جرید دبستان ِ نعت پر ایک نظر ۔ متین عمادی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Dabastan e naat.jpg


مضمون نگار: متین ؔعمادی( پٹنہ )

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

جریدہ ’’ دبستانِ نعت ‘‘ پر ایک نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ دبستان ِ نعت ‘‘ حمد و نعت کا ششماہی تحقیقی جریدہ ہے جو خلیل آباد ، یو۔پی سے شائع ہوا ہے اور ۴۰۰؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر سید حسین احمد۔ سجادہ نشین دیوان شاہ ارزانی ، پٹنہ اس کے سر پرست ہیں۔ معاو نین میں سید صبیح الدین صبیحؔ رحمانی، کراچی۔ پاکستان ڈاکٹر عبد القادر غیاث الدین فاروقی ( نیو یارک ) اور قاضی اسد ثنائی۔ حیدرآباد اور نگراں فیروز احمد سیفی ہیں جو نیویارک میں رہتے ہیں۔ مدیر میں ڈاکٹر سراج احمد قادری کا نام ہے۔

ایک دن مجھے امریکہ سے فون آیا بات کرنے والے فیروز احمد سیفی تھے جو اس جریدے کے نگراں ہیں ان سے رابطے کا سلسلہ یوں بنا کہ میرا ایک تبصرہ جس کا عنوان تھا مدینہ منورہ سے آنے والی کتب شائع شدہ پندار ان کی نگاہوں سے گزرا شاید مصنف کتاب نے اس تبصرے کو ان کے پاس بھیج دیا تھا۔ تبصرہ پڑھ کر سیفی صاحب نے میرے تبصرے کی تعریف کی اور انہیں اس کا اندازہ ہوا کہ میں بھی شاعر ہوں۔ انہوں نے بہت شستہ و مودبانہ الفاظ میں مجھ سے باتیں شروع کیں۔اور کہا کہ آپ بزرگوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپکا رشتہ بہت مستحکم ہے۔ میرے لیے دعائیں فرمائیے۔ مجھے ندامت کا احساس ہوا کہ ایں خاک را چہ نسبت بہ عالم پاک۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ وہ نعت انسٹی ٹیوٹ قائم کئے ہوئے ہیں آپ نعت لکھتے ہیں یا آپ کے بزرگوں کی نعتیں ہیں تو مجھے بھیجے ان کی گفتگو میں ایسی اپنائیت اور چاشنی تھی کہ میں حیرت زدہ ہو گیا۔ سوچنے لگا کہ امریکہ میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو حُبّ رسول ﷺ سے اس قدر شرسار ہیں کہ نعت انسٹی ٹیوٹ قائم کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بہت جلدنعت کا ایک جریدہ منظر عام پر آنے والا ہے۔آپ کی نعت اُس میں شامل کرونگا میں نے ان کی خواہش کی تکمیل میں کئی نعتیں اور حمد اُنکی خدمت میں بھیج دیں۔ کئی ماہ انتظار کے بعد ایک جریدہ ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کے نام سے موصول ہوا۔ اس جریدہ کو دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ سیفی صاحب کا نام نگراں کی حیثیت سے دیکھ کر سمجھ میں آیا کہ سیفی صاحب نے اسی جریدے کی طرف اشارہ کیا تھا اور اس میں میری بھی نعت شامل تھی۔

مدیر جریدہ سراج احمد قادری کی کاوشیں سراہنے کی لائق ہیں۔ اس میں کئی ابواب قائم کئے ہیں۔ ان ابواب سے پہلے مدیر نے نعتیہ جریدہ نکالنے کی غرض و غایت بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ مجلہ پیش کرنے کا مقصد حمد و نعت کے فروغ و ارتقأ کے حوالے سے ادبا، شعرأ اور محققین کی کاوشوں کو اہلِ علم سے رو شناس کرانا ہے۔ ‘‘ نعتیں اور حمدیں بے شمار لکھی گئی ہیں لیکن یا تو وہ شعرأ کی بیاض تک محفوظ ہیں یا الماریوں کی زینت ہیں۔ مدیر کی مستحسن کوشش ہے کہ عوام کے سامنے اسے منصۂ شہود پر لایا جائے اور اس کی جوت سے لوگوں کے دلوں کو جگمگایا جائے۔ لوگ اس عظیم فن کی طرف متوجہ ہوں۔ بہت سے شعرأ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی حمد ونعت کے لیے وقف کر دی لیکن وہ عوام الناس کی نگاہوں سے دور ہیں۔مدیر کا یہ فرمانا ہے کہ دوسری اصنافِ سخن سے نعت کا سرمایہ زیادہ نظر آتا ہے۔ انہوں نے محبتِ رسول ﷺ کے پاکیزہ نقوش و جذبہ کو پیش کرتے ہوئے مشہور شعرأ کے چند اردو نعتیہ اشعار بھی پیش کیٔ ہیں۔ ان کے پیش کئے ہوئے نعتیہ اشعار کو میں نقل کر رہا ہوں۔ آپ دیکھیں کہ بزرگ شعرأ نے کس انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ ؎


حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

علامہ اقبال ؔ


کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قدر کو نہ شرما

تو اور رضاؔ سے حساب لینا رضاؔ بھی کوئی حساب میں ہے

حضرت رضاؔ بریلوی


اک ر ند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطانِ مدینہ

جگر ؔ مرادآبادی


ہاں ساقی ِ کوثر سے صبا عرض یہ کرنا

اک رند سیہ مست بہت یاد کرے ہے

نفیسؔ لاہوری

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

غمِ رسول فروزاں ہو جس کے سینے میں

وہ ظلمتوں سے گزرتے ہیں روشنی کی طرح

احسان دانشؔ

جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس مجلے میں مدیر نے کئی ابواب قائم کئے ہیں۔ اب میں ان ابواب کی طرف نگاہ ڈالتا ہوں۔ پہلا باب تحمید و تقدیس ہے۔ اس میں تین حمد شامل کی ہے۔ اور یہ لکھا ہے کہ حمد و نعت کا با ہمی رشتہ توحید کے مانند ہے۔ جس طرح کلمۂ توحید لا الہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کے کسی جز کو علاحدہ نہیں کیا جا سکتا ہے اسی طرح حمد و نعت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس مجلے کی پہلی حمد تنویراحمد پھولؔ ( نیو یارک ) کی ہے جن کا تعلق ہندوستان سے ہے لیکن ایک عرصہ سے وہ نیو یارک میں رہ رہے ہیں اور اپنی مصروف ترین زندگی کے باوجود حمد ونعت سے شغف رکھتے ہیں اس طرف مائل ہو کرپُر اثر حمد کہتے ہیں۔ بطور نمونہ ان کی حمد کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔ ؎


تو ہے رحمانِ دنیا بقولِ نبی ﷺ سب پہ تیری عطا تو کرم ہی کرم

آخرت میں رحیم اہلِ ایماں پہ تو کون د ے گا جزا تو کرم ہی کرم

خوان ِیغما ترا ہے بچھا ارض پر، اپنی مخلوق کا تو ہی رزّاق ہے

منکروں کو بھی دنیا میںہے دے رہا ،یہ تحمل ترا، تو کرم ہی کرم

عالم الغیب بے شک تری ذات ہے ،تو ہے نعم الوکیل اور غفار بھی

ہم گناہوں کا ہیں بار سر پر لئے ،تجھ سے ہے آسر،ا تو کرم ہی کرم

تو نے بے مثل قران ہم کو دیا ،ہر ورق میں ہے نورِ ہدایت بھرا

تیرا احسان ہے بعثتِ مصطفی ﷺتو نے خود ہے کہا، تو کرم ہی کرم

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

دوسری حمد طاہرؔ سلطانی کی ہے جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ طاہرؔ سلطانی نے حمد ونعت کے حوالے سے جو خدمت انجام دیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ آپ کراچی سے حمد ونعت کا ایک ماہنامہ ’’ارمغانِ نعت ‘‘ نکالتے ہیں اور حمد و نعت ٹرسٹ قائم کیا ہے۔ اس عظیم خدمت کے ذریعہ انہوں نے اپنی شناخت بنائی ہے۔ ان کی حمد کے بھی تین اشعار ملاحظہ ہوں ۔ ؎


دل میں کچھ بھی نہ رہے رب کی محبت کے سوا

اور کیا چاہیٔے سرکار ﷺ کی چاہت کے سوا

رب کی رسی کو پکڑ، ورنہ بکھر جائے گا

ہاتھ آئے گا نہیں کچھ بھی ندامت کے سوا

کچھ نہیں مانگتا مولا! ترا بندہ تجھ سے

حشر میں سیّدِ عالم کی شفاعت کے سوا

تیسری حمد ابرار ؔ کرت پوری کی ہے جو سرزمینِ دہلی میں قیام فرما ہیں اور حمد و نعت نگاری میں مشغول ہیں۔ ان کے یہاں بھی جذبات اور وارفتگی کا اندازہ لگاییٔ۔


صاحب ِ لطف جود و عنایت سخا ربّنا ربّنا آفریں آفریں

تو نے بندوں کو اعزاز ِ ایماں دیا ربّنا ربّنا آفریں آفریں

دین فطرت کی انساں نے پائی ضیا،گمرہوں کو ملی منزلِ ارتقأ

سرورِ دیں سا بخشا گیا رہ نما ،ربّنا ربّنا آفریں آفریں

زندگیٔ بشر زندگی ہو گئی ،ہر طرف دہر میں روشنی ہوگئی

تو نے بخشی کتاب ِ مبیں کی ضیا ربّنا ربّنا آفریں آفریں

مجلے کے دوسرے باب کا عنوان ’’ گنجینۂ نقد ونظر‘‘ ہے اس میں پانچ مقالے قابلِ مطالعہ ہیں۔میں ان مقالوں کی تفصیل میں نہیں جاونگا۔ کیوں نکہ مضمون کی طوالت سے گریز مقصود ہے۔

تیسرے باب کا عنوان ’’رحمتِ بیکراں‘‘‘ ہے۔ اس باب میں دو مقالے ہیں ایک مقالہ نعت گو غیر مسلم شاعرکرشن کمار طور ؔ پر ہے جس کو فہیم احمد صدیقی نے تحریر کیا ہے۔ دوسرا مقالہ فیروز احمد سیفی کا ہے جس کا عنوان ہے ’’ ڈاکٹر صغریٰ عالم ایک خوش فکر نعت گو شاعرہ‘‘ مدیرِ مجلہ کا بیان ہے کہ ہم نے نظریہ رکھا ہے کہ نعت گو غیر مسلم شعرأ اور خواتین کو بھی نعت گوئی میں ان کا جائز مقام دیا جائے۔ فیروز احمد سیفی نے صغریٰ عالم کی نعت گوئی کو پیش کرتے ہوئے بڑی عمدہ بات کہی ہے۔ ان کے جملے ملاحظہ کیجئے ۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

قدرتِ الٰہی کا نظام کچھ ایسا ہے کہ محبت انسان کا محور و منبع ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس وہ ذات ہے جو محبت کا خالق ہے۔ پھر عظیم ترین ہستی نیّرِ اعظم ﷺ جن سے خود اس ذاتِ مقدس نے محبت کا حُکم صادر فرمایا ہے اور یہی درس دیا ہے کہ یہی صراطِ مستقیم ہے اور خود نبی کی تعریف و توصیف کو اپنی زبانِ مبارک سے یوں ارشاد کر رہا ہے۔ وما ارسلنٰک الاّ رحمۃ للعالمین۔ مگر اس کج فہمی کو کیا کیجیٔ کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو حضور ﷺ کو صرف ایک بشر ماننے پر مُصر ہیں۔ جبکہ غالب ؔ جیسا بادہ نوش شاعر بھی ہوش کے ساتھ کہتا ہے۔ ؎


غالب ؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم

کہ آں ذاتِ پاک مرتبہ دان ِ محمد است

اس مفہوم سے ملتا ہوا اس ناچیز کا بھی ایک شعر دیکھئے۔ ؎

نعت گو سب سے بڑا تو ہے مری کیا ہستی

سب تو قراں کے اشارے ہیں وہاں پر یا رب

متین ؔ عمادی

جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ تیسرا باب ’’ رحمتِ بیکراں ‘‘کے عنوان سے ہے جس میں دو مقالے ہیں پہلا مقالہ غیر مسلم نعت گو شاعر کرشن کمار طورؔ پر ہے ان کے بھی چند اشعار حمد و نعت کے ملاحظہ کے لائق ہیں۔ حمد کے یہ اشعار دیکھئے ۔ ؎

آجائے کہیں جان مری جان میں مولا

اک حمد لکھوں میں بھی تری شان میں مولا

کرشن کمار طورؔبھی جگن ناتھ آزاد ؔ کی طرح مستند نعت گو شاعر ہیں۔ اُنکا ایک مجموعہ نعت ۲۰۰۰؁ ء میں ’’ چشمِ نم‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکا ہے۔ جس میں ۳۵؍ حمد اور پچاس کے قریب نعت و سلام ہیں۔ ایک دو شعر حمد کے اور بھی دیکھئے ۔ ؎


وہی ہے ہم کو عشقِ غیر فانی باٹنے والا

وہی ہے وعدہ ٔ جنّت فشانی باٹنے ولا

وہی ہے جس نے بخشی ہے ضیأ لفظوں کو قرآن کے

وہی ہے نور عِلمِ آسمانی بانٹنے ولا

اب اُن کا نعتیہ شعر بھی نقل کر رہا ہوں۔ ؎

بیاں نقطہ قرآں محمد ﷺ

چراغِ خانۂ ایماں محمد ﷺ

مرتب اُن سے ہوتی ہے محبت

مثالِ رحمتِ یزداں محمد ﷺ

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

دوسرا مقالہ جو ڈاکٹر صغریٰ عالم کے نعتیہ شعری مزاج پر ہے ان کا بھی ایک شعر بطور نمونہ ٔ دیکھئے۔ ؎


میں نہ لکھ پاؤنگی توصیفِ محمد صغریٰؔ

اتنا آسان نہیں توصیفِ پیمبر لکھنا

جریدے کا چوتھا باب ’’ مقالاتِ نعت ‘‘ ہے اس باب میں چودہ مقالات ہیں۔ سبھی اپنی الگ نوعیت رکھتے ہیں۔ ان سبھی مقالات پر تنقیدی نگاہ ڈالنا اور انکو احاطہ تحریر میں لانا آسان نہیں ہے۔ میں یہاں صرف ان کے نام گنوا رہا ہوں۔ ان مقالات کے عنوانات یہ ہیں۔

حرفِ آرزو ،ناعت پر فیضانِ منعوت ، انسان کامل ﷺ کا ذکرِ خیر ، مظفر ؔ وارثی کا حمدیہ آہنگ ، طاہر ؔ سلطانی کے نعتیہ کلام ( نعت روشنی) کا تنقیدی جائزہ ، غیر منقوط حمدیہ و نعتیہ شاعری کا اجمالی جائزہ ، حمدِ اِلہ جلّ جلالہ و مدحِ رسول ﷺ ،میلادِ اکبرؔ ایک مطالعہ ، نعتیہ شاعری کا تاریخی پسِ منظر ، مقبولِ بارگاہِ رسالت نعت گو شاعر حضرت رؤفؔ امروہوی ، اعجاز ؔکامیٹھوی کی نعتیہ شاعری ، علمأ گھوسی کی نعت نگاری ، مولانا فروغؔ اعظمی اور ان کی نعتیہ شاعری ، نشارؔکریمی ایک قادرالکلام نعت گو شاعر،ان مقالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مدیر موصوف نے سعیِ بلیغ سے کام لیا ہے۔ اور نعتیہ و حمدیہ شاعری پراچھا مواد فراہم کیا ہے۔

اس جریدے کا پانچواں باب گوشۂ جامیؔ کے عنوان سے ہے جس میں حضرت جامی ؔ پر چار مضامین ہیں۔ ان مقالات میں جامی ؔ سے متعلق اچھے خاصے تذکرے ہیں۔ ان کی مشہور فارسی نعتوں کا اردو ترجمہ بھی ہے۔ جامیؔ وہ شاعر تھے جو ہر وقت محبت رسول ﷺمیں ڈوبے رہتے تھے ان کے کلام میں جو تاثیر ہے وہ کم شاعروں کے کلام کا خاصہ ہے۔ان کا متصوفانہ رنگ دل کی گہرایوں میں اتر جاتا ہے۔ جامیؔ کے حالات سے متعلق میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا یا کسی سے واقعہ سن رکھا تھایہاں ضمناً تحریر کر رہا ہوں۔ جو دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ کہ جامیؔ جب بھی روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کی خواہش لے کر روانہ ہوتے بادشاہِ وقت کو حضور ﷺ سے حُکم ملتا کہ جامیؔ آرہاہے اس کو لوٹا دو۔ اس طرح حاضری کے بغیر لوٹا دیئے جاتے۔ آخر ایک بار بادشاہِ وقت نے ہمت کرکے پوچھ لیا کہ حضور! وہ اتنا ذوق و شوق سے آتا ہے اور آپ لوٹا دیتے ہیں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا تم نہیں جانتے ہو وہ میرا عاشق ہے اگر آجائے گا تو مجھے قبر سے نکل کر اُس کا استقبال کرنا ہوگا۔اور میں قبر سے نکل جاؤنگا تو دنیا میں تہلکہ مچ جائے گا۔ اس واقعے سے اندازہ لگاییٔ کہ جامیؔ کا کیا مقام تھا۔ مدیر نے اس جریدے کو جامیؔ سے منسوب بھی کیا ہے۔تنویراحمد پھول ؔ نیو یارک نے جامیؔ کی چند مشہور نعتیں پیش کی ہیں اور اُنکا اردو ترجمہ بھی لکھا ہے ان کی پیش کردہ نعتوں کے چند اشعار مع ترجمہ دیکھئے۔ ؎


دو چشمِ نرگسینس را کہ ما زاغ البصر خواند

دو زلفِ عنبرینش را کہ والیّل اذا یغشیٰ

ترجمہ! حضور ﷺ کی دو نرگسی آنکھیں مجھے مازاغ البصر پڑھنے کو کہتی ہیں۔ اور دو عنبریں زلفوں کا کہنا ہے کہ ہم والیّل اذ یغشیٰ پڑھیں۔


ز سرّ سینہ اش جامی ؔ الم نشرح لک بر خواں

ز معراجش چہ می پرسی کہ سُبحان الذی اسریٰ

ترجمہ ! اے جامی ؔ تو حضور ﷺ کے سینہ ٔ اطہرکے راز کے بارے میں الم نشرح پڑھ لے اور ان کی معراج کی شان کیا پو چھنا سُبحان الذی اسریٰ سے ظاہر ہے۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جامی ؔ کے اشعار میں عقیدت کے جو پہلو ہیں وہ بڑی کیفیت رکھتے ہیں۔ اُن کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہوا ہے۔ ؎


ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب

ہنوز نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبیست

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اب گوشہ ٔ جامیؔ کے علاوہ اس جریدے کے چند مقالے ایسے ہیں جن پر نگاہ ِ شوق ٹھہر جاتی ہے جیسے ایک مقالہ ہے۔ ’’ مظفرؔ وارثی کا حمدیہ آہنگ ‘‘ اس کے قلم کار ڈاکٹر عزیز احسن ہیں۔ حمدیہ شاعری وہ ہے جس میں ربّ ذوالجلال کی حمد و ثنا کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک بندہ اپنے خالق کی جتنی بھی تعریف کرے، جتنی بھی ثنا کرے کم ہے۔ وہ کرم و فضل کا ایسا بہتا دھارا ہے جس کو توصیف کی زبان دینا مشکل ہے۔ بہترے شعرأ حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتے ہیں۔ دیکھئے خسروؔ کس انداز سے فرماتے ہیں۔ ؎


ما یم تحیر و خموشی ہمہ آفاق بگفتگویت

اور خدا بھی فرما رہا ہے تم میری کن کن نشانیوں کے منکر بنو گے۔ شاعر اپنی بساط بھر کوشش کرتا ہے کہ شاید اُسکا ایک شعر بھی مقبولِ بارگاہ ہو جائے اور نجات کا ذریعہ بن جائے۔ مظفر ؔ وارثی کا حمدیہ آہنگ بڑا دلکش ہے۔ انہوں نے اپنے تحت الشعور کو مسجد قرار دیتے ہوئے کس خوبی سے کہا ہے۔ ؎


مسجد الفاظ میں بھی دے رہا ہوں میں اذاں

میرا فن ، میرا ہُنر، میرا ادب تیرے لیے

اس مضمون میں انکے بہت سے اچھوتے اور دلکش حمدیہ اشعار بھی ہیں۔ مگر میں ان کے چند اشعار پیش کرکے اپنی تنقیدی نگاہ کو سمیٹ رہا ہوں ، آپ ان کے اشعار سے لطف اندوز ہوں ۔ ؎


زمینِ تیرہ کے منھ سے لگا دیا کس نے

مہ و نجوم بھر ا آسماں کا پیالہ

میں ان اشعار کو پڑھکر خود عجیب کیفیت میں ڈوب گیا ہوں۔ جی چاہتا ہے کہ ان کے چند شعر اور بھی آپ کے گوشِ گزار کر دوں۔ وحدت الوجود کے مسئلہ کو بڑی خوبی سے مظفر ؔ وارثی نے اپنے اشعار میں ڈھال لیا ہے ۔ ؎


خدا ہے ایک مگر ایک کی بھی حد میں نہیں

اکائی اس کی کسی زمرہ ٔ عدد میں نہیں

مظفرؔ وارثی کی حمدیہ شاعری میں جو تنوع اور ہنر مندی کے پہلو ہیں وہ بے شمار اور قابلِ دید ہیں۔ چند اشعا اور پیش کرکے اپنی بات کو ختم کر رہا ہوں ان اشعار کو دیکھیٔے اور جھوم جائے ۔ ؎


دنیائے رنگیں کی دلہن جاتے لمحوں کی ڈولی میں

شبنم کی ابرق پھولوں پر موتی دریا کی جھولی میں

یہ کس کی مینا کاری ہے ! کون ایسی خوبیوں والا ہے؟

بندو اللہ تعالیٰ ہے

دوسرا مقالہ جس نے میری دید کو اپنی طرف کھینچا ہے وہ ہے طاہرؔ سلطانی کے نعتیہ کلام ’’ نعت روشنی ‘‘ کا تنقیدی مطالعہ ہے۔ اس مقالے میں طاہر ؔ سلطانی کی نعتیہ شاعری پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مقالہ نگار نے یہ بتانے کہ کوشش کی ہے کہ طاہر ؔ سلطانی نے سرکار دو عالم ﷺ کی عملی زندگی کو ماحصل بنانے پر زور دیا ہے اور یہ بتایا کہ سرکار دو عالم ﷺ کا اسوہ ہی ایک مومن کی اصلی زندگی ہے۔ بطور نمونہ ان کے چند اشعار دیکھئے۔ ؎


سرورِ دیں کا اگر سامنے کردار رہے

مہکا مہکا ہوا پھر اپنا بھی کردار رہے

آپ کی نسبت سے ہم کو روشنی مل جائے گی

آپ کے علم و عمل سے آگہی مل جائے گی

جو غلام سید ابرار دل سے بن گیا

اس کو رحمت سے مزّین زندگی مل جائے گی

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اس جریدے کے اہم مقالوں میں غیر منقوط حمدیہ و نعتیہ شاعری پر یہ بہت اہم مقالہ ہے۔ اس کو طاہر ؔ سلطانی نے بڑی محنت سے لکھاہے۔ غیر منقوط کلام وہ بھی حمد و نعت میں مشکل امر ہے۔ اکبر بادشاہ کے دربار میں رہنے والے فیضی ؔ نے’’ سواطع الالہام ‘‘ نام کی غیر منقوط تفسیر قرآن لکھ کر دنیا میں اپنا نام روشن کیا گرچہ وہ تفسیر مکمل نہیں ہے پھر بھی اُنکا یہ کارنامہ شہرت کا سبب بنا۔ اسی طرح کچھ اور خوش نصیب افراد نے غیر منقوط سیرت لکھنے کی کوشش کی ہے جن میں ایک نام ولی رازی کا ہے۔ غیر منقوط حمد و نعت لکھنے والے شعرأ خال خال ہیں لیکن مقالہ نگار طاہر ؔ سلطانی نے اپنی تحقیق سے دس غیر منقوط کلام لکھنے والے شعرأ کے نام لییٔ۔ یہاں میں ان شعرأ کی جھلکیاں ہی پیش کر رہا ہوں۔ مقالہ نگار نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ یوں تو بیسوں غیر منقوط حمدیہ و نعتیہ اشعار لکھنے والے شعرأ ہیں لیکن انہوں نے صرف انہیں شعرأ کو لیا ہے جن کا کلام زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظرِ عام پر آچکا ہے۔ اس غیر منقوط کلام میں انہوں نے پہلا نام سیّد محمد امین عالی شاہ کا لیا ہے ان کے دو غیر منقوط مجموعے منظرِ عام پر آئے ہیں۔ انہوں نے عربی زبان میں بھی غیر منقوط کلام پیش کیٔ ہیں۔ اس مجموعہ کا نام ’’ محمد رسول اللہ‘‘ ﷺ رکھا ہے اور اردو میں غیر منقوط کلام کے مجموعہ کا نام ’’ محمد ہی محمد‘‘ ﷺ رکھا ہے۔ عربی مجموعہ میں ۳۳ ؍منظومات ہیں جن میں ۱۲؍ حمدیں ہیں ، اکیّس نعتیں ہیں۔ نعت و حمد سے پہلے نثری طور پر آغاز کلام بھی کیا جو غیر منقوط ہے۔ میں اس کی سطریں نہیں پیش کرکے شاعری کی صلاحیت واضح کر رہا ہوں ملاحظہ کیجئے:-

’’ کروڑوں حمد ہوں سارے عالم کے مالک و مولا اور حاکم ِ اعلیٰ کے لیئے کہ اس کی امداد و عطا سے سرکار دو عالم سرورِ اولاد ِ آدم صلی اللہ علیٰ زوجہ و اٰلہٖ وسلم کے سارے مدح سراوں سے اوّل اس لا علم اور معمولی آدمی کو اس رسالہ کی لکھائی کا حوصلہ ہوا کہ اس کا ہر کلمہ اور مصرع اردوئے معرّاے مسطور اور مہر ولائے رسول سے معمور ہے۔ ‘‘ اب ان کے غیر منقوط کلام کا کچھ نمونہ دیکھئے۔ ؎


ہادئی راہ مولیٰ الوریٰ آ گئے

سارے عالم کے صدرالعلیٰ آگیٔ

ہو کے اللہ کے محمود حامد مگر

دہر کے دردِ دل کی دوا آگئے

مرسلوں کے امام و حسام الہ

سرورِ کُل، دلِ دوسرا آگئے

اب ان کے حمدیہ اشعار بھی ملاحظہ کیجئے۔ ؎


صدائے دورِ عطا لا الہ الا اللہ طوائے راہ ہُدیٰ لا الہ الا اللہ

وہی ہے عالم ِ امکاں کا مالک و مولیٰ دواے درد ِ ولا لا الہ الا اللہ

اسی کے در کا سہارا ہے سارے عالم کو رسل کا ورد ہو ا لا الہ الا اللہ

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

مقالہ نگار نے دوسرے شاعر راغب ؔ مراد آبادی کو فہرست میں رکھا ہے۔ راغبؔ مرادآبادی نے ’’ مدحِ رسول ‘‘ ﷺ کے نام سے اپنا غیر منقوط نعتیہ کلام ۱۹۷۹؁ء میں مرتب کر لیا تھا لیکن ان کے مجموعہ کی اشاعت ۱۹۹۳؁ء میں ہوئی۔ یہ مجموعہ ۱۷۶؍صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کے چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے۔ ؎


محمد کو داد مدّعا لکھ

دو عالم کا سہارا آسرا لکھ

محمد راکع و حماد مولا

اٹھا کلک اور رودادِ حرا لکھ

تیسرے شاعر حضرت شاعرؔ لکھنوی ہیں۔ان کا شمار ممتاز صاحب طرز نعت گو شعرأ میں ہوتا ہے۔ ان کا مجموعہ نعت غیر منقوط ’’ روحِ الہام ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس میں حمد و نعت اور قطعات و رباعیات شامل ہیں۔ اس کی اشاعت کا موقع ۲۰۱۱؁ء میں ہو ا اگر چہ ۱۹۷۶۔۷۷ ء میں مرتب ہو چکا تھا۔ شاعر کا انتقال ۱۹۸۹؁ء میں ہوا ہے۔ مقالہ نگار نے یہ لکھا ہے کہ غیر منقوط کلام کے وصف میں وہ سب کو پیچھے چھوڑ گیٔ ہیں۔ میکانکی پابندی کے باوجود ان کا کلام بوجھل ادق اور بے روح نہیں ہے۔بلکہ ان کی شگفتگی اور بے ساختگی قابلِ دید ہے۔ گویا یہ فنی جمالیات کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ میں یہاں قاری کی ضیافت طبع کے لئے ان کی صرف ایک غیر منقوط رباعی پیش کر رہا ہوں ۔ ؎


ہر گرد سے روح و دل کو سادہ کر لو

ہر لمحہ درودوں کا اعادہ کر لو

مائل ہو کوئی وسوسۂ دہر اگر

سرکار کی مدح کا ارادہ کر لو

شاعر کے مجموعہ نعت و حمد میں ۶۳؍ قطعات ہیں۔ یہ تعداد رسول خدا ﷺ کی حیات ِ مبارکہ سے منسوب ہے۔ فاضل مقالہ نگار نے چوتھے غیر منقوط نعت گو شعرأ میں لطیف ؔ اثر کا نام لیا ہے۔ان کے دو غیر منقوط حمد و نعت کے مجموعے ہیں۔ پہلا غیر منقوط مجموعہ ’’ سرکار دو عالم ‘‘ نام سے ہے۔ اور غیرمنقوط حمدیہ کا نام اہم ہے۔ ان کے بھی دو تین حمدیہ اور نعتیہ اشعار دیکھئے۔ ؎


حمد اللہ کی لکھ رہا ہوں

لمحہ لمحہ اسی کا ہو گیا ہوں

مالکِ دو سرا مدد کر دے

ہر رحم و ہر کرم کی حد کر دے

دل سے اٹھے صدائے اللہ ھو

دل کو گہورۂ احد کر دے

اللہ کے رسول کا کلمہ ادا کروں

اور عام دل کے واسطے راہ ہدیٰ کروں

دل کو مرے ملے درِ احمد کھلا ہوا

ہر لمحہ محو درسِ محمد رہا کروں

مقالہ نگار نے پانچویں شاعرتا بش الوریٰ کو پیش کیا ہے۔ان کے غیر منقوط مجموعہ نعت کا نام ’’سرکارِ دو عالم ‘‘ ہے۔ یہ مجموعہ ۱۰۶؍ صفحات پر مشتمل ہے ان کے بھی چند اشعار دیکھئے۔ ؎


مالک الملک ہے وہ ملک ہے سارا اسکا

آسماں اسکا سمک اسکا ہے صحرا اس کا

لہر در لہر رواں اس کا کرم اس کی عطا

ساحل اس کا ہے ہوا اس کی ہے دھارا اسکا

میرے اللہ مرا ولولہ اعلیٰ کر دے

میرا ہر کام محمد کے حوالہ کر دے

چھٹے شاعر قریشی ؔ کو مقالہ نگار سامنے لایا ہے اور ان کے کئی غیر منقوط اشعار کو اپنے مقالے میں لکھا ہے۔ ان میں سے ایک دو شعر آپ بھی سماعت کیجئے ۔ ؎


محمد ﷺ سا کوئی ہے طٰہٰ دکھا دو

کسی کا محمد ﷺ سا اسوہ دکھا دو

محمد ﷺ کے کلمے سا کلمہ ہے کس کا

محمد ﷺ سا اک حلم ولا دکھا دو

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

چونکہ میرا تبصرہ بہت طویل ہو گیا ہے اور چار سو صفحات کی کتاب پر مکمل تبصرہ معنی رکھتا ہے اس لیے تمام شاعر کے نمونہ ٔ کلام کو پیش نہ کر کے صرف ان کے نام پر اکتفا کر رہا ہوں۔ اس مقالے کے ساتویں شاعر صادق ؔ بستوی ہیں ان کی کتاب کا نام’’ ہادی عالم‘‘ ہے۔ جس میں نثری غیر منقوط تحریر کے ساتھ کچھ غیر منقوط اشعار بھی ہیں۔ آٹھویں شاعر ظفر ؔ ہاشمی قادری ہیں۔ ان کے مجموعہ کا نام ’’ معلم عالم ‘‘ ہے۔ جو ۹۹؍ غیر منقوط نعتوں پر مشتمل ہے۔ مقالہ نگار نے نواں نام قدرت اللہ بیگ راوؔ ملیح آبادی کا لیا ہے۔ راؤؔ ملیح آبادی کہنہ مشق شاعر وں میں تھے۔ ان کا سنِ ولادت ۱۸۷۳؁ء ہے۔ ان کا بڑا کار نامہ غیر منقوط فارسی مثنوی ہے جس کا نام ’’مطالع المحامد ‘‘ ہے۔اس میںچار ہزار تین سو پچپن اشعار ہیں۔ ا س میں ایک قصیدہ ٔ نعتیہ بھی ہے۔ جوش ؔ ملیح آبادی نے اپنی کتاب ’’ یادوں کی بارات ‘‘ میں حضرت راؤؔ کا ذکر خیر کیا ہے۔ آخر میں دسویں شاعر کی حیثیت سے مقالہ نگار نے محسن ؔ ملیح آبادی کا نام لیا ہے یہ زود گو اور قادرالکلام شاعر ہیں ان کے کچھ اشعار بطور نمونہ پیش ہیں۔ جس سے ان کی علمی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، ملاحظہ ہو۔ ؎


ہے اللہ کا ہمسر کہاں اللہ اللہ

وہی ہے ہر اک سے کلاں اللہ اللہ

حمدیہ اشعار :-


کہاں آئے گا وہ سر دل کسی کے

کہ وہ ہے ورائے گماں اللہ اللہ

نعتیہ اشعار :۔


علم و عمل کی آگہی صلِ علیٰ محمد ﷺ

علم ہے اس کا سر مدی صلِ علیٰ محمد ﷺ

سارے رسولوں کا امام اس کی عطا دوام

اللہ رے اس کی سروری صلِ علیٰ محمد ﷺ

یہ مقالہ بہت عمدہ مقالوں میں ہے اور تحقیقی مقالہ ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ صنعتِ عاطلہ میں جن شعرأ نے کلام لکھے وہ قابلِ مبارک ہیں ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کا آخری باب کا عنوان ’’ گلہائے عقیدت ‘‘ ہے۔جس میں۴۳؍ شعرأ کی ایک مکمل نعت پیش کی گئی ہے۔جس میں علیم صبا ؔ نوید ی کی سہ سطری شاعری بھی ہے اس کے علاوہ ایک شاعر کا نعتیہ دوہا بھی ہے۔ چہار در اک یعنی (Foure in one ) کے عنوان سے ایک قابلِ دید نعت بھی ہے۔ مجلے کے آخر میں مدیر نے اور فیروز احمد سیفی نے اہلِ علم و ادب سے گذارش کی ہے کہ اپنا معیاری کلام اور مضامین بھیجیں تاکہ مجلہ کو عمدہ سے عمدہ بنایا جائے۔ میںڈاکٹر سراج احمد قادری اور فیروز احمد سیفی کو دل کی گہرایوں سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے عمل کو قبول کرے اور ان کے درجات بلند کرے آمین۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات