’’نعت گوئی اور میں‘‘ ۔ سید وحید القادری عارفؔ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


سید وحید القادری عارفؔ کا اپنی نعتیہ شاعری پر ایک مضمون

نعت گوئی اور میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پہلا منظر۔میری کمسنی ہے۔ میرے آبائی مکان دیوڑھی حضرت مولوی محمودؒ میں ماہِ ربیع الاوّل کی سالانہ مجلس برپا ہے۔ شہ نشین پرشہرِ حیدرآباد کے بیشتر علماءو مشایخین جلوہ افروز ہیں۔ ایک جانب میرے والد گرامی حضرت مولانا ابو الفضل سید محمود قادری علیہ الرحمہ بھی تشریف فرما ہیں۔قصیدہ خوانوں کی ایک جماعت قصیدہءبردہ شریف پیش کررہی ہے:

مَولَايَ صَلِّ وَ سَلِّمْ دَائِماً اَبَداً

عَلیَ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلقِ کُلِّهِمِ

قصیدہءبردہ ختم ہوتا ہے تو ایک نعت خواں حضرت فصاحت جنگ جلیل کی نعتِ شریف کے اشعار پیش کرتا ہے:

لب پہ جس دم مرے نامِ شہہِ بطحا آیا

عمرِ رفتہ پلٹ آئی کہ مسیحا آیا


جس قدر وادیءغربت میں چبھے تھے کانٹے

پھول سب ہو گئے جس وقت مدینہ آیا


کاش یہ آئے مجھے حکم کہ آ طیبہ میں

میں پکاروں مرے مولیٰ مرے آقا آیا


یا نبی کہہ کے جو کشتی کا اٹھایا لنگر

وجد موجوں نے کیا جوش میں دریا آیا

محفل پر عجیب کیف کا عالم طاری ہے۔ جب مقطع پڑھا جاتا ہے

صرف حبِّ نبوی حشر میں کام آئی جلیلؔ

طاعتیں آئیں نہ زہد آیا نہ تقویٰ آیا

تو بعض حاضرین کی آہیں بلند ہوجاتی ہیں اور آنکھیں اشک ریز ہوجاتی ہیں۔ حضرت والدم علیہ الرحمہ نعت خواں سے حضرتِ جامی علیہ الرحمہ کی نعتِ شریف کی فرمائش کرتے ہیں اور پھر ایک مترنم آواز گونجتی ہے:

نسیما جانبِ بطحا گذر کن

ز احوالم محمد را خبر کن


ببر ایں جانِ مشتاقم بہ آنجا

فدائے روضہء خیر البشر کن


مشرف گر چہ شد جامی ز لطفش

خدایا ایں کرم بارِ دگر کن

یہ سلسلہ اور آگے بڑھتا ہے۔ نعت خواں دوسری نعت چھیڑ دیتا ہے:

چوں شنیدم کہ بہ پرسیدنِ احوال آئی

کرد بیمار مرا حسرتِ پرسیدنِ تو

کہیں سے حضرت والدم ؒ کی نعتِ شریف کی فرمائش ہوتی ہے اور فوراََ نعت خواں اس کی تکمیل کرتے ہیں:

بر درِ نبی جا کن شوکتِ گدا این است

خاکِ آستانش شو اصل کیمیا این است


چشمِ قلب و جاں وا کُن روضہ اش تماشا کُن

بر زمیں یقیں می داں عرشِ کبریا این است


ہر چہ از درش خواھی بیشتر ازاں یابی

معدنِ عطا این است منبعِ سخا این است


غم مخور اگر از غم سینہء تو صد چاک است

نامِ مصطفی بر خواں نسخہء شفا این است


در خیالِ او بودن ہم بیادِ او مردن

نزدِ سالکانِ رہ زُھدِ بے ریا این است


گر جہاں بقتلِ تو جمع گشت باکے نیست

نعرہءمحمد زن تیرِ بے خطا این است


چوں بوصفِ او محمودؔ آمدہ یُزَکِّیْھِم

پس چرا نمی گویم چشمہء صفا این است

غرض یہ کہ عربی ‘ اردو اور فارسی نعتیہ کلام کا ایک طویل سلسلہ رات کے کوئی دو بجے تک چلتا رہتا ہے۔ محفل برخواست ہوجاتی ہے لیکن عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سرشاری‘ عشاق کے دلوں پر ہنوز کیف و سرور کا وہ عالم طاری کئے ہوتی ہے کہ ان سب کی یہی حسرت ہوتی ہے کہ کاش یہ سلسلہ اسی طرح صبح تک چلتا رہتا۔


دوسرا منظر۔ میں حضرت والدم علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوں اور فانی بدایونی کی غزلیات سنا رہا ہوں۔ میری یہ عادت تھی کہ جب کبھی حضرت علیہ الرحمہ کو فارغ دیکھتا تو فوراًَ اُن کے قریب چلا جاتا اوراجازت پا کر مختلف شعراءکا کلام سناتا۔ ان میں کبھی علامہ اقبال کا کلام ہوتا تو کبھی غالب و میر کا کبھی اختر شیرانی کا تو کبھی کسی اور شاعر کا۔ حضرت والدم اشعار سنتے ‘ لطف لیتے‘ میرے سوالات کا جواب دیتے ‘کبھی خود بھی کچھ اشعار فی البدیہہ موزوں فرماتے اور مجھے ترنم میں سنانے کا حکم دیتے۔ اسوقت میں نے فانی کی غزل سنانی شروع کی:

مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں

ہم جان دے کے دل کو سنبھالے ہوئے تو ہیں

والد صاحب ؒ نے فوراََ اپنی نعت لکھوانی شروع کردی:

سینے میں اُن کے عشق کو پالے ہوئے تو ہیں

تاریکیوں میں غم کی اُجالے ہوئے تو ہیں


ہم اہل تو نہیں مگر ائے ذاتِ مصطفی

پھر بھی ترے کرم کے حوالے ہوئے تو ہیں


محمودؔ اب نگاہِ کرم کا ہے انتظار

ہنگامِ سحر کچھ مرے نالے ہوئے تو ہیں

اسی طرح ایک دفعہ سیماب اکبرآبادی کے یہ شعر میں نے والد صاحب علیہ الرحمہ کے سامنے پڑھے

مرے سینے میں دل رکھا مرے منہ میں زباں رکھدی

جہاں رکھنے کی جو تھی چیز قدرت نے وہاں رکھدی


یہ کس نے شاخِ گُل لا کر قریبِ آشیاں رکھدی

کہ میں نے شوقِ گُل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھدی

والد صاحب علیہ الرحمہ نے قافیہ کی تبدیلی کے ساتھ فوراََ اپنے نعتیہ اشعار لکھوادئے

درِ خیر الوریٰ پر میں نے جب اپنی جبیں رکھدی

ہوا محسوس پیشانی سرِ عرشِ بریں رکھدی


پئے نظارہء فردوس خلّاقِ دوعالم نے

حرم کی چاردیواری میں جنّت کی زمیں رکھدی


سکوں پیہم جو تھا مطلوب میرے قلبِ مضطر کو

تو اس جانِ تمنّا کی جگہ دل کے قریں رکھدی


نظر جس جس جگہ اُن کا مجھے نقشِ قدم آیا

وفورِ شوق میں میں نے جبیں اپنی وہیں رکھدی


بجز عشقِ نبی کے دیں مکمّل ہو نہیں سکتا

خدا نے خود اسے ایماں کی شرطِ اوّلیں رکھدی


جو پنہچا اُن کے کوچہ میں عجب حالت ہوئی میری

کہیں ہوش و خرد کھوئے متاعِ دل کہیں رکھدی


اب اس منزل پہ ہے محمودؔ جذبہ عشقِ حضرت کا

مقابل آگیا طیبہ جہاں میں نے جبیں رکھدی


تیسرا منظر۔ ہمارے مکان دیوڑھی حضرت مولوی محمودؒ میں ماہِ ربیع الاوّل کا سالانہ نعتیہ مشاعرہ۔ صدرِ مشاعرہ استادِ سخن حضرت معز الدین قادری الملتانیؒ مع دیگر اساتذہءکرام شہہ نشین پر موجود ہیں۔ شعراءبکثرت حاضر ہیں ۔ معتمدِ مشاعرہ برادرِ مکرم مولانا سید غوث محی الدین قادری اعظمؔ یکے بعد دیگرے شعراءکو دعوتِ کلام دے رہے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک نعت سننے کو مل رہی ہے۔ چشم و قلب و گوش اس مبارک محفل کے مبارک ماحول سے سرشار ہیں۔ رات کا پچھلا پہر ہے لیکن حاضرینِ محفل میں سے کوئی اپنی جگہ سے جنبش کرنے کو بھی تیار نہیں۔ رفتہ رفتہ صدرِ مشاعرہ کی باری آتی ہے اور ان سے ادباََ گذارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنا نعتیہ کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل فرمائیں۔ حضرتِ معزؔ اپنے منفرد دلکش ترنم میں نعت ِ شریف کا آغاز فرماتے ہیں اور محفل جھوم اٹھتی ہے۔ داد و تحسین کے نعروں سے فضا گونج اُٹھتی ہے۔ یہ ابھی کلام سنا کر فارغ ہوتے ہی ہیں کہ حضرت والدم علیہ الرحمہ فرمائش کرتے ہیں۔ معز ”احتیاط“ سنادو اورحضرتِ معز علیہ الرحمہ کا ترنم ایک بار پھر فضا کو رنگین بنادیتا ہے:

یہ ہے بابِ مصطفی لازم ہے ائے دل احتیاط

ہر تڑپ میں بھی تجھے کرنی ہے شامل احتیاط


ڈگمگا جائے نہ کشتی اُمّتِ سرکار کی

سر اُٹھانا دیکھ کر ائے موجِ ساحل احتیاط


دیکھ کر روضہ کو چاہا تھا کہ چیخوں گر پڑوں

بن گئی ہے اِن تمنّاوں کی قاتل احتیاط


دم بخود اصحاب ہیں لَا تَرْفَعُوْا سن کر معزؔ

حق ادب آموز ہے لازم ہے کامل احتیاط

یہ اور اسی طرح کے کئی منظر ہیں جو آج بھی دیدہ و دل میں محفوظ ہیں۔یہ وہ ماحول تھا جہاں روز و شب اُٹھتے بیٹھتے نعت و منقبت کے پُر کیف اشعار اعماقِ قلب کو جذباتِ عقیدت کی سرشاری سے لبریز کرتے رہتے تھے۔ دل اگر کہیں لطفِ سرنگونی تلاش کرتا تو آواز آتی

بنہہ بر پائے احمد سر کہ یابی صد وقار اینجا

سر اینجا سجدہ اینجا بندگی اینجا قرار اینجا

(آصفجاہِ سابع علیہ الرحمہ)

اور چشمِ تصورسرِ عجز کو سرورِ کائنات علیہ الصلوٰة و السلام کے پائے اقدس پر جھکا پاتی۔ کبھی دردِ دل اپنے علاج کے لئے مضطرب ہوتا تو کوئی ترنم ریز لگتا

مجھے دردِ دل کی دوا چاہئے

غبارِ رہِ مصطفی چاہئے

(فصاحت جنگ جلیل)

اوردل مان لیتا کہ تمام غم و اندوہِ جہان کا علاج آقائے دوجہان کے مدینہءطیّبہ کی خاک ہے جو زندگی میں میسّر ہوجائے تو اکسیر اور بعد مردن نصیب ہوتو جنت میں داخلہ کا پروانہ ہے۔قلبِ مضطر کی تسکین کے لئے کہیں سے کوئی آوازآتی

دلِ حسرت زدہ مایوس کیوں ہے سوئے طیبہ چل

حبیبِ کبریا سے عرض کر اپنی تمنا چل


تصور جب کبھی کرتا ہوں ریگستانِ طیبہ کا

مجھے چلتی ہوئی بادِ صبا کہتی ہے چل آ چل

(مفتی اشرف علی اشرف ؔ)

اور دل واقعی درِ سرکار پر حاضری کے لئے بے تاب ہو اُٹھتا۔ یہ وہ ماحول تھا جو حرارتِ ایمانی رکھنے والے قلوب کی نسبتِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو محکم سے محکم تر کرتا ‘ اس کی مسلسل آبیاری کا ذریعہ بنتااور اسے درجہءعشق پر پنہچا دیتا۔ غلامانِ مصطفیٰ ﷺ اپنے آقا کے عشق کی نعمتِ بے بہا سے بہرہ ور ہوتے اور رات دن اسی عشق کے ترانے چار سو گونجتے رہتے۔ نعت گو شعراءکی کثرت جو والہانہ انداز میں اپنی سرکار سے وابستگی کا روز بروز اظہار کرتے‘ نعت خوان جوشِ عقیدت میں نعتیہ اشعار پیش کرتے‘ نعتیہ محفلیں منعقد ہوتیں جن میں نعتیہ مشاعرے بھی ہوتے اور نعت خوانی کی محافل بھی ہوتیں۔ گھر گھر میں حسنِ عقیدت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا۔ یہی وہ ماحول تھا جس میں میں نے ہوش سنبھالا اور یقیناًَ اسی ماحول کا اثر تھا کہ میری فطرت میں بھی نعت گوئی کا رجحان پیدا ہوا ۔ اپنی نسبتِ غلامی کے اظہار کے لئے اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ ہو بھی نہیں سکتاتھا

میرا ایمان مری جان رسولِ عربی

جان و دل آپ پہ قربان رسولِ عربی

اور پھر اس دلبستگی نے اگر راہِ عشق کی صعوبتوں کو آسان کردیا تو کوئی حیرت نہیں کہ

آپ کا نام لیا جس نے خلوصِ دل سے

اس کی مشکل ہوئی آسان رسولِ عربی

میں نے نعتیہ اشعار کہنے شروع کئے۔ اللہ کے فضل و کرم سے مجھے اپنے گھر میں ہی اپنے والدِ مکرم ذو الفضلِ والکرم کی صورت میں ایک کامل استاد میسر تھے جو قدم قدم پر میری راہنمائی کے لئے موجود تھے۔ انہوں نے جب مجھے اس جانب مایل پایا تو میری بڑی ہمت افزائی فرمائی اور شہرِ حیدرآباد اور بیرون کے نعتیہ و منقبتی مشاعروں میں شرکت کا حکم دیا جن میں بیشتر خود حضرت علیہ الرحمہ کی صدارت میں ہوتے ۔ ان مشاعروں میں شرکت سے جہاں دیگر شعراءاور اساتذہءکرام کے اشعار سننے کا موقع ملتا وہیں اپنے اشعار ان کے سامنے پیش کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوتی۔ ان کی فہرست بہت طویل ہے جس میں حضرت کاملؔ شطاریؒ ‘ حضرت معزؔ ملتانی ؒ ‘ حضرت سیفؔ حمویؒ ‘ حضرت قدرؔ عریضیؒ ‘ ملک الشعرا ءاوجؔ یعقوبی ‘ جناب خواجہ شوقؔ ‘ پیرزادہ بسملؔ ابو العلائی‘ جناب معین الدین بزمیؔ ‘جناب عارفؔ بیابانی وغیرھم جیسی کئی قابلِ قدر شخصیتوں کے نام شامل ہیں۔ اس پر اپنے خاندان کے بزرگوں کی نعتوں کا انمول خزانہ مجھے ہمیشہ دستیاب تھا جن کی ورق گردانی اپنے اس جوہر کو بہتر سے بہتر کرنے کاوسیلہ بنتی گئی۔ان میں سب سے پہلے خود میرے والدِ ماجد حضرت ابو الفضل سید محمود قادری محمود ؔ کے اشعار تھے پھر میرے جدِ امجد حضرت مفتی ابو السعد سید عبد الرشید قادری اخترؔ ؒ ‘ میرے جدِ مادری وحید العصر حضرت سید وحید القادری عارفؔ ؒ ‘ میرے رشتہ کے دادا عاشقِ رسول حضرت مفتی میر اعظم علی شائقؔ ؒ ‘ ان کے صاحبزادے حضرت مفتی میر اشرف علی اشرفؔ ؒ اور میرے رشتہ کے چچا حضرت ابوالحسنات سید ولیؔ القادری ؒ کے اشعار شامل تھے۔ اور پھر یہ عزم پختہ ہوگیا کہ

ہم مدحِ شہنشاہِ امم کرتے رہینگے

یوں پرورشِ لوح و قلم کرتے رہینگے

اپنی بے مایگی کا احساس تھا لیکن ساتھ میں یہ بھی علم تھا کہ

ہر چند کہ ممکن نہیں وصفِ شہہِ طیبہ

نعت ان کی جہاں والے رقم کرتے رہینگے

اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔ نعتیہ اشعار اپنے جذباتِ عقیدت کے اظہار کے لئے بہترین ذریعہ ثابت ہوئے۔جب جذباتِ عقیدت نے مہمیز پائی تو آقا کے دربارِ گہر بار میں حاضری کی آرزو کروٹیں لینے لگی

یوں تصور ہے بندھا کوئے نبی کا دل کو

آنکھ جب بند ہو طیبہ نظر آتا ہے مجھے

نسبتِ غلامی یہ احساس پا رہی تھی کہ

وقت مدت سے تھا جس کا انتظار آنے کو ہے

زندگی کی بےقراری کو قرار آنے کو ہے


جوش میں آنے کو ہے دریائے الطاف و کرم

ائے مشامِ جاں ہوائے مشکبار آنے کو ہے

رحمتِ خداوندی کا ظہورہوا اور ۱۹۸۴ ءمیں بسلسلہء ملازمت حیدرآباد سے جدہ منتقل ہونا میسر آیا۔ وہ منظر جسے چشمِ تصور سے دیکھا کرتا تھا اب نگاہوں کے سامنے موجود تھا۔ زبان سے بے ساختہ نکلا

مدینہ ہی تصور کی مرے منزل نظر آیا

نہیں اس سے نہیں کچھ اور بہتر یا رسول اللہ

اور دل یہ استدعا کرنے لگا

کشش رکھتا ہے ایسی آپ کا در یا رسول اللہ

نہیں اُٹھتا اُٹھائے سے مرا سر یا رسول اللہ


تسلّی سی یہاں ملتی ہے آ کر قلبِ مضطر کو

نگاہوں کو ہے یہ فردوس منظر یا رسول اللہ


نہیں ملتا کہیں درماں ہماری تشنہ کامی کا

نظر ائے مالکِ تسنیم و کوثر یا رسول اللہ


خدا کے واسطے چوکھٹ سے اب نہ دور فرمائیں

مرا سر ہو گیا ہے اس کا خوگر یا رسول اللہ

اللہ سبحانہ تعالیٰ کا جتنا شکر کروں کم ہے کہ اس وقت سے آج تک اس درِ اقدس پر حاضری کا شرف بار بار نصیب ہوا ۔ اب جب کبھی درگہہِ عالی میں حاضری کے لئے روانہ ہوتا ہوں تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ ؎

درِ سرکار پر ہم حاضری کو گھر سے جب نکلے

تمنّا‘ آرزو‘ ارمان‘ خواہش سب کے سب نکلے


یقیں محکم لئے سینے میں آقا کی شفاعت کا

دلِ صد چاک و چشمِ اشکبار و جاں بہ لب نکلے

اور جب صلوٰة و سلام کے لئے جالیءمبارک کے سامنے پیش ہوتا ہوں اس کیفیت کا کیا کہنا


عجب کچھ کیفیت تھی دل کی پیشِ جالیء اقدس

یہ حسرت تھی دمِ آخر نکلنا ہو تو اب نکلے


زباں یوں چپ ہوئی کچھ عرضِ حاجت بھی نہ کر پائی

میں حیراں تھا مرے نالے بھی کتنے با ادب نکلے

دعا ہے کہ مجھے نعت گوئی کی یہ سعادت آئندہ بھی یونہی ملتی رہے اورمیرے ان اشعار کو بارگاہِ نبوی میں شرفِ قبولیت حاصل ہو۔ آقا کے دربار میں اسی طرح بار بار حاضری میرے نصیب میں میسر رہے اور عشقِ رسول علیہ افضل الصلوٰة و التسلیم سے مجھے حظِّ وافر نصیب ہو کہ

زہد و تقویٰ تو نہیں عشقِ پیمبر عارفؔ

میری بخشش کا سہارا نظر آتا ہے مجھے

٭٭٭٭٭