"میر انیس" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
سطر 16: سطر 16:
=== شاعری ===
=== شاعری ===


انیس کی مرثیہ نگاری کے متعدد محاسن معجزاتی زمرے میں آتے ہیںـانکے مراثی کی تعداد کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ کچھ محققین نے یہ تعداد ہزاروں میں بتائ ہے تا ہم زیادہ تر کے نزدیک یہ تعداد ایک ہزار اور بارہ سو کے درمیان ہے۔تاریخ نگار بتاتے ہیں کہ وہ اکثر اوقات ایک ہی وقت میں اپنے کاتبوں کو مختلف شہیدوں کی شہادت کے تین تین چار چار مرثیے بھے لکھواتے تھے۔انکے متعدد مراثی ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔انہوں نے مراثی کے علاوہ بڑی تعداد میں رباعیات/سلام/نوحے اور منقبتیں بھی لکھیں اور اب تک کی تحقیق کے مطابق انکی رباعیات کی تعداد چھ سو کے لگ بھگ ہے اور دیگر اشعار کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
انیس کی مرثیہ نگاری کے متعدد محاسن معجزاتی زمرے میں آتے ہیںـانکے مراثی کی تعداد کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ کچھ محققین نے یہ تعداد ہزاروں میں بتائ ہے تا ہم زیادہ تر کے نزدیک یہ تعداد ایک ہزار اور بارہ سو کے درمیان ہے۔تاریخ نگار بتاتے ہیں کہ وہ اکثر اوقات ایک ہی وقت میں اپنے کاتبوں کو مختلف شہیدوں کی شہادت کے تین تین چار چار مرثیے بھے لکھواتے تھے۔انکے متعدد مراثی ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔انہوں نے مراثی کے علاوہ بڑی تعداد میں رباعیات/سلام/نوحے اور منقبتیں بھی لکھیں اور اب تک کی تحقیق کے مطابق انکی رباعیات کی تعداد چھ سو کے لگ بھگ ہے اور دیگر اشعار کی تعداد لاکھوں میں ہے۔


میر انیس کی شااعری کا منبع و مرکز [[کربلا کا واقعہ]] اور شجاعت و قربانی ہے اور انیس کی زباں کے حسن اور بیاں کی معجز نمائ نے اسے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ ناقدین نے مرثیے کو انگریزی ادب کی صنف [[ایپیک]] کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کی ہے جو درست نہیں۔ میر انیس کے مراثی میں بیاں کردہ مناظر کے علاوہ واقعات اور کردار باقاعدہ دیکھے اور محسوس کیۓ جا سکتے ہیں۔
میر انیس کی شااعری کا منبع و مرکز [[کربلا کا واقعہ]] اور شجاعت و قربانی ہے اور انیس کی زباں کے حسن اور بیاں کی معجز نمائ نے اسے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ ناقدین نے مرثیے کو انگریزی ادب کی صنف [[ایپیک]] کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کی ہے جو درست نہیں۔ میر انیس کے مراثی میں بیاں کردہ مناظر کے علاوہ واقعات اور کردار باقاعدہ دیکھے اور محسوس کیۓ جا سکتے ہیں۔

نسخہ بمطابق 10:16، 31 دسمبر 2016ء

میر انیس نے اپنا پہلا شعر آٹھ سال كی عمر میں اپنے والد كے دوست معروف شاعر ناسخ كے سامنے سنایا جس پر ناسخ ششدر رہ گئے اور پیش گوئی كر دی كہ یہ بچہ سلطنت شعر كا بادشاہ بنے گا۔ وہ شعر یوں ہے <ref> رفعت عباس زیدی ۔ http://www.aalmiakhbar.com/blog/?p=670 </ref> ۔۔



كھلا باعث یہ اس بیداد كے آنسو نكلنے كا

دھواں لگتا ہے آنكھوں میں كسی كے دل كے جلنے كا

پیدائش

میر انیس کی پیدائش کے حوالے سے دو روایات موجود ہیں ایک جنوری 1802 کی اور دوسری1803 کی تاہم زیادہ تر محققین نے 1803 ہی کو درست قرار دیا ہے گویا ہر دو روایات کے پس منظر میں انیس دو سو سال سے آسمان ادب پر زوال سے نا آشنا ماہ کامل کی طرح رخشندہ ہیں۔


شاعری

انیس کی مرثیہ نگاری کے متعدد محاسن معجزاتی زمرے میں آتے ہیںـانکے مراثی کی تعداد کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ کچھ محققین نے یہ تعداد ہزاروں میں بتائ ہے تا ہم زیادہ تر کے نزدیک یہ تعداد ایک ہزار اور بارہ سو کے درمیان ہے۔تاریخ نگار بتاتے ہیں کہ وہ اکثر اوقات ایک ہی وقت میں اپنے کاتبوں کو مختلف شہیدوں کی شہادت کے تین تین چار چار مرثیے بھے لکھواتے تھے۔انکے متعدد مراثی ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔انہوں نے مراثی کے علاوہ بڑی تعداد میں رباعیات/سلام/نوحے اور منقبتیں بھی لکھیں اور اب تک کی تحقیق کے مطابق انکی رباعیات کی تعداد چھ سو کے لگ بھگ ہے اور دیگر اشعار کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

میر انیس کی شااعری کا منبع و مرکز کربلا کا واقعہ اور شجاعت و قربانی ہے اور انیس کی زباں کے حسن اور بیاں کی معجز نمائ نے اسے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ ناقدین نے مرثیے کو انگریزی ادب کی صنف ایپیک کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کی ہے جو درست نہیں۔ میر انیس کے مراثی میں بیاں کردہ مناظر کے علاوہ واقعات اور کردار باقاعدہ دیکھے اور محسوس کیۓ جا سکتے ہیں۔

اساتذہ کی اراء

ابولکلام آزاد

ٰٰٰٰٰدنیائے ادب کو اردو ادب کی جانب سے میر انیس کے مرثئے اور مرزا غالب کی غزلیں تحفہ تصور کی جائیں۔ ادبیباتِ اُردو اور اُردو زبان کو قصرِ گمنامی سے نکال کر مراثئ انیس نے بین الاقوامی سطح پر پہنچا دیاٰٰٰٰٰٰ ٰٰٰٰٰ

وفات

انیس کی تاریخ وفات پر تمام محققین کا اتفاق ہے اور انکی وفات 1874 میں بہتر تہتر برس کی عمر میں ہوئ۔ میر انیس اتر پردیش میں فیض آباد کے محلے گلاب باڑی میں پیدا ہوۓ اور اس وقت ہندوستان پر بادشاہ امجد علی شاہ کی حکومت تھی۔ انیس کے والد میر خلیق اور دادا میر حسن مثنوی سحر البیان اور بدر منیر کے خالق اپنے عہد کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھے اور انکے ہی مشورے پر انیس نے غزل گوئ کو خیرباد کہہ کر مرثیہ اور سلام لکھنا شروع کیا۔

تازہ مضمون نظم می فرمود ہر بحر شعر

چشمئہ چشمم شودہم چشمِ کوثر بے انیس

آسماں بے ماہِ کامل سدرہ بے رح الامین

طور سینا بے کلیم اُللہ ممبر بے انیس


کہا جاتا ہے مرزا دبیر نے میر کی وفات پر رو رو کر یہ اشعار برسر منبر پڑھے <ref> ظفر جعفری http://www.aalmiakhbar.com/blog/?p=670 </ref>

حواشی و حوالہ جات