مقام محمود اور محمود الزمان کی نعتیہ شاعری ۔ آصف اکبر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از آصف اکبر



نوجوان شاعر احمد محمود الزّماں کے 2009 میں شائع ہونے والی اوّل صدارتی ایوارڈ انعام یافتہ نعتیہ کلام کی کتاب "مقامِ محمود" کا پیش لفظ۔

مقامِ محمود اور احمد محمود کی نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زیر نظر کتاب نوجوان شاعر جناب احمد محمود الزّماں کی نعتیہ شاعری کادیوان ’مقامِ محمود‘ ، یعنی ’ثنائے صاحبِ مقامِ محمود‘ہے، جو غزل کی ہئیت میں کہی گئی ایک سو چالیس خوبصورت نعتوں کا مجموعہ ہے۔ احمد محمود الزّماں بنیادی طور پر انگریزی ادب کے آدمی ہیں اور انگریزی صحافت سے عملی طور پر منسلک ہیں۔ ان کی شاعری کی بنیاد انگریزی میں رکھی گئی تھی اور اب تک انگریزی میں شاعری کے کئی مجموعے ان کے قلم کی نوک سے وجود پا کر زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ہرچند کہ ادبی دنیا میں محمود کی شناخت کا ایک حوالہ ان کے قابلِ صد احترام والد کی ذات بھی ہے ، جن کی شاعری کی گہری چھاپ احمد کی اردو شاعری میں نمایاں ہے، مگر ان کی اردو نعتیہ شاعری میں آمد ایک ایسے واقعے کا نتیجہ ہے جو گنتی کے چند خوش نصیب شعراء ہی کو پیش آسکتا ہے اور وہ واقعہ ان کا اللہ کے پیارے رسول ﷺ کا عالمِ خواب میں دیدار ہے۔ جس شخص کی نعت کی دنیا میں آمد کا سبب ایسی منفرد سعادت ہو اس کے ذوق و شوق اور لگن کا کیا ٹھکانہ ہو سکتا ہے۔ شائد یہی سبب ہے کہ انہوں نے ایک مختصر عرصے میں وہ کام کر دکھایا ہے جسے کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کو ایک عمر درکار ہوتی ہے۔

ہر چند کہ میں ادبی دنیا میں بیالیس سال تک محدود خامہ فرسائی کے باوجود، ابھی تک گمنام ہوں، اور گمنام رہنا ہی پسند کرتا ہوں، اور اپنے ہم عصروں کی تمام تر محبّتوں اور قدرافزائیوں اور کسی حد تک تقاضوں کے باوجود ابھی تک کسی کتاب کا خالق نہیں بن سکا ہوں، اور اس وجہ سے کسی کتاب کا تعارف لکھنے کی میری اہلیّت ہرگز مسلّمہ نہیں ہے، لیکن صاحب کتاب کے اصرار کے آگے میری پیش بندیاں ناکام رہنے کے سبب میں یہ سطور تحریر کرنے پر آمادہ ہواہوں۔

اردو کی نعتیہ شاعری کا اپنا ایک رنگ ہے جو الحمد للہ دن بدن نکھرتا جا رہا ہے۔ پچھلی صدی کے وسط تک جہاں یہ حال تھا کہ غزل گو شعراء زندگی میں ایک آدھ حمد یا نعت تبرکاً ہی کہتے تھے، اور بھرپور مذہبی شاعری کرنے والے خال خال ہی ہوتے تھے، وہاں آج یہ کیفیت ہے کہ شائد ہی کوئی غزل گو شاعر ایسا ہو جو پابندی سے نعت بھی نہ کہتا ہو، یہاں تک کہ معروف مزاح گو شعراء بھی انتہائی دلکش نعتیں کہتے ہیں جس کو سن کر آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں۔ساتھ ہی متعدد کمال کے شعراء ایسے بھی ہیں جو صرف نعت و حمد ہی کہتے ہیں اور غزل یا تو انہوں نے کبھی کہی ہی نہیں یا پھر نعت کی وادیوں میں راہ پانے کے بعد غزل کے میدانوں کو انہوں نے مستقل طور پر تج دیا ہے۔ اسلام آباد میں ایسے شاعروں میںعزیز احسن، عرش ہاشمی، حافظ نور احمد قادری سرِ فہرست ہیں۔

نعت کی اس روز افزوں ترقی کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اس کے مضامین میں تنوّع اور وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ سیرت کے واقعات، اللہ کے رسول ﷺ کے خُلقِ عظیم، ان کی عظمت اور بلندی کے ساتھ ساتھ اصحابِ رسول کی توصیف، مدینہ منوّرہ کے شرف، گنبد خضراء اور مزار مبارک کی جالیوں سے لگاؤ، ہجر و فراق کی کیفیات، حاضری کے لیے تڑپ، اور قسمت کی بلندی کے ساتھ حاضری کے دوران واردات قلبی تو روائتی طور پر نعت کے مضامین تھے ہی، اب نعت میں امّت کی کسمپرسی کا بیان، مسلمانوں کے زوال کا تذکرہ، دادرسی کی استدعا، اور متعدد نئے پہلو شامل ہوتے جارہے ہیں۔

بنیادی طور پر ہر مسلمان کا اللہ کے رسول ﷺسے ایک دلی لگاؤ کا رشتہ ہے۔ قرآن مجید کے اپنے بیان کے مطابق

<ref> النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۔ سورہ احزاب ۔ آیہ 6</ref>The Prophet is closer to the Believers than their own selves, and his wives are their mothers.

یعنی گو ، ہر انسان کے نزدیک سب سے اہم چیز اس کی اپنی ذات ہوتی ہے مگر ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اس درجہ محبّت واجب ہے کہ وہ ان کی ذات کو اپنی جان پر بھی ہر لحاظ سے ترجیح دے۔ نتیجتاً تمام باشعور مسلمان شعوری اور لاشعوری طور پر اللہ کے رسول ﷺ سے والہانہ محبّت کرتے ہیں اور اپنے قول و فعل سے اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ محبّت کا یہ اظہار لوگ جشن میلاد کی صورت میں بھی کرتے ہیں، جلوسوں کی صورت میں بھی۔ وعظ اور ذکر کی محفلیں بھی ہوتی ہیں اور نعت خوانی کی بھی۔

تاہم یہ شرف انسانی معاشرے کے نفسِ ناطقہ یعنی زمرہ شعراء کے حصّے میں ہی آتا ہے کہ وہ اس محبّت کے ہر ہر پہلو کو ہزاروں مختلف انداز سے دیکھیں اور پھر اپنے اپنے محسوسات کو توفیقِ الٰہی کے مطابق بہتر سے بہتر انداز میں بیان کر کے اس محبّت کا اظہار کریں۔ نعت خوانی اور نعت گوئی میں یہی ایک بنیادی فرق ہے کہ نعت خواں کسی اور کی (کبھی کبھار اپنی بھی) کہی ہوئی مدحت و توصیف کو اچھے سے اچھے لحن میں پڑھ کر محبّت کا اظہار کرتے ہیں، مگر اس میں تخلیقی عمل کوئی نہیں ہوتا، جبکہ نعت گوہر شعر کے لیے تخلیق کے مرحلے سے گزر کر ایک نیا موتی نکال کر لانے کی جستجو میں مصروف رہتا ہے۔

واضح رہے کہ انسانی تہذیب کے روزِ اوّل سے آجتک جمالیاتی احساسات کے اظہار کے لیے شاعری ہی سب سے مقبول اور کامیاب ذریعہ اظہار رہا ہے، جبکہ منطقی گفتگو کے لیے سادہ اور سلیس نثر کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ شاعری اور منطق، اور دور جدید میں سائنس ، سبھی میں اصطلاحات، علامات اور اشارات کا ایک مربوط استعمال ہوتا ہے، اور جیسے جیسے بات بڑھتی جاتی ہے علامات کا استعمال بڑھتا جاتا ہے، اور جس طرح ریاضی کی مساوات نہ سمجھ پانے والا شخص اس کو محض اس بنا پر رد کردے کہ یہ چیزیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اس لیے فضول ہیں اسے جاہلِ مطلق گرداناجائے گا اسی طرح شاعری کو اس بنیاد پر رد کرنے والے شخص کو کہ اسے یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، کسی دوسرے زمرے میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ شاعری کی اس اثر آفرینی کا ہی نتیجہ ہے جو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر دور میں محبّت، عقیدت، تعظیم، تفاخر ، جوش، ولولے ، اور ان کے متضاد جذبات کے اظہار کے لیے شعر کو ایک موثّر پیرایۂ اظہار بنایا گیا ہے، چنانچہ محفل طرب ہو یا میدانِ کارزار، شاہی دربار ہو یا مذہبی تہوار ہر جگہ شاعری ایک نمایاں مقام حاصل کرتی رہی ہے۔ تاریخ نے خطبات کو تو کم کم ہی محفوظ کیا ہے مگر شعر کو حیرت ناک حد تک اپنے اوراق میں بہت زیادہ جگہ دی ہے۔ تاریخی داستانیں، قصائد، لوک کہانیاں، رزمیہ قصّے سبھی اس ہیئت میں ہزاروں سال سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے چلے آئے ہیں۔

اس پس منظر میں ہر دور میں عمومی سطح سے کہیں بلند جمالیاتی احساسات رکھنے والے صاحبانِ علم شاعری کوذریعہ اظہار بناتے آئے ہیں۔اگر کہیں یہ سوال اٹھایا جائے کہ انسان شاعری کیوں کرتا ہے تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ جس سبب سے پرندے چہچہاتے ہیں، انسان آپس میں گفتگو کرتے ہیں اسی ضرورت کو ایک نفیس قالب میں ڈھالتے ہوئے شاعری بھی کی جاتی ہے، اور کسی قوم کی تمدّنی ترقّی کا اندازہ اس کی شاعری کے معیار سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ جب اپنے خیالات کا شعر کے ذریعے سے اظہار ایک تمدّنی مجبوری ٹھہرا، تو یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ رحمتِ دوعالم ﷺ کے بارے میں، جو تمام مسلمانوں کے لیے ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر عزیز ہیں، اپنے جذبات و خیالات کا اظہار شعر کے ذریعے سے نہ کیا جاتا۔ چنانچہ تمام زمانوں میں اور تمام زبانوں میں تقریباً تمام شعراء نے ، جن میں غیر مسلموں کی بھی ایک قابلِ ذکر تعداد شامل ہے، اللہ کے رسول ﷺ، کی خدمت میں اپنے نذرانے پیش کیے ہیں۔

ہمارے دور میں جو شخص اپنا تشخّص نعت گو شاعر کی حیثیت سے بناتا ہے، اس کا مقصد، اپنے ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ، سوائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کے اور کچھ نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس شاعری میں نہ تو کسی مالی منفعت کی کوئی صورت ہوتی ہے اور نہ یہ تقریب بہر ملاقات کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو سمجھتا ہے کہ میں اللہ کے رسول ﷺ سے اپنی محبّت کا اظہار شعر کی صورت میں بہتر انداز میں کرسکتا ہوں اور اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اپنی مغفرت کا طالب ہوتا ہے۔ غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم۔ اب اگر کوئی شخص اپنا وقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اندوخت کر رہا ہے تو اس کے لیے یہ بھی مناسب ہوگا کہ وہ اس کا حاصل کار ایسی شکل میں پیدا کرے جو معناً اور شکلاً دونوں طرح سے قابلِ قبول ہو۔ مشکل صرف یہ ہے کہ اس چیز کے لیے مطالعہ کرنا پڑتا ہے، مشق کرنی پڑتی ہے، استادوں سے اصلاح طلب کرنی پڑتی ہے جس کے لیے وقت درکار ہے، اور سب سے مشکل بات یہ ہے کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا پڑتا ہے جس کے لیے حوصلہ درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سہل پسندوں نے، جو وقت مطالعے میں صرف کرنا چاہیے، اسے ’پیداوار‘ میں استعمال کرنے کی روش اپنا لی ہے، اور ’سب چلتا ہے‘ ہمارے دور کی ثقافت بن گیا ہے۔

نعت گو شعراء رسول کریم ﷺ کی ذات مبارک کے حوالے سے جو کچھ سوچتے ہیں اسے شعر کے مرّوجہ پیمانوں کے مطابق ایک ایسے انداز میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں نغمگی بھی ہو، ندرت بھی ہو، احساس بھی چھلکتا ہو اور مفہوم میں کوئی ابہام نہ ہو۔ واضح رہے کہ جب کوئی شخص اپنے کو بطور شاعر پیش کرتا ہے تو وہ اس بات کا دعویدار ہوتا ہے کہ جس زبان میں وہ شعر کہہ رہا ہے وہ اس زبان کا مزاج شناس ہے، اور ابلاغ پر اور سامعین کی نفسیات پر اس کی گہری گرفت ہے۔ وہ ہر ہر لفظ، ہر ترکیب، الفاظ کی ترتیب اور اس ترتیب سے پیدا ہونے والے مفہوم یا مفاہیم سے نہ صرف خود بہت اچھی طرح واقف ہے، بلکہ اس ابلاغ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہر تاثّر کی بھی ذمّہ داری قبول کرتا ہے، اور کسی بھی مفہوم کو یہ کہہ کر رد نہیں کرسکتا کہ میرا مطلب کچھ اور تھا۔ گویا یہ شاعر کی ذمّہ داری ہے کہ اس کے الفاظ کا چناؤ ایسا ہو جو سننے والوں کے دماغوں وہی تاثّر پیدا کرے جو شاعر پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے شعر میں کچھ ایسی باریکیاں پنہاں ہوں جہاں تک عام سامعین کا خیال نہ پہنچ سکے اور ان کے لیے شعر بے معنی ٹھہرے۔

کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا خیال رکھنا تمام شعراء کے لیے لازم ہے اور کچھ ایسی ذمّہ داریاں ہیں جو بطور خاص نعت گو شعرا پر عا ئد ہوتی ہیں۔ جن چیزوں کا خیال رکھنا عام شعراء کے لیے بھی ضروری ہے ان میں شعر کا بامعنی ہونا سب سے اہم ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب ردیف پریشان کن ہو یا قافیہ تنگ ہو۔ ایسے میں بہت سے شعراء شعر کہنے کو لازم سمجھتے ہوئے، مفہوم کو قربان کردیتے ہیں، حالانکہ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ مہمان کے سامنے دسترخوان پر ادھ کچّے چاول لا کر رکھ دیں، یا ایسا کھانا رکھ دیں جس میں سے بو آرہی ہو۔ بہتر یہی کہ آدمی شعر کو قربان کردے اور کم اشعار پر ہی اکتفا کرے۔ اساتذہ کے دواوین میں بھی ہمیں بعض مقامات پر ایک یا دو شعر پر اکتفا مل جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وزن، صوتی ہم آہنگی کا خیال اور بھرتی کے الفاظ سے پرہیز بھی لازم ہے۔

اردو زبان میں جہاں ایک آسانی یہ ہے کہ شاعر کے سامنے ہندی، فارسی عربی الفاظ کا ایک عظیم سمندر ہوتا ہے جس میں سے وہ اپنے مطالعے کی وسعت کے مطابق موزوں الفاظ نکال سکتا ہے، وہیں ایک دشواری یہ بھی ہے کہ اضافتوں کے لیے، جمع، مذکّر مونّث کے لیے، صحیح تلفّظ کے لیے اور صحیح مفہوم کے لیے جس زبان کا لفظ ہے اسی زبان کے اصول و ضوابط کی پابندی کرنی پڑتی ہے، چنانچہ الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے ان چیزوں کا خیال کرنا لازم ہے۔

نعت گو شاعر کے لیے جن اضافی پابندیوں کا اوپر اشارہ ہوا، ان کو تفصیل سے دیکھ لینا شائد بہتر ہو۔

الفاظ کا چناؤ ایسا ہو کہ کوئی مبتذل لفظ نعتیہ شعر میں جگہ نہ پا سکے۔ اس بات کی بھی کوشش ہونی چاہیے کہ کوئی لفظ خواہ وہ مبتذل نہ بھی ہو مگر طبیعت پر گراں ہو جیسے ’غلاظت‘ اسے استعمال کرنے سے پرہیز کیاجائے۔ اسی طرح سے مجھے لفظ ’ہجو‘ کے نعت میں اس مفہوم میں استعمال پر بھی شدید اعتراض ہے، کہ دشمن ایسا کرتے تھے۔ اگر کوئی میری یا میرے والدین کی ہجو کرے تو میں کبھی بھی بھری محفل میں یہ نہیں کہوں گا کہ فلاں شخص میرے والد کی ہجو کرتا تھا۔ دشمن تو اللہ کے رسول ﷺ کو نہ جانے کیا کیا کہتے تھے، لیکن یہ تاریخی حقائق انہی الفاظ میں بیان کرنا آسان الفاظ میں نعت کے تقدّس کے منافی ہے۔ نعت میں اپنے جذبات کا سمونا اچھی بات ہے اور نعت میں بیشتر حسن انہی جذبات سے ہی پیدا ہوتا ہے مگر ان میں غلو کرنا ہرگز مستحسن نہیں ہے۔ آپ جس ذات کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں، وہ نہ خود غلو کرتے تھے اور نہ غلو کو پسند کرتے تھے۔ حدیث مبارک میں بڑے واضح الفاظ میں آیا ہے کہ جب مدینہ منوّرہ کی بچیّوں نے آپ ﷺ کے بارے میں یہ شعر پڑھا کہ ’ہم میں وہ نبی ﷺ ہیں جو آنے والے زمانے کی خبر رکھتے ہیں‘ (مفہوم) تو آپ نے اسے ناپسند فرمایا۔ ساتھ ہی ہمیں یہ خیال بھی رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے کہا ہے کہ وہ ایسی بات کیوں کہتے ہیں جو کرتے نہیں؟ چنانچہ اگر کوئی نعت گو شاعر یہ کہتا ہے کہ میں مدینے جا کر ہرگز واپس نہیں آؤں گا، مگر وہاں پہنچ کر اس کا پہلا کام ہی واپسی کی نشست کی توثیق ہو، تو اس صورت میں بہتر یہی ہوگا کہ وہ ایسا شعر نہ کہے، جو اسے شعراء کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے قول انّھم فی کلِّ وادٍ یھیمون کا مصداق بنا دے۔ اس سلسلے میں ہمارا پیمانہ یہی ہونا چاہیے کہ ہم جو شعر کہہ رہے ہیں، وہ اگر دربارِ نبوی میں پڑھا جاتا تو رسالت مآب اسے پسند فرماتے یا نہیں؟

نعت میں تعلّی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔آپ کتنے ہی بڑے شاعر کیوں نہ ہوں، بحیثیت شاعرآپ اللہ کے رسول ﷺ کو متاثّر نہیں کرسکتے، جنہوں نے اس دور کے عرب کے سب سے بڑے شاعر کو اصلاح دی، اور اس حوالے سے وہ شعر حیات دوام پا گیا۔

جو بھی بات واقعات و صفات کے حوالے سے کی جائے، وہ مستند ہو۔ موضوع روایات سے متاثّر ہو کر شعر کہنا، اللہ کے رسول ﷺ پر جھوٹ باندھنا یا کم از کم اس جھوٹ کو بلا تحقیق آگے بڑھانے میں مدد دینا ہے۔

اپنے گنہگار ہونے پر فخر کا اظہار، ایسا امر ہے جو اگر رسول اللہ ﷺ کے دربار میں کیا جاتا تو یقیناً حضرت عمر فاروقؓ کہتے کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اتار دوں۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی کسی گنہگار کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ ہاں گنہگار جب اپنے گناہوں پر پشیمان ہو کر توبہ کرتا تھا تو وہ اسے سینے سے لگا لیتے تھے، جیسا کہ حضرت کعب اور ان کے تین دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہوا تھا، جو جہاد میں شریک نہ ہونے کے سبب معتوب ہوئے، اور پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تو اللہ کے رسول ﷺ نے بھی انہیں گلے سے لگایا۔

تمام مثبت انسانی جذبات کسی نہ کسی انداز میں نعت میں بیان کیے جاسکتے ہیں۔ ان میں الفت، محبّت، لگاؤ، کشش، عشق، وارفتگی، ایثار، تقلید،وضع قطع، پیروی، اپنائیت، یگانگت، فدائیت، قربانی، ستائش، پرستش، امید، تمنّا، توقع، تعلّق، تیقّن، غلامی، حاضری، سرخوشی، فخر، رشک، مدحت، عظمت، مرعوبیّت، طلب، خواہش، مصاحبت، موانست، سکون، قرار، سرور، تائید، توقیر، لذّت، عزیمت، حمیّت، غیرت، تڑپ، تقابل، برتری، تعریف و توصیف، تحسین، عقیدت، تواضع، تصوّر ، استمداد، پکار، وغیرہ شامل ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ کچھ منفی جذبات جیسے افسوس، رنج، ہجر، بے چینی، خجالت، ندامت، بے بسی، بھی آجاتے ہیں جومثبت جذبات کے لیے درکار معیار پر پورا نہ اتر پانے کا منطقی ردّ عمل ہوتے ہیں۔

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]