"بانی اسلام اے خورشید تابان عرب منشی بشیشور پرشاد منور لکھنوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 2 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 3: سطر 3:
شاعر : [[ منشی بشیشور پرشاد منور لکھنوی ]]
شاعر : [[ منشی بشیشور پرشاد منور لکھنوی ]]


=== نعت ِ رسول ِ
=== {{نعت}} ===




بانیءاسلام اے خورشید تابان عرب
بانیءاسلام اے خورشید تابان عرب


اے محمد مصطفی جان عرب شان عرب
اے محمد مصطفی جان عرب شان عرب


ظل اقدس میں پھلا پھولا گلستان عرب
ظل اقدس میں پھلا پھولا گلستان عرب


جگمگایا نور وحدت سے بیابان عرب
جگمگایا نور وحدت سے بیابان عرب


آپ کے پیغام کی بنیاد تھی الہام پر
آپ کے پیغام کی بنیاد تھی الہام پر


اک نئی دنیا بسا ڈالی خدا کے نام پر
اک نئی دنیا بسا ڈالی خدا کے نام پر




اپنے مسلک کے محافظ اپنی امت کے کفیل
اپنے مسلک کے محافظ اپنی امت کے کفیل


سینہءشفاف کی خاک مدینہ ہے دلیل
سینہءشفاف کی خاک مدینہ ہے دلیل


آپ نے کردی نجات روح کی پیدا سبیل
آپ نے کردی نجات روح کی پیدا سبیل


حشر میں اہل صفا کے آپ ہی ہونگے وکیل
حشر میں اہل صفا کے آپ ہی ہونگے وکیل


لاکھ کعبے ضوفشاں تھے دیدہءپرنور میں
لاکھ کعبے ضوفشاں تھے دیدہءپرنور میں


روشنی پیدا نہ تھی ایسی چراغ طور میں
روشنی پیدا نہ تھی ایسی چراغ طور میں
سطر 45: سطر 34:


آپ پر نازل خدائے پاک نے قرآں کیا
آپ پر نازل خدائے پاک نے قرآں کیا


سرمہءتوحید سے وا دیدہءعرفاں کیا
سرمہءتوحید سے وا دیدہءعرفاں کیا


آشکارا زندگی زندگی کا جوہر پنہاں کیا
آشکارا زندگی زندگی کا جوہر پنہاں کیا


پیکر اقدس کو رشک کعبہءایماں کیا
پیکر اقدس کو رشک کعبہءایماں کیا


جو نہ سمجھیں آپ کا رتبہ وہ اہل دل نہیں
جو نہ سمجھیں آپ کا رتبہ وہ اہل دل نہیں


اور کوئی جادہءتسلیم کی منزل نہیں
اور کوئی جادہءتسلیم کی منزل نہیں
سطر 64: سطر 48:


وا نہ ہے چشم ظمیر اب تک نہ صاحب دل ہوں میں
وا نہ ہے چشم ظمیر اب تک نہ صاحب دل ہوں میں


دور ہے کوسوں جو بیداری سے وہ غافل ہوں میں
دور ہے کوسوں جو بیداری سے وہ غافل ہوں میں


ناشاس راز پنہان حق و باطل ہوں میں
ناشاس راز پنہان حق و باطل ہوں میں


کیسے پھر اسلام کی تفہیم کے قابل ہوں میں
کیسے پھر اسلام کی تفہیم کے قابل ہوں میں


گو مسلماں میں نہیں پر قائل اسلام ہوں
گو مسلماں میں نہیں پر قائل اسلام ہوں


کیونکہ مردان خدا کا بندہءبےدام ہوں
کیونکہ مردان خدا کا بندہءبےدام ہوں
سطر 83: سطر 62:


بانیءاسلام-خوں اسلام کا ہوتا ہے آج
بانیءاسلام-خوں اسلام کا ہوتا ہے آج


خندہ زن حالت پہ دین پاک کے دنیا ہے آج
خندہ زن حالت پہ دین پاک کے دنیا ہے آج


پھر دلوں میں گمرہی کی کیفیت پیدا ہے آج
پھر دلوں میں گمرہی کی کیفیت پیدا ہے آج


رازداں اسلام کا اسلام میں عنقا ہے آج
رازداں اسلام کا اسلام میں عنقا ہے آج


بےخبر قرآن کےمعنی سے کچھ میں ہی نہیں
بےخبر قرآن کےمعنی سے کچھ میں ہی نہیں


عظمت اسلام سے واقف مسلماں بھی نہیں
عظمت اسلام سے واقف مسلماں بھی نہیں
سطر 102: سطر 76:


جانتے ہیں راز مردان خدا اسلام کا
جانتے ہیں راز مردان خدا اسلام کا


ہیں سمجھتے مرتبہ اہل صفا اسلام کا
ہیں سمجھتے مرتبہ اہل صفا اسلام کا


ہے فقط عشق الہی مدعا اسلام کا
ہے فقط عشق الہی مدعا اسلام کا


اور کچھ مقصد نہین اس کے سوا اسلام کا
اور کچھ مقصد نہین اس کے سوا اسلام کا


ہو بنا نفرت پہ جس کی یہ وہ مذہب ہی نہیں
ہو بنا نفرت پہ جس کی یہ وہ مذہب ہی نہیں


دوسروں سے ترک الفت اس کا مطلب ہی نہیں
دوسروں سے ترک الفت اس کا مطلب ہی نہیں
سطر 121: سطر 90:


سرزنش کافر کی اور اسلام ناممکن ہے یہ
سرزنش کافر کی اور اسلام ناممکن ہے یہ


ہو دل آزاری سے اس کو کام ناممکن ہے یہ  
ہو دل آزاری سے اس کو کام ناممکن ہے یہ  


دے کسی کو موت کا پیغام ناممکن ہے یہ
دے کسی کو موت کا پیغام ناممکن ہے یہ


ہاتھ میں لے تیغ خوں آشام ناممکن ہے یہ
ہاتھ میں لے تیغ خوں آشام ناممکن ہے یہ


اور جو کرتے ہیں ایسا آڑ میں اسلام کی
اور جو کرتے ہیں ایسا آڑ میں اسلام کی


دہجیاں اڑتی ہیں ان کے جامہءاحرام کی
دہجیاں اڑتی ہیں ان کے جامہءاحرام کی
سطر 140: سطر 104:


مذہبی دیوانگی اسلام کا عنصر نہیں
مذہبی دیوانگی اسلام کا عنصر نہیں


عقل پر صیقل یہ کرتا ہے جنوں پرور نہیں
عقل پر صیقل یہ کرتا ہے جنوں پرور نہیں


قلب کے جذبات حیوانی کا یہ مظہر نہیں
قلب کے جذبات حیوانی کا یہ مظہر نہیں


نفس کے افعال شیطانی کا یہ مصدر نہیں
نفس کے افعال شیطانی کا یہ مصدر نہیں


اور جو قائل ہے اس کا وہ مسلماں ہی نہیں
اور جو قائل ہے اس کا وہ مسلماں ہی نہیں


بندہءاسلام ہوکیسے جو انساں ہی نہیں
بندہءاسلام ہوکیسے جو انساں ہی نہیں


خون کافر پر نہیں حصر و قیام اسلام کا
اس سے مستحکم نہیں ہر گز نظام اسلام کا
حب عالمگیر سے چمکا ہے نام اسلام کا
ورنہ میں کرتا نہ ہر گز احترام اسلام کا
وید میں تعلیم جو کچھ ہے وہی قرآن میں ہے
 
نقص اگر کچھ ہے تو فہم و دانش انسان میں ہے






کھیل کیوں سمجھا ہے اک اہل شریعت نے اسے
کھیل کیوں سمجھا ہے اک اہل شریعت نے اسے


طاق پر رکھا ہے کیوں اہل عبادت نے اسے
طاق پر رکھا ہے کیوں اہل عبادت نے اسے


کرلیا قبضے میں ارکان حکومت نے اسے
کرلیا قبضے میں ارکان حکومت نے اسے


کردیا بدنام ارباب ریاست نے اسے
کردیا بدنام ارباب ریاست نے اسے


جس کا بانی آپ سا ہادی ہے یہ وہ دین ہے
جس کا بانی آپ سا ہادی ہے یہ وہ دین ہے


اس کی پابندی نہ کرنا آپ کی توہین ہے
اس کی پابندی نہ کرنا آپ کی توہین ہے
سطر 197: سطر 133:


کیوں ہیں تاویلیں یہ الٹی آپ کے احکام کی
کیوں ہیں تاویلیں یہ الٹی آپ کے احکام کی


صبح نورانی میں کیوں شامل ہے ظلمت شام کی
صبح نورانی میں کیوں شامل ہے ظلمت شام کی


پھر ہو عظمت آشکارا آپ کے پیغام کی
پھر ہو عظمت آشکارا آپ کے پیغام کی


لیجیئے آکر خبر عالم اسلام کی
لیجیئے آکر خبر عالم اسلام کی


نام پر مذہب کے ظلم و جور کی بدعت نہ ہو
نام پر مذہب کے ظلم و جور کی بدعت نہ ہو


راہ سے بے راہ یعنی آپ کی امت نہ ہو
راہ سے بے راہ یعنی آپ کی امت نہ ہو

حالیہ نسخہ بمطابق 13:42، 15 اپريل 2017ء


شاعر : منشی بشیشور پرشاد منور لکھنوی

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بانیءاسلام اے خورشید تابان عرب

اے محمد مصطفی جان عرب شان عرب

ظل اقدس میں پھلا پھولا گلستان عرب

جگمگایا نور وحدت سے بیابان عرب

آپ کے پیغام کی بنیاد تھی الہام پر

اک نئی دنیا بسا ڈالی خدا کے نام پر


اپنے مسلک کے محافظ اپنی امت کے کفیل

سینہءشفاف کی خاک مدینہ ہے دلیل

آپ نے کردی نجات روح کی پیدا سبیل

حشر میں اہل صفا کے آپ ہی ہونگے وکیل

لاکھ کعبے ضوفشاں تھے دیدہءپرنور میں

روشنی پیدا نہ تھی ایسی چراغ طور میں


آپ پر نازل خدائے پاک نے قرآں کیا

سرمہءتوحید سے وا دیدہءعرفاں کیا

آشکارا زندگی زندگی کا جوہر پنہاں کیا

پیکر اقدس کو رشک کعبہءایماں کیا

جو نہ سمجھیں آپ کا رتبہ وہ اہل دل نہیں

اور کوئی جادہءتسلیم کی منزل نہیں


وا نہ ہے چشم ظمیر اب تک نہ صاحب دل ہوں میں

دور ہے کوسوں جو بیداری سے وہ غافل ہوں میں

ناشاس راز پنہان حق و باطل ہوں میں

کیسے پھر اسلام کی تفہیم کے قابل ہوں میں

گو مسلماں میں نہیں پر قائل اسلام ہوں

کیونکہ مردان خدا کا بندہءبےدام ہوں


بانیءاسلام-خوں اسلام کا ہوتا ہے آج

خندہ زن حالت پہ دین پاک کے دنیا ہے آج

پھر دلوں میں گمرہی کی کیفیت پیدا ہے آج

رازداں اسلام کا اسلام میں عنقا ہے آج

بےخبر قرآن کےمعنی سے کچھ میں ہی نہیں

عظمت اسلام سے واقف مسلماں بھی نہیں


جانتے ہیں راز مردان خدا اسلام کا

ہیں سمجھتے مرتبہ اہل صفا اسلام کا

ہے فقط عشق الہی مدعا اسلام کا

اور کچھ مقصد نہین اس کے سوا اسلام کا

ہو بنا نفرت پہ جس کی یہ وہ مذہب ہی نہیں

دوسروں سے ترک الفت اس کا مطلب ہی نہیں


سرزنش کافر کی اور اسلام ناممکن ہے یہ

ہو دل آزاری سے اس کو کام ناممکن ہے یہ

دے کسی کو موت کا پیغام ناممکن ہے یہ

ہاتھ میں لے تیغ خوں آشام ناممکن ہے یہ

اور جو کرتے ہیں ایسا آڑ میں اسلام کی

دہجیاں اڑتی ہیں ان کے جامہءاحرام کی


مذہبی دیوانگی اسلام کا عنصر نہیں

عقل پر صیقل یہ کرتا ہے جنوں پرور نہیں

قلب کے جذبات حیوانی کا یہ مظہر نہیں

نفس کے افعال شیطانی کا یہ مصدر نہیں

اور جو قائل ہے اس کا وہ مسلماں ہی نہیں

بندہءاسلام ہوکیسے جو انساں ہی نہیں



کھیل کیوں سمجھا ہے اک اہل شریعت نے اسے

طاق پر رکھا ہے کیوں اہل عبادت نے اسے

کرلیا قبضے میں ارکان حکومت نے اسے

کردیا بدنام ارباب ریاست نے اسے

جس کا بانی آپ سا ہادی ہے یہ وہ دین ہے

اس کی پابندی نہ کرنا آپ کی توہین ہے


کیوں ہیں تاویلیں یہ الٹی آپ کے احکام کی

صبح نورانی میں کیوں شامل ہے ظلمت شام کی

پھر ہو عظمت آشکارا آپ کے پیغام کی

لیجیئے آکر خبر عالم اسلام کی

نام پر مذہب کے ظلم و جور کی بدعت نہ ہو

راہ سے بے راہ یعنی آپ کی امت نہ ہو


(مجموعہءکلام ۔ کائنات دل)

شراکتیں =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صارف: اقتدار خاں

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

منشی بشیشور پرشاد منور لکھنوی | دلو رام کوثری | عرش ملیسانی | غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی