افسر ؔامروہوی اور ان کی نعت گوئی -ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی
مضمون نگار: ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی( علی گڑھ)
مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2
افسر ؔامروہوی اور اُن کی نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
افسرالشعراء مرزاافسر حسن بیگ افسرؔ امروہوی، امروہہ کے ان چند خوش نصیب شعراء میں سے ایک ہیں جن کی شہرت و مقبولیت اور نعت گوئی کی خوشبو بیرون امروہہ بھی دور دور تک پھیل چکی ہے۔ نعت و مناقب کے مشاعروں میں وہ دور دراز کے شہروں تک اس ’’ایوان شاعری‘‘ کی نمائندگی کرنے جاتے رہے ہیں اور داد و تحسین و سرخروئی لاتے رہے ہیں۔
میں نے امروہہ کے ’’ایوان شاعری‘‘ کہا ہے تو یہ محض وطن دوستی اور حسن طن نہیں بلکہ اس کی سند میں دبستان لکھنؤ کے نمائندے، محشرؔ لکھنوی کا یہ شعر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ؎
امروہہ درحقیقت ایوان شاعری ہے
مولد ہے مصحفی کا محشرؔ ذرا سنبھل کر
درحقیقت کہہ کر محشر نے ہر قسم کے قیل و قال اور شک و شبہ کو ختم کردیا ہے۔
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
افسر ؔاپنی شاعرانہ عظمت کے علاوہ شخصی اور ذاتی حیثیت سے بھی بہت مقبول و محبوب ہیں۔ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ غم و آلام سے بھرپور اس دنیا میں وہ خوش رہنے اور خوش کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ ان کی پُرمزاح اور دلچسپ باتیں ان کی ملاقاتیوں کو ذہنی سکون و مسرت کا احساس کراتی ہیں۔ وہ درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں اور جون 2000ء میں گورنمنٹ ا نٹرکالج امروہہ سے انگریزی ادب کے لکچرر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کی تاریخ پیدائش سرکاری ریکارڈ میں مئی 1942ء درج ہے، ممکن ہے وہ اس سے ایک دو سال قبل ہی خاموشی سے آگئے ہوں۔ بہرحال وہ خود عمر کے لحاظ سے بھلے ہی سٹھیانے کی منزل میں پہنچ چکے ہوں لیکن ان کے فکر و فن عالم شباب سے گزر رہے ہیں۔ ان کی شاعری پر جوبن اور نکھار آرہا ہے۔ ان کی درد و اثر اور عقیدت و محبت سے سرشار نعت و مناقب اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔
دعوت چاہے وہ دعوت طعام ہو یا دعوت مشاعرہ افسرؔ اسے ضرور قبول کرتے اور بہرصورت اس میں شرکت کرتے ہیں۔ موسم کی سختیوں اور طبیعت کی خرابیوں کے باوجود وہ نعت و مناقب کی محفلوں میںشرکت کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ ایسی مجالس میں اگر سخت گرمی، سردی یا آندھی بارش کی وجہ سے گنتی کے چند شاعر ہی شریک ہوں تو ان میں سے ایک افسرؔ ضرور ہوں گے۔ طوفانی بارش کے دوران وہ پائنچے چڑھائے، ایک ہاتھ سے چھتری لگائے اور دوسرے ہاتھ میں ٹارچ دبائے آتے ہوئے نظر آجائیں گے۔ اس حالت میں اور اس طرح سے شرکت نعت و مناقب سے ان کے غیر معمولی شغف کی آئینہ دار ہوتی ہے۔اس وقت وہ اگر یہ کہتے ہیں تو بجا کہتے ہیں۔ ؎
گوش برآواز ہوں جملہ غلامان رسول
نعت آقا کی سناتا ہے ثنا خوانِ رسول
ہُن برستا ہے سر محفل بہ فیضان رسول
جھولیاں پھیلائے بیٹھے ہیں گدایانِ رسول
نعت رسول سننے کو تم بھی ہو بے قرار
اور منتظر ہے رحمت پروردگار بھی
افسرؔ، سرورِکائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا اور ان کے مناقب بیان کرنے کو فرض تصور کرتے ہیں۔ وہ مناقب اصحاب کے بیان کو بھی نعت کا ہی ایک جزو مانتے ہیں اس لیے ہر نعت میں خلفائے اربعہ کی مدح بھی شامل کرتے ہیں۔ انہوں نے خلفائے راشدین کے مستقل مناقب بھی کثرت سے بیان کیے ہیں۔
افسرؔ دبلے پتلے اور چھریرے جسم کے ساتھ دراز قد ہیں۔ چہرے مہرے کی ساخت میں غیر ملکی نہیں ہندوستانی اثرات غالب ہیں۔ قدرے سانولا رنگ، ناک نقشہ ابھرا ہوا اور متناسب، چہرے پر داڑھی لیکن اس پر چند روز کے بڑھے ہوئے خط کا گمان ہوتا ہے۔ اب تو اکثر سادہ لباس اور کرتے پاجامے میں نظر آتے ہیں لیکن کالج کی آمد و رفت کے زمانے میں پینٹ شرٹ، سوٹ ٹائی سبھی کچھ استعمال کرچکے ہیں۔ ایام جوانی میں مختلف کھیلوں خصوصاً والی بال کے بڑے شائق اور اس کے بڑے پُرجوش کھلاڑی تھے۔غالباً انہوں نے پلانڈ فیملی کے اصول پر عمل کیا ہے۔ وہ صرف ایک نفر بیوی کے شوہر، ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کے والد ہیں۔ ان کے بیٹے دانش مرزا ڈاکٹر ہیں اور اپنا کلینک چلارہے ہیں۔
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659 |
افسرؔ کا تعلق مغلوں کے ایک معزز خاندان سے ہے۔ اس میں شبہ یوں نہیں کیا جاسکتا کہ محلہ چاہ غوری کی اس بڑی حویلی میں رہتے ہیں جس میں سبھی مکان مغلوں کے ہیں اور جس کے مکینوں نے حویلی کے پھاٹک پر ’’مغل گیٹ‘‘ لکھوا کر اسے نشق کالحجر بنادیا ہے۔ ان کی تعلیمی استعداد بھی غیر معمولی ہے وہ انگریزی اور اردو ادب کے علاوہ سیاسیات میں بھی ایم۔ اے۔ ہیں اور بی۔ ایڈ بھی۔ انہوں نے درس و تدرس کے فرائض یو۔پی کے مختلف شہروں کے گورنمنٹ انٹر کالجوں میں ادا کیے ہیں۔
افسرؔ نعت گوئی میں مفتی نسیم احمد صاحب فریدی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں۔ اکثر مقطعوں میں انہوں نے فریدی صاحب سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ عقیدے اور مسلک کے اعتبار سے ان کا رجحان ’’صلح کل‘‘ کی طرف ہے، وہ عقیدے اور مسلک سے وابستگی کے نہیں، حب رسول ﷺکے قائل ہیں۔ انہیں جہاں بھی اور جس میں بھی حب رسولؐ نظر آتا ہے وہ وہاں جاتے ہیں اور اسی کو قدر مشترک مان کر تعلق قائم کرتے ہیں اسی لیے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی مخاطب کرکے کہتے ہیں۔ ؎
معتقد اشرف ہو، چاہے رضا کا ہو مرید
وہ کھرا ہے جس کے دل میں ہے محبت آپ کی ﷺ
محبت اصل ایمان ہے، حب رسول ﷺہی کھرے کھوٹے کی کسوٹی ہے اسی لیے وہ کسی شخص کے عقیدے و مسلک کو نہیں اس میں حب رسو ل ﷺ کی کیفیت و کمیت کو دیکھتے ہیں اور یہ گنج گراں مایہ کم ہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ افسرؔ کے خیال میں یہ محض خدا کی دین ہے۔ ؎
قید مسلک کی نہیں، شرط عقیدے کی نہیں
جانے کس وقت وہ کس دل میں محبت رکھ دے
کوئی بھی مسلک ہو، گمراہی کا امکان ہی نہیں
آدمی کو صدق دل سے ان کا ہونا چاہئے
وہ علم و فضل، عبادت و ریاضت اور زہد و ورع کو حب رسول ﷺکے بغیر بے معنی و بے کار سمجھتے ہیں، وجہ نجات تو بس حب رسول ﷺ ہے۔ ؎
عشق شرط ہے، ورنہ کچھ نہ کام آئے گا
زہد کیا، ریاضت کیا، علم کیا، عبادت کیا
علم بے نور ہے سجدے بھی ہیں بیکار اگر
آپ ﷺ کی خاک کفِ پا نہیں سر پر آقا ﷺ
جن کے سینوں کو میسر ہے محبت ان کی
زہد ان کا ہے، عمل ان کے، عبادت ان کی
"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی |
اپنے مسلک کو صحیح اور دوسرے مسالک کوغلط سمجھنا فطری بات ہے لیکن اس کے لیے پُرتشدد حرکات پر آمادہ ہونا اور تعصب و تنگ نظری کا مظاہرہ کرنا معیوب و مذموم ہے اسی لیے افسرؔ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مخاطب کرکے کہتے ہیں۔ ؎
جس کو دیکھو اپنے مسلک کو بتاتا ہے کھرا
فیصلہ تو حشر میں ہوگا تمہارے سامنے
افسرؔ اسلام کو ہمہ گیر اور آفاقی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام نوع انسانی کا مقتدا و پیشوا مانتے ہیں۔ اس لیے اسلام اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بریلی اور دیوبند جیسے چھوٹے چھوٹے خانوں میں منقسم اور مقید کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ؎
دیوبند اور بریلی میں مقید ہوجائے
اتنا چھوٹا نہیں اسلام رسول ﷺ عربی
دیوبند اس کو بتائو یا بریلی تم کہو
ہم کو ساقی سے غرض ہے کچھ ہو مے خانے کا نام
آج انسان مختلف مذاہب اور مسالک میں منقسم ہیں، ان کی تنگ نظری خود کو ان گھروندوں میں مقید رکھ کر خوش ہے حالانکہ سب سے بڑا شرف تو انسانیت و شرافت ہے اور جو صحیح معنوں میں انسانیت و شرافت سے مشرف ہوگا، حب رسول سے بھی سرشار ہوگا۔ اسی لیے افسرؔ یہ التجا کرتے ہیں۔ ؎
وہابی کوئی، کوئی بدعتی ہے
مرے آقا، مجھے انسان رکھنا
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659 |
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں حرف آخر تو یہ ہے۔ ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ مگر منطق و فلسفہ زدہ علماء نے آپ کی حیثیت و مقام، آپ کے علم، آپ کی نظیر، آپ کے اختیارات وغیرہ پر طرح طرح کے سوال اٹھائے ہیں، صدہا قسم کی قیل و قال کرکے کتنے ہی فتنوں اورجھگڑوں کو جنم دیا ہے۔ یہی لوگ امت کی تقسیم و حرب عقائد کا ذریعہ بنے ہیں لیکن ایک محب صادق ان جھگڑوں اور مباحث سے دور و نفور رہتا ہے بقول اقبال۔ ؎
قندر جز دو حرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
بقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
ایک محب صادق کے نزدیک تو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے بعد آپ افضل ترین، بزرگ ترین، اعلم ترین، بے مثل و بے نظیر اور صاحب اختیار ہیں۔ افسرؔ لایعنی بحثوں سے بچتے ہیں لیکن ان کا حب رسول حق گوئی و بے باکی کے ساتھ ان حقائق کو نظم کراتا ہے۔ ؎
خالق کونین نے کتنا دیا ہے، دیکھئے
جتنا سب کا بھی نہیں اتنا مرے سرکار کا
رب ہے رب العالمین، وہ رحمۃ للعالمین
اس کا ثانی بھی نہیں اور ان کا ثانی بھی نہیں
پہلے تو بے کنار کہو پھر کہو یہ بات
ہیں علم و آگہی کا سمندر مرے رسول ﷺ
کوئی ثانی ہی نہیں جب خالق اکبر ترا
کیوں نہ ہو محبوب تیرا بے نظیر و بے عدیل
اس امتیاز کے شایاں ہیں صرف دو ذاتیں
خدا سا کوئی، نہ ہے کوئی مصطفی جیسا
خالق کی بے مثالی کا سب سے بڑا ثبوت
محبوب ہے کہ اپنی جگہ بے نظیر ہے
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
افسرؔ ’’بعد از خدا بزرگ‘‘ پر یقین کامل رکھتے ہیں اور کسی مباحثہ میں پڑے بغیر کہتے ہیں۔ ؎
لمبی بحثوں میں نہ پڑنا بات بالکل صاف ہے
ہیں خدا کے بعد قصہ مختصر آقا مرے
تخلیق کائنات، مخلوق کی حیات و ممات، نفع و نقصان فعل خداوندی ہے جس میں کسی مخلوق کا کوئی دخل نہیں۔ اطاعت و عبادت مخلوق کا فعل ہے اور خالق اس سے بری ہے لیکن اللہ کے محبوب سے محبت، ان پر صلوٰۃ و سلام اور ان کی مدح و ثنا وہ قدر مشترک ہے جو خالق و مخلوق میں یکساں پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف خود آپ کی مدح و ثنا کی اور صلوٰۃ و سلام کے نذرانے ارسال کئے بلکہ مخلوق کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیا۔ اہل ایمان اور اہل محبت آپ کے حضور بے شمار صلوٰۃ و سلام کے نذرانے پیش کرنے اورطرح طرح سے مدح و ثنا کرنے، سیرت طیبہ بیان کرنے اور نعت گوئی کا فرض ادا کرنے کے باوجود کماحقہٗ اس فرض کو ادا کرنے سے قاصر ہیں اور اس لیے قاصر ہیں کہ آپ کی ذات والا صفات کو کماحقہٗ سمجھنے سے قاصر ہیں اور یہ مجبوریاں اس لیے ہیں کہ خود آپ کے فرمان والا شان کے مطابق ذات رحمت للعالمین کو رب العالمین کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ؎
’’یا ابابکر لم یعرفنی حقیقتی غیر ربی‘‘
(اے ابوبکر میری حقیقت کو میرے رب کے سوا اور کسی نے نہ پہچانا)اسی لیے میرؔافق کاظمی کہتے ہیں۔ ؎
بیاں ثنائے محمد ہو کیا ثنا کی طرح
کہ جانتا نہیں کوئی انہیں خدا کی طرح
حضرت رؤفؔ اپنے عجز کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ؎
میری نہ یہ مجال ہے میرا نہ یہ مقام ہے
نعت حبیب کبریا صرف خدا کا کام ہے
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659 |
افسرؔ اسی حقیقت کے پیش نظر کہتے ہیں۔ ؎
کام بس اللہ کا ہے مدحت ذات رسول ﷺ
اور کوئی جانتا کب ہے مقامات رسول ﷺ
کوئی مداح کب سمجھا حقیقت میرے آقا کی
خدا واحد ہے جس نے کی ہے مدحت میرے آقا کی
کوئی بندہ سمجھ سکتا نہیں عظمت محمد کی
لہٰذا بس خدا کا کام ہے مدحت محمد کی
اللہ جانے عظمت کردار مصطفی
ہم کیا کریں گے مدحت سرکار مصطفی
اس میں کوئی شک نہیں کہ نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی مشکل کام ہے بلکہ بقول عرفیؔ تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ ؎
عرفی مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحراست
آہستہ کہ رہ بر سر تیغ است قدم را
وجہ یہ ہے کہ نعت گوئی جہاں سعادت و رحمت کا باعث ہے وہیں ذرا سی لغزش سے قعصر مذلت میں گرنے کا بھی امکان ہے بقول افسرؔ۔ ؎
محتاط نہ رہیے تو جہنم ہی ملے گا
مدحت مرے سرکار کی آسان نہیں ہے
لیکن بہرحال حب رسول ﷺ کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی جسارت ضرور کی جائے اور اس خطرے کو بخوشی اٹھایا جائے بقول افسرؔ۔ ؎
کام جو سب سے کٹھن ہے، ان کی مدحت ہی تو ہے
پھر بھی میں مدحت سرا ہوں، یہ جسارت ہی تو ہے
آپ کے دور مسعود سے اب تک بے شمار شعراء نے نعت گوئی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کون ایسا سخنور ہوا ہے کہ جو یہ دعویٰ کرسکے کہ واقعی اس نے نعت گوئی کا حق ادا کردیا۔ اسی لیے افسرؔ کہتے ہیں۔ ؎
حق ادا مدحت سرکار دوعالم کا کرے
ہم نے دیکھا نہ سنا ایسا سخنور کوئی
نعت گوئی ہو یا سیرت نگاری، ان کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ جس میں شامل ہونا قابل فخر، وجہ ناز اور سعادت دارین کا باعث ہے۔ بھلا جس سلسلہ میں سرفہرست خود ذات رب العالمین ہو اس میں شامل ہونا کیوں کر باعث فخر نہ ہوگا بلکہ اس افتخار پر افسر تو غرور جیسی مذموم حرکت کو بھی جائز و روا رکھتے ہیں۔ ؎
ممدوح رب کا میں بھی ہوں مداح دوستو!
اس افتخار پر تو ہے جائز غرور تک
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی حمد وثنا اور عبادت و ریاضت سے بے نیاز ہے۔ حسن نیت کے ساتھ چھوٹا سا عمل اور تھوڑی سی بھی عبادت باعث خیر و برکت اور مسعود ہے لیکن نام نمود کے لیے کیا گیا بڑا کام اور ایسی عبادت و ریاضت جس سے غرور زہد پیدا ہوجائے مذموم و مردود ہے۔ ایسی عبادت و ریاضت صدیوں پر بھی محیط ہو تو بے ثمر ہے۔ آپ کے ارشاد کے مطابق قیامت میں غرور زہد کی بنا پر بہت سے عابد و زاہد و اصل جہنم ہوں گے اور عقیدت و محبت اور صدق دل سے پڑھا ہوا ایک بار کا کلمہ یا درود شریف میزان کو اجر و ثواب کی طرف جھکادے گا اور وجہ نجات بن جائے گا۔ افسرؔ پسند خاطر ہونے والے ایک شعر کو بھی نجات اُخروی کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ ؎
ڈھیر ساری نیکیاں زاہد پہ تھیں اور میرے پاس
نعت کا ایک شعر تھا جو پیش داور رکھدیا
افسرؔ جانتے ہیں کہ ان کی مدح و ثنا کا حق تو بھلا کس سے ادا ہوسکتا ہے البتہ نعت گوئی ذریعہ نجات ہوسکتی ہے اس لئے وہ نعت گوئی میں مشغول ہیں۔ ؎
وہ تو یہ ہے حشر میں اک آسرا ہوجائے گا
مجھ سے کیا ان کی ثنا کا حق ادا ہوجائے گا
وہ نعت گوئی کو اس لیے بھی اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ان میں نور ہی نور ہے جو ہر قسم کی ظلمت کافور کرسکتا ہے اسی لیے کہتے ہیں۔ ؎
دور کردیتی ہے ساری تیرگی نعت نبی
ذہن کی، دل کی، لحد کی روشنی نعت نبی
شہر محبوب کی حاضری، کوچہ محبوب میں چہل قدمی اور روضہ محبوب کی زیارت کی آرزو اور تمنا کس محب کے دل میں نہ ہوگی؟ کون سا عاشق ان کے ہجر میں تڑپتا نہ ہوگا لیکن یہ مواقع اور وصال کچھ ہی خوش نصیبوں کا مقدر ہوتے ہیں۔ ہجر ووصال، قربت و فرقت اور محبت و نفرت مقدر سے ہے۔ بلال وصہیب و سلمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) دور دراز کے ملکوں سے آکر شراب وصل کی لذتوں سے شاد کام ہوئے لیکن اویسؓ تھوڑے سے فاصلے کے باوجود محروم و مہجور ہی رہے۔ ابوجہل و ابولہب جیسے کفاران مکہ سب کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود نفرتوں میں غرق رہے لیکن اویس قرنیؒ بغیر زیارت اور سنے سنائے پر ہی ایسے عاشق ہوئے کہ سیدالعشاق قرار پائے۔ دراصل محبت کے لئے قرب مکانی و زمانی نہیں تعلق قلبی ضروری ہے۔ افسرؔ نے بہت ہی صحیح کہا ہے۔ ؎
ہند میں رہ کے کوئی ان کے قریں ہوتا ہے
دور ہوتا ہے سرِ گنبد خضرا کوئی
دیکھنے والوں میں بوجہل و عمر دونوں ہی تھے
صدق دل سے جس نے دیکھا ان کا شیدا ہوگیا
زیارت حرمین شریفین کے لیے دولت وثروت بھی درکار ہے اور توفیق الٰہی بھی بلکہ توفیق الٰہی ہو تو اسباب و وسال خود بخود مہیا ہوجاتے ہیں۔ دولت و ثروت کی عدم موجودگی اور مواقع سے محرومی کی صورت میں محب صادق ان مقامات کی زیارت کی کوشش عالم تصور میں ہی کرتا ہے۔ قوت متصورہ جس قدر قوی ہوگی، زیارت اسی قدر واضح ہوگی اور پھر ایک ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب اسباب ظاہری کے بغیر وہ جب چاہے زیارت سے مشرف ہوسکتا ہے اور جتنی بار چاہے بلا روک ٹوک حاضر ہوسکتا ہے۔ افسرؔ نے غالباً اپنی قوت متصورہ کو اسی قدر قوی کرلیا ہے اسی لیے وہ یہ دعوے کرسکتے ہیں۔ ؎
طیبہ کو ایک دن میں کئی بار جاؤں میں
مجبوریوں کے ساتھ ہے یہ اختیار بھی
ہزار بار گیا ہوں نبی کے روضے پر
کٹی ہے عمر تصور میں یہ سفر کرتے
یہ تو میں جانوں، مرے سرکار جانیں اور بس
ہو کے آیا ہوں میں کتنی بار ان کے شہر میں
امروہہ میں گھر ہے یہ حقیقت ہے مگر ہم
رہتے ہیں شب و روز مدینے میں تمہارے
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
کبھی تصور سے تسلی نہیں ہوتی اوردرد ہجر ستاتا ہے تو اس طرح التجا کرتے ہیں۔ ؎
یا مجھے بلوائیے یا ان میں شامل کیجئے
دور رہ کر بھی جنہیں حاصل ہے قربت آپ کی
عقیدت و محبت کی نگاہیں محبوب کی ایک ایک چیز کی محبت سے دیکھتے ہیں۔ محبت اس کے نقش پا کو، اس کے آستانے کو چومنے پر آمادہ کرتی ہے، وہاں کی خاک کو بھی سرمہ چشم بناتی ہے یہاں تک کہ سگ کوچہ محبوب بھی عزیز اور پیارا لگتا ہے۔ اہل ظاہر اور جذبہ محبت سے یگانہ افراد اس کو حماقت اور جنون سے تعبیر کرتے ہیں۔ نام ونہاد اہل شریعت عقیدت و محبت کے ہر فعل پر شرک و بدعت کے فتوے لگادیتے ہیں، یہ لوگ عقیدت اور عقیدے کے فرق یا عقیدت اور عبادت میںفرق نہیں سمجھتے۔ عبادت تو صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے لیکن عقیدت کے مراکز بہت سے ہوسکتے ہیں ہاں یہ مراکز اللہ اور اللہ والوں سے منسلک ہونے چاہئیں۔ افسرؔ ایسے لوگوں سے ببانگ دہل کہتے ہیں۔ ؎
شرک کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں، مگر اس در کے پاس
سر تو خود جھکتا ہے پیارے، سر جھکاتا کون ہے
اور کیا ہوتی گدائے مصطفی کی آرزو
آرزو میں آرزو بس خاک پا کی آرزو
ہر تعلق ٹوٹ سکتا ہے مگر وہ ربط خاص
جو جبین شوق کو اس نقش پا کے ساتھ ہے
شریعت اورطریقت میں کیا تعلق ہے۔ دونوں کے مقاصد اور حدود کیا ہیں، دونوں میں کیا فرق ہے؟ یہ سب بڑے طویل اور پیچیدہ مباحث ہیں۔ کثرت تعبیر نے انہیں اور بھی الجھا دیا ہے۔ مختلف قسم کی تعریف اور تعبیر نے انہیں عوام تو کیا خواص کی دسترس سے بھی دور کردیا ہے حالانکہ مختصراً کہا جائے تو دونوں کا حاصل ہے اتباع رسول ﷺ یعنی آپ کے نقش قدم پر چلنا۔ آپ کی پسند و ناپسند کا خیال رکھنا اور اپنے کردار و گفتار کو آپ کے بنائے ہوئے سانچوں میں ڈھالنا۔ افسرؔ کے ایسے ہی مختصر الفاظ و انداز میں شریعت و طریقت کی تعریف پیش کی ہے۔ ؎
ان کے نقش پا ڈھونڈو ان کے نقش پا چومو
اور ہے شریعت کیا، اور ہے طریقت کیا
کوئی رستہ ہو وہ دامانِ رحمت تھامنا ہوگا
شریعت میرے آقا کی، طریقت میرے آقا کی
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659 |
جب حب رسول ہوگا اور جذبہ صادق کے ساتھ ہوگا تو پھر ہر وقت آپ کا تصور اور آپ کی یاد محب صادق کا احاطہ کئے رہے گی اور جب یہ درمقصود حاصل ہوجاتا ہے جو حاصل حیات ہے تو پھر اور کس چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے، اس کے بعد تو محب صادق پر عالم سکوت اور عالم سکون طاری ہوجاتا ہے، لب بند ہوجاتے ہیں اور چشم وا۔ پھر تو کھلی آنکھوں سے محبوب کا دیدار ہوتا رہتا ہے۔ افسرؔ نے اس نفسیاتی کیفیت کو مندرجہ ذیل الفاظ میں پیش کیا ہے۔ ؎
جب در مقصود مل جائے تو سل جاتے ہیں لب
یہ بتائے کون کیا دیتی ہے پیغمبر کی یاد
دھڑکنے کا سلیقہ بھی، حرارت بھی، عقیدت بھی
دلوں کو دل بناتی ہے محبت میرے آقا کی
انتہائے محبت میں محب تنہائی پسند ہوجاتا ہے، اسے خلوت میں سکون ملتا ہے کیونکہ جلوت اور محفل اس کے تصور محبوب میں خلل انداز ہوتی ہے۔ یوں تو یہ تصور ہمہ وقت محیط رہتا ہے لیکن جذبہ عشق میں مدوجزر بھی ہوا کرتے ہیں۔ جب جذبہ شدت و حدّت سے ابھرتا ہے اور اس پر ایسی تنہائی و بے خودی طاری ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ بھی محسوس کرلیتے ہیں۔ ان کے نزدیک بھلے ہی یہ کیفیت خلل دماغ یا جنون کی کیفیت ہو لیکن عاشق صادق کو اسی میں سکون ملتا ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت کو افسرؔ نے اس طرح پیش کیا ہے۔ ؎
پھر خیال سرور کونین آیا ذہن میں
پھر بھری محفل میں دیوانے کو تنہا کردیا
سیرت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثالی اور معیاری سیرت اورنمونہ عمل ہے۔ دشمنان دین اور شاتمان رسول نے اس پر بہت کچھ خاک اڑانے اور اسے دھندلانے کی کوشش کی ہے اور کررہے ہیں مگر بھلا چاند پر کوئی خاک ڈال سکا ہے بلکہ کہتے ہیں کہ چاند پر تھوکا تو اپنے ہی منھ پر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت طیبہ کے جواہر نے دشمنان اسلام سے بھی خراج تحسین وصول کیا ہے۔ ولیم میور اور پروفیسر مارگولیتھ جیسے متعصب مؤر خین سے بھی سیرت پاک کے روشن و تابناک پہلو نظر انداز نہ ہوسکے، وہ بھی گلہائے عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہوئے۔ اسی کے پیش نظر افسرؔ کہتے ہیں۔ ؎
دھوڑ اُڑتی تھی، اُڑتی ہے، اُڑتی رہے
آئینہ آپ تھے، آئینہ آپ ہیں
آئینہ ہے آئینہ سیرت مرے سرکار کی
آئینہ جو دیکھ لے گا آئینہ ہوجائے گا
فی الحقیقت جو لوگ خود کو سیرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سانچے میں ڈھال لیتے ہیں وہ بھی آئینے کی طرح مجلیٰ و مصفیٰ ہوجاتے ہیں۔
خلق محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مثال اولاد آدم میں سے کوئی دوسرا پیش نہیں کر سکا اور یہ کیوں نہ بے مثال ہوتا کہ آپ تکمیل اخلاق کے لئے ہی تشریف لائے تھے۔ آپ کے لب و لہجے، رفتار و گفتار اور کردار عمل سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ آپ کی شیریں مقالی ضرب المثل تھی اسی لیے افسرؔ نے کہا ہے۔ ؎
لہجہ وہ ہے کہ مل نہیں سکتی کہیں مثال
خود قند خود ہی قند مکرر مرے حضور
"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی |
مقالہ طویل ہوتا جارہا ہے لیکن گلشن افسرؔ کی رنگارنگی اس کی متقاضی ہے، اس کا ہر گوشہ یہی کہتا ہے۔ ؎
’’کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است‘‘
بہرحال اس گفتگو کو مختصر اور آئندہ کے لیے موخر کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ افسرؔ نعت گوئی میں اپنا ایک اہم اور منفرد مقام بناچکے ہیں اور اب ’’سرمایہ‘‘ شائع کرکے اپنے سرمایہ دار ہونے کا اعلان و اعتراف بھی کررہے ہیں، اس میں شک نہیں کہ افسرؔ ظاہری اور روایتی سرمایہ دار نہ ہونے کے باوجود ایسے لازوال سرمایہ کے سرمایہ دار ہیں جسے نہ کوئی چھین سکتا ہے اور نہ چُرا سکتا ہے۔ خدا کرے کہ وہ اپنے سرمایہ میں تادیر اضافہ کرتے رہیں۔ اس سدا بہار چمن میں دلفریب و لآویز اور خوبصورت تختہ ہائے گل تیار کرتے اور محبان رسول کے لیے حسن نظر اور فردوس گوش کا سامان مہیا کرتے رہیں۔ آمین ثم آمین بجاہ رحمت للعالمین و سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم وآلہ واصحابہ اجمعین۔
31مارچ 2016ء 21جمادی الآخر 1437ء بروز جمعرات بعمر 74سال داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور حمد و نعت کا صلہ لینے پہنچ گئے، وہاں، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا لیکن فضل ربی شامل حال ہو تو وہاں عیش ہی عیش ہوتا ہے۔
مزید دیکھیے =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
نئے صفحات | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
|