اے مطلع ِ ایثار و مساوات کے نیر ۔ سروسہارنپوری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

شاعر: سرو سہارنپوری

قصیدہ زخمہ دل سے چند اشعار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اے مطلع ایثار و مساوات کے نیر

اب اٹھ کے ترے در سے کہاں جائے گی دنیا

اب کس سے ہو ماحول کے ظلمت کا تدارک

اب تیرے سوا کون یہ ناسور بھرے گا

پھر دور جہالت کی طرف پلٹی ہے تاریخ

ہے پیش نظر آج وہی رنگ فضا کا

اب قوم پہ وہ سخت گھڑی آئی ہے مولا

جب وقت کے دحارے پہ بہی جاتی ہے دنیا

ایمان کی ضو وقت ِ مہ سال میں گم ہے

ہاں حسن عمل کا نہیں اب کوئِ ٹھکانا

لذت کی صلیبوں پہ ہیں عصمت کے جنازے

معراج پہ ہے وحشت ِ انساں کا تقاضہ

طاقت ہے قط حسن و قباحت کی ترازو

دولت کے ذخائر ہیں امارت کا وسیلہ

دنیا کی نظر ظم کو فن جان رہی ہے

ہر جہل کو ہے زعم کے ہے علم کا داتا

بت رکھے ہیں رنگ و نسب و قوم و وطن کے

ہے دامن ِ اسلام میں یہ شرک کی دنیا

گو آج بھی الحمد سے تا آیہ والناس

قرآن کا ہر لفظ ہے اذہان پہ کندہ

الفاظ اترے نہیں حلقوم سے نیچے

پیغام پنتا نہیں اعمال کا جامہ

ہر جبر پہ سلطانی ءِ جمہور کا عنواں ہر جہل پہ علمیت ِ قرآن کا سایہ

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سرو سہارنپوری

استغاثہ