اردو نعت اوروقت کی ماورائی جہات ۔ کاشف عرفان

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مضمون نگار : کاشف عرفان۔اسلام آباد

اردو نعت اوروقت کی ماورائی جہات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Beyond perception dimensions of Time are focused in this article in the light of definitions of time attempted by Einstein and Hackings. Qur'anic divine verdict in this regard also referred to apprehend miraculous journey of Prophet Muhammad (S.A.W) i.e. Mairaj from Masjid-e-Haram (Makkak) to Masjid-e-Aqsa (Palestine) and wherefrom to Skies within very short span of time. Attempts also made to apprehend the theory through Qur'anic story of Men of Cave. Poetic expression as genre of Naat has also been placed to show relevance of Time theory in creative literary works.

اُردو نعت میں وقت کا تصور ِماضی ،حال اور مستقبل کے ساتھ ساتھ ماورائیت پر بھی مشتمل رہا ہے۔ ماضی ،حال اور مستقبل وقت کی معلوم جہات ہیں جس میں ہم اور آپ موجود ہیں اور چوتھی سمت اُن ماورائی عناصر کا بیان ہے جو وقت کی رفتا ر کے کم یا زیادہ ہونے سے پید ا ہوتے ہیں ۔ ٓ اردو نعت نگاری میں وقت کا ماورائی تصور بنیادی طور پر واقعۂ معراج اور حضرت محمد مصطفی کے معجزات کے ساتھ منسلک ہے ۔ واقعۂ معراج ِ مصطفی اور معجزۂ شق القمر کے ساتھ ساتھ ہجرت مدینہ کے سفر کے دوران غارِثور میں قیام میں پیش آنے والے واقعات مثلاً غار کے منہ پر مکڑی کا جالا اور فاختہ (کبوتر یا اسی طرح کا کوئی دوسرا پرندہ )کا چند ساعتوں میں گھونسلا بنا کر انڈے دینا وقت کے اُسی ماورائی اور مابعدالطبیعاتی تصور کا اظہار ہے ۔وقت کے اِس ماورائی تصور کو عہدِ جدید میں وقت کے نئے نظریات کے سامنے رکھ کر تجزیہ کرنا اور اسلام اور پیغمبر اسلام کی حقانیت ثابت کرنا اِس مضمون کے مقاصد میں شامل ہے ۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنا ضروری ہوگا کہ اردو نعت میں ان واقعات کا بیان حقائق سے قریب تر ہے یا نہیں ۔شاعری میں مبالغہ آرائی پر نظر رکھتے ہوئے خلائفِ حقیقت مضامین پر گرفت کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔


اس سے پہلے کہ ہم اردو نعت اور سیرت ِاطہر سے اِن واقعات کو سائنسی اور منطقی انداز میں سمجھنے کی کوشش کریں آئیے دیکھتے ہیں کہ خود وقت کیا ہے ؟اور وقت کی مختلف جہات کو سامنے رکھتے ہوئے اﷲتعالیٰ ،انسان اور کائنات کی مثلث میں وقت کے کون سے نئے زاویے سامنے آتے ہیں ؟


کائنات کی تشکیل کے بعد انسان کو جب پہلی بار فنا اور بقا کے فلسفے کا ادراک ہوا تو اُس کو وقت کے موجود ہونے کا احساس ہوا ۔ وہی لمحہ تھا جب انسان نے وقت کی ماہت کو سمجھنے کی کوشش کی ،گویا وقت ایسا پُل ہے جو بقا کو فنا سے ملاتا ہے ۔مگر بنیادی سوال تو پھر اپنی جگہ موجود ہے یعنی وقت کی ماہّیت کیا ہے ؟

?۔۔۔۔۔۔۔بقا ــــــــ۔۔۔۔۔۔۔ فنا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

وقت کو سمجھنا،آغاز ہی ہے انسان کی ضرورت بن گیالہٰذا آغاز سے ہی وقت کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہوگی لیکن اِس کی عقلی توجیہہ آج تک پیش نہیں کی جاسکی ۔اس کی بنیادی وجہ وقت کا تجریدی ہونا ہے ۔وقت کو تجسیم نہیںکیا جاسکتا۔

وقت ماضی ،حال اور مستقبل میں اپنی شکل تبدیل کرتا رہتا ہے۔حال کو روکا نہیں جاسکتا یوں حال مستقل طور پر ماضی میں تبدیل ہوتا رہتا ہے اور ماضی کو ہاتھ بڑھا کر روکا یا پکڑا نہیں جاسکتا ۔خود مستقبل ہمیشہ پردۂ اخفا میں رہتا ہے لہٰذا اُس کی تجسیم بھی نہیں کی جاسکتی ۔وقت کا تعلق زمانہ ،عہد اور عرصہ کے ساتھ ہے اس لیے وقت کا تصور سامنے آتے ہی ماضی ،حال اور مستقبل کے مفاہیم سامنے آتے ہیں یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ وقت کا تصور اپنے ساتھ وسیع ،گہرے اور ماورائی مفاہیم رکھتا ہے۔

آئن سٹائن نے کہا تھا :

"Time is the fourth dimension of the universe" ۱؎

آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافیت ( Theorey of Relativity)کے ذریعے ثابت کیا کہ خلاء میں روشنی کو انٹمی شکل میں سفر کرتی ہے یعنی توانائی کے بنڈلز (Bundles) کی شکل میں۔یہ نظریہ روشنی کے لہر ہونے کے پرانے نظریات کے خلائف تھا۔اس طرح آئن سٹائن نے روشنی کے پرانے ذراتی نظریے کو پھر سے زندہ کردیا ۔آئن سٹائن نے روشنی کو ذرہ اور لہر کی متضاد خوبیوں کا حامل قرار دیا یوںخلاء میں روشنی کی رفتا ر کے مستقل ہونے کا نظریہ سامنے آیا ۔یوں آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلٹویٹی (Theorey of Relativity)سے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کائنات میں کسی بھی چیز کی حد ِرفتار روشنی کی رفتار ہے ۔ اس نظریے نے وقت کی ماہیّت کے حوالے سے بہت سے نئے سوالوں کو جنم دیا ۔

  • کیا وقت ایک حقیقت ہے یا محض فریب ؟

٭ کیا وقت کائنات کی معروضی حقیقت ہے یا موضوعی ؟

٭ کیا وقت کاکوئی آغاز وانجام ہے ؟

٭ کیا وقت مستقل حقیقت ہے یا اٖاضافی (Relative)؟

٭ وقت جن چیزوں کے تّقابل سے وجود پاتا ہے کیا اُن اشیاء سے وقت کا کوئی حقیقی تعلق ہے ؟

وقت کا تصور کائنات میں وقوع پذیرہونے والے واقعات کے حوالے سے کیا جاسکتا ہے یعنی کوئی واقعہ کسی دوسرے واقعے سے کتنا پہلے یا بعد میں وقوع پذیر ہوا لہذا زیادہ آسانی سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وقت کا تصور مادے اور انرجی کے ساتھ ہے ۔انسانی شعو روقت کی پیمائش مادے اور توانائی کی مختلف انداز میں حرکات اور ان کا آپس میں تقابل کرکے کرتا ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ ہماری اِس کائنات میں ارب ہاکہکہشائیں ہیں ۔ان کہکہشائوں میں سے ہر ایک کہکشا ں کا نظام شمسی علیٰحدہ ہے ۔ہر نظام شمسی کے مختلف ہونے کے باعث کشش کا نظام بھی مختلف ہوگا لہٰذا وقت کی پیمائش کا نظام بھی مختلف ہوگا ۔خیال کیا جاتا ہے کہ دو ارب سے زائد کہکہشائیں ہماری اس کائنات کا حصہ ہیں ۔سائنس وقت کا تعلق روشنی کی رفتا ر سے جوڑتی ہے ۔ وقت کو کائنات کی وسعت میں پیمائش کرنے کے لیے نوری سال (Light Year )کی اصطلاح بنائی گئی ۔وقت کے تصور کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے خود کائنات اور اُس کے پھیلائو کے نظریے (Big Bang Theorey ) کو سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ وقت کی تعریف مختلف لغات میں وقفہ ( Duration)کی گئی ہے جو وقت کو سمجھنے کو اور مشکل بنا دیتی ہے۔سٹیون ہاکنگ اپنی معروف تصنیف’’وقت کا سفر ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’وقت کی ماہیت کے بارے میں ہمارے خیالات چند سالوں میں کس طرح تبدیل ہوچکے ہیں اِس صدی کے آغاز (بیسویں صدی)تک لوگ مطلق وقت پر یقین رکھتے تھے،یعنی ہر واقعہ وقت نامی ایک عد د سے منفرد انداز میں منسوب کیا جاسکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاہم اس دریافت نے کہ ہر مشاہدہ کرنے والے کو اپنی رفتار سے قطع نظر روشنی کی رفتار یکساں محسوس ہوگی، اضافیت کے نظریے کو جنم دیا ۔

‘‘۲) انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں وقت کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے :

’’انسانی تجربے کے مطابق وقت ایک ایسے بہائو کا نام ہے جس کی رفتار ناقابلِ فہم ہے۔

‘‘۳) ناقابلِ فہم رفتار‘‘کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وقت کے گزرنے کی رفتا نامعلوم ہے اور نامعلوم رفتا ر ظاہر کرتی ہے کہ زمان کا تصور مکان کے تصور سے زیادہ پیچیدہ ہے۔سائنسی نظریات کے حوالے سے وقت کو تین مختلف نظریات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے :

٭بگ بینگ تھیوری( Big Bang Theorey)

٭نیوٹن ،آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ کا تصورِوقت

٭بگ کرنچ تھیوری ( Big Crunch Theorey )

٭ بگ بینگ تھیوری ( Big Bang Theorey):

بگ بینگ تھیوری دو مفروضوں پر اپنی بنیادیں استوار کرتی ہے ۔پہلا آئن سٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت مادے کے تجاذبی تعامل (Gravitational Interaction )کو درست طور پر وضاحت جبکہ دوسرا کائناتی اصول ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کائنات میں بگ بینگ کا مرکز خلاء کا کوئی مخصوص نکتہ نہیں تھا بلکہ یہ پوری کائنات میں بیک وقت وقوع پذیر ہوا تھا ۔یہ دونوں نقاط پلانک ٹائم(Plank Time) کے بعد کی صورت حال کا جائزہ ممکن بناتی ہیں۔بگ بینگ تھیوری کے حوالے سے مختلف نظریات مندرجہ ذیل ہیں:

…کائناتی بیضے کانظریہ :یہ نظریہ بتاتا ہے کہ کائنات مکان میں محدود ہے سو اسے زمان میں بھی محدود ہونا چاہئے ۔

…جھولتی کائنات کا نظریہ :یہ نظریہ کہتا ہے کہ کائنات کچھ عرصے کے لیے پھیلتی ہے پھر واپس ایک نکتہ پر مرکوز ہوجاتی ہے پھر دوبارہ پھیلنا شروع کرتی ہے ۔

…عقبی تابکاری کا نظریہ :جارج گیمائو نے1948ء میں بگ بینگ سے جنم لینے والے تابکاری اثرات کا نظریہ پیش کیا ۔اُس کا خیال تھا کہ خلائء میں بگ بینگ کے بعد ایک بازگشت پید ا ہوئی ہوگی ۔

…افراطی کائنات کا نظریہ :یہ تھیوری سب سے جدید ہے جو امریکی سائنسدان Alan Guthنے ۷۰ء کے عشرے میں دی ۔ اُس کا خیال تھا کہ کائنات میں بگ بینگ کے بعد درجہ حرارت اس قدر تیزی سے گرا کہ مختلف عوامل کے مکمل ہونے کا وقت نہیں ملا اور یہ تفریق کائنات کے کافی بڑی ہونے کے بعد وجود میں آئی ۔آغاز کی بگ بینگ تھیوری میں کائنات کا سائز ایک انگور کے دانے کے برابر قرار دی جاتی تھی لیکن Guthنے بتایا کہ ہائیڈروجن کے نیوکلیس سے بھی ایک ارب گنا چھوٹی ہوگی اور پھر روشنی کی رفتا ر سے بھی کئی گنا تیزی سے پھیلی ہوگی ۔وقت کا تصور جدید سائنس کے مطابق ایک ایسی شے کا ہے جس نے ہمیں یعنی کائنات کو چاروں جانب سے گھیرا ہوا ہے۔

آئن سٹائن کے حوالے سے ایک روایت سامنے آتی ہے کہ :

’’آئن سٹائن سے اُس کی موت کے قریب کسی نے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے سائنسدان ہیں لیکن آپ بھی موت کا شکار ہورہے ہیں تو اُس نے تاسف سے جواب دیا ہاں !تمام ذی ارواح کی طرح میں بھی موت کاشکار ہو رہا ہوں ۔ صرف ایک صورت تھی کہ میں موت کا شکار نہ ہوتا اگرمیں کسی طرح وقت سے باہر نکل جاتا لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ وقت کا جبرہمارے چاروں جانب موجود ہے۔

آئن سٹائن کا تصورِوقت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

وقت کے حوالے سے آئن سٹائن کاخیال بھی یہی تھا کہ کائنات میں وقت کا آغاز بگ بینگ کے بڑے دھماکے کے ساتھ ہی ہوا اور اس کا اختتام بھی اسی طرح ایک عظیم دھماکے (بگ کرنچ )پر ہوگا ۔

سٹیفن ہاکنگ کا تصور وقت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سٹیفن ہاکنگ نے بھی بگ بینگ تھیوری کو ہی وقت کی بنیاد قرار دیا ۔اُس نے اپنی کتا ب ABrief History of Timeمیں کہا : ’’کائنات مختصر تھی تو بگ بینگ کا دھماکہ ہوا اور وقت کا آغاز ہوا ۔کائنات کے پھیلائو کا تصور وقت کی ابتداء کا تصوربھی دیتا ہے ۔

نیوٹن اور تصورِوقت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ارسطواور نیوٹن دونوں وقت کے حتمی تصور پر یقین رکھتے تھے یعنی وقت کو بغیر کسی شک کے درست طور پر ناپا جاسکتا ہے اوریہ اضافی نہیں بلکہ حتمی ہوگا ۔نیوٹن کے قوانین روشنی اور مادے کی حرکات پر قائم تھے لہٰذا اُس کے ہاں وقت کاحتمی تصور قائم ہوا ۔نیوٹن کے خیال میں وقت خطِ مستقیم میں ہر طرف رواں ہے۔نیوٹن کا خیال تھا کہ مادے کے بغیر بھی وقت قائم رہے گا۔آج کی جدید سائنس وقت کو حتمی نہیں بلکہ اضافی (Relative)تصور کرتی ہے۔

وقت کے حوالے سے ڈاکٹر ناہیدقمر اپنی تصنیف میں لکھتی ہیں۔

’’انسان ،کائنات اور وقت کی مثلث اسی لمحے وجود میں آگئی تھی جب انسا ن کو پہلی بار اپنی فنا کا ادراک ہوا تھا اور اُس نے کائنات میں اپنے مقام کے تعین کے لیے وقت کی ماہیّت کو سمجھنے کی کوشش کی ۔

نیوٹن جدید طبیعات کا بانی تھا اور اُسے بلاشبہ Father of Modern Physicsکہا جاسکتا ہے ۔نیوٹن نے وقت کے حتمی تصور کو بنیاد بنا کر کششِ ثقل کا قانون پیش کیا ۔اُس کا کہنا تھا کہ کائنات میں موجود ہر مادی چیز دوسری مادی چیز کو ایک خاص قوت سے اپنی طرف کھینچتی ہے جسے کششِ ثقل کہتے ہیں ۔کھنچائو کی اِس قوت کا انحصار دونوں اجسام میں موجود مادے کی مقداروں اور ان اجسام کے درمیان پائی جانے والی کشش بھی اُسی کے مطابق زیادہ ہوگی اور اجسام کے درمیان جتنا فاصلہ زیادہ ہوگا کشش کی قوت بھی اُسی کے حساب سے کم ہوگی ۔نیوٹن نے اِس تھیوری کے بیان میں یہ بھی کہا کہ چاند کشش ثقل کے زیراثر مسلسل زمین کی طرف آرہا ہے لیکن وہ زمین سے کبھی بھی نہیں ٹکراتا اِس کی وجُہ اُس نے کھنچائو کی قوت(Gravitational Pull)کو قراردیا۔نیوٹن نے اس کھنچائو کی قوت کو بنیادی طور پر کائنات میں موجود توازن کا بنیادی نکتہ قرار دیا ۔اُس نے اِس قوت کو بغیر کسی واسطے (Mediam)کے اثرا نداز ہونے والی ایسی قوت قرار دیا جیسے رسی سے بندھا ہوا جسم ہم دائرے میں گھماتے ہیں نیوٹن کا خیال تھا کہ یہ طویل فاصلوں پر بھی ایسے ہی اثرانداز ہوتی ہے جیسے قریب رکھے ہوئے دو اجسام پر ۔مزے کی بات یہ ہے کہ وقت کو حتمی تصور کرنے والی یہ مساوات آج بھی رائج ہے اور ٹھیک کام کررہی ہے۔راکٹوں ،مصنوعی سیاروں اور خلائی مشنز کے مداروں کا حساب لگانے اور قوت کی شرح نکالنے کے لیے یہ کامیابی سے استعما ل کی جاتی رہی ہے۔

آئن سٹائن وہ دوسرا اہم سائنسدان تھا جس نے وقت کو اضافی قرار دے کر نیوٹن کے بنیادی نظریہ میں دراڑ ڈالی ۔اس نے کششِ ثقل کے نظریے کو ایک نیازاویہ اور نئی وضاحت دی ۔وہ روشنی کی رفتا ر اور ماہیت پر غور کرتے ہوئے جب اِس یقین پر پہنچا کہ کائنات میں کوئی بھی چیز روشنی سے تیز سفر نہیں کرسکتی تب اُس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر سورج (ہمارے نظام شمسی کی مرکزی قوت )مکمل طور پر ختم ہوجائے تو کیا ہوگا ؟اپنے اِس ذہنی سفر میں اُس نے اس کا جواب جاننے کی کوشش کی ۔ نیوٹن کے مطابق اگر سورج ختم ہوجائے تو سورج کی کشش جو نظام شمسی میں سیاروں کو مدار میں گھومنے کی وجہ ہے ،بھی ختم ہوجائے گی اور سورج کے گرد گردش کرنے والے سیارے فوراً اپنے مداروں سے نکل کر خطِ مستقیم پر سفر کرنے لگیں گے ۔یہاں نیوٹن کے نظریے کے ساتھ ایک مسئلہ پیدا ہوا ۔مسئلہ یہ تھا کہ روشنی کو سورج سے زمین تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگتے ہیں تو سورج کے ختم ہوتے ہی زمین اپنا مدار چھوڑنے کے آٹھ منٹ بعد تک روشن ہی رہے گی ۔آئن سٹا ئن نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ تجرباتی سطح پر وہ یہ نتیجہ نکال چکا تھا کہ کائنات میں موجود کوئی بھی شے روشنی کی رفتا ر سے زیادہ تیز رفتار نہیں ہوسکتی حتٰی کہ کششِ ثقل بھی اِس سے تیز رفتار نہیں تو پھر زمین سورج کے ختم ہوجانے کے بعد بھی آٹھ منٹ تک اپنے مدار میں قائم رہے گی ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج کے ختم ہوجانے سے کشش کا نظام بھی ختم ہوگیا تو پھر وہ کون سی قوت ہے جو زمین کو آٹھ منٹ تک مدار میں قائم رکھے گی یہاں آئن سٹائن وقت کے اضافی (Relative)ہونے کے نظریہ ہونے پر پہنچ گیا ۔اس ذہنی سفر سے وہ اِس نتیجے پر بھی پہنچا کہ کششِ ثقل نامی کوئی شے موجود نہیں ۔اصل میں اِس معاملے کا تعلق سپیس ٹائم (Space Time)کے ساتھ ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم آئن سٹا ئن کے وقت کے متعلق اِس نظریے کو سمجھیں پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ آئن سٹائن نے سپیس ٹائم کی اصطلاح کیوں اور کس کے لیے استعمال کی ۔اسپیس ٹائم (Space Time)کے اِس نسبتًا پیچیدہ تصورکو سمجھنے کے لیے ایک مثال پر غور کرتے ہیں ۔

فرض کریں ہمارے اردگرد موجود تمام چیزیں غائب ہوجائیں یعنی عمارتوں ، پہاڑوں ،درختوں سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی اشیاء تک اگر کسی عمل سے غائب کردی جائیں تو پھر پیچھے کیا بچے گا ؟ایسی صور ت میں پیچھے بچ جانے والا مواد خلا ء یاSpace کہلائے گا ۔اگر ہم سپیس یا خلاء کو سادہ زبان میں بیان کریں تو سپیس یا خلاء وہ گنجائش ہے جس میں تما م مادی اجسام موجود ہیں اورا نہیں آگے پیچھے ، دائیں بائیں، اوپر نیچے حرکت کرنے کے لیے جگہ میسر ہوتی ہے۔نیوٹن خلاء (Space )کو غیر متغیر اور غیر عامل مانتا تھا جبکہ آئن سٹائن کے خیال میں خلاء غیر متغیر اور غیر عامل نہیں ہے۔بلکہ یہ کائنات میں رونما ہونے والے عوامل میں حصہ لیتی ہے ۔خلاء پھیل اور سکڑ سکتی ہے بل کھا سکتی ہے اور لچک بھی اِس کی خصوصیات میں شامل ہوسکتی ہے۔آئن سٹائن نے وقت کے متعلق بھی ایک نیا نظریہ پیش کیا ۔اُس نے کہا کہ خلاء کی طرح وقت بھی مستقل اور غیر متغیر نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی پھیل اور سکڑ سکتا ہے ۔کائنات کے مختلف منطقوں میں وقت کی رفتار بھی مختلف ہوسکتی ہے۔

اُس نے وقت کو اضانی (Relative)قرار دیا۔اُس نے خلاء اور وقت کے غیر متغیر اور غیر مستقل (اضافی ) ہونے کو ایک نئی اصطلا ح سپیس ٹائم Space Time))کا نام دیا ۔آئن سٹائن کے مطابق تما م مادی اجسام سپیس ٹائم پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اس میں خم پیدا کردیتے ہیں ۔مادی جسم جس قدر بڑا ہو گا اُسی قدر زیادہ خم ڈالے گا اورجتنا ہلکا ہو گا اُس کا خم بھی اُسی لحاظ سے کم ہوگا ۔یوں سمجھیں کہ مادی اجسام اپنے مادے کی مقدار کے لحاظ سے سپیس ٹائم میں ایک گڑھا بنادیتے ہیں اور اردگرد کے چھوٹے اجسام اِس گڑھے میں گرنے لگتے ہیں اور ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بڑے اجسام کی کشش چھوٹے اجسام کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے یعنی سیب درخت سے ٹوٹ کر اِس لیے زمین کی طرف نہیں گرتا کہ اُسے زمین کی کشش اپنی جانب کھنچتی ہے بلکہ زمین کے گرد موجود سپیس ٹائم کا خم اُسے زمین کی جانب دھکیلتا ہے آئن سٹائن نے اپنے نظریے سے یہ بھی بتا دیا کہ کتنا بڑا خم سپیس ٹائم میں کتنا بڑا گڑھا ڈالے گا ۔ سپیس ٹائم یعنی وقت اور خلاء کے اس نظریے کو بعد میں دو مختلف تجربات کے ذریعے سائنسی طور پر ثابت بھی کیا گیا ۔ 1976ء میں دو ایٹمی گھڑیوں کے ذریعے پہلا تجربہ کیا گیا ۔اِس تجربے کو گریویٹی پروب اے (Gravity Prob A) کا نام دیا گیا۔اِس تجربے میں ایک ایٹمی گھڑی کو زمین پر رکھا گیا اور دوسری کو خلائء میں بھیجا گیا۔کچھ وقت کے بعد زمین والی گھڑی اور خلاء ء کی گھڑی کا موزانہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ زمین کے نزدیک موجود گھڑی کا وقت خلائء میں موجود گھڑی کی نسبت سُست تھا یعنی دونوں مقامات پر وقت کی رفتا ر میں فرق تھا۔

دوسرا تجربہ ۲۰۰۴ء میں گریویٹی پروب بی (Gravity Prob B) کے نام سے کیا گیا اس میں ایک مصنوعی سیارہ خلاء میں بھیجا گیا اور اِس میں موجود آلات کی مدد سے ایسی پیمائشیں کی گئیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ زمین اپنے گرد موجود سپیس ٹائم میں خم ڈال رہی ہے ۔ان تجربات سے حاصل شدہ نتائج آئن سٹائن کی مساواتوں سے حاصل کردہ نتائج سے بالکل ہم آہنگ تھے لیکن بنیادی سوال کا جواب آئن سٹائن کے پاس بھی نہیں تھا کہ:مادی اشیاء میں ایسا کیا ہے جو سپیس ٹائم کو موڑ دیتا ہے ؟

آئن سٹائن کے اِس نظریے نے بلیک ہول (Black Hole) کے تصور کو بھی زندگی دی۔ بلیک ہول یا سیاہ گڑھا ایک مردہ ستارہ ہوتا ہے جو اپنی ہی کشش کی وجہ سے ایک نکتے پر سکڑ جاتا ہے اور اِس کا حجم کم ہونے سے اِس کی کشش ہزار ہا گنا طاقت ور ہوجاتی ہے کہ یہ سپیس ٹائم اور روشنی کو بھی اپنے اندر گھسیٹ سکتاہے۔بلیک ہول کے نزدیک جانے والی تمام اشیاء اس میں دفن ہوجاتی ہیں۔بلیک ہول کی بے پناہ کشش اور انتہائی کم حجم نے آئن سٹائن کے نظریے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے آئن سٹائن کے خیال میں بڑے اجسام سپیس ٹائم میں بڑا گڑھا بناتے ہیں جبکہ کم حجم والے بلیک ہول کی کشش زیادہ طاقت ور ہونے کی وجہ سے اس کے مرکز میں وقت صفر ہوجاتا ہے سچ یہ کہ وقت کے اضافی ہونے کے بہت سے تجرباتی ثبوت ہونے کے باوجود ایسی وضاحت ملنی باقی ہے جس کا اطلاق بڑے بڑے اجسام کے ساتھ چھوٹے اجسام مثلاً ایٹم یا اُس سے بھی چھوٹے ذرات پر بھی یکسا ں طور پر کیا جاسکے ۔موجودہ دور میں گاڈپارٹیکلز اور گریوٹیان (God Particles /Gravitons)کے نظریات نے کشش ثقل اور وقت کے اضافی ہونے کے نظریے کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے ۔بات دراصل یہ ہے کہ صرف طیبعات کی مدد سے وقت کی ان ماورائی جہات کو سمجھنا ناممکن ہے کہ ما بعد الطبیعاتی عوامل یکساں طور پر ہماری کائنات پر عمل پذیر ہورہے ہیں۔ان مابعدالطبیعاتی عوامل کو سمجھنے کے لیے ہمیں قرآن کی جانب رجوع کرنا پڑے گا اور اِس کے لیے دل میں عشق رسول اور عشق خدا کی شمعیں روشن کرنا پڑیں گی۔اس حوالے سے شاہ محمد سبطین شا ہجہانی کے چند جملے درج کرنے ضروری ہوں گے:

ــــــ’’یہ بات روزِروشن کی طرح منور ہے کہ تفہیم قران مجید اور اس کے رموز سمجھنے کی یہ سعادت کماحقہ اُسے ہی حاصل ہوتی ہے جس کے دل میں عشق رسالت مآب کی نورانی قندیل روشن وتاباں ہو اور تزکیہ نفس ،تصفیہ قلب اور تجلیہ روح کی سعادتوں سے وہ شخص بذریعہ مرشدِ کامل مستفید و مستفیض ہو چکا ہو۔

۷) وقت کی ان ماورائی جہات کو سمجھنے کے لیے صرف سائنس اور منطق پر بھروسہ کرنا دانشمندی نہیں ہے کہ مذاہب میں روحانی عوامل کا حصہ مادی عوامل سے کم نہیں ہوتا ۔وقت کو کائنات کی چوتھی جہت (Fourth Dimension)سائنس اور منطق نے کہا لیکن قرآن وقت کے حوالے سے بالکل واضح ہے ۔

اﷲتعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں ۔

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان

۸) سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں ۔‘‘

دوسری جگہ وقت کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے:

’’ اُس دن ہم آسمان کو اِس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ لپیٹ دیا جاتا ہے۔‘‘

وقت کے حوالے سے قرآن پاک میں اﷲتعالیٰ نے مختلف مقامات پر وقت (زمانہ) کے حوالے سے انسان کو مختلف پیغامات دیے ہیں ۔زمانے کو پروفیسر احمد رفیق اخترنے ایک نئے زاویے سے بیان کیا ۔فرماتے ہیں :

’’میرے نزدیک زمانہ ایک حد بندی ہے جس میں مختلف حادثات و واقعات اِس طرح پابند کیے گئے ہیں کہ آپس میں رگڑ نہ کھائیں ۔اِس وقت زمان و مکاں پر جتنے بھی تھیسززمین پر موجود ہیں ان میں زمانے کو لامحدو د قرار دیا گیا ہے یا لازما ن قرار دیا گیا ہے جبکہ مذہبی طور پر زمانہ بھی چیزوں اور وقت کے تعین کے لیے خدا کا ایک آلہ ہے ۔اس کو قطعی لا انتہا نہیں کہا جاسکتا ۔

۹) مذہبی نقطہ ٔ نظر سے وقت محدود ہے ۔اگر زمین اور کائنات کے تناظر میں وقت کو دیکھا جائے تو یہ محدود ہوجاتا ہے ۔وقت دراصل مختلف اشیاء کی پہچان ہے ۔یہ چیزوں کو چیزوں سے جدا کرنے کا ایک آلہ ہے اسی لیے عربی میں کہا جاتا ہے :

الوقت سیف قاطع

( وقت کاٹتی ہوئی تلوار ہے )

وقت کے ریلیٹو یا اضافی ہونے کا نقطہ ٔ نظر شعرا ء کے ہاں بھی موجود رہا ۔ڈاکڑ وزیر آغا کی ایک نظم ملاحظہ کریں ۔وقت کے لمحۂ موجود میں ہوتے ہوئے ماوراء ہونے کا تصور کس خوبصورت انداز میں سامنے آتا ہے ۔نظم ملاحظہ ہو :

وقت ٹہرا ہوا ہے

زماں کی روانی فقط واہمہ ہے مری انگلیوں سے گزرتے چلے جارہے ہیں

زماں ۔۔۔۔۔۔۔گول منکوں کا اک ڈھیر جس کو زماں کی روانی فقط واہمہ ہے

مری انگلیاں رات دن گن رہی ہیں ہر اک شے خود اپنی جگہ پر

جو بے حس پڑا ہے حنوطی ہوئی لاش ہے

فقط ایک پل ہے کہ جس کی وقت کی منجمد قاش ہے

ازل بھی نہیں اور ابد بھی نہیں ہے وقت ٹھہرا ہوا ہے ۱۰؎

مگر دیکھنے والے کہتے ہیں

منکے رواں ہیں

نظم وقت کے مسلسل ہونے کا بیان ہے ۔شاعر نے برگساں کے آن واحد (Elan Vital) کے نظریے کو بیان کرتے ہوئے وقت کی رفتا ر کو لمحہ ٔ موجود سے ماوراء کی جانب ایک مسلسل سفر میں بیان کیا ہے ۔مرزا غالب کے ہاں بھی وقت کا یہی فلسفیانہ تصور موجود تھا ۔کہتے ہیں:

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے

(غالب)

لیکن شعرا ء حضرات نے وقت کے مذہبی تصور کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اگرچہ اِس کے لیے بہت سا مطالعہ اور فکری گہرائی کی ضرورت ہوتی ہے لہذا ہمیں اِس حوالے سے دینی اور ادبی سطح پر کوئی بڑی کوشش نظر نہیں آتی ۔اِسی حوالے سے میری ایک نظم"چوتھی دشا "پیش کرتا ہوں جس میں وقت کے مذہبی تصور کو ایک خاص زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ۔

چوتھی دشا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

وہ کہ تعد اد میں تین تھیــ‘پانچ تھے‘سات تھے

کون جانے مگر

ساتھ تھا

ان کے اک پالتو جانور

(دوستوں کی طرح)

کھوج میں تھے وہ سب منبع نور کی

وقت اپنی حقیقت کسی کو بھی دیتا نہیں

وقت مٹھی سے گرتی ہوئی ریت جیسا عمل بھی نہیں

(ہے ازل سے ابد کو ملانے کا اک راستہ )

وقت کتنی دشائوں میں پھیلا ہوا

کون جانے مگر

وقت کی ایک چوتھی دشا بھی تو ہے

منبع نور کی کھوج میں غار کے پتھروں پہ تھے وہ سجدہ زن

تین سوسال تک

جانے کتنے زمانوں میں بہتے رہے

وقت رکتا نہیں

ہاں ! مگر دوستو ں کے لیے رک ہی جاتا ہے وہ

اپنی آغوش میں لے لیا

وقت نے آگے بڑھ کے انہیں

وہ جو تعد اد میں تین تھیــ‘پانچ تھے‘سات تھے

کون جانے مگر

وقت کی ایسی چوتھی دشا کو چلے

جس کے آگے فقط

منبع نور تھا

۱۱) وقت کی حقیقت کا تعلق بنیادی طور پراُس بڑی حقیقت سے ہے جس کی تلاش ہمیشہ سے انسان کا مقصد رہی ہے ۔فلسفہ اور دوسرے علوم کی مد د سے انسا ن اُس حسنِ ازلی کو پانے کا خواں رہا ہے جو موجود ہوتے ہوئے بھی ماوراء سے جاملتا ہے ۔قرآن و حدیث میں وقت کے مختلف تصورات کے حوالے سے اشارے ملتے ہیں۔ قرآن پاک میں اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

وَالْعَصْر۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْر

’’قسم ہے زمانے کی بے شک انسان نقصان میں ہے ۔

۱۲) زمانے سے مراد یہاں وقت ہے ۔بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہاں عصر (شام کا وقت) مراد ہے ۔دونوں صورتوں میں وقت کی مدت یا وقت کے ایک دورانیہ کو ہی مراد لیا گیا ہے ۔تاہم زیادہ قرین ازقیاس یہ ہے کہ زمانہ مراد لیا گیا ہوگا ۔وقت ازل و ابد سے بے نیاز ہمیشہ سے موجود اور ہمیشہ رہنے والی شے نہیں ہے کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔

لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شئی ئٌ

۱۳) کوئی شے (کائنات میں ) اس سے مشابہہ نہیں ۔‘‘

ایک حدیث قدسی ہے :

’’زمانے کو برامت کہو بے شک زمانہ میں خود ہوں۔

۱۴) ایک حدیث اسی حوالے سے ملاحظہ فرمائیں:

’’آدم کا بیٹا زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانے کا مالک تو میں ہوں۔ رات اور دن میرے ہاتھ میں ہیں۔

۱۵) اسلام اور قرآن وحدیث کی تعلیمات میں وقت کی باگ ڈور اُس رب ذوالجلال کے ہاتھ میں ہے جو اِس ساری کائنات کو بنانے والا ہے ۔وہ خود کو زمانہ (وقت )بھی کہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت اُس کی تخلیق ہے ۔وقت کے پیمانے اُس نے مختلف مقامات کے لیے مختلف رکھے قرآن پاک میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ

۱۶) بیشک تمہارا رب اﷲہے جس نے سب آسمانوں اور زمینوں کو چھ روز میں پیدا کیا پھر عرش قائم ہو ا۔‘‘

اصحاب کہف کے حوالے سے بھی سورۃ الکہف میں اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

وَلَبِثُوْا فِیْ کَھْفِھِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا

۱۷) اور اصحاب کہف اپنے غار میں نو اوپر تین سو سال رہے ۔‘‘

اصحاب کہف کا واقعہ جو قرآن پاک کی سورۃ الکہف کی آیات ۱ تا ۲۵ میں بیان کیا گیا ہے جس میں وقت کی رفتار اور کائنات کے کسی نئے منطقے میں اﷲ کے حکم سے اصحابِ کہف کے داخل ہونے کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔اصحابِ کہف کا اﷲ کے حکم سے تین سوسالوں تک سوئے رہنا اور اٹھنے پر اُن کے احساسات کا صرف چند گھنٹے نیند کرنے والوں جیسا ہونا وقت کی اسی نئی جہت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔قرآن پاک کے مطابق وقت کی ماورائی جہات کا دوسرا ااور اہم ترین تصور ہمیں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی معراج سے حاصل ہوتا ہے ۔سورۃ بنی اسرائیل کا آغاز انہی آیات سے ہوتا ہے جس میں آقا ئے نامدار حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رات کے چھوٹے سے حصے میں مسجد اقصٰی سے آسمانوں کی سیر کے لیے لے جایا گیا ۔سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوتا ہے:

سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط

۱۸) پاک ہے وہ ذات جو رات کے ایک چھوٹے سے حصے میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت رکھی ہے تا کہ ہم اسے اپنی قدرت کے کچھ نمونے دکھائیں ۔‘‘

مسجد حرام (خانہ کعبہ ) سے مسجد اقصٰی (بیت المقدس ) تک پرانے زمانے کے مطابق مسافت ۴۰ دن کی تھی ۔حضرت محمد مصطفیصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب مکہ میں معراج سے واپس آکر اِس کی خبر لوگوں کو دی تو کفار نے استہزاء کیا لیکن ایمان والے مسلمانوں نے اِس پر یقین بھی کیا اور کفار کو اُن کے ا ستہزاء کا جواب بھی دیا ۔اسلامی تاریخ میں اپنی نوعیت کے اس انوکھے اور شاندار واقعے کی تفصیلات کا درست صورت میں ملنا ذرا مشکل ہوگیا کہ واقعات میں رطب و یابس اور افراط و تفریط بھی شامل ہوگئی حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں :

’’واقعۂ معراج ہمارے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفی کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے اور اِس میں اﷲتعالیٰ کی آیاتِ کبریٰ کا مشاہدہ بھی عظیم تر ہے لیکن عجیب بات ہے کہ ابھی تک اس معجزہ ٔعظیم کی مستند تفصیلا ت کسی ایک جگہ نہیں ملتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علاوہ ازیں اس معجزے کی بابت لوگ افراط وتفریط کا شکار بھی ہیں۔

۱۹) واقعۂ معراج کے حوالے سے مستند احادیث میں نبی اکرم کی طرف سے بتائے گئے واقعات کی ترتیب کچھ یوں ہوگئی ۔

…معراج نبی اکرم کو خواب یا روحانی مشاہد ہ نہیں تھا بلکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے آپ کو جسمانی طور پر آسمانوں کی سیر کروائی گئی اور مشاہدات حق سے سرفراز کیا گیا۔

…معراج کے دو حصے ہیں اسریٰ اور معراج لیکن عام طور پر دونوں حصوں کو اجتماعی طور پر معراج ہی کہا جاتا ہے۔پہلے حصے میں آپ کا مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک کا سفر اور دوسرے حصے میں بیت المقد س سے آسمانوں کا سفر ۔

…معراج سے واپسی پر جب آپ نے معراج پر جانے کے بارے میں مکہ والوں کو خبر کی تو آپ کا استہزاء کیا گیا ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کی سچائی کو تسلیم کیا اور بارگاہ نبوی سے صدیق کا لقب حاصل کیا ۔

…معراج نبی کا واقعہ صیح بخاری میں مندرجہ ذیل چار مقامات پر تفصیلی طور پر بیان ہوا ہے

(الف ) کتاب الصلوۃ ،باب کیف فرضت الصلوٰۃ فی الاسراء (حدیث :۳۴۹)

(ب)کتاب بدء الخلق ، بات ذکرالملائکہ (حدیث :۳۲۰۷)

(ج)کتاب مناقب الانصار،بات المعراج (حدیث : ۳۸۸۷)

(د) کتاب التوحید ،باب ماجاء فی قولہ عزوجل (حدیث : ۷۵۱۵)

کچھ دیگر مقامات پر اِس کی جزئیات بھی بیان ہوئی ہیں:

(الف ) کتاب مناقب الانصار ،باب حدیث الاسراء (حدیث :۳۸۸۶)

(ب) کتاب احادیث الانبیاء ،باب قول اﷲتعالیٰ (حدیث :۳۳۹۴تا۳۳۹۶)

(ج)کتاب التفسیر ،باب اسریٰ بعبدہ لِیلامن المسجد الحرام (حدیث : ۴۷۰۹ تا ۴۷۱۰)

(د)تفسیر سورۃ النجم (حدیث : ۴۸۵۵ تا ۴۸۵۸)

(ر) صیحح مسلم ،کتاب الایمان ،باالاسراء بر سول اﷲ

۲۰) صحیح بخاری میں معراج شریف کی تفصیلات اُس روایت سے لی گئی ہیں جو حضرت انس بن مالک ؓ ، مالک بن صعصعہ ؓ سے بیان کرتے ہیں۔

…آپ حطیم میں استراحت فرمارہے تھے کہ ایک آنے والا (فرشتہ) آپ کے پاس آیا اور آپ کا سینہ مبارک چاک کیا ۔د ل باہر نکالا اور سونے کی طشت میں لائے ہوئے ایمان اور حکمت سے دل کو دھویا گیا اور پھر سفید جانور (براق ) لایا گیا ۔وہ تیز رفتار جانور تھا۔آپ کو اس پر سوار کروایا گیا اور جبرائیلؑ ساتھ چلے یہاں تک کہ پہلے آسمان پر پہنچے ۔پہلے آسمان پر حضرت آدم ؑ سے ملاقات ہوئی ۔انہوں نے خوش آمدید کہا ۔

…پھر دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ ؑاور حضرت عیسیؑ سے ملاقات ہوئی انہوں نے بھی خوش آمدید کہا۔

…تیسرے آسمان پر حضرت یوسفؑ سے ملاقات ہوئی ۔

…چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی۔

…پا نچویں آسمان پر حضرت ہارون ؑ تشریف فرما تھے ۔انہوں نے بھی پیغمبر آخرالزماں کو خوش آمدید کہا۔

…چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑ سے ملاقات ہوئی ۔

…ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی ۔

…آپ کو پھر سدرۃ المنتہیٰ کی طرف اٹھایا گیا ۔یہ ایک درخت ہے جس کا پھل (بیر)عفجر شہر کے مٹکوں جیسا تھا اور پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے ۔

…وہا ں آپ نے چار نہروں کا مشاہدہ کیا ۔دو نہریں جنت کے اندر اور دو جنت سے باہر تھیں۔ آپ سے جبرئیل ؑ نے فرمایا ۔ ظاہر ی نہریں نیل اور فرات ہیں جبکہ باطنی نہریں جنت کی نہریں ہیں۔

…پھر آپ کے لیے المعمور بلند کیا گیا ۔پھر تین برتن لائے گئے ۔ایک میں شراب دوسرے میں دودھ اور تیسرے میں شہد تھا۔آپ نے دودھ منتخب کیا ۔حضرت جبرئیل ؑ نے فرمایا: ’’یہ وہ فطرت ہے جس پر آپ اور آ پ کی امت ہے ۔‘‘

…پھر آ پ کو پانچ نمازوں کا تحفہ بارگاہ ربِ کائنات کی جانب سے ملا ۔

وقت کے مذہبی تصور کو شعراء نے واقعۂ معراج کے تصور میں دیکھا لیکن زیادہ تر شعرا ء کے ہا ں یہ روایت سے جڑا ہوا اندازِ نظر ہی سامنے آیا البتہ اقبالؔ اِس میں ایک استثنا ء کے ساتھ سامنے آتے ہیں ۔ڈاکٹر عالم خوندمیری اپنے مضمون ’’زمانہ ۔۔۔۔۔اقبال کے شاعرانہ عرفان کے آئینے میں‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اقبال کا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے ایک حرکت پذیر کائنات میں انسانی موقف کو متعین کرنے کی کوشش کی۔کائنات اگر تغیر پذیر ہے تو پھر انسانی تقدیر کو بھی تغیرپذیر ہونا چاہیے ۔ انسانی تاریخ کی کوئی بھی منزل آخری اور قطعی نہیں ہوسکتی دوسرے الفاظ میں انسان تبدیلی کے قابل ہے۔۔۔۔۔ تاریخ کی سطح پر ارادہ اور زمانہ یا وقت قریبی تعلق رکھتے ہیں ۔

۲۱) اقبال کے ہاں واقعہ معراج سے انسانی عظمت اور تحرک کا فلسفہ سامنے آتا ہے ۔وہ واقعہ معراج کے تناظر میں وقت کی ماہیت پر بحث کرتے ہیں اور وقت کو کائنات میں انسان کے آگے بڑھنے اور کائنات کے شکست وریخت کے تناظر میں ایک آلے کے طور پر دیکھتے ہیں:

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

اقبال کے ہاں نعت نگاری سے ہٹ کر بھی مختلف مقامات پر وقت کے فلسفیانہ تصور کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ساقی نامہ کے یہ اشعار دیکھیے :

فریب نظر ہے سکون و ثبات

تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات

ٹھہرتا نہیں کارونِ وجود

کہ ہر لحظ ہے تازہ شانِ وجود

سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی

فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی

زمانہ کہ زنجیرِ ایام ہے

دموں کے الٹ پھیر کانام ہے

۲۲) اقبال کے ہاں بھی زمان ومکان کا تصور اضافی اور غیر مستقل اور اعتباری ہونے کا ہے ۔اقبال نے اِس تصور کو قرآن سے ہی حاصل کیا ہے قرآن نے زمان(Time) کو اعتباری یعنی اضافی قرار دیا ہے ۔اس کی دو مثالیں سامنے کی ہیں:

…محشر میں ہزاروں ،لاکھوںبرس پہلے مرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے جب پوچھا جائے گا کہ تم کو دنیا سے گئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا تو وہ اُس کو مدت ایک آدھ دن ہی بتائیں گے ۔

…زمان کے اعتباری (اضافی ) ہونے کا ایک اور ثبوت یہ بھی قرآن سے ملتا ہے کہ قرآن میں فرمایا گیا کہ خدا کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کا ہوتا ہے۔

اقبال کے تصور ِوقت کے اہم نکات یہ ہیں :

(الف ) زمان(Time)ایک تخلیقی قوت ہے۔

(ب) زمان (Time)ایک ارتقائی قوت ہے۔

(ج) زمان(Time) پر قابو پاکر ہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کیاجاسکتا ہے۔

(د)زمان کی دو شکلیں ہیں پہلی شکل زمانِ حقیقی ہے جولمحوں کا مرکب ہے اور اس میں تسلسل بھی نہیں ہے جبکہ دوسری شکل زمانِ مسلسل ہے جو مختلف اکائیوں (لمحات ) کا مرکب ہوتا ہے ۔

اقبا ل کے ہاں زمانِ حقیقی کا بیان جگہ جگہ ہوا ہے :

خرد ہوئی ہے زمان و مکان کی زناری

نہ ہے زماں نہ مکاں لاالہ الا ﷲ

اقبال نے زمانِ حقیقی کو تقدیر کے متبادل سمجھا ہے ۔قرآن حکیم نے بھی اِس وقت کو وحد ت اور کلیت قرار دے کر تقدیر ہی کہا ہے ۔وقت کی اِس زمانی حقیقت کو معراج کے تناظر میں مختلف نعت گو شعراء نے لفظوں کی شکل دی ہے۔اقبا ل کے حوالے سے ڈاکٹر ابو الخیر کشفی رقمطراز ہیں :

’’اقبال جیسا ہمہ جہتی اور کثیر الابعادی شاعر ہماری زبان میں کوئی اور نہیں۔ اس سے اقبال کے ناقدوں کی مشکلات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اقبال پر تنقید کا حق وہی ادا کرسکتے ہیں جو ایک طرف شعر کے ہنراور فن کے نکات آشنا ہوںدوسری طرف وہ قرآن و حدیث اور اسلامی علوم پر نظر رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ فکر مغرب اور عصری مسائل کے منظر اور پس منظر کی تاب لا سکتے ہوں۔

۲۳) اقبال کے ہاں زندگی کا حرکی تصور ملتا ہے جو اسلام کے انقلابی اور حرکی مزاج سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔اُن کے ہاں وقت کا تصور زمانی و مکانی بھی ہے اور ماورائے زمان و مکان بھی وہ وقت کو کائناتی تفہیم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اصغر گونڈوی فرماتے ہیں :

عالمِ ناسوت میں اور عالمِ لاہوت میں

کوندتی ہے ہر طرف برقِ جمالِ مصطفی

عالمِ لاہوت سے مراد وقت کی وہی زمانی حقیقت ہے جہاں وقت ٹھہرجاتا ہے یا وقت (Time) کی قیمت صفر ہوجاتی ہے ۔ شب ِمعراج نبی اکرم ؐ کا آسمانوں پر جانا اورجنت و جہنم کا مشاہدہ وقت کے مختصر وقفے میں ہونا وقت کی اِسی مطلق قیمت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

میں نے اس عرضداشت میں یہی کوشش کی ہے کہ ان اشعار کا انتخاب کروں جس میں واقعۂ معراج میں وقت کی زمانِ حقیقی (Absolute Time) کی طرف شعراء نے اشارہ کیا ہو اور ایسے اشعار کو جن میں روایتی اندازِفکر شامل ہو انہیں منتخب نہ کیا جائے کہ میرے موضوع کا تقاضا وقت کی ماورائی جہات کے عمل کو سمجھنا اور سمجھانا ہے ۔

مولانا ظفر علی خان تحریک پاکستان کے مجاہد اور بے باک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے عاشق ِ رسول ؐ بھی تھے۔اُن کی محبت سے لکھی گئی نعتوں نے برصغیر پاک و ہند میں بہت شہرت حاصل کی ۔فرماتے ہیں :

وہ جنس نہیں ا یمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے

ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں

ایمان کی روشنی میں قرآن سے رہنمائی حاصل کرکے نعت کہنے والے اِس مجاہد نے واقعۂ معراج کو کس اندازمیں دیکھا :

جلتے ہیں جبرئیل کے پر جِس مقام پر

اُس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو

وہ مقام جہاں سے آگے جانا مقرب فرشتہ جبرائیل ؑ کے لیے بھی ممکن نہ تھا نبی اکرم ؐ اُس سے آگے کی کیفیات کے بھی شاہد ہوئے اور اﷲ تعالیٰ سے ملاقات بھی فرمائی ۔

امام احمد رضا خان شب ِمعراج کے حوالے سے رسو ل اﷲکی شان بیان کرتے ہوئے لاشعوری سطح پر وقت کی مختلف عددی قیمت کے لحاظ سے عرش اور فرش کے درمیان تقابل بھی فرما گئے ۔بنیادی طورپر اِس تقابل کا مقصد معراج کے واقعہ سے رسول اﷲؐ کی شان کا بیان ہے تاہم بادی النظر میں وقت کی زمانی حقیقت کی جانب بھی اشارہ کر گئے ۔فرماتے ہیں:

فرش والے تری شوکت کا عُلو کیا جانیں

خسروا ! عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

قرآن پاک میں سورۃ النجم میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی۔فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی۔فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی۔مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی۔اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی۔وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی۔عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی۔عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی۔اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی۔مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی۔لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی

۲۴) پھر وہ قریب ہوا اور اتر آیا ،پس وہ دوکمانوں کے بقدریااِس سے بھی زیادہ قریب ہوگیا ۔پس اُس نے اپنے بند ے یا اُس کی طرف وحی کی جو وحی کی، دل نے اسے جھوٹ نہیں کہا جو پیغمبر نے دیکھا ،کیاتم جھگڑا کرتے ہو اُس پر جو وہ دیکھتا ہے اور اُس نے ایک مرتبہ اور اترتے ہوئے دیکھا تھا ،سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ،اُس کے پاس جنت المادیٰ ہے جبکہ سدرہ کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو چھارہی تھی ،نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی ،یقینا اُس نے اپنے رب کی بعض بڑی نشانیاں دیکھیں ۔‘‘

قرآن کریم کی آیات میںسرورِکائنات کے معراج کے دوران اﷲ تعالیٰ سے قربت کا بیان ہوا ہے ۔قاب قوسین سے معروف ان آیات کی تشریح و تفسیر دو مختلف انداز میں کی جاتی رہی ہے۔ علماء کی ایک جماعت قاب قوسین سے مراد حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اﷲتعالیٰ کی ذات کو قرار دیتی ہے جبکہ ایک اور گروہ کا خیال اِس سے مختلف ہے ۔ان کی رائے ہے کہ قاب قوسین (دو کمانوں کا فاصلہ) سے مراد حضرت محمد اور جبرائیل ؑ کی ذات ہے۔اُ س کی دلیل میں وہ کہتے ہیں کہ وحی کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کی ذات حضرت محمد سے دو کمانوں کے فاصلے پر نہیں آئی ۔اگر ایسا ہوتا تو قرآن وحی کی جگہ کلام کا لفظ استعمال کرتا ۔انہی آیات کے حوالے سے ہمارے شعراء کرام نے بھی نعتیہ اشعار کہے ہیں۔ مرزا دبیر کی ایک رباعی اِسی موضوع سے متعلق ہے :

معراجِ نبی میں جائے تشکیک نہیں

ہے نور کا تڑکا شب تاریک نہیں

قوسین کے قرب سے یہ صادق ہے دبیر

اتنا کوئی اﷲ کے نزدیک نہیں

(مرزادبیر)

مرثیہ کے مشہور شاعر میر انیس کے ہاں بھی قاب قوسین کی آیات کے حوالے سے اظہارِ خیال ملتا ہے ۔نعتیہ بند دیکھیے :

معراج سے اُس کو جو ملا رتبۂ اعلیٰ

یہ رتبہ کسی اور پیمبرنے نہ پایا

ﷲ سے جو قربِ محمد تھا کہوں کیا

قوسین کا ہے فرق جہاں رتبہ اولا

جبرئیل امیں کو بھی نہ واں دخل کی جا ہے

یا احمد مختار ہے یا ذات خدا ہے

(میر انیس )

دونوں نعتیہ اظہار میں دبیر اور انیس کے ہا ں قاب قوسین کے حوالے سے اﷲسے ملاقات اور معراج کے حوالے سے شان ِرسول کا بیان ہے ۔دونوں مذکورہ اشعارمیں وقت کی ماہیت کو سمجھنے یا کم از کم فکری سطح پر واقعہ معراج کو سمجھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ روایت سے جڑے ہوئے ان نعتیہ اشعار میں واقعہ معراج کو معنوی سطح پر سمجھنے کا عمل نظر نہیں آتا ۔شانِ رسول کے بیان اور لفظوں کی عمدہ دروبست کے باعث انہیں عمدہ نعتیہ اشعار قرار دیا جاسکتا ہے تاہم یہ آفاقی یا عظیم شاعری نہیں کہ فکر نے روایت سے علیحدہ اپنا کوئی معنوی نظام ترتیب نہیں دیا ۔اِس کے مقابلے میں تجمل حسین اختر کا اِسی موضوع پر یہ خوبصورت شعر دیکھیں :

کُھلا طلسمِ زمان و مکاں شبِ معراج

ہزار صدیوں کی گردش سے ایک رات بنی

(تجمل حسین اختر)

اسی موضوع پر سید نصر ت زیدی کا زندہ رہنے والا شعر ملاحظہ کریں :

آئینۂ حیراں کی طرح وقت کی رفتار

اے صاحب معراج خرد مُہربہ لب ہے

(سید نصرت زیدی )

مذکورہ بالا دونوں اشعار میں وقت کی رفتار کے حوالے سے فکری سطح پر ایک حیرانی کا اظہار کیا گیا ہے۔شان ِرسول کے بیان میں اﷲکی قدرت سے وقت کی رفتار کا کم ہونا شاعر کا اس محیر العقول واقعے پر حیرانی کا اظہار بھی دراصل اِس واقعے کی روحانی سطح سے نیچے آکر منطقی استدلال کے ساتھ سمجھنا اِن دونوں اشعار کی بنیاد ہے ۔

غور کیا جائے تو اوپر دیے گئے اشعار سے شعراء کی فکری اُپج کے ساتھ ساتھ فنی گرفت بھی نمایاں نظر آتی ہے ۔دونوں اشعارمیں لفظوں کا خاص دروبست معنوی سطح پر ایک نئے منظر نامے کا راستہ کھول رہا ہے۔

وقت کا تصور انسانی اذہان میں پائیداری اور ستقلال کے حوالے سے رہا ہے لیکن بعض شعرائے کرام نے اِس کی اضافیت ((Relativity کو فکری سطح پر ادبی حوالوں سے جانچنے کی بھی کوشش کی ہے ۔نعت کا یہ خوبصورت شعر وقت کی اِسی جہت کی تصویر کاری کررہاہے ۔

میں روشنی کے ساتھ حرم کے سفر پہ تھا

ان کی کشش میں وقت سے آگے نکل گیا

۲۵) سرشار صدیقی نے ادبی اظہار کو اپنے فن کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ وقت کی اِس ماورائی کیفیت کو نظم کرنے کی بھی کوشش کی جو لمحوں میں صدیوں کے رنگ سمیٹ دیا کرتی ہے۔اِس ماورائی کیفیت کا تعلق سائنس اور منطق کے بجائے روحانیت اور انسانی نفسیات کے ساتھ ہے۔وقت کا روحانی تصور منطق سے جُدا ایک نئے فکری منطقے کی تشکیل کرتا ہے جہاں عقیدت راستوں کی رہنما بن جاتی ہے لیکن یہ کیفیات ہر ایک کے نصیب میں کہاں ہوتی ہیں۔دوسرے مقام پر وقت کی رفتار کو جذبۂ شوق سے یوںمہمیز دیتے ہیں ۔

یوں سفر ہو تو پھر اسبابِ سفر کیا معنی؟

ابھی سوچا ہی تھا میں نے کہ مدینہ آیا

۲۶) وقت کی رفتار کا یہ حوالہ تو انفرادی تھا لہذااِس کیفیت میں انفرادی رنگ نمایاں ہے لیکن جب حوالہ حضرت محمد کی معراج سے متعلق ہو تو اُن کا قلم بھی بلندی پر نظر آتا ہے

بس ایک لمحۂ شب میں یہ راز ہوگیا فاش

کہ وقت کیا ہے ،مکاں کیا ہے ،لامکاں کیا ہے

۲۷) وقت کی تفہیم کا یہ مرحلہ جس میں مکاں سے لامکاں تک کا فاصلہ لمحہ موجود سے ناموجود کے درمیان فاصلے کی طرح چشم زدن میں طے ہوجائے ۔سرشار صاحب کا خاصہ ہے ۔بیان میں ندرت اوراظہارمیں سلیقے نے اُن کے اشعارکو ادبی سطح پر اعلیٰ تخلیقات کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔وقت اور کائنات کے حوالے سے یہ نعتیہ شعر دیکھیں:

دھڑک رہا ہے دلِ کائنات کی صورت

وہ راز کن جو ابھی وقت کے ضمیر میں ہے

۲۸) صہبا اختر کی ایک نعتیہ نظم ’’نور کی پرچھائیاں ‘‘نعت میں وقت کی رفتار اور ان ماورائی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش ہے جن پر واقعہ معراج کی بنیاد ہے ۔

نور کی پرچھائیاں

ایک دشتِ بیکراں سے آسماں

اور دشت ِ بیکراں میں صورت ِماہ ونجوم و کہکہشاں

جارہے ہیں رات کے یہ بادپا گھوڑے کہا ں

ان کے سرپر کیوں تنے ہیں بجلیوں کے سائباں

کیسے گھوڑے ہیں کہ جن کو پر لگے ہیں بے گماں

اور یہ گھوڑے پرندے ہیں اگر تو اے سمائے بیکراں

کن خلائئی شاخساروں میں ہیں ان کے آشیاں

اک ستارے نے کہا یہ ناگہاں

جو براقِ سید الافلاک تھا

سب اسی کا عکسِ ضو ہیں

سب اُسی کے نور کی پر چھائیاں

۲۹) نظم کی غنائیت اور لفظوں کا دروبست شاعر کی قادرالکلامی کی گواہ ہے لیکن نظم کی اصل خوبصورتی ‘فطرت کا مضبوط حوالہ ہے ۔وقت کے حوالے سے حضرت محمد مصطفی کی معراج کی رات آسمانی سواری براق کی رفتار کے حوالے سے کائناتی مظاہر کو شانِ مصطفی کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش صہبا کی اس نظم کی بنیاد ہے ۔

اک ستارے نے کہا یہ ناگہاں

جو براقِ سید الافلاک تھا

سب اسی کا عکسِ ضو ہیں

نعتیہ نظم میں براق کی رفتار کو نور کا عکس قرار دے کر فطرت کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش ہے ۔شعرا ء کے ہاں فکری سطح پر موضوع پر گرفت تو موجود ہوتی ہے تاہم جب وہ اپنی فکر کو شعر کی صورت میں ڈھالتے ہیں تو لفظوں کاچنائو درست نہ ہونے کے باعث شعراپنا پورا تاثر نہیں دے پاتا بلکہ بعض صورتوں میں تو وہ باقاعدہ خراب تاثر پیش کرتا ہے ۔نعت میں یہ صورت حال اور زیادہ تکلیف دہ بن جاتی ہے کہ ہمارے لفظوں نے آقائے نامدار حضرت محمد کی تعریف و توصیف بیان کرنی ہوتی ہے اور کوئی ایک غلط لفظ یا غلط ترکیب شعرمیں منفی تغیرات پیدا کردیتے ہیں ۔

شاہد ہ حسن کا ایک نعتیہ شعر اِسی موضوع سے متعلق ہے تاہم صرف ایک لفظ نے شعر کے ساختیاتی تاثر کو جتنا نقصان پہنچایا شاید اِس کا اندازہ خود شاعرہ کو بھی نہ تھا ۔شعر دیکھیے :

لکھ سکا کون سرِ عرش ملاقات کا حال

شبِ معراج خدا اپنے ہی دلبر سے ملا

لفظ’’ دلبر ‘‘اپنی تاثیر اور بناوٹ دونوں کے لحاظ سے عوامی بلکہ عامیانہ صورت اختیار کر چکا ہے۔کسی حد تک اِس لفظ میں تیسرے درجے کی فلمی یا عوامی شاعری کے سارے منفی رنگ جھانکتے نظر آتے ہیں ۔ شا یددوسرے لوگ اِس خیال سے اتفاق نہ کریں تاہم بعض اوقات صرف ایک لفظ یا بعض صورتوں میں صرف ایک اضافت بھی شعر کے ظاہری حُسن کو برباد کردیتی ہے اور نعت کے معاملے میں تو شاعر یا شاعرہ کواور بھی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بالکل اِسی طرح محمود الحسن صاحب کا ایک شعر ہے :

ان کی تو جبرئیل کو بھی کچھ خبر نہیں

پہنچے جہاں جہاں ہیں نشانے حضور کے

نشانے کا لفظ پورے شعر کے توازن میں ایک بڑے بگاڑ کا پیش خیمہ بن گیا اور سچ پوچھیں تو لفظ’’ نشانے‘‘ معنوی سطح پر بھی شعر میں ایک بڑے سقم کی جانب اشارہ کررہا ہے اِس لفظ سے جنگ و جدل کا تاثر ابھر تاہے جو اسلام کے بنیادی نظریے کے خلائف ہے ۔دوسرے پہلوسے غور کریں تو حضرت محمد اﷲکے حکم سے معراج پر تشریف لے گئے اور آپؐ نے اﷲ کے حکم سے آسمانوں کی سیر کی تو ایسی صورت میں آقاکے نشانوں کا ذکر تعریف نبی کے ذیل میں نہیں آتا ہے ۔

آپ حضرات نے شعروں کے ظاہری حُسن کے حوالے سے لفظوں کا منفی استعمال تو دیکھا اب مختلف شعراء کے ہاں نعتیہ اشعار میں لفظوں کا مثبت بلکہ استعاراتی و علامتی انداز بھی دیکھیں۔ سید عارف کے، معراج ِنبی کے موضوع پر شعر میں لفظ کے ہشت پہلو ہو کر علامتی انداز اختیار کرنے کی کیفیت سے لطف اندوز ہوں۔

میں اس کی وسعتوں کو لفظ پہنائوں تو کیا ، جس کا

زمیں پر اک قدم ہے دوسرا افلاک سے آگے

(سید عارف )

’’وسعتوں ‘‘نے پورے شعر کوایک خاص طرح کی فکری وسعت دے دی ۔نبی اکرم کا معراج پر جانا اور وقت کے ایک قلیل حصیِ میں آسمانوں کی سیرسے واپس آنا اُسی "وسعت "کی جانب اشارہ کرتا ہے جس میں وقت اور اِس سے متعلق مظاہر بھی شامل ہیں ۔زمین پر وقت کے پیمانے آسمانی پیمانوں سے مختلف ہیں ۔وقت کے گزرنے کی رفتار دونوں جگہوںپر مختلف ہے جس کا ثبوت قرآن حکیم ہے اور حضرت محمد اﷲکے حکم سے وقت کے دو مختلف منطقوں سے گزرے ۔یقینا یہ اﷲکے نبی کی شان ہے کہ آپ کے لیے رب تعالیٰ نے وقت کو زمین پر ساکت کردیا ۔شاید طاہر شیرازی نے اِسی لمحے کو لفظوں میں مقّید کرنے کی کوشش کی ہے :

اذنِ معراج مل گیا ہے اُسے

وقت رک رک کے دیکھتا ہے اُسے

(طاہر شیرازی )

’’وقت رک رک کے دیکھتا ہے اُسےؐ ‘‘سے محاورہ بندی (زبان و بیان) کی خوبصورتی تو سامنے آتی ہی ہے ساتھ ہی وقت کے ساکت ہونے کی سائنسی حقیقت کی جانب اشارہ بھی ہوجاتا ہے ۔

نعت گو شعراء کے ہاں یہ خیال عام طور پر راسخ ہوتا جارہا ہے کہ صرف اپنے زبان و بیان اور لفظوں کے زور پر و ہ اچھی نعت کہہ سکتے ہیں حالانکہ اِس کے لیے صرف محبت رسول ہی کافی نہیں بلکہ رسول اللہ کی سیرت ،حسب و نسب اور صفات کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے ۔رشید وارثی لکھتے ہیں: ’’نعت گوئی کے لیے صرف انشاء و عروض سے واقفیت یا قادرالکلامی پر انحصار نہیں کیا جاسکتا بلکہ اِس کے لیے حضور اکرم ؐ کے فضائل شیون و صفات ،اسوہِ حسنہ اور ذاتِ اقدس سے متعلقہ دیگر علوم سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔

۳۰) معراج نبی کے حوالے سے بھی نعت میں قادرالکلامی تو جگہ جگہ اپنے رنگ دکھاتی رہی لیکن موضوع کی فکری جہات کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔یہی وجہ ہے کہ شعراء اِس موضوع پر روایتی اندازِفکر کے حامل رہے جو بہت سی جگہوں پر موضوعاتی اسقام میں بھی تبدیل ہوا ۔روایتی اندازِ شعر کی ایک مثال دیکھیں ۔طویل بحر میں یزدانی جالندھری کا شعر :

واپس آئے تو بستر ابھی گرم تھا اور زنجیر در میں تھی جنبش ابھی

فرش سے عرش تک ،عرش سے فرش تک ہوگیا طے سفر دیکھتے دیکھتے

طویل بحر کے اِس شعر میں واقعہ کا بیان ایک خبر کے انداز میں ہے ۔شاعری کا بنیادی تعلق ذہن کی جگہ دل سے ہوتا ہے اور اچھا شعر اپنے تشبیہاتی اور استعاراتی رنگ کے باعث دل کو چھوتا ہے۔شاعری نثر سے مختلف چیز اِسی لیے ہے کہ اِس میں لفظوں کے دروبست سے ایک واقعہ دوسرے واقعے کے قریب محسوس ہونے لگتا ہے ۔لفظوں کو علامت کے طور پر برتنے سے شعر میں آفاقیت پیدا ہوتی ہے ۔

وقت کی ماورائی جہت کو ایک نئے زاویے سے محسن احسان نے بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے۔وقت کے ٹھہر جانے کا احساس اُن لوگوں کو بھی ہوسکتا ہے جو اپنے لبوں پر دعائیں سجائے بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوتے ہیںاور گنبدِخضریٰ کا واسطہ دے کر اپنی دعائیں اﷲکریم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔وقت کے اِس پہلو کے بارے میں نعتیہ نظم ’’زائرین کے لیے ایک نظم ‘‘کا یہ ٹکڑا ملاحظہ کریں:

آسمانوں کی طرف اُن کے یہ اٹھتے ہوئے ہاتھ

ایسے لگتا ہے زمانے کی مسلسل گردش

ایک نکتے پر تھمی ہو جیسے

وقت پر برف جمی ہو جیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سبز گنبد کے مکیں

اُن کی تسبیح کے دانوں میں جو خوابیدں تمنائیں ہیں

پوری کردے

۳۱) محسن احسان کے ہاں واقعہ ٔ معراج نبی کو بھی بڑی محبت اور اُس واقعے کی عظمت کے حوالے سے عقیدت کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے۔

زمیں سے عرشِ معلی تک ایک زینۂ نور

رواں تھے سوئے فلک تزک و احتشام کے ساتھ

۳۲) دوسری جگہ اسی مضمون کو دوسرے انداز میں شعری فکرکا حصہ بناتے ہیں:

چلے زمیں سے تو افلاک کی حدیں چھولیں

رکے تو قرنوں کو لمحات میں شمارکیا

۳۳) محسن نے سیرت کے اس محیرالعقول اور معجزاتی حصے کو علمی سطح پر دیکھنے اور سمجھنے کی شعوری کوشش کی ہے ۔وہ اِس کا بیان کرتے ہوئے ایک حیرتی کی طرح علمی اور منطقی سطح پر اسے پہچاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔عمومی طور پر شعراء کے ہاں فکری سطح پر شعر برائے گفتن کی طرز پر اِس واقعے پر اظہار ِخیال ہوتا ہے ۔جو شعر کی بنت کے لحاظ سے تو درست ہے لیکن کسی بڑے خیال کو منطقی سطح پر پہچانے کی کوشش کرنا اور پھر اُس نتیجے کو شعر میں ڈھالنا بڑی نعتیہ شاعری کی بنیاد ہونی چاہیے اور محسن احسان اس میں کامیاب ٹھہرے :

کہکشاں اس کے غبار ِکفِ پا کا پرتو

اُس کا جلوہ ہے جو آفاق میں تنہا پھیلا

کرۂ ارض کو ہے ناز کہ وہ ابرِکرم

اس پہ برسا جو سرِعرشِ معلی پھیلا

۳۴) ہیں آپ کی آواز کی زد میں کئی صدیاں

دیکھا ہے زمانے نے جلال آپ کا مولا

۳۵) چمک ذروں سے لے کر کہکشائوں تک گئی محسن

کہ ہے آفاق میں خورشید ِنعت مصطفی روشن

۳۶) درونِ ذات سفرکی عجیب لذتیں ہیں دلوں میں ہے وہ تجّلی جو مہروماہ میں ہے

۳۷) ترے سفر نے جمالِ سفر دیا ہے اسے زمیں سے تابہ فلک کہکشاں مسافت ہے

۳۸) ہے عرصۂ آفاق میں پھیلی ہوئی ہر سُو اک کاہکشاں آپؐ کے نقشِ کف پا کی

۳۹) کہا یہ اُس نے کہ تسخیر کائنات کرو خدا گواہ کہ اعلان ارتقاء ہیں نبی

۴۰) حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم معراج پر وقت کے چھوٹے سے حصے میں تشریف بھی لے گئے اور واپس بھی آئے۔وقت اتنا قلیل تھا کہ بستر کی گرمی باقی تھی اور دروازے کی کنڈی بھی ابھی تک متحرک تھی ۔ واقعہ تو مکمل بیان ہوا لیکن شاعری کہاں گئی ؟اِسی سے ملتے جلتے موضوع کو سید سلمان رضوی نے اپنے شعر میں استعمال کیا لیکن پوری شعریت موجود رہی ۔

معراج جس کو کہتے ہیں وہ ہے مرے خدا

اک منفرد روش ترے شائستہ گام کی

آپ نے غور کیا کہ وقت کی رفتار کو خاص حضرت محمد ؐکے لیے روکنے اور تیز رفتاری سے آسمانوں کی سیر اور رب سے ملاقات کو ’’شائستہ گام کی منفرد روش‘‘کہہ کر کس طرح شاعری کے فن میں خوبصورتی سے ڈھالا گیا ۔اُردو نعت سے منسلک شعرائے کرام کے ہاں معراج مصطفی کو منطقی سطح پر سمجھنے کا عمل خال خال نظر آتا ہے ۔سید ابو الخیر کشفی کی ایک نظم ’’قصید ہ بردہ شریف کا ایک نقش ‘‘کا ایک حصہ ’’فی ذکر معراج النبی ‘‘ ملاحظہ کریں:

وہی ذاتِ مبارک آیت ِمعراج ِانساں ہے

حرم سے بیت ِ اقدس تک

محمد مصطفی معراج آدم کے امیں بن کر

بلندی کے نشاں بن کر

افق پر جگمگاتے ہیں

یہ تارے ،کہکشاں ،نجم ِسحر ،خورشید خاور،آج تک ہمدم

اسی معراج کی افسانہ خوانی کرتے جاتے ہیں

فضائے بے کراں میں ذرۂ خاکی

اسی معراج کے نقش کہن کو ڈھونڈنے نکلا

گروہِ مسلمیں ! آگے بڑھو ،تاروں کو اب چُھولو

زمیں کی پستیوں کو آسماں کردو

۴۱) سید ابو الخیر کشفی کی نعتیہ نظم کے اس ٹکڑے میں معراج نبی کوذرۂ خاکی کے منطقی سطح پر سمجھنے کے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔انسان کے لیے اﷲتعالیٰ نے علم اور تجسّس کے جو راستے کھولے ہیں ،معراج نبی کو سمجھنے کا یہ عمل بھی اُسی کا حصہ ہے ۔مصرعے:

فضائے بے کراں میں ذرۂ خاکی

اسی معراج کے نقش کہن کو ڈھونڈنے نکلا

انسان کی کائناتی توازن کو سمجھنے کی جدوجہد کا بیان کرتی ہیں۔خلاء اور کائنات میں پھیلی ہوئی ارب ہا کہکشائوں کے درمیان موجود سیارہ ٔزمین کا انسان ‘اﷲ کی بنائی ہوئی اس عظیم کائنات کا حصہ بھی ہے اور اِس کے رازہائے سربستہ کو تلاش کرنے کی خواہش کا اسیر بھی ۔فلسفہ ،سائنس یا عمرانی علوم سبھی راستے اُسی منبعِ علوم کی جانب لے کر جاتے ہیں اورمعراج نبی اُس کائنات میں موجود اﷲ کے اسرار کو سمجھنے کا ایک راستہ ہے ۔سید کشفی نے بھی:

گروہ ِمسلمیں ! آگے بڑھو ،تاروں کو اب چُھولو

زمیں کی پستیوں کو آسماں کردو

ُؒکہہ کر مسلمانوں کو منطقی علوم حاصل کرکے اﷲکی کائنات کو مسخر کرنے کے بارے میں بتایا ہے۔وہ معراجِ نبی کی عظمت کو عظمت ِانسان اور عظمت ِمسلمان کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔نعت کہنے میں شاعر کا اپنا ہنر اتنا کام نہیں کرتا جتنا توفیق خداوندی کام آتی ہے ۔پروفیسر محمد اکرم رضا اپنے ایک مضمون "رنگ ِنعت کی بہارِجاوداں "میں نعت کی تعریف بیان کرتے ہیں :

’’نعت کیا ہے ۔یہ پہلے قلب و جاں پر نازل ہوتی ہے پھر نوکِ قلم سے جواہر بے بہا کی صورت ٹپک کر صفحۂ قرطاس کی زینت بنتی ہے ۔یہ محبانِ رسول اﷲ کے لیے حسنِ کائنات ہے ،بے قرار جذبو ں کی تسکین کے لیے رحمت الٰہی کی سوغات ہے۔

۴۲) شاعری نثر سے مختلف ہی اِسی لیے ہوتی ہے کہ اِس کے اثرات ہمارے جذبات و احساسات پر پڑتے ہیں ۔یہ عقل کو اپیل کرنے سے پہلے دل پر اثر انداز ہوتی ہے ۔واقعۂ معراج کے حوالے سے بھی نعتیہ اشعار عمدہ ،مناسب یا آفاقی ہوتے ہیں۔اچھا شعر صرف ہنر اور زبان و بیان کے زور پر نہیں کہا جاسکتا ۔فکر حضرت محمد کی محبت سے معطر ہو اور سیرت کا مطالعہ روز مرہ کا حصہ ہو تو اچھی نعت کے لیے موضوعات بھی حاصل ہوتے ہیں اور لفظوں کا دروبست اچھی نعت میں ڈھلتا ہے ۔رشید ساقی کا ایک شعر معراج نبی ؐ کے موضوع سے متعلق ہے:

حاصل ہے سوا آپ کے کس کو یہ سعادت

مہمانِ سرِ عرش عُلیٰ مرے آقا

آقائے نامدار کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات نے آپ کو عرش پر بلوایا اور میزبانی فرمائی۔ حضرت موسیٰ ؑجیسے جلیل القدر پیغمبر کو بھی مالکِ دوجہاں نے اپنا جلوہ نہیں دکھایا لیکن نبی آخر الزما ں آقائے نامدار حضرت محمد کو یہ فخر حاصل ہوا ۔یقینا یہ امت محمد یہ کے لیے بھی فخر کا مقام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے غور و فکر کا مقام بھی ہے کہ ہمیں نبی اکرم کی امت کی حیثیت سے جہاں بانی کے فرائض انجام دینے ہیں ،اُس کے لیے علم سے محبت اور تحقیق و تجسس سے دلچسپی ہماری زندگی کا حصہ ہونا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہے ۔دسویں صدی عیسوی سے اٹھارویںتک ہم اقبال کے اس شعر کی تفسیر تھے :

سبق پھر پڑھ صداقت کا ،عدالت کا ،شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

(اقبال)

اردو نعت میں واقعۂ معراج کو شان ِ رسو ل کے حوالے سے شعراء کرام نے بیان کیا لیکن اِس طرف توجہ کم رہی کہ اسے اجتماعی شعور کے حوالے سے عظمت انسان کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا جائے میری رائے میں واقعۂ معراج میں وقت کی رفتارکا رک جانا اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا آسمانوں کے سفر پرمقرب فرشتہ حضرت جبر ائیل ؑ کے ہمراہ جانا اورجنت جہنم کا مشاہد ہ کرنا اور اپنے رب سے ملاقات کرنا (اِس بات پر بھی امت میں اتفاق نہیں ہے ) کو مندرجہ ذیل موضوعات کے حوالے سے دیکھا جانا ضروری تھا :

٭ رب العالمین کی قدرت کا بیا ن

٭ شانِ رسول کا واقعۂ معراج کے تناظر میں بیان

٭ عظمتِ انسان کا واقعۂ معراج کے تناظر میں بیان

٭ اجتماعی شعور کی معنوی تفہیم (واقعۂ معراج کے تناظر میں ) ٌٔٔ ٭ قرآنی آیات (قاب قوسین )کے حوالے سے نبی اکرم کی اﷲ سے محبت کا بیان

٭ وقت کی تغیر پذیر کیفیات کا واقعہ ٔ معراج کے حوالے سے بیان

ان میں سے زیادہ تر موضوعات پر شعراء کرام نے طبع آزمائی کی تاہم عظمتِ انسان اور وقت کی تغیر پذیر کیفیات کو واقعۂ معراج کے تناظر میں بیان کرنے کی سنجیدہ کوششیں کم کم ہوئی ہیں اور اس کی بڑی وجہ نعت گو شعراء کا روایتی اندازِ فکر کا حامل ہونا ہے ۔ابوالخیر کشفی نے اپنے سفرنامۂ حج میں وقت کے حوالے سے ایک اہم بات کہی ۔حیران کن طور پر وہ وقت کی اُسی مطلق قیمت کو ذاتی حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

’’طواف کے سات دائرے مکمل ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طواف کے سات چکر۔ جیسے تخلیق کے سات مراحل ہیں۔دن تو سات ہی ہیں ۔ یہ طواف وقت کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

۴۳) اردو میں نعت عام طورپر غزل کی ہیئت میں لکھی جاتی ہے اور نعت خوانی کی محافل کے باعث یہ طریقہ مقبول بھی ہے ۔اس کی بڑی وجہ قافیہ اور رویف کی خوبصورت بُنت ہے جو نعت کے سامع کے لیے خوشگوار تاثر پیدا کرتی ہے اور اس کی طرز سازی بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے ۔اردو غزل کی طرح اردو نعت میں بھی قافیہ اور ردیف کے تغیر پذیر انداز سے اچانک پن کی کیفیت پیدا کی جاسکتی ہے جو سامع کے ذہن کو ایک مختلف تاثر دیتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اردو نعت میں نظم کی نسبت غزل کا فارمیٹ زیادہ مقبول ہے جبکہ اگر کسی موضوع پر فلسفیانہ انداز سے کسی رائے کا اظہار کرنا ہوتو نظم کی ہیئت میں غزل کی نسبت زیادہ گنجائش موجود ہوتی ہے لیکن اردومیں نعت نگار حضرات نظم کی طرف کم کم آتے ہیں اورجو آئے بھی ہیں وہ ذاتی حوالوں سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔نعتیہ ادب کی تخلیقی و تنقیدی اہمیت کے حوالے سے ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں:

’’نعتیہ ادب میں تخلیقی ،تنقید ی اور تحقیقی کام کے لیے جس آگاہی کی ضرورت ہے وہ صرف چند نکات پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ اس کی وسعتیں بے کنارہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاعری کرتے ہوئے اسے پرکھتے ہوئے اور اُس پر تحقیق کرتے ہوئے انتہائی معروضیت (Objectivity) کا مظاہر ہ کرنا لازمی ہے۔

۴۴) آغاز سے نعت،روایتی شعرا ء کے ہاں انفرادی حوالوں سے محبت رسول کا بیان رہی اور مذہبی فلسفے کے حوالے سے بڑے سوالات کی جانب ہمارا شعر گو آنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتا رہا۔ فلسفۂ مذاہب کے تناظر میں وقت کی ماورائی جہات کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کی طرف ہمارا نعت گو کیوں نہیں آسکا ؟اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں مسلم اجتماعی شعور میں جھانکنا پڑے گا۔عمومی طور پر ہمارے غزل گو اورخصوصی طور پر نعت گو شعراء کے ہاں نظم کی طرف نہ آنے کی وجوہات کچھ یوں ہوسکتی ہیں:

(الف )روایتی فکر سے جڑت کے باعث ذہن کی تخلیقی صلاحیتیں کسی نئے منطقے کی دریافت کرنے کے قابل نہیں رہیں۔

(ب)غزل کی ہیئت میں نعت کومحافل میں حاصل ہونے والی پسندیدگی کے باعث ‘شعراء انفرادی حوالوں سے محبت رسول کا بیان کرنے میں آسانی محسوس کرتے رہے ۔

(ج)اردو نعت کو ادبی صنف بننے اور غزل کے فلسفیانہ اندازِ فکر رکھنے والے شعراء کا نعت کی طرف آنے میں مشکلا ت حائل رہیں ۔

(د) روایت سے جدیدیت اورمابعدجدیدیت کی طرف اردو غزل تو منتقل ہوئی لیکن اردو نعت کا یہ سفر ابھی آغاز میں ہی ہے

(ر) اردو غزل اور اردو نعت کے روایتی شعراء کے ہاں حضرت محمد ؐ کی تعریف کے ساتھ ساتھ شہرت کے عناصر بھی ساتھ ساتھ موجود رہے۔

(ہ)اردو نعت میں جدید ادبی اندازِ تحریر اور نئے نظریات کے استعمال کا فقدان رہا۔

ان تمام نکات کو سامنے رکھیںتو اردو نعت میں روایتی فکر کی ڈومینشن (Domination) سامنے آتی ہے اور اِس کی بڑی وجہ تو وہی ہے کہ ہمارا شاعر اور سامع دونوں مطالعے کے عادی نہیں ہیں ۔علم اب مجّرد نہیں رہا یہ مرکب صورت میں اذہان پر اثرانداز ہوتا ہے اور پیچیدگی و ابہام پیدا کرتا ہے لہٰذا اس علم کے حصول کے لیے اپنے ذہن کو مرکب صورت میں چیزوں کو دیکھنے کا عادی بنانا ہوگا ۔وقت کی مذہبی تفہیم کے سلسلے میں مجھے ن ۔م۔راشد کی ایک نظم یاد آتی ہے :

زمانہ خدا ہے

زمانہ خدا ہے

اسے تم برا مت کہو

مگر تم نہیں دیکھتے ،زمانہ فقط ریسمان ِخیال

سبک مایہ ،نازک ،طویل

جدائی کی ارزاں سبیل

وہ صُبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں

وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہوں گی

انہیں تم نہیں دیکھتے ،دیکھ سکتے نہیں

کہ موجود ہیں،اب بھی موجود ہیں وہ کہیں

مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے

یہ رسی نہ ہوتو کہاں ہم میں تم میں

ہو پیدا یہ راہ ِوصال

۴۵) وقت کی تفہیم پر مشتمل اِس نظم میں وقت ایک خاص حدِ فاصل رکھتا ہے یعنی ایک زمانہ دوسرے زمانے میں پیوست مختلف عوامل کو ایک دوسرے سے جدارکھتا ہے ۔نعت میں وقت کی ایسی تفہیم کی کوئی کوشش میری نظر سے نہیں گزری ۔یقینا ایسی نعتیہ نظمیں لکھی جارہی ہوں گی جن میں وقت کی بنت کو کسی خاص زاویۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہو ۔ستیہ صاحب کی ایک نظم کی چند لائنیں دیکھیں اس میں جاوداں زندگی کی جانب قدم بڑھانے کا عمل بنیادی طور پر وقت سے ماوراء ایک نئے جہان کی جانب پیش رفت کا اشارہ ہے۔

دھیان میں گم رہوں تو شاید میں

دیکھ پائو ں حضور کا جلوہ

چہر ۂ پاک کی ضیاء پاشی

کالی کملی سے نُور چھنتا ہوا

درمیاں میں رہوں تو سن پائوں

آپ سے میں پیام ِحق کے راز

جاوداں زندگی کی تعبیر یں

لفظ و حد ت کے معنی و تفسیر

نعت میں فکری سطح پر ذات اور کائنات کے حوالے سے بڑے فلسفے کے مضامین پر مشتمل شاعری کا دور اس وقت شروع ہوگا جب قرآن اور سیر ت کا تفصیلی اور گہرا مطالعہ نعت گو شعراء کریں گے اور سامع کی ذہنی تربیت اِس حوالے سے کی جائے گی ۔جیسے جیسے ہمارا سامع ،قاری اور ناظر ادبی تربیت یافتہ ہوگا ہماری شاعری میںبھی گہرائی اور وسعت آئے گی ۔روایتی شاعری اردو نعت میں بہت عمدہ ہورہی ہے اور محافل ِکی زینت بن رہی ہے تاہم آفاقی اور عظیم شاعری (نعت ) کے سامنے آنے کا وقت اب آرہا ہے کہ چودہ سو سالوں میں ہم مسلمان ایک پختہ اور مکمل تہذیب کے حامل ہوچکے ہیں اور وہ جو ایلیٹ نے کہا تھا:

’’کلاسیک (آفاقی اور عظیم فن پارہ )اُس وقت وجود میں آتا ہے جب کوئی تہذیب کامل یا پختہ ہوچکی ہوتی ہے۔

۴۶) اسی تہذیبی تکمیل کے عمل میں ہمارے ہاں اب نعت فلسفے اور سائنس کے بڑے مباحث کو شامل کرنے کی حالت میں آچکی ہے۔اقبال ،عبدالعزیز خالد ،عارف عبدالمتین کے بعد اب اِس حوالے سے کچھ نئے شعراء کو سامنے آنا چاہیے کہ محبت کا تقاضا صرف محبوب خدا ؐ کی روایتی تعریف ہی نہیں بلکہ نعت کے تناظر میں علم کو آگے لے کر چلنا بھی وقت کی ضرورت ہے اور یہی سرکارِدو عالم کی حقیقی تعریف بھی ہوگی ۔آقا کی دعا ’’رب زدنی علما‘‘ ترجمہ :’’اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما‘‘ ، کا اصل مفہوم بھی یہی ہے ۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔سٹیفن ہاکنگ ،وقت کا سفر،مشعل لاہور ۱۹۹۸ء

۲۔سٹیفن ہاکنگ ،وقت کا سفر،مشعل لاہور ۱۹۹۸ء،ص ۱۸۵

۳۔انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا

۴۔لیکچر ’’روشنی کا سفر ‘‘،طارق جمیل ،مولانا ،پی ٹی وی ۲۴/ جون ۲۰۱۵

۵۔سٹیفن ہاکنگ ،وقت کا سفر،مشعل لاہور ۱۹۹۸ء

۶۔اردو فکشن میں وقت کا تصور، ص ۵

۷۔تجلیات قرآن ،سبطین شاہجہانی ،ص ۳

۸۔سورۃالرحمن:۵

۹۔پروفیسراحمد رفیق اختر

۱۰۔ڈاکٹر وزیر آغا بحوالہ اردو فکشن میں وقت کا تصور

۱۱۔کاشف عرفان ،چوتھی دشا،(غیر مطبوعہ نظم )

۱۲۔سورۃالعصر:۱۔۲

۱۳۔القرآن

۱۴۔حدیث قدسی

۱۵۔حدیث قدسی

۱۶۔سورۃالیونس:۳

۱۷۔سورۃ الکہف :۲۵

۱۸۔سورۃ بنی اسرائیل : ۱

۱۹۔واقعۂ معراج اور اس کے مشاہدات (ایک تحقیقی جائزہ )،دارلسلام ،اسلام آباد

۲۰۔بحوالہ واقعۂ معراج اور اس کے مشاہدات

۲۳۔آدمی اور کتاب ،ڈاکٹر ابوالخیر کشفی ،زین پبلی کیشز کراچی،ص ۷۷

۲۴۔سورۃ النجم ،آیت ۸ ۔ ۱۸

۲۵۔میثاق ،سرشار صدیقی ،حِرافائونڈیشن کراچی ،مئی ۲۰۰۲،ص ۳۰

۲۶۔ایضاً،ص ۱۱۲

۲۷۔ایضاً،ص ۱۰۹

۲۸۔ایضاً،ص ۱۰۵

۲۹۔اقراء ،صہبا اختر ،مکتبہ ندیم کراچی ،۱۹۸۱ء،ص ۵۸

۳۰۔اردو نعت کا تحقیقی و تنقید ی جائزہ ،ص ۴۶

۳۱۔اجمل و اکمل ،محسن احسان ،القلم اسلام آباد ،اپریل ۱۹۹۶ء ،ص ۱۰۸،۱۰۹

۳۲۔ایضاً ،ص ۵۱

۳۳۔ایضاً،ص۴۲

۳۴۔ایضاً ،ص۴۹

۳۵۔ایضاً، ص ۵۵

۳۶۔ایضاً، ص۶۵

۳۷۔ایضاً، ص۶۶

۳۸۔ایضاً، ص ۹۴

۳۹۔ایضاً، ص ۹۴

۴۰۔ ایضاً،ص ۱۰۰

۴۱۔نسبت ،ابو الخیر کشفی ،سید ،اقلیم نعت کراچی ،۱۹۹۹ء ،ص۷۶،۷۵

۴۲۔رنگِ نعت (مولّفہ)پروفیسر محمد فیروزشاہ ،نعت ریسرچ سنٹر ،کراچی ،ستمبر ۲۰۰۸ء، ص ۲۳

۴۳۔وطن سے وطن تک ،ابو الخیر کشفی ،مجلس ِمطبوعات و تحقیقا ت کراچی ،۱۹۸۶ء،ص ۳۸

۴۴۔نعتیہ ادب کے تنقیدی زاویے ،عزیز احسن،ڈاکٹر ،نعت ریسرچ سینٹر ،کراچی ،ستمبر ۲۰۱۵ء، ص ۱۳۰ تا ۱۳۱

۴۵۔ن ۔م۔راشد (نظم )

۴۶۔اشارات تنقید ،سید عبداﷲ،ڈاکٹر ،مقتدرہ قومی زبان ،اسلام آباد ،ص ۱۱۹

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]