مصطفیٰ رضا نوری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


حالاتِ زندگی

مفتیِ اعظم حضرت نوریؔ بریلوی کا شجرۂ نسب۔ایک نظر میں

مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی ہندوستانی مسلمانوں کے ایک مذہبی رہِ نما گذرے ہیں۔ آپ عالم اسلام کی مشہور شخصیت امام احمد رضامحدث بریلوی (م1921ء) کے فرزند اصغر تھے ۔ آپ کا خانوادہ کئی صدی پیش تر سے اسلامی علوم وفنون کامرکز و محوررہاہے۔ آپ تقویٰ و طہارت میں بلندیِ کردار سے متصف تھے۔مرجعِ فتاویٰ تھے۔ملتِ اسلامیہ کے قائد و رہِ بر تھے۔ذیل میں آپ کاشجرۂ نسب پیش کیا جاتا ہے ۔جس کی ابتدا حضرت سعید اﷲ خان صاحب سے کی جارہی ہے جو عالی جاہ شجاعت جنگ بہادر کے لقب سے مشہور تھے اور قندھار سے سلطان شاہ محمد شاہ کے ہمراہ ہندوستان آئے تھے۔ اعلا انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے حکومت وقت نے انھیں ’’شش ہزاری ‘‘کے منصب سے سرفراز کیا تھا ۔لاہور کا ’’شیش محل‘‘ آپ ہی کی جاگیر تھی۔آپ کے صاحب زادے سعادت یا ر خاں صاحب ہیں جوسلطانِ وقت کے وزیر مالیات تھے ان کی امانت داری اور دیانت داری کو دیکھ کر سلطان محمد شاہ نے ضلع بدایوں کے کئی مواضعات انھیں عطاکیے جو آج بھی اس خاندان کے حصے میںہیں۔سعادت یارخاں صاحب کے تین فرزند محمد معظم خاں صاحب،محمد اعظم خاں صاحب اور محمد مکرم خاں صاحب ہوئے ۔ان میں محمد اعظم خاںصاحب بھی وزارتِ اعلا کے عہدے پر فائز تھے ،مگر کچھ عرصہ بعد سلطنت کی ذمہ داریوں سے سبک دوشی حاصل کرلی اور زہد واتقا،ریاضت و روحانیت کی جانب مکمل طور پر مائل ہوگئے آپ ہی کی ذات والا مرتبت سے قندھار کے اس خانوادے میں علم وفضل اور زہد واتقاکا بول بالا شروع ہوا۔ حضرت نوریؔ بریلوی ،محمد اعظم خاں صاحب ہی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔محمد اعظم خاں صاحب کے یہاں چار بیٹیاں تولد ہوئیں اور ایک فرزندحافظ کاظم علی خاںہوئے، جن کی آل میں تین صاحب زادیاں اور تین بیٹے امام العلماء رضا علی خاں صاحب،حکیم تقی علی خاں صاحب اور جعفر علی خاں صاحب تولد ہوئے۔حافظ کاظم علی خاں صاحب کے بیٹوں میں امام العلماء رضا علی خاں صاحب کی اولاد میں مولانا نقی علی خاں صاحب اور تین بیٹیاں ہوئیں۔مولانا نقی علی خاں صاحب کے یہاں تین بیٹے امام احمد رضا ،مولانا حسن رضا، محمدرضا اور تین صاحب زادیاں پیدا ہوئیں۔مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، مولانا نقی علی خاں صاحب کے بڑے بیٹے امام احمد رضا خاں صاحب کے فرزندِ اصغر ہیں۔ حضرت نوریؔ بریلوی کے بڑے بھائی مولانا حامد رضا خاں صاحب اور پانچ بہنیں مصطفائی بیگم،کنیز حسن ، کنیز حسنین، کنیزحسین اورمرتضائی بیگم ہیں۔حضرت نوریؔ بریلوی کے یہاں ایک بیٹے انواررضا خاں صاحب ہوئے جو کم سنی ہی میں انتقال فرماگئے علاوہ ازیں آپ کی چھ بیٹیا ں ہوئیں ،جن کے اسماے گرامی نگار فاطمہ،انوارفاطمہ،برکاتی بیگم،رابعہ بیگم،ہاجرہ بیگم اورشاکرہ بیگم ہیں۔

ولادت

تحقیق ومطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی دنیاے اسلام کے عظیم رہِ نما ، قطبِ زمانہ، مرجع العلماء و الخلائق ، رہبرِ شریعت و طریقت ، غزالی دوراں ، رازیِ زماں، با فیض مدرس ، پُر خلوص داعی، عظیم فقہیہ، مفسر ،محدث ،خطیب، مفکر، دانش ور،تحریک آفریں قائد، مایۂ ناز مصنف و محقق اور بلند پایہ نعت گو شاعر اور گوناگوں خصوصیات کے مالک تھے۔ آپ عالمِ اسلام کی مشہور شخصیت امام احمد رضا بریلوی کے فرزندِ اصغر تھے ۔آپ کا خاندان علم و فضل ، زہد و اتقا اور عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں نمایاں مقام رکھتا ہے ۔آپ کی ولادت 22؍ ذی الحجہ1310ھ بمط 7 جولائی1893ء بروز جمعہ بہ وقتِ صبح صادق آپ کے چچا استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کے دولت کدہ پر،واقع رضانگر ،محلہ سوداگران ،بریلی ، یوپی، (انڈیا) میں ہوئی۔

اسم گرامی

مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کاپیدایشی اور اصل نام ’ ’محمد‘‘ ہے ۔ آپ کاعقیقہ اسی نام پرہوا۔ غیبی نام ’’آلِ رحمن ‘‘ہے ۔پیر ومرشد نے آپ کا پورانام ’’ابوالبرکات محی الدین جیلانی ‘‘ تجویز فرمایااور والد گرامی نے عرفی نام ’’مصطفیٰ رضا‘ ‘ رکھا۔فنِ شاعری میں آ پ اپنے پیر ومرشد شیخ المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوریؔ میاں مارہروی نوراللہ مرقدہٗ(م1324ء) کی نسبت سے اپنا تخلص ’’نوریؔ ‘‘ فرماتے تھے۔ عرفی نام اس قدر مشہور ہوا کہ ہر خاص وعام آ پ کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔

مشہور ترین لقب

یوں توآپ کو علم و فضل کی بنیاد پر بہت سارے القاب سے نوازا گیا،مگر جس لقب کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی وہ ہے ’’مفتیِ اعظم‘‘ ۔ اس کی تفصیل آ گے پیش کی جائے گی۔

ولادت سے قبل بشارت

مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی ولادت سے پہلے والد ماجد امام احمد رضابریلوی اپنے پیر ومرشد حضرت سید شاہ آل رسول احمدی مارہروی (م1297ھ) کے مزارِپاک کی زیارت اور سید المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوری ؔ مارہروی(م1324ھ) سے ملاقات کے لیے مارہرہ مطہر ہ تشریف لے گئے تھے۔اس موقع پر جو واقعات ہوئے اس کی الگ الگ روایتیںسامنے آئی ہیں، مگر ان میںفقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن رضوی کی وہ روایت جسے آپ نے مولاناسید شاہد علی رضوی رام پو ری سے بیان کیا، بہ ایں معنی قابلِ ترجیح ہے کہ مفتی صاحب موصوف نے اس کو خودمفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی زبانی سماعت کیا ہے ۔ سید شاہد علی رضوی تحریر فرماتے ہیں :

’’22؍ ذی الحجہ1310ھ کی شب میں تقریباً نصف رات تک امام احمد رضا قدس سرہ او رسید المشائخ حضرت نوری میاں قدس سرہ کے درمیان علمی مذاکرات رہے۔ پھر دونوں اپنی اپنی قیام گاہوں میں آرام فرما ہوئے۔ اسی شب عالمِ خواب میں دونوں بزرگوں کو حضرت مفتی اعظم کی ولادت کی نوید دی گئی اور نومولود کا نام ’آل الرحمن ‘ بتا یا گیا ۔ خواب سے بیداری پر دونوں بزرگوں میں سے ہر ایک نے یہ فیصلہ کیا کہ بہ وقتِ ملاقات مبارک باد پیش کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فجر کی نما ز کے لیے جب دونوں بزرگ مسجد پہنچے تو مسجد کے دروازے پر ہی دونوں بزرگوں کی ملا قات ہو گئی اور وہیں ہر ایک نے دوسرے کو مبارک باد پیش کی ۔فجر کی نماز کے بعد سید المشائخ حضرت سید شاہ ابو الحسین نوری میاں قدس سرہ نے امام احمد رضا سے ارشاد فرمایا :

’مولاناصاحب!آپ اس بچے کے ولی ہیں ۔اگر اجازت دیں تو میں نو مولود کو داخلِ سلسلہ کرلوں ۔‘… امام احمد رضا قدس سرہ نے عرض کیا : ’حضور غلام زادہ ہے اسے داخلِ سلسلہ فرمالیا جائے ۔‘… سید المشائخ حضرت سید شاہ ابو الحسین نوری میاں قدس سرہ نے مصلا ہی پر بیٹھے بیٹھے مفتی اعظم کو غایبانہ داخلِ سلسلہ فرمالیا ۔ حضرت سید المشائخ نے امام احمد رضا کو اپنا عمامہ اور جبہ عطا فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا :

’میری یہ امانت آپ کے سپرد ہے جب وہ بچہ اس امانت کا متحمل ہوجائے تو اسے دے دیں ۔ مجھے خواب میں اس کا نام ’آل الرحمن ‘بتایا گیا ہے۔لہٰذا نومولود کا نام ’آل الرحمن ‘ رکھیے ۔ مجھے اس بچے کو دیکھنے کی تمنا ہے۔ وہ بڑا ہی فیروز بخت اور مبارک بچہ ہے ۔ میں پہلی فرصت میں بریلی حاضر ہوکر آپ کے بیٹے کی روحانی امانتیں اس کے سپرد کردوں گا ۔‘‘

دوسرے روز جب ولادت کی خبر مارہرہ پہنچی تو سید المشائخ حضرت سیدشاہ ابوالحسین نوری قدس سرہ نے نومولود کا نام ’ابوالبرکات محی الدین جیلانی ‘منتخب فرمایا۔۔۔۔۔۔ا مام احمد رضا قدس سرہ نے ساتویں روز ’’محمد ‘‘ نام پر بیٹے کا عقیقہ کیا ۔

متذکرہ واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت جل شانہٗ کے نیک طینت اور پاک باز بندوں پر عنایاتِ الٰہیہ سے غیبی طور پر آیندہ پیش آنے والے امور منکشف ہوجاتے تھے۔مفتیِ اعظم قدس سرہ کی ولادت کی خبریں جن بندگانِ خدا نے دیں وہ اپنے عہد کے قطب اور مجدد ہیں۔انھیں نفوسِ قدسیہ کی بشارتوں کا یہ ثمرہ ہے کہ مفتیِ اعظم قدس سرہ کانام آج دنیاے اسلام کے افق پر روشن و منور ہے ۔

بیعت وخلافت

6؍ ماہ بعد جب 25 جمادی الثانی 1311ھ کو سید المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوری میاںمارہروی (م1324ھ) بریلی تشریف لائے تومفتیِ اعظم قدس سرہ کو اپنی آغوش میں لے کر دعاوں سے نوازا اور چھ ماہ تین دن کی عمر میں ہی آپ کو داخلِ سلسلہ فرماکر تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز کیا۔اور دورانِ بیعت ارشاد فرمایا کہ  :

’’یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گااور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا، یہ بچہ ولی ہے ،اس کی نگاہوں سے لاکھوںگم راہ انسان دین حق پر قائم ہوںگے۔ یہ فیض کا دریابہائے گا۔‘‘

سید المشائخ نے حلقۂ بیعت میںلینے کے بعد قادری نسبت کادریاے فیض بناکر ابوالبرکات محی الدین جیلانی کوامام احمدرضا کی آغوش میںدیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’مبارک ہو آپ کو یہ ، قرآنی آیت… ’’واجعل لی وزیرا من اہلی ‘‘ کی تفسیر مقبول ہو کر آ پ کی گود میں آگئی ہے… ’’ آل الرحمن ۔ محمد۔ ابولبرکات۔ محی الدین جیلانی۔ مصطفیٰ رضا ‘‘

بزرگوں کے اقوال سے یہ بات مذکور ہے کہ جب کسی شخص میںمحاسن کی کثرت ہوتی ہے تو اس کاہر کام تشنۂ توصیف ہوتاہے ؛ اور لوگ ایسی جامع الصفات شخصیت کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔مفتیِ اعظم حضرت نوریؔ بریلوی کے نام میںپہلی نسبت رحمن سے ہے،دوسری نسبت حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلمسے ہے ،تیسری نسبت غوث اعظم علیہ الرحمہ سے ہے اور چوتھی والد گرامی امام احمد رضابریلوی سے ہے۔اگرچہ یہ اہتمام تو اکابر نے اپنی بالغ نظری سے کیامگر دنیانے اس منبعِ خیر و فلاح سے قریب ہوکر جب فیوض حاصل کیاتولوگ اپنے جذبۂ ستایش پر قابو نہ پاسکے ۔یہی وجہ ہے کہ آج آپ مختلف مبارک ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔

تعلیم کاآغاز

تعلیم سے فراغت

علوم و فنون

خلافت واجازت

عقد مسنون

اولاد

حج وزیارت

نقش سراپا

خصوصیات

وصال

مشہور کلام


مزید دیکھیے

اقبال عظیم | بیدم شاہ وارثی | حفیظ جالندھری | خالد محمود خالد | ریاض الدین سہروردی | عبدالستار نیازی | کوثر بریلوی | نصیر الدین نصیر | منور بدایونی | مصطفیٰ رضا نوری | محمد علی ظہوری | محمد بخش مسلم | محمد الیاس قادری | صبیح رحمانی | قاسم جہانگیری | یوسف قدیری | قمر انجم | سید ناصر چشتی | صائم چشتی | وقار احمد صدیقی | شکیل بدایونی | ساغر صدیقی | حامد لکھنوی | حبیب پینٹر