دبستان ِ نعت ایک دستاویزی رسالہ - ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی( کرناٹک )

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

’’ دبستان ِ نعت‘‘ ایک دستاویزی رسالہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ دبستان ِ نعت‘‘ کا پہلا شمارہ میرے پیشِ نظر ہے اور میں حیران ہوں کہ ڈاکٹر سراج احمد قادری نے فیروزاحمد سیفی کی نگرانی میں اتنا ضخیم خوب صورت اور دستاویزی احمیت کا حامل شمارہ اتنے کم عرصے میں کیوں کر مرتب کر دیا۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی رسالے کو اپنا معیار متعین کرنے میں اور قلم کاروں کا تعاون حاصل کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔سو ’ ’ دبستانِ نعت ‘‘ کے اس پہلے شمارے کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ اس رسالے کے نگراں اور مدیر نے بہت محنت کی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ محنت کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ رسالہ دور تک جائے گا اور دیر تک یاد کیا جائے گا۔ رسالہ کے مشمولات پر نظر کرنے سے احساس ہوتا ہے کہ مدیر موصوف نے رسالہ کو اسم با مسمیٰ بنا نے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پہلے شمارے میں ہی صنف نعت سے متعلق بہت سارے قیمتی مضامین کو جمع کر دیا ہے۔ ان مضامین کے مطالعے کے بعد نعت گوئی کی تاریخ اور اس کی فنی خوبیوں اور اس کے اختصاصی پہلوؤں کا بہت حد ک علم ہو جاتا ہے۔

اتنی بات ہم سبھی لوگ جانتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں اولیائے کرام نے اہم رول ادا کیا تھا اس لیے ایک زمانے تک اردو شعر و ادب کا تعلق روحانیت سے بہت مضبوط تھا۔ اتنا مضبوط کہ جو لوگ مولوی ، مولانا یا عالم اور فاضل ہوتے تھے وہی شاعر اور ادیب بھی ہوتے تھے اور وہی لوگ تفہیمِ شعر و ادب کے میدان میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ مگر بعد میں جب ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا اور انگریزی زبان، انگریزی تہذیب،اور نیٔ علوم و فنون کا چرچا عام ہوا تو اردو زبان و ادب میں بھی انقلابی تبدیلیاں ہوئیں پھر تو صورتِ حال اتنی خراب ہوگئی کہ ادب ، علوم، تہذیب کا ڈھانچہ یکسر بدل گیا۔ نیٔ علوم کی فراوانی نئے لوگوں کے سر پر عبقریت اور امام کا تاج رکھا اور قدیم علوم اور پرانی تہذیب سے جڑے ہوئے لوگ آہستہ آہستہ مدرسوں اور خانقاہوں تک محدود ہو کر رہ گئے۔ یعنی تہذیب کی بنیاد جو پہلے پیغمبر ، پیر اور رِشی مُنی رکھتے تھے اور اس میں اصلاح کا کام ان کے پیرو کار کرتے تھے ان کی جگہ نئی تعلیم کے حامل لوگوں نے لے لی۔ اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھنے اور اسے نشو و نما سے ہم کنار کرنے کا فریضہ بھی وہی لوگ ادا کرنے لگے جو جدید تعلیم سے آراستہ تھے اس سماج ، معاشرہ اور زبان و ادب سبھی کچھ دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک حصہ جدید تعلیمات کی روشنی میں آگے بڑھتا رہا اور دوسرا حصہ دن بدن سمٹتا چلا گیا اور بعد میں لوگوں نے اسے ازکار رفتہ قرار دے دیا۔ اس طرح اردو زبان و ادب کے مزاج میں ہی نہیں اس کی سرشت میں بھی خرابی کی کئی صورتیں پیدا ہو گئیں۔ اس صورتَ حال پر قابو پانے کی کئی لوگوں نے کو ششیں کیں۔ حالی ؔ ،شبلیؔ اور اقبال ؔ اس کی روشن مثالیں ہیں۔ مگر وہ پورے اردو ادب کو نہیں بدل سکے۔ بعد کے لوگوں نے خود ان عبقری حضرات کو کنارے لگانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس طرح صالح ادب یا یوں کہیں کہ مذہب رنگ ادب بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔منقبت ، حمد اور نعت جیسی اصنافِ شاعری کو لوگوں نے بے وقت کی راگنی سمجھ لیا اور انہیں بحیثیت ایک صنفِ ادب کے دیکھنے کہ محض مذہبی جذبے کی تسکین کا ساماں قرار دے دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے نہ تو کبھی نعت گو شعرأ کو اپنے خصوصی مطالعے کا موضوع بنایا ، نہ سیرت منظوم کرنے والے شعرأ پر توجہ کی۔ چند ایک لوگوں نے جامعاتی تحقیق کے لیے ان اصناف کا انتخاب تو کیا مگر ان میں سے بیشتر لوگ ایسے تھے جو کسی بھی طرح صرف سند حاصل کرنا چاہتے تھے اس لیے ان کی تحقیق اور تجزیے سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اب اس تناظر اور پسِ منظر میں اگر ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ فن نعت گوئی کی روایت کو استحکام بخشنے کی راہ پر گامزن ہے تو اسے بہرحال وقت کی ضرورت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یوں بھی آج ساری دنیا میں جس نوعیت کا تہذیبی تصادم جاری ہے اس میں ہر تہذیب کا پروردہ اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے پر آمادہ نظر آرہاہے۔ اپنی جڑوں کی طرف لوٹنا یا اپنی جڑوں سے جڑے رہنا بہت مبارک بات ہے۔بشرطیکہ یہ فرار کی صورت نہ ہو۔

’’ دبستان ِ نعت ‘‘ میں شامل کئی مضامین کافی معلوماتی ہیں۔ ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد اپنے مضمون میں نعت کو ایک منفرد شعری صنف کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کرتے ہوئے بہت سے ایسے پہلوؤں سے آگاہ کرتے ہیں جن پر بہت کم گفتگو ہوئی ہے۔ مگر وہ مستحکم انداز میں نعت کو ایک منفرد صنفِ شاعری ثابت کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اور یہ کام اتنا آسان ہے بھی نہیں۔ کیوں کو صنفِ نعت کی شعریات طے کرنا اس کے سیاق کی وضاحت کرنا بہ حیثیت ایک منفرد شعری صنف کے اس کے تمام فنی لوازمات پر روشنی ڈالنا ایک مختصر مضمون میں ممکن بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس مضمون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

یہ بات واقعی قابلِ غور ہے کہ جن لوگوں نے محض نعت گوئی کے لیے اپنی جان لگا دی آخر ان کی خدمات کا اعتراف کیوں نہیں کیا جاتا ہے ؟ کیا اس لیے نعتیہ شاعری کو تنقید کا موضوع نہیں بنایا جا تا ہے کہ اسے مذہبی جذبات کو ٹھیس لگے گی ؟ یا یہ کہ نعتیہ شاعری کی تنقید کا کوئی پیمانہ ابھی تک وضع نہیں کیا جا سکا ہے ؟ یہ ایک اجتماعی مسٔلہ ہے۔ ہم صرف یہ کہکر سرخ رو نہیں ہو سکتے کہ لوگ نعتیہ شاعری کے مطالعے میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں ؟ یا یہ کہ لوگ نعت گو شعرأ کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے ہیں ؟

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

نعتیہ شاعری کے حوالے سے اس طرح کے مضامین بھی لکھوانے کی ضرورت ہے مثلاً’’ نعتیہ شاعری کا اردو زبان و ادب پر اثر ‘‘ ’’ اردو نعتیہ شاعری کا ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ادب پر ا ثر ‘‘ ’’ اردو زبان و ادب کو نعتیہ شاعری کی دین ‘‘ ’ نعتیہ اور حمدیہ شاعری ایک تقابلی مطالعہ ‘‘ ’’ حمدیہ شاعری کی اتنی قلت اور نعتیہ شاعری کی اتنی بہتات کیوں ؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کے سیکڑوں عناوین قائم کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن محض عناوین قائم کرنے سے تو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ڈاکٹرسید خسرو حسینی کا مضمون بھی کافی معلوماتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اردو کی دوسری اصناف کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہیں کہ ان پر لکھا ہوا شاید ہی کوئی مضمون معلوماتی اور تازہ محسوس ہو تا ہے۔ مگر نعتیہ شاعری کے آغاز و ارتقأ کے بارے میں ہم اتنا کم جانتے ہیں کہ اس پر سنجیدگی سے لکھا ہوا تاریخی نوعیت کا ہر مضمون نیا معلوم ہوتا ہے۔ ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کی اشاعت کاغالباً ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ نعتیہ شاعری پر کُھل کر گفتگو ہو۔ نعتیہ شاعری کی تفہیم اور تجزیے میں لوگ اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کریں۔ اور جن لوگوں نے نعتیہ شاعری کے سرمائے میں اضافہ کیا ہے ان کی خدمات کا اعتراف ادبی پیمانے کی روشنی میں کی جائے۔ مجھے شک ہے کہ ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ سے ان مقاصدکا حصول ممکن ہو سکے گا۔ کیوں کہ مذہب اور عقیدے کی آڑ لے کر لوگ جذباتیت کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو خلوص سے نعتیہ شاعری کی تنقید و تفہیم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں بہت جلد گھبرا کر توبہ کر لیتے ہیں۔ یا پھر ہوتا یہ ہے کہ کسی کی نعتیہ شاعری کے بارے میں کچھ لکھنا ہوتا ہے تو لوگ آنکھ بند کرکے چند توصیفی جملے لکھ دیتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نعتیہ شاعری کے مطالعے کی راہیں روشن نہیں ہو پاتی ہیں۔

صابرؔ سنبھلی اور عزیز احسن صاحب کے مضامین بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔ شخصی مضامین میں منیر احمد ملک ، قاضی محمد رفیق فایز ؔ ، ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی ، فیروز احمد سیفی، ڈاکٹر یحییٰ نشیط وغیرہ کے مضامین لائقِ مطالعہ ہیں۔ طاہر ؔ سلطانی صاحب کا مضمون دلچسپ اور معلومات میں اضافہ کرنے ولا ہے ، ان کا طرزِ تحریر بھی دلکش ہے۔ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ میں رسالے کے تمام مضامین نہیں پڑھ پایا ہوں۔ ممکن ہے کہ جو مضامین پڑھنے سے رہ گئے ہیں وہ پڑھے ہوئے مضامین سے بھی عمدہ ہوں لیکن جس حد تک رسالے کے مشمولات دیکھ سکا ہوں اس سے واضح ہے کہ آپ نے مضامین کا بھی بہت عمدہ انتخاب کیا ہے۔

نعت کے کئی اشعار بے حد پسند آئے۔ اگر تمام اشعار نقل کروں تو اور بھی کئی صفحات سیاہ ہو جائیں گے۔ دوسری زبانوں کی نعتوں اور نعتیہ اشعار کا اردو میں ترجمہ دے کر آپ نے بہت اچھا کام کیا۔ نئی نسل کو تو فارسی اتنی کم آتی ہے کہ نہ آنے کے برابر ہے۔ اب تومدرسوں میں بھی فارسی کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اپنے ادب کی جڑوں کی شناخت آسان نہیں ہے۔ خاص طور سے وہ ادب جس کا رشتہ مذہب ِ اسلام سے مضبوط تر ہے اور وہ اصناف ِ ادب جنکی جڑیں عربی اور فارسی ادب میں گہری اتری ہوئی ہیں ان کی تفہیم تو اور بھی مشکل ہے اللہ کرے آپ کے حوصلے بلند رہیں۔ اور آپ ’’ دبستانِ نعت ‘‘ پابندیِ وقت کے ساتھ نکالتے رہیں۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات