بسائیں چل کے نگاہوں میں اُس دیار کی ریت ۔ سید وحید القادری عارف

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر: وحید القادری عارف

نعت ِ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ماخذ میں ترمیم کریں]

بسائیں چل کے نگاہوں میں اُس دیار کی ریت

بنے گی سُرمہ اڑے گی جو رہگزار کی ریت


اُٹھی جو مکہ سے رحمت چلی مدینہ تک

نسیمِ بادِ بہاری تھی شہسوار کی ریت


قدومِ پاکِ نبوّت کی برکتیں ہیں عیاں

چمک رہی ہے جو اس طرح کوہسار کی ریت


ہے مارمیت سے ثابت یہ دستِ قدرت ہے

عدو کی لے گئی بینائی دستِ یار کی ریت


حضور نظرِ کرم ہو کہ سخت طوفاں ہے

تباہ کردے نہ عصیانِ بے شمار کی ریت


جو سامنے ہے حقیقیت نظر نہیں آتی

بڑی عجیب ہے آشوبِ روزگار کی ریت


چڑھا ہے زنگ جواُس پر وہ صاف ہوجائے

اُڑے کچھ ایسےمرے دل پہ اعتبار کی ریت


چلیں جو اسوہء آقا پہ ہم تو کچھ نہ رہے

چلی ہے آج جو دنیا میں خلفشار کی ریت


خدا کرے وہیں پیوندِ خاک ہو عارف

اُسے بھی ڈھانپ لے اُس کوئے باوقارکی ریت


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پچھلا کلام | اگلا کلام | وحید القادری عارف کی حمدیہ و نعتیہ شاعری | وحید القادری عارف کا مرکزی صفحہ