ابتر تھی فضا تیرگیء جہل تھی چھائی ۔ فدا خالدی دہلوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

شاعر: فدا خالدی دہلوی

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ابتر تھی فضا تیرگیء جہل تھی چھائی

ناواقفِ اسرار محبت تھی خدائی


ہرذہن میں وہ بُغض وعداوت کادھواں تھا

جاری تھی ہمہ وقت قبیلوں میں لڑائی


وہ رات کے پردے میں دہلتے ہوئے انجم

دشمن نظر آتا تھا جہاں بھائی کابھائی


دھبے تھے کدروت کے ہرآئینہِ دل پر

دشوار نظر آتی تھی باطن کی صفائی


ہر ذہن پہ وہ نشنۂِ نخوت تھا مُسلّط

ہرشخص کو درکار تھی اپنی ہی بڑائی


دُختر کو دبا آتے تھے زندہ ہی زمیں میں

نادان سمجھتے تھے برائی کو بھلائی


انسان بِکا کرتاتھا انسان کے ہاتھوں

تھی گردنِ مفلس پہ رواں تیغِ طلائی


زیبائشِ محفل تھے کھنکتے ہوئے ساغر

رقصاں تھا سرِراہِ طرب حُسنِ خفائی


محفوظ نہ تھی عفّت وعصمت کسی صورت

تھا جام بکف بزم میں ہردستِ حنائی


انسان کا انسان لہو چوس رہا تھا

کہتے ہیں جسے سُود وہ تھی اُن کی کمائی


یوں دل میں بسے رہتے تھے افعالِ قبیحہ

جیسے کسی تالاب کے پانی پہ ہو کائی


وہ اپنا مددگار سمجھتے تھے بتوں کو

انسانوں کے ذہنوں پہ تھی پتھر کی خدائی


عُزّیٰ تھا خداوند کہیں لات و ہبل تھا

تھے اُن کی نگاہوں میںیہی ان کے روائی


ناواقفِ آدابِ تمدّن تھا ہر اک دل

جائز تھی انہیں لوٹ ، جوا ، سود ، گدائی


لایا جو کوئی قافلہ اسبابِ تجارت

سب ٹوٹ پڑے اس پہ لٹیر وں کی بن آئی


وہ جبر کے نغموں سے فضا گونج رہی تھی

مظلوم کی آواز نہ دیتی تھی سُنائی


اس طرح جکڑ رکھا تھا زنجیرِ ستم نے

مشکل تھی درِعدل پہ انساں کی رسائی


دیتے تھے عجب طرح غلاموں کواذّیت

حق بات کوئی کہہ دے تومرتاتھا بِن آئی


تھا فخر رعونت پہ انہیں‘ نازبدی پر

بگڑی جو کہیں بات تو تلوار اُٹھائی


خود اپنی ہی تعریف میں پڑھتے تھے قصیدے

کرتے تھے بڑے فخر سے خوداپنی بڑائی


گفتار میںتلخی تھی تولہجے میں تکبّر

آخر یہ روشِ اُن کی مشیت کونہ بھائی


اُبھرا افقِ ذہن پہ اک مطلعِ دلکش

رخشندہ و تابندہ و پُر نور و ضیائی


بدلی وہ فضا رحمت حق جوش میں آئی

ظلمت میں کرن پھوٹی پئے راہنمائی


منسوب ہوا نامِ محمد سے وہی نور

تنویرِ ہدایت متشکل نظرآئی


چمکا دیا دنیا کو اسی نورِ مبیں نے

چھائی ہوئی سب تیرگیء جہل مٹائی


چہروں سے برسنے لگے انوار یقیں کے

ایمان سے ہونے لگی قلبوں کی صفائی


بندوںکو خبردار کیا عظمتِ رب سے

گردن ستم وجور سے انساں کی چھڑائی


وہ جس نے یتیموں کو کلیجے سے لگایا

دی جس نے غلاموں کو غلامی سے رہائی


بندوںکو جھکایا درِ معبود پہ جس نے

وہ راہنما جس نے رہِ راست دکھائی


انسانوں کو اخلاق کا خوگر کیاجس نے

وہ حسُن جو عریاں تھا کیا اس کو ردائی


وہ جس نے اجڑتی ہوئی دنیا کو سنوارا

وہ جس نے بگڑتی ہوئی تقدیر بنائی


انسان کو آداب تمدّن کے سکھائے

کس طرح جیا کرتے ہیں یہ بات بتائی


اس شان سے پیغام اخوت دیاجس نے

انصار و مہاجر نظر آنے لگے بھائی


تبدیل کیے ذہن برائی کی طرف سے

نفرت رہی باقی نہ عداوت نہ لڑائی


وہ ذاتِ گرامی جسے اللہ نوازے

وہ جس کے لیے محفلِ کونین سجائی


وہ ہادیٔ کُل ختمِ رسل شافعِ محشر

حاصل جسے تاعرشِ معلی ہے رسائی


وہ صاحب ِ الطاف و عطا بانیء اکرام

شرمندۂ احسانِ کرم جس کی خدائی


وہ جس کا ہر اک قول ہے گنجینۂ حکمت

وہ جس کی ہراک بات میں پوشیدہ بھلائی


وہ دلبرِ حق سرورِ کونین کہ جس کے

جبریل امیں در پہ کریں ناصیہ سائی


وہ جس کو کہیں سید و محمود و مبشّر

وہ پیکرِ عظمت دے جسے زیب بڑائی


یسٓیں بھی ہوطٰحٰہ بھی ہو صادق بھی امیں بھی

حیران ہوں کیا اس کی کروں مدح سرائی


کرتاہوں فداؔختم قصیدے کو دعا پر

اللہ درِ سرورِ دیں تک ہو رسائی

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زیادہ پڑھے جانے والے کلام