ایسے ہو حُسنِ خاتمہء جاں نثارِ عشق ۔ سید وحید القادری عارف

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر: وحید القادری عارف

نعت ِ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ماخذ میں ترمیم کریں]

ایسے ہو حُسنِ خاتمہء جاں نثارِ عشق

خاکِ قتیلِ عشق ہو خاکِ دیارِ عشق


دلکش ہیں کس قدر یہ حدود و حصارِ عشق

عاشق ہے اور کیف و سرور و خمارِ عشق


قربان فرطِ شوقِ تصور پہ جائیے

ہر دم نگاہِ عشق میں ہے سبزہ زارِ عشق


"در راہِ عشق مرحلہء قرب و بعد نیست"

ہرگز نہ فاصلوں پہ رہا انحصارِ عشق


ہیں روز و شب غلام کے آقا کے عشق میں

اُن کے کرم سے اوج پہ یوں ہے وقارِ عشق


اُن کا تصور' اُن کا خیال' اُن کی گفتگو

کس درجہ خوشگوار ہے یہ کاروبارِ عشق


اس اضطرابِ عشق میں کتنا سکون ہے

فرحت فزائے روح ہے دل میں شرارِ عشق


لب بستگی بھی شرط ہے دربارِ عشق میں

پاسِ ادب ہے اصل میں عینِ شعارِ عشق


قدموں میں اُن کے جان کا نذرانہ پیش ہو

صبر و قرار پائے تو یوں بےقرارِ عشق


آساں نہیں' نہیں نہ سہی اپنی منزلیں

بہرِ وفورِ شوق ہے ہر خارزارِ عشق


مانا کہ ہے تمازتِ عصیاں بھی ساتھ ساتھ

کیا خوف ہو کہ ہے شجرِ سایہ دارِ عشق


ہر ہر قدم پہ جلوہء لطفِ حضور ہے

ہم اور طئے ہو مرحلہء رہگزارِ عشق؟


پنہچادیا مدینہء مقصود عشق نے

اب تشنہ کامِ عشق ہے اور آبشارِ عشق


اک سیلِ عاشقان ہے حدِّ نگاہ تک

ہر سمت موجزن ہے ہوائے بہارِ عشق


نسبت پہ اپنی پھر ہمیں کیوں کر نہ ناز ہو

ہوتا ہے عشق خود سندِ افتخارِ عشق


دامن بندھا ہے دامنِ سرکارِ عشق سے

ہم پر ہے مہربانیء پروردگارِ عشق


ممکن زبانِ عجز سے کیا ہوسکے بیاں

تفصیلِ عشق در سخنِ اختصارِ عشق


جو بات ہو معطرِ عشقِ رسول ہو

آئے دہن سے یوں مہکِ مشکبارِ عشق


عارف پہ ایسے سلسلہء فیضِ عشق ہو

اُس کا کلامِ نعت ہو اک شاہکارِ عشق


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پچھلا کلام | اگلا کلام | وحید القادری عارف کی حمدیہ و نعتیہ شاعری | وحید القادری عارف کا مرکزی صفحہ