محاورہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مادہ ح۔و۔ر۔ سے بہت سے الفاظ بنتے ہیں۔ چند ایک ملاحظہ ہوں'

(۱)تحویر یعنی کسی چیز کی حالت کو تبدیل کرنا۔

(۲) محور اُس کیل کو کہتے ہیں جو چکّی کے نیچے والے پاٹ کے بیچ گڑی ہوتی ہے اور اوپر والا پاٹ اُسی کے گِرد گھومتا ہے۔

(۳) حِوار ، ح پر زیر کےساتھ، کے معنیٰ ہیں کسی مسئلہ پر بحث کرنا نیز مکالمہ۔ مزید براں کسی ڈرامہ کی اسکرپٹ یا منظر نامہ کو بھی حوار کہتے ہیں۔

(۴) محاورہ،م پر پیش کے ساتھ، کے معنیٰ ہیں بات چیت، بول چال اور گفتگو۔

لفظِ محاورہ اردو زبان میں مستعمل ہے جس میں یہ چاروں معنیٰ سموئے ہوئے ہیں ۔ زبان کا محاورہ وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔ ہر زبان کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں اور اس زبان کی نثر اور نظم اور روز مرہ کی بول چال انہی اصول کے تحت تشکیل پاتی ہے۔ یعنی وہ اصول زبان و بیان کو آگے بڑھانے میں چکی کی کیل کا مقام رکھتے ہیں۔


ایسے محاورے اور کہاوتیں کثرت سے ملتی ہیں جنہیں اردو روزمرہ میں قرآن و حدیث سے براہِ راست قبول کر لیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اردو خالصتاٙٙ مسلمانوں کی زبان ہو گئی ہے۔ ایسے اثرات دیگر زبانوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔مثلاً انگریزی زبان میں بائیبل سے لیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب قطعاٙٙ یہ نہیں کہ انگریزی عیسائیوں یا یہودیوں کی زبان ہو گئی ہے۔

کچھ اور مثالیں ملاحظہ ہوں:

روز مرّہ کہاوت ہے۔ اللہ کا بول بالا! آیتِ قرآنی ہے۔

كَلِمَۃُ اللَّہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللَّہُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ

الحَمدُلِلّٰہ، اِن شاء اللہ، سُبحان اللہ،اللہُ غَنِی ،ماشا اللہ وغیرہ یہ سب قرآنی جملے ہیں ۔قرآن و حدیث کے علاوہ بہت سے عربی کے محاورہ جات ہیں جو اردو روز مرہ میں جگہ پا گئے ہیں، یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ یہاں صرف ایک اور مثال پر اکتفا ہے کہ:

مَدَّ رِجلَہُ بِقدرِلحِافِہِ۔

ہم نے لحاف کو چادر میں بدل دیا اور محاورہ یوں ہو گیا: چادر دیکھ کے پاوں پھیلاؤ۔


فارسی سے بھی محاورہ جات بھی اردو میں در آئے۔

اردو ہندی کی بیٹی ہے اور فارسی کا دودھ پی کر پلی کے مصداق قدیم زمانہ سے اردو کی تعلیم کے ساتھ فارسی بھی برابر پڑھی جاتی ہے نیز اٹھارویں صدی کے نصف تک دہلی میں حکومتی زبان فارسی ہی رہی۔

چند مثالیں ملاحظہ ہوں:


تا تریاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مُردہ شود۔

من تُرا حاجی بگوئم تو مراپاجی بگو۔

آمدن با ارادت و رفتن با اجازت۔

آب آید تیمم برخواست۔

گاہے گاہے بازخواں قصہء پارینہ را۔


خالص اردو کے محاورے وہ ہیں جو کلچر اور جغرافیائی حدود کی وجہ سے معرض وجود میں آئے۔مثلاً:

دھوبی کا کٙتّا گھر کا نہ گھاٹ کا۔

دو ملاؤں میں مرغی حرام۔

نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔


سب سے زیادہ دلچسپ وہ محاورہ جات ہیں جو بغیر کسی لفظی تبدیلی کے اپنے استعمال کی وجہ سے مختلف معنیٰ دیتے ہیں یا ذرا سی لفظی تبدیلی سے ان کے معنیٰ بدل جاتے ہیں اساتذہ نے ان محاورہ جات سے خوب فائدہ اُٹھایا ہے۔ مثلاٙٙ غالب کہتے ہیں:


نکتہ چیں ہے غمِ دل اُس کو سنائے نہ بنے

کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے


غالب نے اس شعر میں تین محاورے استعمال کئے ہیں اور تینوں ﴿بنانا﴾ کے فعل سے بنائے گئے ہیں ۔


ا۔سنائے نہ بنے ۔ دوسرے کو بات سنانا یعنی سمجھانا مشکل ہو رہا ہے۔

۲۔ بنے بات۔ کام ہو جانا، کامیابی حاصل کرنا۔

۳۔ بات بنانا۔ منھ سے بات نہیں نکل رہی ہے، عزت کے ساتھ مفہوم ادا نہیں ہو پا رہا ہے، کچھ چھپانا ہے کچھ بتانا ہے، جو چھپانا ہے وہ ظاہر ہوا جا رہا ہے، جو ظاہر کرنا ہے اس کے لئے منہ میں ا لفاظ نہیں آ رہے ہیں یا ذہن ساتھ نہیں دے رہا ہے۔


ملاحظہ فرمائیے کہ ﴿بات بننا ﴾ اور﴿ بات بنانا﴾ میں بہت لطیف فرق ہے۔ باعتبارِ گرامر یہ صرف فعلِ لازم اور فعل متعدی کا فرق ہے مگر دیکھئے کہ اس فرق سے محاورہ کہاں سے کہاں سے لے جاتا ہے۔

یہ اُردو کا لفظ ﴿ بنانا﴾عربی کے مادہ ب۔ن۔ی۔ سےمشتق ہے۔ عربی کے اس لفظ کے معنی وہی ہیں جو انگریزی کے الفاظ

To build اورTo construct

سے ادا ہوتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہندی والے بھی اس لفظ کو ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے یہ ہندوستان کی کسی زبان کا لفظ ہو۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سانچہ:باکس زبان

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات


حوالہ جات و حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

  • اس صفحے کا زیادہ تر مواد احمد منیب کا مہیا کردہ ہے ۔ ادارہ ان کا شکر گذار ہے