عبداللہ ناظر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

NAAT KAINAAT ABDULLAH NAZIR.jpg

منکسر المزاج اور دھیمے لہجہے والی ملنسار شخیصت کے مالک معروف شاعر عبد اللہ ناظر 23 دسمبر 1932 کوپتھر گٹی حیدر آباد، بھارت میں پیدا ہوئے ۔

عبداللہ ناظر کے والد کا نام عبدالرّحمن المعلمی ہے جو پتھر گٹی حیدر آباد کے رہنے والے تھے ۔ عبدالرّحمن المعلّمی کا تعلق یمن سے تھا ،لیکن اُن کی عمر کا بیشتر حصّہ سعودی عرب میں گزرا۔ سعودی حکومت سے قبل حکومتِ رشید کے دوران وہ عسیر کے علاقہ میں قاضی القضاء کی حیثیت سے کام کرتے تھے اور جب ہندوستان میں منتقل ہوئے تو بعض خدمات کے بعد دائرہ المعارف العثمانیہ میں عربی کتابوں کے مصحح کی حیثیت سے ملازم ہوئے ،جہاں اُنہوں نے تقریبا ۵۳ کتابوں کی تحقیق کی اور کئی کتابوں کے مؤلّف بھی ہوئے ۔ ۱۹۵۱ء میں وہ سعودی عرب کو روانہ ہوئے، جہاں مکّہ مکرّمہ میں حکومت کے کتب خانہ، مکتبہ الحرم الشریف میں امین المکتبہ کے رتبہ پر ملازم ہوئے ،جہاں تا حیات کام کرتے رہے۔مختلف محلّوں کے کرایہ کے مکانوں میں منتقل ہوتے ہوتے آخری قیام گاہ محلّہ دبیر پورہ میں قرار پائی جو دبیر پورہ کے دروازہ اور ریلوے سٹیشن کے درمیاں تھی ۔


شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آپ کی شاعری عصری وابستگی ، ہجرت کے رنگ اور جذبوں کے اظہار کا دبستان ہے ۔ اردو ادب کے نامور نقاد و محقق شمس االرحمن فرماتے ہیں کہ

"عبداللہ ناظر صاحب عقل سے زیادہ دل اور دانش سے زیادہ جذبے کے شاعر ہیں"

شمس الرحمن فاروقی نے مزید فرمایا کہ ان کی شگفتگی اور عشقیہ اظہار انہیں غزل کا کامیاب شاعر بناتا ہے ۔ <ref> مہتاب قدر، "تار انفاس پر تبصرہ </ref>

عبداللہ ناظر آٹھویں جماعت سے شعر کہنے لگ گئے ۔ ایک دوست مرحوم مصلح الدین سعدی نے محلہ کے ایک شاعر طالبؔ رزّاقی سے تعارف کروایا اور عبد اللہ ناظر نے ان کے آگے زانوئے تلمّذ تہہ کیا ۔ طالب رزاقی کے دیگر شاگردوں میں معین الدین لطفیؔ تھے اور کلیمؔ قریشی کے نام طور پرقابلِ ذکر ہیں۔ شاعری سے اس قدر لگاؤ ہوگیا تھا کہ کتب خانۂ آصفیہ میں مشہور شعراء کے سینکڑوں دیوان پڑھنے کی توفیق ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ کئی مشہور ادیبوں کے ناول اور افسانے پڑھے ۔ پہلی مرتبہ غزل اردو کے روزنامہ اخبار ‘‘رہنمائے دکن ‘‘ میں شائع ہوئی


حمدیہ و نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

چونکہ پاکیزگی ، طہارت و اسلامی شعار شخصیت کا حصہ تھے تو آپ نعت گوئی سے بھی دور نہ رہیں ۔ ان کی کچھ نعتیں ذیل میں درج ہیں۔

وفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آخری ایام میں آپ کی صحت اور نظر بہت کمزور ہو گئی تھی ۔ چونکہ انٹرنیٹ پر ہی ساری دنیا سے رابطہ تھا تو ای میلز میں ٹیکسٹ بہت بڑا فونٹ استعمال کرتے تھے ۔ لیکن ایسے حالات میں بھی اردو ادب کی خدمت نہیں چھوڑی اور جب تک ممکن ہوا ادب دوستوں سے برقی رابطہ رکھا۔ 12 دسمبر 2010 کو یہ نابغہ روزگار شخصیت اپنے انمنٹ نقوش چھوڑ کر اس دار فانی سے رخصت ہوگی ۔

دیگر معلومات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاگرد  : ابو الحسن خاور


حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]