بُستانِ نعت کے عندلیبِ خوش نوا شاعرِ "انوارِ حرا" ۔ ڈاکٹر نجم الہدٰی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

بُستانِ نعت کے عندلیبِ خوش نوا شاعرِ "انوارِ حرا" ۔ تنویر پھول[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مقالہ نگار : ڈاکٹر نجم الہدیٰ ، پروفیسر و صدر شعبہ ء اُردو و ڈین فیکلٹی آف ہیومینٹیز ، بہار یونیورسٹی [ سابق پروفیسر و صدر شعبہ ء اُردو ، فارسی و عربی ، مدراس یونیورسٹی]


تنویر پھول کا شعری مجموعہ "انوارِ حرا" حمد ، مناجات ، نعت ، منقبت ، درود و سلام ، قطعات و رباعیات اور نظم معرّا پرمشتمل ہے ۔ یہ عقائد و معرفت ، رشد و ہدایت ، محبت و عقیدت ، خیال کی بلندی ، فکر کی اصابت ، جذبہ و احساس کی لطافت اور بھرپور دینی معلومات کا ایسا مخزن ہے جس کی کلید ایوانِ فنِ شعر کی تزئینِ بام و در و سقف و ستون کے مشاہدے سے ہی ہاتھ آتی ہے ۔ یہ مجموعہ ء کلام گویا فکر و فن کا ایسا امتزاج ہے جس میں جذبہ و خیال اور حُسنِ پیرایہ اظہار مترادف و لاینفک ہیں ۔ جب جذبے کی طہارت اور فکر کی صفائی و راستی اظہار و بیاں کی پاکیزگی اور سادگی سے آمیز ہوتی ہے تو ترسیل و ابلاغ کے قمقمے روشن ہوجاتے ہیں اور قاری کسی پیچاک میں الجھے بغیر مسرت و بصیرت کے اس لازوال سرچشمہ سے بقدر حوصلہ بہرہ ور ہوتا ہے ۔ استاذی پروفیسر اختر قادری مرحوم کے بقول : خود فکرِ عفیف ایک شہ پارہ ہے ۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حُسنِ خیال ہی حُسنِ اظہار کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور اس کے لئے کسی تکلف کی احتیاج نہیں ہوتی ، بیان کی سادگی میں بھی پرکاری ممکن ہے ، صنعت وہی عمدہ ہے جو پیرایہ اظہار کے تار و پود میں پیوست ہو ، اوپر سے جڑی ہوئی نہ لگے یعنی برجستہ ہو ، آمد کے معنی میں ہو ، تصنع نہ ہو اور آورد نہ لگے ۔ "انوارِ حرا" میں تنویر پھول کی شاعری کچھ اسی نہج کی ہے ۔

اس مجموعے کے شاعر کا مذہبی مطالعہ صحیح عقائد کی بنیادوں پر قائم ہے اور بہت بہت وسیع ہے ۔ قرآن و حدیث اور دینی اقدار و روایات کے منابع پر شاعر کی صرف گہری نظر نہیں بلکہ ان سے پورا پورا استفادہ کرنے کے شواہد فراہم کئے گئے ہیں ۔ "انوارِ حرا" میں قرآن پاک اور صحیح احادیث کے اتنے زیادہ حوالہ جات اور اتنی وافر تلمیحات ہیں کہ واقف کار ان کی داد دے سکتے ہیں اور ناواقف ان سے معلومات کا دامن بھر سکتے ہیں ۔ یہ خوبی "انوارِ حرا" کی تمام منظومات میں ہے ، خواہ وہ کسی عنوان سے ہو اور کسی صنف سخن کی ہیئت میں ہو ۔

 "انوارِ حرا" کی جن خصوصیات کا ذکر سطور بالا میں یا آگے کیا جارہا ہے ، ان کے شواہد کے طور پر اشعار مناسب جگہ پر نقل کئے جائیں گے ۔ سر دست چند اور نکات کی نشاندہی ملحوظِ خاطر ہے۔

تنویر پھول کے افکار کا دائرہ حیات انسانی کے متعدد شعبہ جات کا احاطہ کرتا ہے ۔ بظاہر شاعری کی نوعیت صرف مذہبی ہے لیکن ہمارا مذہب بھی تو زندگی کے تمام معاملات و مسائل سے مربوط ہے ، ٹھیک اسی طرح تنویر پھول کے اس مجموعے کی منظومات میں خواہ وہ حمد و نعت و مناجات کے ہی عنوان سے ہوں ، معاشرت اور انسانی تاریخ کے متعدد گوشے روشن ہیں ۔ تنویر پھول کا مطالعہ نہ صرف دینی اعتبار سے وسیع ہے بلکہ انھوں نے دین کے پس منظر میں سہی ، طائرِ فکر و نظر کو ملکوں ملکوں دیگر زبانوں کے سرچشموں سے علم کی پیاس بجھانے کے لئے پرواز کی اجازت دے رکھی ہے ۔ کہیں وہ عبرانی زبان میں پائے جانے والے حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب اس قصیدے کی منظوم ترجمانی کرتے ہیں 'جو 1800 ء اور اس سے پہلے شائع شدہ انجیل کے نسخوں میں موجود ہے اور بعد کی شائع شدہ انجیلوں میں تحریف کرکے یہ آخری فقرہ جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام نامی موجود ہے ، نکال دیا گیا ہے' اور کہیں ' معروف مورخ عمر ابوالنصر کی کتاب "الحسن والحسین" سے عربی اشعار اخذ کر کے ان کا منظوم ترجمہ

" کربلائے معلیٰ میں حضرت زینب کے اشعار"

کے عنوان سے کرتے ہیں ۔ تنویر پھول محققانہ رنگ میں عبرانی سے ترجمے میں پورا حوالہ بھی دیتے ہیں " مذکورہ قصیدہ انجیل کے عبرانی نسخے کے صحیفہ غزل الغزلات کے باب پنجم کا فقرہ نمبر ایک تا فقرہ نمبر دس ہے جسے لندن برٹش بائبل ایسوسی ایشن نے 1800 ء میں شائع کیا تھا" ۔

ملاحظہ فرمایا آپ نے ؟ ہمارا شاعر محقق بھی ہے ، شاعری وادیِ تخیل کی سیر سہی مگر بقول علامہ اقبال "جزویست از پیغمبری" بھی ہے ، پھر تو اس پر بلا استناد زبان سے کوئی بات نکالنا بھی حرام ہے ، تحقیق کا رنگ تو از خود آ ہی جائے گا ۔


تنویر پھول کی شاعری میں وسیع مطالعہ اور عمیق مشاہدہ کے اثر سے فکر و فلسفہ کی جو نگاہ پیدا ہو گئی ہے وہ اس دینی شاعری میں بار بار یہ احساس دلاتی ہے کہ ہمارا دین خداے لم یزل کی تخلیق کردہ بے کراں کائنات کے مطالعہ و مشاہدہ کی دعوت دیتا ہے اور غور و فکر کرنا سکھاتا ہے اور مزید یہ کہ شاعر نے زندگی کے تجربات اور علم و آگہی کی دولت سے استفادہ کر کے اپنی شاعری کی آب و تاب میں اضافہ کر دیا ہے ۔

"انوارِ حرا" کی متعدد نظموں میں یہ وصف موجود ہے ۔ میں یہاں بالخصوص نظم معرّا زیرِ عنوانِ "تمنا" اور رباعیات و قطعات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا ۔

نظم "تمنا" فکر و فن دونوں کے اعتبار سے ایک شہ پارہ ہے ۔ یہ "تمنا" نہ صرف ایک حقیقی شاعر کے دل کی آواز ہے بلکہ فکر صالح اور آرزوے پاکیزہ کا مترادف بھی ہے ۔ یہ چھوٹی سی نظم اپنے اندر ایک وسیع کائنات رکھتی ہے ۔ عقیدہ ء راسخ بھی ہے ، عقیدت بھی ہے ، صحیح اور متوازن فکر بھی ہے اور مثالی دنیا کی تعمیر کا ارمان بھی ہے ۔ آپ بھی دیکھئے ؛

اِس عالمِ سفلی سے ہٹ کر

اے کاش ، اِک ایسا عالم ہو

سرکار کے قدموں سے لپٹوں

ہر لمحہ طوافِ کعبہ ہو


واں نیند نہ ہو ، واں بھوک نہ ہو

سب یاں کی غلاظت دُور رہے

شیطان کا داو چل نہ سکے


سرکار کے قدموں سے لپٹوں

اللہ کی رحمت کا دریا

ہر آن وہاں پر جاری ہو


اور یہ رباعیاں :


دریا کی ہر اِک موج سدا ہے پُر جوش

کم ظرف کا عالم ہے یہی ، اے بے ہوش

تو میری خموشی کی حقیقت کو سمجھ

رہتا ہے سمندر بھی تو یوں ہی خاموش


میں خود ہی سنواروں گا جہاں کی بستی

میں بڑھ کے بدل دوں گا نظامِ ہستی

جنت سے نکلوادیا شیطاں تو نے

اور اوج کے بدلے میں دلا دی پستی


تنویر پھول کی شاعری میں افکار کی گراں مائیگی کے ساتھ فن کی خوش آہنگی کا امتزاج کبھی تو لفظوں کے انتخاب میں جلوہ گر ہوتا ہے اور کبھی مترنم بحروں کے استعمال میں ۔ ایک حمد کا یہ شعر بطور نمونہ


پیش خدمت ہے :


میں بڑا ذلیل و حقیر ہوں ، تو بڑا عظیم و کریم ہے

میں دبا ہوں بارِ گناہ سے، تو غفور ہے، تو رحیم ہے


اور نعت سرور کونین کا یہ شعر دیکھئے :

بھیک جس کو محمد کے در سے ملی ، ہیچ ہے سامنے اُس کے شاہنشہی

مل گیا ہے تجھے گنجِ عشقِ نبی ، اب بھلا تجھ کو اے پھول کیا چاہئے


جی تو چاہتا ہے کہ "انوارِ حرا" سے ڈھیر سارا اقتباس پیش کر کے اپنی معروضات کو زیادہ مدلل بنالوں اور اپنے پسندیدہ اشعار سے لطف اندوزی میں آپ کو بھی شریک کر لوں مگر اس مضمون کو طول دینا بھی مناسب نہیں ہے ۔ میرےبیان کی تصدیق آپ کا مطالعہ ء "انوار حرا" ہی کر دے گا ۔ میں چند اشعار بطور " مشتے نمونہ از خروارے" پیش کرتا ہوں :


اُحد میں چاند سی پیشانی ہو گئی گھائل

مِرے حضور ، ہیں صدیوں کے فاصلے حائل

وہ زخم اپنے ہی چہرے پہ میں سجا لیتا

نہ عمر میری گزر جاتی یوں ہی لا طائل

مِرے حضور ، مِری جان آپ پر قرباں


شکم پہ آپ نے باندھے تھے بار ہا پتھر

جو بد نصیب تھا ، دل اُس کا ہو گیا پتھر

لگا وہ دل پہ مِرے ، دل مِرا فگار ہُوا

حضور ، آپ کو طائف میں جو لگا پتھر

مِرے حضور ، مِری جان آپ پر قرباں


اور  :


ہے جس کی ذات اقدس باعثِ تخلیقِ دوعالم

جہاں میں آج اُس پیارے نبی کی آمد آمد ہے

سلام اب تم سدا بھیجو شہنشاہِ دوعالم پر

پڑھو قرآن اور دیکھو ، یہ اِک امرِ موکّد ہے


تنویر پھول بُستانِ نعت کے عندلیبِ خوش نوا ہیں ۔ متعدد بلکہ بے شمار مثالوں میں سے صرف چند شعر ملاحظہ کیجئے۔ کیسی والہانہ شیفتگی اور فداکارانہ جذباتی و فکری نسبتِ غلامی آقاے نامدار ، مدینے کے تاجدار سرور کائنات ، فخر موجودات سیدی و مولائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہمارے شاعر کو ہے ، قابل دید ہے :

ہو تم افضل الانبیا یا محمد ۔ مِری جان تم پر فدا یا محمد

ہر اِک شے سے کون و مکاں میں ہو برتر ۔ سراپا ہو نورِ خدا یا محمد

خدا گر تمھیں آشکارا نہ کرتا ۔ نہ ہوتے یہ ارض و سما یا محمد

زمانے میں بے شک خدا کے علاوہ ۔ نہیں کوئی تم سے بڑا یا محمد

جو محتاج ہیں، اُن کے غم خوار ہو تم۔ ہو تم اُن کے حاجت روا یا محمد

نہ خالی گیا کوئی در سے تمھارے ۔ ہو تم بحرِ جود و سخا یا محمد

نہیں شان شاہوں کی جچتی نظر میں ۔ ہوں در کا تمھارے گدا یا محمد


اسی طرح تمام اہل بیت اطہار ، پنجتن پاک اور صحابہ کبار کے لئے تنویرپھول کے دل میں عقیدت و نیازمندی کے جذبات موجزن ہیں۔ مثالوں سے تو یہ پورا مجموعہ بھرا پڑا ہے جو ۳۰۴ صفحات پر مشتمل ہے تاہم مضمون کی طوالت کے پیش نظرمزید مثالوں سے صرف نظر کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ربّ کریم اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صدقے میں تنویر پھول کو ترقیِ درجاتِ ہر دو جہاں عطا کرنے کے علاوہ ان کے کلام کی قبولیت عام اور ہر دل عزیزی میں اضافہ کرے اور قوتِ شعرگوئی میں افزونی عطا فرماے ، آمین ثم آمین