نعت گوئی کا فن : اقوالِ علماے ادب کی روشنی میں ۔ مشاہد رضوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار: ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی

نعت گوئی کا فن. اقوال علماے ادب کی روشنی میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جس طرح دیگر اصناف سخن میں قصیدہ، مثنوی، رباعی، غزل وغیرہ کا اپنا ایک منفرد اور جداگانہ مقام ہے. اسی طرح نعت بھی اپنے اصول وضوابط کے اعتبا ر سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے.دراصل اصناف ادب میں نعت سے زیادہ لطیف، نازک اور مشکل ترین کوئی صنف سخن نہیں اور اس سے کما حقہ عہدہ بر ا ہونا ممکن بھی نہیں اس لیے کہ ذات باری تعالی خود رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا خواں و مدح خواں ہے.

نعت نگار کو اپنا شہباز فکر بڑے ہی ہوش و خردکے ساتھ اس پر خطر وادی میں پرواز کرنا پڑتا ہے.اگر اس سے اس راہ میں ذرہ بھر بھی لغزش اور کوتاہی ہوجاتی ہے تو اس کا ایمان و اسلام اور دین ومذہب دونوں خطرے میں پڑجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نعت کے میدان میں اہستگی کے ساتھ نہایت سنبھل کر حزم و احتیاط کے دامن کو تھامے ہوئے قدم رکھنا ضروری ہے. اکثر نعت گو شعرا نے اس پر خطر وادی میں بڑے ہو ش و حواس کے ساتھ قدم رکھا ہے.علاوہ ازیں ایسے نعت گو شعرا بھی ہیں جن سے اس راہ میں لغزشیں ہوئی ہیں ان کا ذکر ایندہ ضمنی باب میں کیا جائے گا.البتہ جن نعت گو شعرا نے اس پرخطر وادی کے خطرات اور فن نعت کی اہمیت وعظمت، اس کے مقام ومرتبہ اور تقدس کو محسوس کیا ہے ان کے جذبات و احساسات کو ذیل خیالات کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے.

امام احمد رضامحدث بریلوی:

’’حقیقتا نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے، جس کو لوگ اسان سمجھتے ہیں اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہو نچ جاتاہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے البتہ حمد اسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے جتناچاہے بڑھ سکتا ہے، غرض ایک جانب اصلا حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت پابندی ہے. ‘‘ <ref> مصطفی رضا نوری بریلوی، علامہ: الملفوظ، مطبوعہ کانپور، ص 144/145</ref>

عبد الکریم ثمر:

’’ نعت نہایت مشکل صنف سخن ہے نعت کی نازک حدود کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی افاقیت قائم رکھنا اسان کام نہیں.سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ذرا سی بے احتیاطی اور ادنا سی لغزش خیال و الفاظ ایمان و عمل کو غارت کردیتی ہے. '‘‘ <ref> نقوش: رسول نمبر، لاہور، ج 10، 24 ص</ref>

مجید امجد:

’’ حقیقت یہ ہے کہ جنا ب رسالت ما ب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت گو کو حدود کفر میں داخل کرسکتی ہے.ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے، ذرا سا شاعرانہ غلو ضلا لت کے زمرے میں اسکتا ہے، ذرا سا عجز بیان اہانت کا باعث بن سکتا ہے. '‘‘ <ref>نقوش: رسول نمبر، لاہور، ج 10، 24 ص</ref>

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی:

’’ نعت کے موضوع سے عہدہ براہونااسان نہیں موضوع کا احترام کلام کی بے کیفی اور بے رونقی کی پردہ پوشی کرتا ہے، نقاد کو نعت گو سے باز پرس کرنے میں تامل ہوتا ہے اور دوسری طرف نعت گو کو اپنی فنی کمزوری چھپانے کے لیے نعت کاپردہ بھی بہت اسانی سے مل جاتاہے، شاعر ہر مرحلہ پر اپنے معتقدات کی اڑ پکڑتا ہے اور نقاد جہاںکا تہاں رہ جاتاہے لیکن نعت گوئی کی فضا جتنی وسیع ہے اتنی ہی اس میں پرواز مشکل ہے. ‘‘ <ref>نقوش: رسول نمبر، لاہور، ج 10، 25 ص</ref>

ڈاکٹر اے .ڈی. نسیم قریشی:

'’’نعت گوئی کا راستہ پل صراط سے زیادہ کٹھن ہے اس پر بڑی احتیاط اور ہوش سے چلنے کی ضرورت ہے اس لیے اکثر شاعروں نے نعت کہنے میں بے بسی کا اظہار کیا ہے جس ہستی پر خدا خود درود بھیجتا ہے انسان کی کیا مجال کہ اس کی تعریف کا احاطہ کرسکیں. ‘‘ <ref> نقوش: رسول نمبر، لاہور، ج 10، 25 ص</ref>

ڈاکٹر فرمان فتح پوری:

’’ نعت کا موضوع ہماری زندگی کا ایک نہایت عظیم اور وسیع موضوع ہے اس کی عظمت و وسعت ایک طرف عبد سے اور دوسری طرف معبود سے ملتی ہے.شاعر کے پا ے فکر میں ذرا سی لغزش ہوئی اور وہ نعت کے بجاے گیا حمد و منقبت کی سرحدوں میں. اس لیے اس موضوع کو ہاتھ لگانا اتنااسان نہیں جتنا عام طور پر سمجھا جاتاہے.حقیقتا نعت کا راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھا ر سے زیادہ تیز ہے. '‘‘ <ref>نقوش: رسول نمبر، لاہور، ج 10، 25 ص </ref>

مذکورہ بالا فکر انگیز، پاکیزہ خیالات سے یہ امر واضح ہوجا تا ہے کہ ایسی ارفع و اعلی ذات کو جب شاعر اپنی شاعری کا موضوع بناتاہے تو اسے کن سنگلاخ وادیوں سے گذرنا پڑے گااور کس قدر قیود و اداب اس کے عنان گیررہیں گے، لہذا نعت گوئی ہماری شاعری میں سب سے زیادہ اہم اور دشوارگزار وہ موضوع ہے جو اس خیال کو استحکام بخشتا ہے کہ جن حضرات کوسرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی تعلق اور روحانی رابطہ ہ گا یقینا وہی اس پرخار وادی میں قدم رکھ سکتے ہیں .عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جذبہ ایمانی سے سرشار ہوکرنعت گوئی کے لیے دیوانہ وار قلم برداشتہ نہیں لکھاجائے گا کہ اس طرح شاعر اس مقام تک جاسکتا ہے جو کفر واسلام اور شرک و تو حید کی سرحد ہے .اس لیے نعت گو شاعر پرمحض اوزان و بحور ہی کی پابندیاں عائد نہیںہوتیں بل کہ اسلام اور شریعت کاپاس و لحاظ بھی اس کے لیے لازمی ہے. دراصل نعت ہماری شاعری کی وہ محبوب اور پاکیزہ صنف ہے جس کے ڈانڈے ایک طرف عبد سے اور دوسری طرف معبود سے ملتے ہیںاور اس کا راستہ بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے، نعت گو جب تک عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کر توحید ورسالت اور عبودیت کے نازک رشتوںمیںہم اہنگی پیدا نہ کرے اس وقت تک وہ نعت گوئی کے منصب سے عہدہ بر ا نہیں ہو سکتا.نعت کا فن نہایت مشکل ہے، کیوںکہ نعت کے مضامین ق ان وحدیث سے ماخوذ ہوتے ہیں.ان مضامین کونظم و نثر میںاس اسلوب اور طرز ادا میں بیان نہیںکیا جا سکتا جسے دوسرے معشوقان مجازی کے ذکر کے وقت شاعراستعما ل کرتا ہے، یہاں چشم زدن کے لیے بھی ادب کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جانے پر شاعر کا اسلام و ایمان تباہ و برباد ہوسکتا ہے.

دراصل نعت ایک ایسے ممدوح کی تعریف و توصیف ہے جس کی بارگاہ میںبے جا مبالغہ ارائی قربت ممدوح کا وسیلہ نہیں بن سکتی اور نہ یہاں اس بیان کو باریابی حاصل ہے جو حق و صداقت کی ترجمانی سے محروم ہو.یہاں قدم قدم پر خطرات کا سامنا ہے، کیوں کہ نعت اس ذات مقدس کی مدح سرائی ہے جن کی بارگاہ میں دانستہ و نادانستہ ذرا بھی سوے ادب حبط اعمال کا سبب ہوسکتا ہے، یہاں باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار کی نزل ہمہ وقت سامنے رہنی چاہیے.غرض یہ کہ نعت کی شاہ راہ شاعری کی سخت ترین راہوں میں سے ایک ہے اور تمام اصناف سخن سے مشکل، اگر حد سے تجاوز کرتا ہے تو الوہیت کی تجلی خاکستر کردے گی اور کمی کرتا ہے تو تنقیص شان رسالت کی تیز تلوارشاعر کی گردن ناپ دے گی لہذا اس فن کی نزاکتوں سے عہدہ بر ا ہونے کے لیے بڑے محتاط فکر و تخیل، ہوشیاری اور ادب شناسی کی ضرورت پڑتی ہے کسی خیال کو فنی پیکر عطا کرنے سے پہ لے اس کو سو بار احتیاط کی چھلنی میں چھان لینا پڑتا ہے تب کہیں جاکر وہ معرض وجودمیں اتا ہے اور احتیاط کے تقاضوں کو ادا کرتاہے.

واپسی کے ربط[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مضامین | نعت گوئی

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]