراے کرام کے نام لے کر بے احتیاطیوں کی نشان دہی کی ہے، لیکن انھوںنے اپنا زاویۂ نظر یہ بتایا ہے:

محبتیں بھی رہیں دل کو ٹھیس بھی نہ لگے

کسی کے سامنے اس طرح آئنہ رکھیے

اشتہارات سے پتا چلا ہے کہ یہ دونوں حضرات اور ادیب رائے پوری ان موضوعات پر کتابیں تیار کرلیتے ہیں۔ اللہ انھیں مزید فکری بالیدگی اور توازن سے نوازے۔(حفیظ تائب ص،۲۸۱)


افسوس یہ ہے کہ اس زمانے میں بہت سے لوگوں نے نعت کو فیشن کے طور پر یا رواج عام کی پابندی کی مجبوری کی بنا پر اختیار کرلیا ہے۔ دوسری مشکل یہ کہ اکثر شعرائے کرام کو زبان پر پوری طرح قدرت نہیں، لہٰذا ان سے عجب عجب طرح کی بے تمیزیاں اور بھونڈے پن سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ ایک عام طریقہ یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ یا پیغمبرِ اسلام سے یوں مخاطب ہوتے ہیں گویا نعوذ باللہ ان کو کچھ دے رہے ہوں، یعنی اظہارِ محبت اس طرح ہوتا ہے کہ اپنی محبت کا ذکر زیادہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ (ص)کو گویا اپنی ثنا اور توصیف کا مستفید قرار دیے جانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ آپ کی زیرِنظر کتاب میں کچھ مختصر تحریریں ایسی ہیں جن میں نعت گوئی کے آداب سے بحث کی گئی ہے، لیکن تشنگی محسوس ہوتی ہے کیوںکہ بنیادی باتیں پوری طرح زیرِبحث نہیں آئیں۔ دیگر مضامین میں جناب حسن محمود جعفری کا مضمون بہت خوب ہے لیکن مغربی حوالوں کی کثرت کے باوجود کوئی بنیادی نتیجہ پوری طرح واضح ہوکر نہیں ملا۔(شمس الرحمٰن فاروقی ص،۵۱۲۔۵۱۱)


نعت گوئی کے بارے میں میرا خیال ہے کہ اگر یہ صدق جذبے سے کی جائے تو اس میں بڑا اثر ہوتا ہے، لیکن اگر اسے فیشن اور تقلید کے طورپر اختیار کیا گیا تو اس میں وہ تاثر اور والہانہ پن پیدا نہیں ہوتا جس کے بغیر نعت، نعت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ان دنوں نعت گوئی نے ایک فیشن کی صورت اختیار کرلی ہے جسے ٹیلی وژن، ریڈیو اور نعتیہ مشاعروں نے مزید فروغ دیا ہے۔ دل کی گہرائیوں اور رسول اکرم(ص) سے گہری محبت اور عقیدت کے تحت نعت کہنا اورمحض قادرالکلامی کے زور پر شعر موزوں کرنا ایک بات نہیں ہے۔ اس لیے نعت گو تو بے شمار ہیں لیکن بہزاد لکھنوی جیسے نعت گو معدودے۔ بہرحال آپ کی کوشش قابلِ تعریف ہے۔ شکریہ(شہزادمنظر ص،۵۵۲)

جناب رضوی صاحب کے تحقیقی مضمون کے علاوہ نعت سے متعلق کچھ تنقیدی مضامین بھی زیرنظر تالیف میں شامل ہیں۔ ان مضامین میںجناب عاصی کرنالی،جناب رشید وارثی اورجناب عزیز احسن کے مضامین خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ان مضامین میں ایسی تراکیب، استعارے اور مضامین کی نشان دہی کی گئی ہے جو ہماری نعتیہ شاعری میں اکثر استعمال ہوتے ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو ان مروجہ مضامین میں شان رسالت میں گستاخی کے پہلونکلتے ہیں جن سے اجتناب برتنا چاہیے۔ نعتیہ شاعری دراصل پل صراط پر چلنے سے بھی مشکل کام ہے کیوںکہ یہاں معمولی سی بے احتیاطی بھی دین ودنیا میں خسارہ کا سبب بن سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے میدان نعت گوئی کو ایک ایسی ’’ادب گاہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو عرش سے بھی ’’نازک تر‘‘ ہے اور جہاں ’’جنید و بایزید‘‘ جیسے صاحبان بصیرت بزرگوں کے بھی ہوش گم ہوجاتے ہیں مذکورہ تینوں مقالے نعت گو شعرا کے لیے ہدایت ورہنمائی کے نکات سے پوری طرح آراستہ ہیں جن کا مطالعہ عام قارئین کے علاوہ بہت سے نعت گوشعراء کے لیے بھی خاطر خواہ افادیت کا حامل ثابت ہوگا۔(حکیم محمد سعید ص،۴۳۰)


(۱) ’’نعت رنگ‘‘ کے مضامین سے یہ خوش آئند حقیقت بڑی واضح طورپر میرے سامنے آئی ہے کہ حمد و نعت غزل کی زمین سے گزرتے ہوئے اپنی ادبی حیثیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔ اس بیش بہا تبدیلی کے پیشِ نظر آپ اتفاق کریں گے کہ نعت خواں حضرات کو بھی اپنے لب و لہجے کو زیادہ سے زیادہغزل سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے جو اب تک کم کم نظر آتا ہے۔ عوامی سطح پر بھی سامعین کی توجہ اور تربیت کا اہتمام کرنا ہو گا تاکہ ماحول بنانے میں آسانی ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غزلیہ حمد و نعت کا سُننا سنانا کسی خاص طبقہ تک محدود ہو کر رہ جائے یا پھر اس کے قبولِ عام ہونے کیلئے لمبا عرصہ درکار ہو۔

(۲) اکثر ایسی نعتیں بھی سننے میں آتی ہیں جن کی طرز فلمی گانوں پر بنائی جاتی ہیں اور کئی بڑے بڑے نعت خواں بھی اس روش پر چل نکلتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کے ایسا کسی مجبوری سے ہوتا ہو یا کچھ سامعین اسے پسند بھی کرتے ہوں لیکن مجھے ذاتی طور پر اس سے نعت کا تقدس مجروح ہوتا دکھائی دیتا ہے اور میرے نزدیک اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ۔ تھوڑی سی کوشش اور ریاضت سے کوئی منفرد طرز موزوں کرنا چنداں مشکل نہیں ہونا چاہیے ـ۔ یہ بھی کہوں گا کے اگر کوئی لکھاری جان بوجھ کر کسی فلمی گانے کی تضمین لکھنے کی کوشش کرے تو میرے نزدیک یہ بھی نامناسب ہے۔

(۳) میرے خیال میں روائتی صنفِ حمد و نعت کے لیے موسیقی کے استعمال سے بھی چنداں گریز کرنا چاہیے۔ ادب اور روحانیت کا تقاضہ ہے کہ خاموشی سے الفاظ میں ڈوب کر کلام کو سنا اور سمجھا جائے جیسے کے صدیوں سے ہوتا آیا ہے۔ مجھے احساس ہے کی ہمارے ہاں اس بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں اسی لیے میں نے روایتی صنف کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ موسیقی کا اس طرح کا استعمال روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے اور میرے خیال میں یہ جدت طرازی بھی پیشہ ورانہ سوچ کی آئینہ دار ہے۔

(۴) اگلی بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ محافل میں نوٹوں کو عامیانہ انداز میں اُچھال اُچھال کر نچھاور کرنا یا مغرب کی تقلید میں ہاتھ کھڑے کر کے دائیں بائیں لہرانا حمد و نعت کے شانِ شایاں ہر گز نہیں لگتا۔ میرے لیے ایسے مظاہرے ایک غیر ضروری آزمائش سے کم نہیں ہوتے۔ دم سادھ لیتا ہوں اور سر جھک جاتا ہے۔ ساری توجہ ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ ثناخواں حضرات کی خدمت بے شک دل کھول کے کریں لیکن دکھاوے کا شائبہ نہ ہو۔ اس سے عزتِ نفس کے مجروح ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے ۔ دوسری طرف لطف و سرُور کی کیفیت میں روح کے ساتھ جسم کا وجد ایک قدرتی امر ہے البتہ وقار کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔

(۵) یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ہمارے ہاں سامعین کی ایک بڑی تعداد اشعار میں استعمال شدہ بیش تر الفاظ، تراکیب یا تشبیہات کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ گویا عرفِ عام میں یہ اُن کے سر سے گزر جاتی ہیں ۔ اگرچہ اس کے باوجود اُن کا شوق و وجدان دیدنی ہوتا ہے۔ غزلیہ نعت و حمد میں تو مشکل گوئم کا غالب ہونا ویسے بھی قرینِ قیاس ہے ایسے میں اگر ثناخواں مشینی انداز میں بولتے چلے جانے کی بجائے اندازِ بیاں میں لچک پیدا کرے ، تلفظ پر زور دے اور کہیں کہیں رُک کر ضروری وضاحتیں کرنے کا فن اپنائے تو مجھے یقین ہے کہ نہ صرف سننے والوں کی دلچسپی بڑھے گی بلکہ نعت خواں کی قدرومنزلت میں بھی اضافہ ہو گا۔ صرف ایک دو مرتبہ اتنا کہہ دینا ہی کافی نہیں کہ ’’میرے ساتھ مل کر پڑھیں‘‘ بلکہ چاہیے یہ کہ دیگر پہلوؤں سے بھی سامعین کو ساتھ لے کر چلا جائے تاکہ اس کارِ خیر کے جملہ مقاصد کے حصول کا بہتر موجب ہو۔

ـ(۶) جب سے ٹی وی نے ثناخوانی کی بڑھ چڑھ کر سرپرستی شروع کی ہے جہاں اس صنف کو کئی اعتبار سے تقویت ملی ہے وہیں تجارتی مفاد کے در آنے سے معیار میں اکھاڑ پچھاڑ کا سماں بھی صاف دکھائی دیتا ہے ۔ اکثر غیر ضروری شو ، شا اور نت نئی اختراعوں کے استعمال سے کافی حد تک مقصود سامع کے دل کو نہیں بلکہ جیب کو ٹٹولنا لگتا ہے۔ہر چھوٹا بڑا اپنا لوہا منوانے کے درپے ہے ۔ معیار سے زیادہ مقدار پر زور ہے۔ انوار کی بجائے سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کی بارش ہو رہی ہے۔ اکثر سُر پر اتنا زور دیا جاتا ہے یا یہ ایسی بے ربط ہوتی ہے کہ شعریت سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ اس روش کی اصلاح کی ضرورت ہے کیونکہ مجھے تو نعت و حمد کے حوالے سے یہ حرف و صوت کی خدمت نہیں لگتی۔ (خضر حیات ص، ۳۲۷۔۳۲۵)

(۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ جو القاب مستعمل ہیں مثلاً ’’مولائے کل‘‘، ’’آقائے دوجہاں‘‘، ’’سرکاردوعالم‘‘ وغیرہ میں ان پر اکثر غور کرتا ہوں یہ تمام القاب مجھے رب رحمان ورحیم کے محسوس ہوتے رہے ہیں مثلاً آقا ومولا تک تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مولائے کل‘‘ کہا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کے لیے کیاکہیں گے؟ ہمارے سامنے ’’رحمت للعالمین‘‘ ، ’’رسول مقبول‘‘، ’’نبی کریم‘‘، ’’حبیب خدا‘‘ وغیر ہ جیسے القاب بھی تو ہیں بہرحال میری خواہش ہے کہ اس طرف بھی کوئی صاحب علم مضمون نگار توجہ دے تو کیا ہی اچھی بات ہوگی اگر علامہ اقبال اور مولانا حضرات کچھ کہتے ہیں تو اسے سند بناکر سب کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ بذریعۂ تحقیق غلط اور درست کا فیصلہ کیا جائے۔(احمد صغیر صدیقی ص،۴۵)

(۸) نہ جانے کیوں اس خیال کے شعر نعت میں مجھے اچھے نہیں لگتے۔ جن میں آنحضور کی ذات گرامی کو فاسق و فاجروں کے طرف دار، عاصیوں کے دل کی راحت وغیرہ کہا جاتا ہے ـــ بہرحال اپنی اپنی سوچ ہے بے شک کہنے والا جن معنوں میں یہ کہتا ہے وہ میں جانتا ہوں مگر سطح پر یہ باتیں مجھے پسند آتیں۔(احمد صغیر صدیقی ص،۵۷)

(۹) نعت میں اس قسم کا خیال پیش کرنا جس سے روضۂ رسول(ص) کے مقابلے میں کعبے کا احترام مجروح ہو یا سرزمین مدینہ کے مقابلے میں ’’مکہ‘‘ کا احترام کم ہوجائے مناسب نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دو جگہ کے اشعار ضرور دیکھیے۔ صفحہ نمبر79 پر منظور حسین منظور کا شعر:(امیر الاسلام صدیقی ص،۲۲۹)

یہ ارض مقدس ہے زیارت گہہ عالم

کعبہ سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے ( ۱۰) اس ضمن میں ایک بات عرض کرنا چاہوںگا کہ بہت سی نعتوں میں شعرا مدحِ رسولؐ سے زیادہ ’’گنبدِ خضرا‘‘ یا ’’طیبہ‘‘ وغیرہ کی شان میں ’’نعت‘‘ کہتے نظر آتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بات بنتی ہے۔ کوثر علی صاحب کی نعت کا قافیہ ردیف ہی ’’بہارِ طیبہ‘‘، ’’کنارِ طیبہ‘‘ ہے۔اس میں تمام تر مدح طیبہ کی ہے۔ الفاظ اور بیان کے لحاظ سے یہ نعت بہت عمدہ ہے مگر سارا زور طیبہ پر ہے۔


جیسے معراج کی شب راہ فلک روشن تھی

یوں چمکتی ہے ہر اک راہ گزار طیبہ

ایک شعر جناب ولی اللہ ولی کا دیکھیں:


ہائے گستاخ خاکہ ہے ان کا لیے

جن کی صورت پر نازاں ہیں لوح و قلم

پتا نہیں کیاکہاہے انھوںنے۔۔۔(احمد صغیر صدیقی ص،۸۱۔۸۰)

مزید دیکھیے

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659