شاعر ایاز صدیقی کا مجموعہ "ثنائے محمد -ثمینہ اسماعیل

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

تحریر نگار :ثمینہ اسماعیل

ایاز صدیقی8 اگست 1932 ءکو مشرقی پنجاب کے علاقے روہتک میں پیدا ہوئے۔ ایاز صدیقی نے اپنے بڑے بھائی کے زیر سایہ فکری تربیت حاصل کی ۔شاعری میں ان کا استاد کوئی نہیں اور اس بات کا اعتراف خود شاعر نے کیا ہے ’ہائے وہ شخص کہ جس کا کوئی استاد نہیں‘ <ref> مقالہ نگار کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔مکمل شعر اس طرح ہے

للہ الحمد حزیں ہیں مرے استاد ایاز

ہائے ہو شخص کہ جس کا کوئی استاد نہیں

ایاز صدیقی کے بڑے بھائی حزیں صدیقی غزل کے معروف شاعر تھے اور ایاز صدیقی نے نہ ان سے نہ صرف فکری بلکہ فنی تربیت بھی حاصل کی ۔(ادارہ) </ref> ”ثنائے محمد “ ایاز صدیقی کا پہلا نعتیہ مجموعہ ہے۔ یہ کتاب تین مرتبہ شائع ہو چکی ہے۔ میرے سامنے اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے ۔ اس کتاب کی ناشر بزم تخلیق ادب پاکستان ہے۔ اور کتاب کی طباعت کا سہرا معراج جامی صاحب کے سر ہے ۔کتاب کا انتساب والدین کے نام کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مختصر جائزہ پیش کر نے کی سعی کر رہی ہوں ۔نعتوں کے اس مجموعے میں کل بانوے نعتیں ہیں اور ان نعتوں کی خصوصیت ےہ ہے کہ تمام کی تمام نعتیں مرزا اسد اللہ خان غالب کی زمینوں میں کہی گئی ہے۔


ایاز صدیقی نے غزل کی سال ہا سال بادہ پیمائی کی اور ان کا مجموعہ غزلیات ”نقد ہنر“ شائع ہو چکا ہوا ہے اگر چہ وہ غزل گوئی کے سفر میں بھی کبھی کبھی نعت کی طرف چلے جاتے تھے مگر” ثنائے محمد “ کو ایاز صدیقی نے بڑی ہی محبت اور دلجوئی سے تحریر کیا ہے ۔اس طرح ایاز صدیقی نے غزل کی خام خیالی سے نعت کی طرف آتے آتے پختہ فکری کا سفر طے کیا ان کی نعتوں میں غزل سے وابستگی کی بدولت ےہ فائدہ ہوا کہ ان کی نعتوں میں فنی حسن اور معنوی جمال کے تلازمات پیدا ہوئے اور یوں ایک خوبصورت گلدستہ تخلیق ہوا ،ایسا گلدستہ جس میں شامل ہر پھول کی تخلیق ایاز صدیقی نے دل کے اجلے جذبوں اور اشک و آہ کے جملہ لوازمات کے ساتھ کی ہے ۔ ایاز صدیقی نے غالب کی 92 غزلوں کا انتخاب کیا اور پھر انہی بانوے غزلوں سے ایک ایک مصرع لیا اور اس ایک مصرعے پر پوری پوری نعت لکھ ڈالی۔ ےہ نعتیں کہیں سات سات اور کہیں نو نو اشعار پر مبنی ہیں۔ ان غزلوں کے انتخاب میں آسانی اور دشواری کی کوئی شرط نہیں اور یوں ایاز صدیقی کئی نا ہموار وادیوں میں بھی غالب ہی کے نقش قدم پر چلے ہیں ۔ایاز صدیقی نے اپنے آپ کو رسمی نعت سے آزاد رکھا ۔”ثنائے محمد “ایک ایسا مجموعہ کلام ہے جسے بے مثل اور منفرد کہنا بے جانہ ہوگا۔ غالب کے ہاں فکر تو ہے ہی مگر ایاز صدیقی جو کہ نعت کی فضاﺅں میں اڑے ہیں تو وہ بڑی ہی شان سے اڑے ہیں اور غالب کی جس بھی زمین کو لیا اس کا پورا پورا حق ادا کر نے کی کوشش کی ہے جس میں وہ ناکام نہیں ہوئے ۔

تضمین ایک نہایت ہی دشوار عمل ہوتا ہے۔ ایاز صدیقی کی تضمینوں کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے غالب کے بانوے کے بانوے مصرعوں کا مزاج بدل کر اسے اپنے مصرعوں سے ہم آہنگ کر تے ہوئے اپنی فکرمیں جذب کر لیا ہے یوں ہم کہہ سکتے ہیں ایاز کے مصرع سے جڑ کر غالب کا مصرع نہیں لگتا بلکہ نعت کا مصرع لگتا ہے جس سے شاعر کی فنی ریاضت کا علم ہوتا ہے چند تضمین نذر قارئین


کس طرح گزریں گے ےہ دوری کے روز وشب حضور

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیرکا

آقا نے مجھ کو دامن رحمت میں لے لیا

میں ورنہ ہر لباس میں ننگ و جود تھا


ایاز صدیقی کے ہاں نایاب تراکیب کا بہترین استعمال ملتا ہے ۔ نعت گوئی کی صداﺅں کے ہجوم میں بھی ہمیں ایاز صدیقی کی آواز سب سے جدا، سب سے نرالی ،سب سے منفرد ،سب سے یکتا سنائی دیتی ہے۔ ان کے ہاں زبان و بیان کی اتنی نکتہ طرازیاں ملتی ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔ ان کے ہر شعر بلکہ ہر ایک مصرع میں ایک نیا رنگ ،نئی مہک، نیا ذائقہ ،نئی روشنی، نئی جھلک کا احساس ہوتا ہے ، ایسی تازگی ہے جو کہ شاعر کے وجود کو معطر کرتی چلی جاتی ہے ۔ ایاز صدیقی نے ایسے الفاظ کا چناﺅ کیا ہے جس سے ےہ نعتیہ کلام نکھر کر سامنے آیا ہے۔ ےہ الفاظ اشعار میں ایسے حسین و جمیل تراکیب کے ساتھ آتے ہیں کہ جن کے سحر سے قاری آزاد نہیں رہ سکتا۔ وہ لفظی تراکیب سے بڑی ہی مہارت کے ساتھ اشعارکی سجاوٹ کر تے ہیں۔ فرش ریگ راہ طیبہ ، مقصد تکوین عالم، ہدف موج ہوا ،بے چہرہ گنہگار، جنت خواب تمنا ،عشق شہنشاہ ،ہوائے کوچہ جانا، نقد غم حضور رنگ شگفتن گل طیبہ وغیرہ تراکیب کا ایک انبار موجود ہے۔خوبصورت تراکیب کے ساتھ ساتھ خوبصورت تلمیحات اور تشبیہات کا بھی استعمال کیا گیا ہے جو کہ شاعر کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں مثلاً ذیل کے شعر میں ایک ساتھ دونوں کا استعمال نہایت ہی بہترین انداز میں کیا گیا ہے ۔ رہتے تھے آپ شام و سحر حق سے ہم کلام

غار حرا بھی آئینہ ءکوہ طور تھا


ایاز صدیقی کا تمام تر کلام حضور سے عقیدت و محبت اور عشق و قرب کے والہانہ جذبات کا عکاس ہے اسی کلام ہی کے ذریعے وہ نبی آخر الزماں سے اپنی سچی محبت کا اظہار کر تے جاتے ہیں ۔غالب کے ایک مصرع کو لینا اور اس پر پوری پوری نعت کہہ دینا معمولی بات نہیں ہے اس سلسلے میں حزیں صدیقی نے کچھ یوں رقم کیا ہے ۔’ثنائے محمد کے مصنف نے مرزا مرحوم کی روح کو شرمندہ نہیں ہونے دیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ جہاں ایاز میدان غزل کا شہسوار ہے وہاں نعت کے بحر بے کنار کا شناور بھی ہے ۔ ایاز صدیقی کی نعتیں میرے مطابق ہر اس خیا لی مضمون اور فکر سے بھری ہوئی ہیں جو اس سفر خاص کا خاصہ ہو تا ہے ۔

حضور سے عشق و محبت اور عقیدت کی ہر کیفیت کو بیان کیا گیا ہے آپ کے تصور سے مسرت و نشاط کی بہاریں، مدینہ جانے کے لیے مسلسل آرزو، تڑپ تڑپ کر اس پاک سر زمین کے لیے دعائےں اور التجائےںاور پھر ان کی دید پر اشک کی کیفیات کرب و کیف کے بعد در رسول پر سعادت کا حاصل ہونا ،گنبد حضرا کے مناظر کا ظاہر و باطن تک غلبہ مسلسل ، ہمیشہ کے لیے مدینہ کا ہونے کی تمنا، وہیں پر مرنا اور وہیں مقدس سر زمین کے غبار میں دفن ہوجانے کی ہر روز خواہش کر نا۔

مندرجہ بالا تمام تر باتیں ہمیں ان کی فکر سے قریب تر لے کر جاتی ہیں اور ان کی نبی سے رفاقت و قرب کو ظاہر کر تی ہیں ۔ایاز صدیقی جذبہ عشق سے سرشار نظر آتے ہیں اور اسی عشق کی بدولت وہ گلہ کر تے ہوئے حسرت بھری التجاﺅں سے کہتے ہیں۔


کب مجھے بلوائےں گے آقا حریم قدس میں

خواب ہستی منتظر ہے جلوہ تعبیر کا


ایاز صدیقی کے کلام سے ےہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انہیں خواب میں وہ جلوہ نصیب ہو چکا ہے جو کہ قسمت والوں نیک اور برگزیدہ لوگوں کو نصیب ہوتا ہے ۔’حضور خواب میں آئے تھے ایک شب مرے گھر‘۔خواب میں آخر الزماں کے دیدار کے بعد ان کے فراق میں اشک بہانا، ان سے سچی محبت کا اظہار ہے جسے وہ شعر میں بیان کر تے چلے جاتے ہیں۔

گریہ ہجر محمد میں انوکھا لطف ہے

جو مزا آنکھوں کے جل تھل میں ہے ساون میں نہیں


”ثنائے محمد “ سے ہر وہ منظر سامنے آتا ہے جو کہ ان کے ساتھ پیش آیا اور ایاز صدیقی کا ےہ کلام اس بات کا ہی ثبوت ہے کہ ایک اچھا شاعر وہی ہوتا ہے جو کہ اپنی زندگی میں پیش آنے والے مناظر کو ہو بہ ہو ویسا ہی بیان کرے جیسا کہ وہ ہوں ۔ اور شاعر نے تمام تر مناظرکی منظر کشی خوبصور ت انداز میں کی ہے ۔ شاعر کا اکیلے میں آپ کے انتظار میں اپنے روز و شب کو گزارنا، یہاں تک کہ زندگی کا ایک طویل عرصہ گزرجائے جیسا کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیںِ ویسا ہی ایاز صدیقی کے ساتھ کبھی ہوا ان کی دعائےں، ان کا تڑپنا ان کی اشک ریزی، ان کی محبت ، ان کی چاہت، ان کا خلوص دل سے دعائےں مانگنا انہیں اس سفر حجاز پر لے ہی گیا جس کے لیے وہ اشک فراق میں ڈوبے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی پرواز سفر کو یوں بیان کیا ہے

ڈھل گیا حضوری میں کرب و دوری منزل

لے اڑا ہمیں آخر شوق پرفشاں اپنا

پھر شاعر نے طیبہ کے سفر کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے، گنبدخضرا کی خوبصورتی اور جمال کو احاطہ تحریر میں لایا ہے پھر وہ تمام مناظر جو ان کی آنکھوں نے دیکھے ان کو رقم کیا ہے اور اپنی بات کو یوں ختم کیا ہے ۔


خاک ہو کر راہ طیبہ میں بکھر جاﺅں ایاز

یہ حسین رخ ہے مری تخریب میں تعمیر کا


مندرجہ بالا تمام تر وہ لمحات ہیں جو کہ ایاز صدیقی کی نعت گوئی کا ایسا رخ ہیں جسے ہم ذاتی کہہ سکتے ہیں، وہ لمحات جس میں وہ اپنے جذبات و کیفیات ، غم و نشاط، حاضری و حضوری کا ذکر شخصی انداز میں کرتے ہےں۔ پھر ان کے نعتیہ کلام میں ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے جہاں وہ نبی کریم کی سیرت طیبہ کے معجزات ،حضور کا معراج ،آپ کی عظمت کا بیان، حضور کے تبلیغی پہلو وغیرہ کو بیان کرتے ہےں۔ شاعر نے حضور اکرم کی زندگی کے تمام ہی پہلوﺅں کا احاطہ کیا ہے۔ حضور کی آمد کے بارے میں بڑے خوبصورت انداز میں تحریر کیا کہ آپ کی آمد کے بعد لوگوں کے دل و دماغ میں آگہی اور شعور اجاگر ہوا اور ہر طرف علم کی روشنی پھیلی ۔

آپ آئے ذہن و دل میں آگہی کا در کھلا

جہل نے بازو سمیٹے، علم کا شہپر کھلا

نعت نمبر 81 کا ایک شعر جو کہ بہت ہی خوبصورت ہے کچھ یوں ہے

ہر قریہ ظہور میں ہے دین کا فروغ

ہر سمت روشنی ہے محمد کے نور میں

ایاز صدیقی کی نعت گوئی کے بارے میں عاصی کرنالی نے کہا ’ایاز صدیقی نے سر شاری عشق کے ساتھ ساتھ ادب اور فن کی اس سلیقہ مندی کو بھی پوری طرح برتا ہے اور دل کی قاشوں کو سجا کر ان کی بارگاہ شفاعت میں پیش کیا ہے‘۔ ایاز صدیقی کے اس نعتیہ مجموعے کے تجزیے کے بعد میں کہہ سکتی ہوں کہ شاعر نے حضور کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا ہوا ہے اور شاعر کو نعت گوئی کا فہم و ادراک ہے۔ ےہ حضور سے والہانہ عقیدت و محبت ہی ہے جس نے ان کی نعتوں کو تاثیر و جلا بخشی ہے ۔ غالب کی غزلوں کی طرز پر جس خلوص نیت سے ایاز صدیقی نے نعتیں کہی ہیں وہ انفرادیت کی حامل ہیں الغرض ان کی نعتوں سے افکار کی بلندی، اظہار کی مذرت اور تغزل کا حسین امتزاج ابھرتا ہے ۔میں اپنی بات کا اختتام ایاز صدیقی کے شعر سے کرنا چاہوں گی

گریہ ہجر محمد کے لیے

دل سمندر آنکھ دریا چاہےے

بشکریہ: https://www.pnn.com.pk/10644

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]