نعت اورجدید تنقیدی رحجانات۔ایک تجزیاتی مطالعہ ۔ ڈاکٹر عزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat aziz ahsan 10.jpg

مضمون نگار : ڈاکٹر عزیز احسن۔کراچی

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

نعت اور جدید تنقیدی رجحانات…ایک تجزیاتی مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

Kashif Irfan's book "Naat Aur Jadeed Tanqidi Rujhanaat" has been reviewed in this article. The poetry of genre of Naat has first time been discussed in light of Modernism, Post-Modernism and Structuralism. Anthropological aspects have also been hinted for understanding the under current of Islamic ideology and love of Prophet Muhammad (S.A.W) in Muslim Society. Kashif has tried to apply the Critical theories of Modernism, Post Modernism and Structuralism to elaborate poetic attempts of Naatia Poets in praise of Holy Prophet Muhammad (S.A.W).Taking the modernity in consideration, the book is aptly received as blossom of Spring of Criticism in the literature of genre of Naat.

اردو شاعری کے ارتقا کے ساتھ ہی نعتیہ شاعری بھی اپنے بھرپور نقوش قائم کرنے لگی تھی لیکن بالوجوہ اس کی ادبی قدر افزائی (EVALUATION) کی طرف، ایک طویل عرصے تک، ناقدین متوجہ نہیں ہوسکے۔ تکلف برطرف ، یہ کام ’’نعت رنگ‘‘ کے اجرا (اپریل ۱۹۹۵ء) سے قبل، خواب و خیال ہی تھا۔ اب جبکہ نعت رنگ کے اجرا کو بیس برس پوری ہوچکے ہیں اور اس کتابی سلسلے کا پچیسواں شمارہ اکیسویں برس میں شائع ہوچکا ہے۔ نعت کی تنقیدی جہتیں مختلف مضامین ، مقالات اور کتب کے ذریعے سامنے آنے لگی ہیں۔ کاشف عرفان نے نعتیہ شعری سرمائے کو جدید اور مابعد جدید تنقیدی رجحانات کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی ہے اور نعت ریسرچ سینٹر کو ان کی کتاب ’’نعت اور جدید تنقیدی رجحانات‘‘شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ کاشف کی یہ کتاب ان کے جدید ادب اورجدید تنقیدی رجحانات کے سنجیدہ مطالعے کی روشن مثال ہے۔ جس کو انھوں نے چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے:

ان عنوانات سے موضوع کی گمبھیرتا کا اندازا کیا جاسکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کاشف سے قبل ان موضوعات کو تفصیل سے نعت کے کسی نقاد نے نہیں چھیڑا تھا۔ جزوی طور پر میں نے کچھ موضوعات کو Touchکیا تھا۔ جیسے میرے مضمون ’’ایک حمد کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ (مشمولہ نعت رنگ ۷) اور ’’نعتیہ شاعری میں متنی رشتوں کی تلاش‘‘ (مشمولہ نعت رنگ ۲۲)۔ لیکن وہ مضامین جدید تنقیدی رجحانات کی تفہیم کے حوالے سے کسی معلوماتی لوازمے اور جدید تنقیدی رجحانات کے اطلاقات کے مفصل بیان پر مبنی نہیں تھے۔ در اصل مجھے نعت کے قارئین کی سادہ مزاجی اور تنقید بیزاری کا علم بھی تھا جس نے کچھ ادق موضوعات کو چھڑنے کی ہمیت پیدا نہیں ہونے دی۔ کاشف جواں سال ہیں اس لیے انھوں نے یہ بیڑا اٹھالیا اور الحمدللہ ! آج میں اس قابل ہوسکا ہوں کہ ان کی کتاب پر اپنی رائے دے سکوں۔

اُردو نعت اور روایت کا ا رتقاء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس تبصرے میں میری کوشش یہ ہوگی کہ کاشف عرفان کے زیرِ غور آنے والے نکات کا خلاصہ بھی پیش کردوں اور جہاں مناسب معلوم ہو اپنی رائے بھی درج کردوں۔کتاب کا پہلا باب ’’اُردو نعت اور روایت کا ا رتقاء ‘‘ ہے۔ اس باب میں انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

مصنف کے نزدیک، روایت ہمہ سمتی (MultiDimensional ) عمل ہے جو ادب،تہذیب ،تاریخ اور ثقافت سے منسلک ہے۔ اس کا تعلق ماضی ،حا ل اور مستقبل تینوں زمانوں سے ہے۔اس کی ایک چوتھی سمت (Dimension Fourth )’’ ماورائی یا مابعدالطبیعاتی ‘‘سمت بھی ہے جو اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کاشف کے بقول ماورائی یا مابعدالطبیعاتی حقائق خودروایت کو زمان و مکان ( Time & space) ایک نئی جہت عطا کرتے ہیں۔ پھر وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ادبی روایت کا تعلق زبان سے ہے اور یہ ایساثقافتی ورثہ ہوتی ہے جوایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا ہے۔یہ ماضی حا ل اور مستقبل کو ان کی مشترک اور مختلف ہر دو خصوصیات کے باعث ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ اس کے بعد وہ ایک نقش یعنی گرافیکل شکل بنا کر بتاتے ہیں کہ’’ روایت موجود سے ناموجود کی جانب سفر ہے اور یہ سفر یک سمتی نہیں ہوتا۔‘‘گرافیکل شکل میں انھوں نے ’’روایت…ماضی…حا ل… مستقبل … ماورائیت ‘‘ کو دکھایا ہے۔

روایت کے ارتقائی عمل پر اثرانداز عوامل کی فہرست بھی وہ یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ نہ تو یہ مکمل ہے اور نہ ہی مکمل ہوسکتی ہے کیوں کہ روایت کا ارتقائی عمل پیچیدہ اور وسیع ہے:

i۔تاریخی تناظر ii ۔مذہبی اثرات iii۔لسانی دائرہ iv۔معنی کی مختلف جہات v۔سائنس اور منطق کا ارتقائی عمل vi۔اجتماعی ادبی تغیرات vii۔انفرادی صلاحیت viii۔تقابلی منطقہ ix۔مابعدالطبیعاتی عوامل (موجود سے ماوراء کو سمجھنے کا عمل) x۔تصوِر کائنات

ناقدین کے لیے ان کا مشورہ ہے :

’’ ادب پارے کے ادب پارے سے تقابل میں لفظ و معنی اور انفرادی فکری و فنی سطح کے ساتھ ساتھ آفاقی فن پاروں کا وہ معیار جو روایت قائم کرتی ہے نقادکی نظر میں رہنا ضروری ہے۔‘‘


مغربی منہاجِ تنقید کے حوالے سے وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ:


’’مغربی تنقید روایت کے ارتقائی عمل کو سمجھنے اور آگے بڑھانے کے لیے ’’اسلوبیات ‘‘کی اصطلاح استعمال کر رہی ہے…اور یہ کہ اسلوبیات بنیادی طور پر کسی فن کار کے انداز ِتحریر کو دوسرے فن پاروں سے الگ کرکے سائنسی طور پر سمجھنے کا عمل ہے۔‘‘


اسلوبیاتی تجزیہ ،زبان کی کسی بھی سطح کو لے کر کیا جاسکتا ہے۔ لسانیات میں زبان کی چار سطحیں ہوتی ہیں:


i۔صوتیات Phonology

ii۔لفظیات (Morphology)

iii۔نحویات Syntax

iv۔معنیات(Semantics)


کوئی بھی زبان اِن چاروں عناصر سے مل کر متشکل ہوتی ہے خالص لسانیاتی تجزیوں میں کسی بھی سطح کو الگ سے بھی لیا جاسکتا ہے لیکن ادبی اظہارکے تجزیے میں ہر سطح کے تصور میں زبان کا کُلیّ تصور شامل رہتا ہے۔اسلوبیاتی تجزیہ میں ان لسانی امتیازات کو نشان زد کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے کسی فن پارے ، مصنف ، شاعر ،ہیئت ،صنف یا عہد کی شناخت ممکن ہو۔کاشف عرفان نے شاعری میں آفاقیت کے آٹھ عناصر کی نشاندہی کی ہے:


i۔ماورائیت

ii ۔زمان و مکان کی قید سے آزادی

iii۔وقت کے کسی نئے منطقے کی تلاش

iv۔انسانی زندگی سے اخذ کردہ موضوعات

v۔شعریت اور فنی گرفت

vi۔فکری پختگی

vii۔تہذیبی اثرات

viii۔تائید غیبی


پھر وہ بتاتے ہیں کہ انِ تمام اجزاء کے ہوتے ہوئے بھی شعر عظیم یا آفاقی نہیں ہوپاتا۔ اس لیے اجزاء کا تناسب اور تائید غیبی کوبھی شعر کی آفاقی حیثیت کے عناصر میں شامل کرتے ہیں۔ وہ نعتیہ تخلیقا ت میں آفاقی عناصر کی تلاش اور فن پارے کو سامنے رکھ کر مصنف کا مطالعہ کرنے ہی کو تنقید کا جوہر بتاتے ہیں۔انھوں نے نعت کی تنقید کے لیے کچھ اصول بھی بنانے کی کوشش کی ہے۔مثلاً وہ کہتے ہیں :


  • نعت ایک ادبی صنف ہے جس کا تعلق مذہبی ادبیات سے ہے۔
  • ادبی صنف ہونے کی حیثیت سے یہ ادبی تنقید سے ماوراء نہیں ہے۔
  • نعت تخلیق کار کی فکر اور فن کے لحاظ سے آفاقی ،عظیم ،عمدہ ،درست اور نادرست ہوسکتی ہے۔ ہر نعت کا معیار ایک نہیں ہوسکتا ۔
  • نعت پر تنقید کرنے والوں کی نظر میں( خاتم الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ کو پرکھتے ہوئے)عزت و احترام کا معیار ہونا چاہیے۔

اردو نعت اور جدیدیت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کاشف عرفان نے اُردو نعت اور جدیدیت کو نکات کی صورت میں سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے اور کچھ نکات پیش بھی کیے ہیں، مثلاً:


  • اجتماعی شعوراور لاشعور کا مطالعہ
  • شناخت بحیثیت اکائی
  • معنی کی مرکزیت
  • زمین سے فرد کا تعلق
  • اساطیری رنگ سے کائنات اور فرد کے درمیان تعلق کا مطالعہ
  • لفظ و معنی کے درمیان نئے رشتوں کی تلاش
  • ساخت اور ردِساخت کے مسائل
  • لکھاری اور لکھت (فن کار اور فن پارہ ) کے درمیان نئے معنوی رشتوں کی تلاش


پھر وہ بتاتے ہیں کہ:


’’ جدیدیت بنیادی طور پر جدیدحسیت سے عبارت ہے تاہم یہ اپنے موضوعات کو ادب سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہے۔‘‘


وہ کہتے ہیں کہ جدیدیت تما م علوم کے ساتھ منسلک ہے کہ فرد اور سماج کے درمیان معلوم سے آگے جاکر کچھ نیا سمجھنے کی ضرورت ہے ۔…جدیدیت انسانی ذہن کی وہ چھلانگ ہے جومکمل ہوجائے تو انسان اپنا ادراک حاصل کرلیتا ہے۔گویا کہا جاسکتا ہے کہ خود کو ڈھونڈنا جدیدیت کا مرکزی نکتہ ہے‘۔‘بڑی شاعری کے لیے انھوں نے … مرکب اور کسی حد تک پیچید ہ اذہان کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔اردو نعت میں جدید فکر کے ساتھ نمایا ں تخلیقی اور تنقیدی کام کے کم ہونے کی وجوہات پر غور کرکے انھوں نے چند کا ذکر اس طرح کیا ہے:


غزل کی کلاسیکی روایت ،نعت کو تنقید سے ماورا خیال کرنا،روایتی تصورِمحبوب، نعت کوادبی صنف تصور نہ کرنا، نعت کو صرف نعت خوانی کے حوالے سے پہچاننا، سیرت نبی کے گہرے مطالعے کا فقدان ۔

کاشف عرفان نے نذر صابری کی لکھی ہوئی ایک نعتیہ غزل پیش کرتے ہوئے اسے لفظوںکی ایمائیت اورفکرکے حُسن کی بنا پر ایک بڑی تخلیق قراردیا ہے ۔اس نعتیہ غزل کا مطلع ہے:


بت کدہ صفات میں تنہا خد ا نما صنم

جھک گئے سامنے ترے کفر کے سب خدا صنم


یہاں مجھے یہ محسوس ہوا کہ خوبصورت غزل کو نذر صابری نے نعت کا نام دے کر پیش کردیا اور کاشف اور دوسرے ناقدین نے اس کو سرا ہا بھی لیکن یہ غور نہیں کیا کہ لفظ ’’صنم‘‘ بت اور حسین انسان (بالخصوص نسائی حسن) کے تصور سے بلند تصور کا کبھی بھی حامل نہیں رہا ہے۔اردو شعرا نے کبھی بھی یہ لفظ مجازی محبوب کے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال نہیں کیا۔ چناں چہ قرآنِ کریم میں جو ’’راعنا‘‘ کا لفظ ممنوع الاستعمال ہوا ہے ، نعت کی تخلیق میں اس کا دھیان رکھنا لازمی ہے۔ جدیدنعت کے ضمن میں مذہبی تقدس کا ذکر کرنے کے باوجود کاشف نے لفظ ’’صنم‘‘ کی کراہت پر غور نہیں کیا۔ میں نذر صابری کی اس نعتیہ غزل کو بنت اور اظہار کی خوبصورتی کے باوجود نعتیہ ادب میں شامل کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ پھر خیال رہے کہ یہ غزل کسی فلمی گانے کی بنیاد پر لکھی ہوئی ہے۔


جدیدیت کی تھیوری کے اطلاقات میں کاشف کہیں تو بالکل صحیح مثال دینے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن کہیں کہیں انھوں نے قریب کے شعرا اور ان کے نسبتاً کمزور کلام کا حوالہ دے کر اپنے نظریے کیGrahnduerکو خود مجروح کردیاہے۔ جدیدیت کی تلاش میں شہرِنعتیہ ادب کی تفصیلی سیربہت ضروری تھی جو وہ نہ کرسکے۔یہاں مثالیں دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ میں نے صرف اشارہ کردیا ہے۔

اردو نعت نگاری پر مابعد جدیدیت کے اثرات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس باب میں کاشف نے جدیدیت کی تفہیم کے لیے چار نکات پیش کیے ہیں:زمین سے رشتہ اور جڑوں کی تلاش اور اجتماعی شعورسے آگاہی ،نفسیات کی مدد سے لاشعور میں جھانکنے کا عمل جو لاشعور سے اجتماعی لاشعور تک پہنچتا ہے ،اساطیری حوالوں سے ادب کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش،جدیدیت لفظ و معنی کے رشتے تلاش کرتی ہے ۔جدیدیت کا تعلق ساختیات سے ہے ۔

مابعد جدیدیت کو بھی انھوں نے درجِ ذیل نکات کی صورت میں سمجھانے کی کوشش کی ہے:


ما بعد جدیدیت زمانے کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،علمی ،نظریاتی اور ادبی کروٹوں کے پھیلتے ہوئے آفاق سے ہم رشتہ ہونا ہے ۔یہ (ما بعد جدیدیت)جدیدیت ادب کی ارضی سطح سے مشاہدہ ہے جبکہ مابعد جدیدیت آفاقی سطح سے معائنہ ہے ۔یہ تخلیق کے اندر اور باہر کی دنیا کے درمیان ہم آہنگی کی تلاش کا نام ہے ۔آفاقیت اور وسعت مابعد جدیدیت کی ایک اہم کڑی ہے۔لامحددویت ، مابعد جدیدیت کو جدیدیت سے ممتاز کرتی ہے۔مابعد جدیدیت کائنات کی حدود میں پھیلائو اور کائنات کی لا محدودیت کو سمجھنے کا عمل ہے ۔

مابعد جدیدیت تاریخ ،عمرانیات اور لسانی رشتوں کا مطالعہ کرتی ہے۔ (نعت نگاری میں تاریخی تناظرات اور عمرانیات کے علوم کے زیرِاثر عرب معاشرے سے برصغیر کے تہذیبی تعلق کو سمجھنے کی کوشش مابعد جدیدیت کا موضوع رہی ہے ۔)…مابعد جدیدیت زندگی کی پیچیدگی (Complexity)کو ادب کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش ہے۔٭معنی کی کثرت مابعد جدیدیت کا اہم موضوع ہے ۔

پھر وہ بتاتے ہیں کہ نعتیہ میدان میں اقبال کی شاعری اُس آفاقی سطح کو چھوتی نظر آتی ہے جس کی جانب مابعد جدیدیت کا نظریہ اشارہ کرتا ہے ۔نیز یہ کہ ارود نعت میں کائنات کی لامحدودیت کو اﷲکے حکم سے تسخیر کرنے کا عمل واقعۂ معراج میں نظر آتا ہے جسے مختلف سطحوں پر مختلف شعراء نے بیان کیا ہے۔ کاشف کہتے ہیں کہ مابعد جدیدیت کی اہم ترین کڑی مابعد الطبیعات ہے ۔انسان دوستی ، قدروں کی بقاء کی خواہش ،محبت اور موجود کو ماوراء سے جوڑنے کے نظریے کو مابعد الطبیعات کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔یہ خدا اور انسان کے رشتے کو کائنات کی وسعت میں سمجھنے کا عمل ہے ۔خود نعت بھی نبی اکر مصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی شخصیت اور خدا سے ان کی محبت کو سمجھنے کا عمل ہے ۔

مابعد جدیدیت مذہب ،منطق اور سائنس کے درمیان اُس نکتۂ مشترکہ کی تلاش ہے جہاں علوم کے درمیان مذہبی اور غیر مذہبی کی غیر فطری اور غیر منطقی تقسیم کا اختتام ہوجاتا ہے ۔

مابعدالطبیعات ہمیں وقت کی ماہیت کی مختلف سطحوں سے بھی روشناس کرواتی ہے ۔کائنات میں وقت کا تصور (جدید سائنسی تحقیق کے مطابق )خود اضافی (Relative)ہے۔اضافی یا Relative سے مراد ایسی اشیاء جن کی پیمائش کے پیمانے مختلف اوقات یا مقامات پر مختلف ہو جائیں ۔وقت کی جہات مختلف اوقات یا مقامات پر اﷲ کے حکم سے مختلف ہونے کا عمل ہمیں قرآن کریم میں تین مختلف واقعات سے ملتا ہے۔

حضرت عزیر ؑکا واقعہ ۔ واقعۂ معراج اور واقعۂ اصحابِ کہف…لہٰذا کاشف کے خیال میں ،موجود اور ماوراء کے درمیان وقت کی گمشدہ کڑیوں کی دریافت اِن تینوں واقعات کی بنیاد بنتی ہے۔

پھر وہ کہتے ہیں کہ مابعد جدیدیت زمانے کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،علمی ،نظریاتی اور ادبی کروٹوں کو اپنے عہد کے تناظرمیں دیکھنے کا عمل ہے ۔اردو نعت نگاری کا رشتہ جہاں برصغیر کی مٹی سے ہے وہیں عرب کی سرزمین سے بھی ہے ۔برصغیر کی ثقافت اور زبان کا رچائو جتنا امام احمد خان بریلویؒ کے ہاں نظر آتا ہے شاید ہی کسی شاعر کے ہاں فنی سطح پر یہ رچائو موجود ہو۔

کاشف ،علامتی پیرا یہ کو آفاقی شاعری کی امتیازی خوبی بتاتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ:


’’مابعد جدیدیت جس آفاقیت اور وسعت کی بات کرتی ہے وہ شاعری میں علامت کے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے حاصل ہوتی ہے‘‘ ۔ اس مضمون میں کاشف عرفان نے سید عارف، اقبال، سید ابوالخیر کشفی، آفتاب کریمی، سلیم کوثر ، حنیف اسعدی وغیرہم کی شاعری سے مثالیں پیش کرکے اپنا موقف مضبوط کیا ہے۔ علامتی اظہار کے لیے انھوں نے شعرا کے ایسے اشعار پیش کیے ہیں جن میں تلمیحاتی اشارہ از خود علامت میں ڈھل گیا تھا۔اقبال کے ذکر میں فلسفۂ عشق اور فلسفۂ تحرک بھی زیرِ بحث آیا ہے۔

کاشف نے نعتیہ شاعری میں نمایاں موضوعات کی فہرست بھی پیش کی ہے۔یعنی: حسنِ ازل، انسان دوستی،سیرتِ محمدیہ کے آفاقی پہلو،سیرت ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تناظر میں تہذیبی عناصر،سیرت ِ نبوی کے اثرات سے پیداہونے والی ذہنی پیچیدگی۔

عصرِ حاضر کی بے چینی کے مظہر کے طور پر انھوں نے صبیح رحمانی کی ایک نعتیہ نظم پیش کرکے اپنی گفتگو کی اختتامی منزلیں طے کی ہیں۔ مجموعی طور پر یہ باب قدرے بہتر مثالوں سے جدیدیت کی تھیوری کے اطلاقی پہلوؤں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ تاہم صرف چند مثالوں میں اپنے اردگرد کے غیر معروف شعراء کی شاعری کو شامل کرلینے سے تلاش و جستجو کی واماندگی کا احساس ہوتا ہے۔

اُردو نعت اور وقت کی ماورائی جہات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس باب میں کاشف نے بتایا ہے کہ اُردو نعت میں وقت کا تصورماضی ،حال، مستقبل اور ماورائیت پر بھی مشتمل رہا ہے اور واقعۂ معراج کے معجزے سے وقت کی ماورائیت کا تصور منسلک ہے۔انسان کو جب پہلی بار فنا اور بقا کے فلسفے کا ادراک ہوا تو اُس کو وقت کے موجود ہونے کا احساس ہوا …گویا وقت ایسا پُل ہے جو بقا کو فنا سے ملاتا ہے ۔

آئن سٹائن نے کہا تھا :

"Time is the fourth dimension of the universe"

آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیوٹی (Theorey of Relativity)سے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کائنات میں کسی بھی چیز کی حد ِرفتا ر روشنی کی رفتار ہے ۔اس نظریے نے وقت کی ماہیّت کے حوالے سے بہت سے نئے سوالوں کو جنم دیا ۔کیا وقت ایک حقیقت ہے یا محض فریب ؟،کیا وقت کائنات کی معروضی حقیقت ہے یا موضوعی ؟،کیا وقت کاکوئی آغاز وانجام ہے ؟،کیا وقت مستقل حقیقت ہے یا اٖاضافی (Relative)؟وقت جن چیزوں کے تّقابل سے وجود پاتا ہے کیا اُن اشیاء سے وقت کا کوئی حقیقی تعلق ہے ؟

سائنسی نظریات کے حوالے سے وقت کو تین مختلف نظریات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے :

  • بگ بینگ تھیوری( Big Bang Theorey)
  • نیوٹن ،آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ کا تصورِوقت
  • بگ کرنچ تھیوری ( Big Crunch Theorey )


اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

الشمس و القمر بحسبان

’’ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں۔‘‘


دوسری جگہ وقت کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے:


’’ اُس دن ہم آسمان کو اِس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ لپیٹ دیا جاتا ہے۔‘‘


وقت کے حوالے سے قرآن پاک میں اﷲتعالیٰ نے مختلف مقامات پر وقت (زمانہ) کے حوالے سے انسان کو مختلف پیغامات دیے ہیں ۔اسلام اور قرآن وحدیث کی تعلیمات میں وقت کی باگ ڈور اُس رب ذوالجلال کے ہاتھ میں ہے جو اِس ساری کائنات کو بنانے والا ہے ۔وہ خود کو زمانہ (وقت )بھی کہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت اُس کی تخلیق ہے ۔وقت کے پیمانے اُس نے مختلف مقامات کے لیے مختلف رکھے قرآن پاک میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

’’بیشک تمہارا رب اﷲہے جس نے سب آسمانوں اور زمینوں کو چھ روز میں پیدا کیا پھر عرش قائم ہو ا۔‘‘


اصحاب کہف کے حوالے سے بھی سورۃ الکہف میں اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

’’اور اصحاب کہف اپنے غار میں نو اوپر تین سو سال رہے۔‘‘


قرآن پاک کے مطابق وقت کی ماورائی جہات کا دوسرا ااور اہم ترین تصور ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی معراج سے حاصل ہوتا ہے ۔زمان کے اعتباری (اضافی ) ہونے کا ایک اور ثبوت یہ بھی قرآن سے ملتا ہے کہ قرآن میں فرمایا گیا کہ خدا کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کا ہوتا ہے۔اقبال کے تصور ِوقت کے اہم نکات یہ ہیں :

  • زمان (Time) ایک تخلیقی قوت ہے۔
  • زمان (Time) ایک ارتقائی قوت ہے۔
  • زمان (Time) پر قابو پاکر ہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کیاجاسکتا ہے۔
  • زمان کی دو شکلیں ہیں پہلی شکل زمانِ حقیقی ہے جولمحوں کا مرکب ہے اور اس میں تسلسل بھی نہیں ہے جبکہ دوسری شکل زمانِ مسلسل ہے جو مختلف اکائیوں (لمحات ) کا مرکب ہوتا ہے ۔

اقبا ل کے ہاں زمانِ حقیقی کا بیان جگہ جگہ ہوا ہے :


خرد ہوئی ہے زمان ومکان کی زناری

نہ ہے زماں نہ مکاں لاالہ الا ﷲ


’’ تہذیبی تکمیل کے عمل میں ہمارے ہاں اب نعت فلسفے اور سائنس کے بڑے مباحث کو شامل کرنے کی حالت میں آچکی ہے۔‘‘


وقت کی ماورائیت کے حوالے سے اس باب میں مختلف شعراء کے اشعار پیش کیے گئے ہیں۔ تاہم کاشف کو خود احساس ہے کہ انھیں اردو کی عام شاعری میں تو ایسی مثالیں ملیں لیکن نعتیہ شاعری میں اقبال، عبدالعزیز خالد اور عارف عبدالمتین کے علاوہ دیگر شعرا کے ہاں نعت میں وقت کی تفہیم کی کوشش ان کی نظر سے نہیں گزری۔ستیہ پال آنند کی ایک نظم کی چند لائنیں انھوں نے اس لیے مثال کے طور پر پیش کی ہیں کہ ان میں ’’جاوداں زندگی کی جانب قدم بڑھانے کا عمل بنیادی طور پر وقت سے ماورا ایک نئے جہان کی جانب پیش رفت کا اشارہ ‘‘ معلوم ہوتا ہے۔


کاشف عرفان کو یقین ہے کہ فلسفے کے مضامین پر مشتمل شاعری کا دور قرآن و سیرت کے گہرے مطالعے کے بعد شعراء،سامع اور قاری کی ذہنی تربیت کے بعد شروع ہوگا!

وقت کی ماوارئیت ، انتہائی گہرا اور پیچیدہ مسئلہ ہے ۔ کاشف نے اس مسئلے کو چھیڑ کر اچھی خاصی سائنسی اور فلسفیانہ گفتگو کی ہے۔ جس معیار کی نثر لکھی گئی ہے اس معیار کے اشعار ،نعتیہ شاعری کے روایتی سرمائے میں تلاش کرنا صحرا کی ریت کو چھلنی سے چھاننے کے مانند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاشف نے بڑی دیانتداری سے دو تین نام گنوانے کے بعد مستقبل میں آنے والے شعراء کے انتظار کی راہ دکھائی ہے۔

اُردو نعت پر ساختیات (Structuralism)کے اثرات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس باب میں مصنفِ کتاب نے بتایا ہے کہ ساختیات کا نظریہ سائنس ،بالخصوص طبیعات (Physics) سے منسلک ہے ۔ساختیات رشتوں کے تضادات اور انسلاک کا تہہ در تہہ دائروی نظام ہے جو مشترکات اور مختلفات (Differences) کے رشتوں سے پہچانا جاتا ہے جو پیٹرن(Pattern) کہلاتے ہیں۔ سائنس ،نفسیات،ادب اور معاشرتی علوم سب ہی ساختیات سے متاثر ہوئے ہیں۔ ادب میں فن پارہ ، فن کار اورقاری کی مثلث کے ساتھ اس کوڈ کو تلاش کرنا بھی ضروری ہے جو اُس فن پارے کو زندگی دینے کا باعث بنا ۔

ادب پارہ(فن پارہ)کے پسِ پردہ ایک علامتی نظام یا کوڈ موجود ہوتا ہے ۔اس کوڈ کو تلاش کرنے کے لیے کاشف نے یہ کہتے ہوئے چھ عناصر کی نشاندہی کی ہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے:

i۔فن کارکی لاشعوری کیفیات

ii۔معاشرتی عوامل

iii۔فن کار کی انانیت میں چھپی گرہیں

iv۔نفسیاتی مسائل

v۔نظریہ vi۔خواب


نعتیہ ادب میں بڑی اور فکری شاعری کا جب بھی ذکرہوگا اقبال کا حوالہ اس میں لازمی طور پر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہکاشف عرفان نے اقبال کی شاعری میں ساختیات کے تناظرمیں کوڈ یا گرامر کی تلاش کے لیے درجِ ذیل پانچ عناصر کی طرف قاری کی توجہ مبذول کروائی ہے:


i۔محبت رسول

ii۔قرآن سے اخذ کردہ نظام ِفکر

iii۔ملت کا اجتماعی لاشعوری نظام

iv۔تاریخ سے ناطہ

v۔اسلام کا معاشی نظام اور فرد سے اس کا تعلق


اس باب میںکاشف عرفان نے بڑے سنبھل کر شعری نمونے پیش کیے ہیں۔ جن میں ساختیاتی کوڈ کی نشاندہی آسان ہوجاتی ہے۔ اقبال کے علاوہ عہدِ حاضر کے جن شعراکے کلام کی مثالیں دی گئی ہیں وہ خاصی حد تک جدید اسلوب کی عکاس ہیں۔ کاشف نے بتایا ہے کہ ’’ساختیات بنیادی طور پر اسلوبیات کا حصہ ہے‘‘ ۔ ان شعراء میں جنید آزر، اختر شیخ، طارق نعیم، حسن رضوی، واجد امیر، وقار صدیقی اجمیری، صبیح رحمانی ،کاشف عرفان، سلیم گیلانی، حسن نثار،فرحان، سعود عثمانی، عابد سیال، شوکت مہدی، منظر عارفی ،ستیہ پال آنند، ثروت حسین اورخورشید رضوی وغیرہم شامل ہیں۔ کاشف نے ان شعراء کے کلام کی مثالیں دے کر اپنا موقف واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

حمد ونعت اورفرد کا نفسیاتی نظام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بچپن کے ماحول سے اخذ کیے ہوئے عقائد، فکری زاویے، رسم و رواج، تہذیبی عناصر اور زندگی کے چلن عام طور سے تا حیات انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایک معاشرے میں جو مشترک اقدار ہوتی ہیں وہ بھی فرد اور سوسائٹی کے لیے ذہنی انسلاکات کا سبب بنتی ہیں۔ کاشف نے اپنے مضمون کا آغاز ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی کے بیانیے سے کیا ہے۔ کشفی صاحب نے یہ مضمون اپنی آخری عمر میں لکھا تھا۔وہ بتاتے ہیں:


’’ہماری رشیدہ باجی کہتی تھیں کہ جب کلیاں درودشریف پڑھتی ہیں تو کھِل کر پھول بن جاتی ہیں۔اس بات کو سائنس کے میزان میں نہ تولیے۔اِس سے اُس مسلم معاشرے کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ معاشرے اسی طرح پھول بن کر کھِلتے ہیںاور اُن کی خوشبو ساری دنیا کی فضائوںمیں تیرتی ہوئی انسانوں اور دوسرے مسافروں کو معطر بنادیتی ہے۔‘‘


یہ اقتباس دے کر کاشف نے اسلامی معاشرے کے مزاج کی تشکیل کی جھلک دکھادی ہے۔ اسی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ: ’’اردو نعت ایک اسلامی معاشرے کے افراد (مسلم و غیر مسلم دونوں )کے نفسیاتی نظام میں تغیرات پیدا کرتی ہے۔‘‘اور ’’داخلی نظام معاشروں کی بنیاد ہوتا ہے۔ ‘‘


داخلی نظام کے حوالے سے نفسیاتِ انسانی کا مطالعہ کرتے ہوئے فرائڈ نے شعور کے پس منظر میںلاشعور اور ژونگ نے اجتماعی لاشعور کا تصور پیش کیا۔ کاشف نے لکھا ہے کہ ’’اجتماعی لاشعور ادب کی سطح پر آرکی ٹائپ (Architype) سے عبارت ہوتا ہے۔‘‘


یہاں ضروری ہے کہ میں ڈکشنری دیکھوں تا کہ آرکی ٹائپ کا مطلب سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہو۔دی فوناٹاڈکشنری آف ماڈرن تھاٹ میں لکھا ہے:

A JUNGIAN term for any of a number of prototype phenomena (e.g. the wise old man, the great mother) which form the content of the COLLECTIVE UNCONSCIOUS (and therefore of any given individual's unconscious), and which are assumed to reflect universal human thoughts found in all CULTURES.

کشاف تنقیدی اصطلاحات میں لکھا ہے:

’’اجتماعی لاشعور کا مواد ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہوتاہے۔ یعنی یہ کسی فرد ِ واحد سے مخصوص نہیں بلکہ کم از کم کسی ایک گروہ بلکہ اصولی طور سے تو کسی ایک قوم اور بالآخر تمام انسانیت پر حاوی ہوتا ہے۔ اجتماعی لاشعور کا مواد فرد اپنی زندگی کے دوران حاصل نہیں کرتا بلکہ یہ تو ورثے میں ملے ہوئے جبلی سانچے ہیں۔تفہیم کی اساسی صورتیں اور بنیادی علامات…انھی کو اصطلاح میں آرکی ٹائپ کہا جاتا ہے‘‘(کشاف تنقیدی اصطلاحات، مرتبہ: ابوالاعجاز حفیظ صدیقی، نظرِ ثانی: ڈاکٹر آفتاب احمد خاں)

آرکی ٹائپ کی اصطلاح نفسیاتی تنقید میں استعمال ہوتی ہے۔ نعت کے قارئین کے لیے اس کی وضاحت ضروری سمجھ کر میں نے یہاں کتب کی مدد سے اس کا مفہوم لکھ دیا ۔آرکی ٹائپ کے مفہوم کو ذہن میں رکھیں تب کاشف کی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ :


’’ نعت ،سیرت مصطفی یا مذہب کے حوالے سے انسانی شعور اپنی پہلی لاشعوری کیفیات کے ساتھ جا ملتا ہے۔‘‘


نعت چوں کہ فنی اظہار ہے اس لیے محمد حسن عسکری کا بیان کردہ یہ نکتہ میں خاطر نشین کرلیں کہ :


’’فنی اظہار کامیاب اس وقت ہوتا ہے جب شاعر بذاتِ خود Architype کو بیان کی قید میں لانے کی کوشش نہ کرے، بلکہ اس سے اپنا ایک شخصی اور ذاتی رشتہ قائم کرے اور اس رشتے کو اظہار کا موقع دے۔‘‘(صبیح رحمانی، اردو نعت کی شعری روایت، صفحہ ۲۸۱)


کاشف نے انسانی ذہن پر ’’ پیدائش کے بعد دی جانے والی اذان ‘‘ کے لاشعور اور پھر شعور پر اثرات کا ذکر کیاہے اور اقبال کی مثنوی اسرارِخودی سے فرد کے نفسیاتی نظام کی اسلامی اور اخلاقی تشکیل کے لیے تین مرحلے اخذ کیے ہیں، یعنی: اطاعت،ضبطِ نفس ، نیابت الٰہی ماحول کے اثرات کا جس طرح ذکر کشفی صاحب نے کیا تھا ، کاشف نے بھی اسی انداز سے اپنے گھریلو ماحول کا ذکر کیا ہے اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کی محافل ،محافلِ میلاد یا محافلِ سیرت میں شرکت کے نتیجے میں اپنی ذہن سازی کی روداد رقم کی ہے۔


پھر وہ بتاتے ہیں کہ فرائیڈ کے کچھ نظریات ، انسان کی فطرت کے قرآنی نظریے سے قریب ہیں۔مثلاً: جذبہء محبت جو لاشعوری جذبہ ہے۔ جذبہء محبت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی علیہ السلام کے لیے شدت سے محسوس کرنے میں مسلمان بچے کی پرورش میں مذہبی ماحول کے اثرات اور خود اپنے گھریلو ماحول کا ذکر کرکے کاشف نے اپنا موقف اچھی طرح واضح کیا ہے۔


انسان کے فکری نظام پر اثر انداز ہونے والے سات منطقوں کی بھی انھوں نے نشاندہی کی ہے: الہامی کتب ،کائناتی اسرار،عصری حقائق،تبدیل ہوتا ہوا فکری منظر نامہ، شعوری کیفیات، لاشعور سے حاصل پیچیدگی ،مذاہب کے معاشرتی تغیرات ۔

نعت کی شاعری بھی کاشف کے بقول دو طرح کے شعراء کرتے ہیں:

i۔ایسے شعراء جو صرف حمد،نعت اور منقبت کہتے ہیں۔ ii۔ایسے شعراء جو عام شاعری کے ساتھ ساتھ حمد،نعت اور منقبت بھی کہتے ہیں۔


پھر وہ بتاتے ہیں کہ:


’’صرف مذہبی شاعری سے منسلک شعراء کے ہاں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کا جذبہ ایک بالکل مختلف فکری سطح پر نظر آتا ہے جہاں عزت ،احترام ، تکریم کے جذبات نمایاں ہوتے ہیں۔لفظوں کا دروبست نہایت سنبھلا ہوا اور بات کو پردے میں رکھ کر کرنے کا فن بھی نمایاں نظر آتا ہے لیکن فکری سطح پر روایت سے جڑے ہونے کے باعث اُن کے ہاں فن کی سطح پرکوئی نیا ادبی تجربہ نظر نہیں آتا۔ ‘‘


یہ بات بتا کر انھوں نے چند اشعار نقل کیے ہیں جن میں عثمان ناعم، سرو سہارنپوری ،سلمان رضوی ،ہلال جعفری اور احسان اکبر کے ایسے اشعار دیئے ہیں جن میں روایت سے انسلاک ظاہر ہوتا ہے۔


روایتی نعت گو شعرا کے برعکس انھوں نے ایسے شعرا کے اشعار بھی نقل کیے ہیں جن میں نئے انداز سے موضوعاتِ نعت کی تشکیل ہورہی ہے۔ ایسے شعرا میں انھوں نے عقیل عباس جعفری ،نثار ترابی ،اسلم راہی ، اختر شیخ، وفا چشتی،انجم خلیق،ڈاکٹر محمد حامد،افتخار عارف، شبنم رومانی، وسیم بریلوی، سیدصبیح رحمانی، محسن احسان وغیرہم کو شامل کیا ہے۔ لیکن یہاں بھی سب کے سب اشعار جدید طرزکے نمائندہ اشعار نہیں کہے جاسکتے ہیں۔ ایسی مثالوں کے لیے کاشف کو کچھ زیادہ تلاش و جستجو کی راہ اختیار کرنی چاہیے تھی۔


اس کے باوجود ان کی پیش کش لائقِ اعتنا ہے۔ ان کا یہ عاجزانہ اظہاریہ بھی ان کے پُر خلوص رویئے کا عکاس ہے:

’’ حمد و نعت کے حوالے سے اس فکری و نفسیاتی عمل کو منطق کی رُو سے سمجھنے کی یہ ایک سنجیدہ اور میری ناقص معلومات کے مطابق پہلی باقاعدہ کوشش ہے جو اگرچہ خام ہے لیکن طویل سفر کے لیے بھی پہلا قدم تو مسافر کو بڑھانا ہی ہوتا ہے سو اس سعیِ خام کو پہلا قدم ہی سمجھا جائے ۔شاید اب جدید علوم اور نعت مبارک کے حوالے سے چراغ سے چراغ جلنے کا عمل شروع ہوجائے کہ علم ہی ملتِ اسلامیہ کے مسائل کا اصل علاج ہے۔ ‘‘


مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ جزوی طور پر نئے تنقیدی رجحانات کی طرف اشارے تو اس تحریر سے قبل بھی ہوئے تھے لیکن باقاعدہ موضوعاتی تعیین کے ساتھ یہ کام پہلی بار کاشف عرفان ہی نے کیا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی اس رائے سے مجھے کامل اتفاق ہے :


’’کاشف عرفان نے پہلے اردو نعت کی روایت کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے، اور اس کے بعد جدیدیت، مابعد جدیدیت، وقت کی ماورائی جہات، ساختیات، اور نفسیات کی روشنی میں اردو نعت کو سمجھنے ،سمجھانے کی سعی کی ہے۔ بلاشبہ یہ عالی ہمتی اور الولعزمی (Ambitious)سے عبارت علمی مہم ہے۔نفسیات وساختیات، جدیدیت ومابعد جدیدیت اور وقت کے ماورائی تصورات ،معاصر علمی دنیا کے اہم ترین مباحث ہیں،مگر کافی بسیط ،پیچیدہ اور ایک قسم کی بین العلومیت کے حامل ہیں۔ ان سب نظریات کو بہ یک وقت نعت کے مطالعے کا تناظر بنانا عالی ہمتی ہی ہے۔‘‘


نعتیہ ادب کی تنقیدی جہتوں کے تقریباً تمام ہی ابعاد صبیح رحمانی کی نظر میں ہیں اس لیے ان کی رائے نے اس کتاب کو مزید وقیع بنادیا ہے۔مجھے صبیح کی رائے سے بھی اتفاق ہے:


کاشف عرفان نے تنقید و تفہیم کے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ آسان نہیں، بلکہ خاصا مشکل ہے۔ تاہم یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ مزاجاً وہ عامی اور اوسط درجے کا آدمی نہیں ہے۔ قدرت نے اُسے بہتر صلاحیتوں سے نوازا ہے اور وہ نئے راستوں کا مسافر ہے۔ کچھ نیا کرنے کی دُھن اُس کے لیے آئندہ زیادہ بڑی اور زیادہ بامعنی منزلوں تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔‘‘


کچھ عرصہ قبل تک نعتیہ شاعری پر تنقیدی رجحانات کے دروازے بند تھے۔ پھر جیسا کہ میں نے مختصراً عرض کیا ’’نعت رنگ‘‘ کے اجرا کے بعد نقدِ نعت کی راہ ہموار ہوئی۔ نعتیہ ادب کی تخلیقی سرگرمیوں سے منسلک روایتی لوگوں کی نظر میں یہ بدعت (بلکہ گناہ)تھی۔لیکن اہلِ فکر و نظر نے نعتیہ شاعری کے لیے تنقیدی رجحانات کے پھیلاؤ کو تائیدِ ربانی سے تعبیر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نعت رنگ کے اجرا کے فوراً بعد راقم الحروف اور صبیح رحمانی نے بیت اللہ میں یہ دعا کی تھی کہ نعت پر تنقید کرنا اگر سود مند ہے تو یہ تحریک آگے بڑھے ، بصورتِ دیگر یہ سلسلہ یہیں رک جائے!… اللہ رب العزت نے اس نظریئے کے فروغ کی راہ ہموار فرمادی… الحمدللہ! …یہی وجہ ہے کہ آج نعتیہ ادب میں نئے ذائقے کی تنقیدی کتاب متعارف کرواتے ہوئے مجھے مسرت ہورہی ہے۔ میں اس کتاب میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی شمولیت کو بھی نیک فال سمجھتا ہوں۔ اللہ انھیں خوش رکھے (آمین)!