میر انیس

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


میر انیس نے اپنا پہلا شعر آٹھ سال كی عمر میں اپنے والد كے دوست معروف شاعر ناسخ كے سامنے سنایا جس پر ناسخ ششدر رہ گئے اور پیش گوئی كر دی كہ یہ بچہ سلطنت شعر كا بادشاہ بنے گا۔ وہ شعر یوں ہے <ref> رفعت عباس زیدی ۔ http://www.aalmiakhbar.com/blog/?p=670 </ref> ۔۔

كھلا باعث یہ اس بیداد كے آنسو نكلنے كا

دھواں لگتا ہے آنكھوں میں كسی كے دل كے جلنے كا


پیدائش[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

میر انیس اتر پردیش میں فیض آباد کے محلے گلاب باڑی میں پیدا ہوۓ اور اس وقت ہندوستان پر بادشاہ امجد علی شاہ کی حکومت تھی۔میر انیس کی پیدائش کے حوالے سے دو روایات موجود ہیں ایک جنوری 1802 کی اور دوسری1803 کی تاہم زیادہ تر محققین نے 1803 ہی کو درست قرار دیا ہے گویا ہر دو روایات کے پس منظر میں انیس دو سو سال سے آسمان ادب پر زوال سے نا آشنا ماہ کامل کی طرح رخشندہ ہیں۔ انیس کے والد میر خلیق اور دادا میر حسن مثنوی سحر البیان اور بدر منیر کے خالق اپنے عہد کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھے اور انکے ہی مشورے پر انیس نے غزل گوئ کو خیرباد کہہ کر مرثیہ اور سلام لکھنا شروع کیا۔

شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

انیس کی مرثیہ نگاری کے متعدد محاسن معجزاتی زمرے میں آتے ہیںـانکے مراثی کی تعداد کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ کچھ محققین نے یہ تعداد ہزاروں میں بتائ ہے تا ہم زیادہ تر کے نزدیک یہ تعداد ایک ہزار اور بارہ سو کے درمیان ہے۔تاریخ نگار بتاتے ہیں کہ وہ اکثر اوقات ایک ہی وقت میں اپنے کاتبوں کو مختلف شہیدوں کی شہادت کے تین تین چار چار مرثیے بھے لکھواتے تھے۔انکے متعدد مراثی ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔انہوں نے مراثی کے علاوہ بڑی تعداد میں رباعیات/سلام/نوحے اور منقبتیں بھی لکھیں اور اب تک کی تحقیق کے مطابق انکی رباعیات کی تعداد چھ سو کے لگ بھگ ہے اور دیگر اشعار کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

میر انیس کی شااعری کا منبع و مرکز کربلا کا واقعہ اور شجاعت و قربانی ہے اور انیس کی زباں کے حسن اور بیاں کی معجز نمائ نے اسے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ ناقدین نے مرثیے کو انگریزی ادب کی صنف ایپیک کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کی ہے جو درست نہیں۔ میر انیس کے مراثی میں بیاں کردہ مناظر کے علاوہ واقعات اور کردار باقاعدہ دیکھے اور محسوس کیۓ جا سکتے ہیں۔

اساتذہ کی اراء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شیخ ناسخ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ناسخ انیس کے استاد تھے۔ اور انیس کو انیس تخلص ناسخ نے دیا تھا۔اس سے پہلے انیس کا تخلص حزیں تھا۔

'ٰٰٰٰ' ٰٰٰٰایک دن آئیگا کہ انیس کی زبان اور شاعری کی عالمگیر شہرت ہوگی۔ ٰٰٰٰ ٰٰٰٰ

نواب مصطفی شیفتہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تاریخ مرثیہ نگاری میں یہ حقیقت بھی تحریر ہے کہ میر انیس کا معروف مرثیہ ” آج شبیر پہ کیا عالم تنہائ ہے” جب لکھنؤ سے دلی پہنچا تو نواب مصطفی شیفتہ نے صرف اسکا مطلع سن کر اس طرح داد دی کہ ” میر صاحب نے مکمل مرثیہ کہنے کی کیوں زحمت کی مصرع تو خود ہی ایک مکمل مرثیہ ہے”

مرزا غالب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو زبان نے انیس اور دبیر سے مرثیہ گو پیدا نہیں کئے۔ ایسے مرثیہ گو نہ ہوئے ہیں نہ پیدا ہونگے۔ انیس کا مرتبہ نہایت بلند ہے میر انیس کے مقابلہ میں کسی اور کا مرثیہ کہنا میر انیس نہیں خود مرثیہ کا منہ چڑھانا ہے۔ آج لکھنؤ اور دلی میں میر انیس کی مرثیہ گوئ کو معجزہء کلام مانا جاتا ہے <ref> حیاتِ انیس ۔ امجد اشہری </ref>

مولانا الطاف حسین حالی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"الفاظ کو خوش سلیقگی اور شائستگی سے استعمال کرنے کو اگر معیار کمال قرار دیا جائے تو بھی میر انیس کو اردو شعرا میں سب سے برتر ماننا پڑیگا۔ میر انیس کے ہر نقطہ اور ہر محاوہ کے آگے ہر اہلِ زبان کو سر جھکا نا پڑتا ہے۔ اگر انیس چوتھی صدی ہجری میں ایران میں پیدا ہوتے اور اسی سوسائٹی میں پروان چڑھتے جس میں فردوسی پلا بڑھا تھا وہ ہرگز فردوسی سے پیچھے نہ رہتے۔

جوش ملیح آبادی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جوش ملیح آبادی میر انیس کے بارے یوں رقمطراز ہیں


اے دیار لفظ و معنی کےرئیس ابن رئیس

اے امین کربلا باطل فگار و حق نویس

ناظم کرسی نشین و شاعر یزداں جلیس

عظمت آل محمد کے مورخ اے انیس

تیری ہر موج نفس روح الامیں کی جان ہے


ابولکلام آزاد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"ٰٰٰٰٰدنیائے ادب کو اردو ادب کی جانب سے میر انیس کے مرثئے اور مرزا غالب کی غزلیں تحفہ تصور کی جائیں۔ ادبیباتِ اُردو اور اُردو زبان کو قصرِ گمنامی سے نکال کر مراثئ انیس نے بین الاقوامی سطح پر پہنچا دیا"

مضامین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]


وفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

انیس کی تاریخ وفات پر تمام محققین کا اتفاق ہے اور انکی وفات 1874 میں بہتر تہتر برس کی عمر میں ہوئ۔

تازہ مضموں نظم می فرمود در ہر بحر شعر

چشمئہ چشمم شودہم چشمِ کوثر بے انیس

آسماں بے ماہِ کامل سدرہ بے رح الامین

طور سینا بے کلیم اُللہ منبر بے انیس


کہا جاتا ہے مرزا دبیر نے میر کی وفات پر رو رو کر یہ اشعار برسر منبر پڑھے <ref> ظفر جعفری http://www.aalmiakhbar.com/blog/?p=670 </ref>

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]