"کیے تحریر کروں مدحت محبوب صمد نطق عاجز ہے توقاصر ہیں ۔ خالد علیم" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: {{بسم اللہ}} شاعر: خالد علیم برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26 ==== {{نعت}} ==== کیے تحریر کروں مدحتِ مح...)
 
 
سطر 8: سطر 8:




کیے تحریر کروں مدحتِ محبوبِ صَمد نُطق عاجز ہے توقاصر ہیں مرے فہم وخَرد تیرے اوصاف کاہوتا ہے وہاں سے آغاز ختم ہوتی ہے جہاں  
کیسے تحریر کروں مدحتِ محبوبِ صَمد  
فکر و نظر کی سرحد تیرا دستُور ہے ہر ایک زمانے کے لیے تیری نسبت سے ہوئے ایک ازل اورابد ہو فضیلت عربی کو عجمی پر کیوں کر ہیں برابر ترے منشور میں اَبیَض ، اسَود دھر میں تُو نے محبت کا علم لہرایا مٹ گیا سینۂ انساں سے ہر اک کینہ وکد آتشیں ریت بھی ایماں پہ نہ غالب آئی تیرے عاشق کے لبوں پرتھا ھُوَ اللہُ اَحَد مُنہ کے بل گرگئے اصنام،صنم خانوں میں عالم شرک پہ اک ضرب تھی تیری آمد درسِ توحید نے ابلیس کو مایوس کیا ہوئے ویران سبھی،لات و ہُبل کے معبد ہوگیا عام زمانے میں چلن نیکی کا اور ناپید ہوئے مکرو دغا ، بُغض و حسد ہوئی آرائشِ گیسوئے عروس ہستی چہرۂ زیست کے رخشندہ ہوئے خال اورخَد ہمنوا طیبہ وبطحا سے ہوئے تیرے سبب مصر و لاہور و بخارا و دمشق و مشہد تُونے ایمان و مساوات کی دولت بانٹی تیرے اخلاق و مروّت نے کیا کفر کا رَد تُونے اُلٹی ہے بساطِ ستم و کذب وریا ارضِ ہستی پہ محبت کی بچھائی مسند تیرے انصاف کی دیتاہے گواہی اب تک خانۂ خالقِ کونین میں سنگِ اسود خاکِ یثرب کو دیا تُونے فروغِ انجم رشکِ صد گُلشن فردوس ہے تیرا مولد جلوۂ گنبد خضرا ہے نگاہوں کا سرُور کیف پرور ہے جہاں کے لیے تیرامرقد تیرے دم سے ہے مُعطر چمنستانِ خیال تجھ سے حاصل ہے مرے دل کو سرُورِ سرمد کیا کہے گی مجھے خورشیدِ قیامت کی تپش جب بنا میری پنہَ گاہ ترا سایہِ قد آخرت میں مجھے ہمسایگی مل جائے تری تیری توصیف بنے میری شفاعت کی سند بارگاہِ صمدی میں یہ دعا ہے میری مشعلِ نعت سے روشن ہو مراکُنجِ لحد تیری مدحت کاشرف مجھ کو ہواہے حاصل ہو نہ کیوںکر مرے ہرشعروسُخن میں آمد
 
نُطق عاجز ہے توقاصر ہیں مرے فہم وخَرد  
 
 
تیرے اوصاف کاہوتا ہے وہاں سے آغاز  
 
ختم ہوتی ہے جہاں فکر و نظر کی سرحد  
 
 
تیرا دستُور ہے ہر ایک زمانے کے لیے  
 
تیری نسبت سے ہوئے ایک ازل اورابد  
 
 
ہو فضیلت عربی کو عجمی پر کیوں کر  
 
ہیں برابر ترے منشور میں اَبیَض ، اسَود  
 
 
دھر میں تُو نے محبت کا علم لہرایا  
 
مٹ گیا سینۂ انساں سے ہر اک کینہ وکد
 
 
آتشیں ریت بھی ایماں پہ نہ غالب آئی  
 
تیرے عاشق کے لبوں پرتھا ھُوَ اللہُ اَحَد  
 
 
مُنہ کے بل گرگئے اصنام،صنم خانوں میں  
 
عالم شرک پہ اک ضرب تھی تیری آمد  
 
 
درسِ توحید نے ابلیس کو مایوس کیا  
 
ہوئے ویران سبھی،لات و ہُبل کے معبد  
 
 
ہوگیا عام زمانے میں چلن نیکی کا  
 
اور ناپید ہوئے مکرو دغا ، بُغض و حسد  
 
 
ہوئی آرائشِ گیسوئے عروس ہستی  
 
چہرۂ زیست کے رخشندہ ہوئے خال اورخَد  
 
 
ہمنوا طیبہ وبطحا سے ہوئے تیرے سبب  
 
مصر و لاہور و بخارا و دمشق و مشہد  
 
 
تُونے ایمان و مساوات کی دولت بانٹی  
 
تیرے اخلاق و مروّت نے کیا کفر کا رَد  
 
 
تُونے اُلٹی ہے بساطِ ستم و کذب وریا  
 
ارضِ ہستی پہ محبت کی بچھائی مسند  
 
 
تیرے انصاف کی دیتاہے گواہی اب تک  
 
خانۂ خالقِ کونین میں سنگِ اسود  
 
 
خاکِ یثرب کو دیا تُونے فروغِ انجم  
 
رشکِ صد گُلشن فردوس ہے تیرا مولد  
 
 
جلوۂ گنبد خضرا ہے نگاہوں کا سرُور  
 
کیف پرور ہے جہاں کے لیے تیرامرقد  
 
 
تیرے دم سے ہے مُعطر چمنستانِ خیال  
 
تجھ سے حاصل ہے مرے دل کو سرُورِ سرمد  
 
 
کیا کہے گی مجھے خورشیدِ قیامت کی تپش  
 
جب بنا میری پنہَ گاہ ترا سایہِ قد
 
 
آخرت میں مجھے ہمسایگی مل جائے تری  
 
تیری توصیف بنے میری شفاعت کی سند  
 
 
بارگاہِ صمدی میں یہ دعا ہے میری  
 
مشعلِ نعت سے روشن ہو مراکُنجِ لحد  
 
 
تیری مدحت کاشرف مجھ کو ہواہے حاصل  
 
ہو نہ کیوںکر مرے ہرشعروسُخن میں آمد


=== مزید دیکھیے ===
=== مزید دیکھیے ===


{{منتخب شاعری }}
{{منتخب شاعری }}

حالیہ نسخہ بمطابق 22:46، 29 دسمبر 2017ء


شاعر: خالد علیم

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کیسے تحریر کروں مدحتِ محبوبِ صَمد

نُطق عاجز ہے توقاصر ہیں مرے فہم وخَرد


تیرے اوصاف کاہوتا ہے وہاں سے آغاز

ختم ہوتی ہے جہاں فکر و نظر کی سرحد


تیرا دستُور ہے ہر ایک زمانے کے لیے

تیری نسبت سے ہوئے ایک ازل اورابد


ہو فضیلت عربی کو عجمی پر کیوں کر

ہیں برابر ترے منشور میں اَبیَض ، اسَود


دھر میں تُو نے محبت کا علم لہرایا

مٹ گیا سینۂ انساں سے ہر اک کینہ وکد


آتشیں ریت بھی ایماں پہ نہ غالب آئی 

تیرے عاشق کے لبوں پرتھا ھُوَ اللہُ اَحَد


مُنہ کے بل گرگئے اصنام،صنم خانوں میں

عالم شرک پہ اک ضرب تھی تیری آمد


درسِ توحید نے ابلیس کو مایوس کیا

ہوئے ویران سبھی،لات و ہُبل کے معبد


ہوگیا عام زمانے میں چلن نیکی کا

اور ناپید ہوئے مکرو دغا ، بُغض و حسد


ہوئی آرائشِ گیسوئے عروس ہستی

چہرۂ زیست کے رخشندہ ہوئے خال اورخَد


ہمنوا طیبہ وبطحا سے ہوئے تیرے سبب

مصر و لاہور و بخارا و دمشق و مشہد


تُونے ایمان و مساوات کی دولت بانٹی

تیرے اخلاق و مروّت نے کیا کفر کا رَد


تُونے اُلٹی ہے بساطِ ستم و کذب وریا

ارضِ ہستی پہ محبت کی بچھائی مسند


تیرے انصاف کی دیتاہے گواہی اب تک

خانۂ خالقِ کونین میں سنگِ اسود


خاکِ یثرب کو دیا تُونے فروغِ انجم

رشکِ صد گُلشن فردوس ہے تیرا مولد


جلوۂ گنبد خضرا ہے نگاہوں کا سرُور

کیف پرور ہے جہاں کے لیے تیرامرقد


تیرے دم سے ہے مُعطر چمنستانِ خیال

تجھ سے حاصل ہے مرے دل کو سرُورِ سرمد


کیا کہے گی مجھے خورشیدِ قیامت کی تپش

جب بنا میری پنہَ گاہ ترا سایہِ قد


آخرت میں مجھے ہمسایگی مل جائے تری 

تیری توصیف بنے میری شفاعت کی سند


بارگاہِ صمدی میں یہ دعا ہے میری

مشعلِ نعت سے روشن ہو مراکُنجِ لحد


تیری مدحت کاشرف مجھ کو ہواہے حاصل

ہو نہ کیوںکر مرے ہرشعروسُخن میں آمد

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زیادہ پڑھے جانے والے کلام