"کرامت علی شہیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
سطر 21: سطر 21:
شہیدی کا شمار اوّلین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اگرچہ شہیدی سے بہت پہلے نعتیہ شاعری کے ابتدائی نمونے دکن میں نظر آتے ہیں۔ اِس کے بعد شمالی ہند میں بھی نعت اور منقبت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اِن علاقوں میں زیادہ رجحان منقبت کا رہا جبکہ نعتیہ کلام کی حیثیت محض عقیدت اور ثواب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اِس کے علاوہ لکھنو کے ماحول کے زیر اثر منقبت لکھنے والے شعرا ہی زیادہ رہے۔ اِس عہد کے اہم لکھنے والوں میں نظیر اکبر آبادی، شہیدی، لطف علی خان لطف اور غلام امام شہید نے نعت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی <ref> ڈاکٹر فرمان فتح پوری "اُردو کی نعتیہ شاعری" (لاہور، آئینہ، ۱۹۷۴ء) ص ۵۰ </ref> مگر جو بے ساختگی اور والہانہ پن شہیدی کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا اور یہی نہیں بلکہ جب کھبی اُردو کی نعتیہ شاعری کا ذکر آتا ہے تو شہیدی کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔<ref> ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق "اُردو میں نعتیہ شاعری' (کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۷۵ء) ص ۲۲۶ </ref>
شہیدی کا شمار اوّلین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اگرچہ شہیدی سے بہت پہلے نعتیہ شاعری کے ابتدائی نمونے دکن میں نظر آتے ہیں۔ اِس کے بعد شمالی ہند میں بھی نعت اور منقبت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اِن علاقوں میں زیادہ رجحان منقبت کا رہا جبکہ نعتیہ کلام کی حیثیت محض عقیدت اور ثواب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اِس کے علاوہ لکھنو کے ماحول کے زیر اثر منقبت لکھنے والے شعرا ہی زیادہ رہے۔ اِس عہد کے اہم لکھنے والوں میں نظیر اکبر آبادی، شہیدی، لطف علی خان لطف اور غلام امام شہید نے نعت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی <ref> ڈاکٹر فرمان فتح پوری "اُردو کی نعتیہ شاعری" (لاہور، آئینہ، ۱۹۷۴ء) ص ۵۰ </ref> مگر جو بے ساختگی اور والہانہ پن شہیدی کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا اور یہی نہیں بلکہ جب کھبی اُردو کی نعتیہ شاعری کا ذکر آتا ہے تو شہیدی کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔<ref> ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق "اُردو میں نعتیہ شاعری' (کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۷۵ء) ص ۲۲۶ </ref>


شہیدی کی نعتیہ غزلوں اور رباعی میں بھی عقیدت کا گہرا رنگ نظر آئے گا۔ شہیدی کا فکری رویہ اور مزاج چونکہ لکھنو تھا، اِس لئے اِن کے یہاں لکھنو کی زبان کا خاص لسانی و تہذیبی شعور دکھائی دے گا۔ ڈاکٹرریاض مجید نے اِس خیال کا اظہار کہ اُن کے یہاں موضوع و اظہار کے انتخاب اور پیش کش میں لکھنوی شاعری کے اثرات ملتے ہیں، نکتہ آفرینی اور صنعت گری کے نمونے کم و بیش سبھی شعروں میں ملتے ہیں جن کے سبب خارجیت نمایاں ہے اور واقعی احساسات اور واردات کا فقدان ہے۔ <refڈاکٹر ریاض مجید، "اُردو میں نعت گوئی"، ص ۳۰۷</ref> جہاں تک خارجیت کا تعلق ہے تو یہ ہر لکھنوی شاعرکا بنیادی حوالہ بنتی ہے کیونکہ اِس کے پس منظر میں ایک مکمل سیاسی، سماجی اور تہذیبی عمل کار فرما تھا۔ مگر شہیدی نے اُس خارجیت کے باوجود نعت گوئی کو باقاعدہ ایک شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور اِسے محض عقیدت و ثواب سے نکال کر فن کی بنلدی تک پہنچایا ہے۔ چند اشعار دیکھیں۔
شہیدی کی نعتیہ غزلوں اور رباعی میں بھی عقیدت کا گہرا رنگ نظر آئے گا۔ شہیدی کا فکری رویہ اور مزاج چونکہ لکھنو تھا، اِس لئے اِن کے یہاں لکھنو کی زبان کا خاص لسانی و تہذیبی شعور دکھائی دے گا۔ ڈاکٹرریاض مجید نے اِس خیال کا اظہار کہ اُن کے یہاں موضوع و اظہار کے انتخاب اور پیش کش میں لکھنوی شاعری کے اثرات ملتے ہیں، نکتہ آفرینی اور صنعت گری کے نمونے کم و بیش سبھی شعروں میں ملتے ہیں جن کے سبب خارجیت نمایاں ہے اور واقعی احساسات اور واردات کا فقدان ہے۔ <ref>ڈاکٹر ریاض مجید، "اُردو میں نعت گوئی"، ص ۳۰۷</ref> جہاں تک خارجیت کا تعلق ہے تو یہ ہر لکھنوی شاعرکا بنیادی حوالہ بنتی ہے کیونکہ اِس کے پس منظر میں ایک مکمل سیاسی، سماجی اور تہذیبی عمل کار فرما تھا۔ مگر شہیدی نے اُس خارجیت کے باوجود نعت گوئی کو باقاعدہ ایک شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور اِسے محض عقیدت و ثواب سے نکال کر فن کی بنلدی تک پہنچایا ہے۔ چند اشعار دیکھیں۔


ہے سورۃ واشّمس اگر روئے محمد
ہے سورۃ واشّمس اگر روئے محمد

نسخہ بمطابق 10:46، 19 جون 2017ء

کرامت علی شہیدی انیسویں صدی کے اہم شاعر تھے لیکن کلام کی عدم دستیابی کے وجہ سے وقت کی گرد میں گم ہوگئے ۔ کرامت علی شہیدی اپنے نعتیہ کلام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔

حالات زندگی

ڈاکٹر لطیف حسین کے مطابق کرامت علی شہیدی موضع ہڑیا پور ضلع اناو میں پیدا ہوئے آخری وقت بریلی میں گذارہ <ref> (مضمون) مشمولہ "معارف اعظم گڑھ (نمبر۱، جلد ۹۳ء جنوری ۱۹۶۴ء) ص ۴۳</ref>۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ آپ بریلی کے رہنے والے تھے تو نشو ونما لکھنو میں پائی <ref> مولانا سید عبدالحی، "گلِ رعنا" (لاہور، عشرت پبلشنگ پاوس، ۱۹۶۴ء) ص ۲۷۴ </ref> تاہم ڈاکٹر لطیف حسین کی رائے زیادہ معتبر ہے

تحصیل علم

کرامت علی شہیدی کے والد "عبدالرسول " وہ ایک شیریں کلم شاعر اور علم عروض کے ماہر تھے ۔ پیشہ درس و تدریس تھا ۔ راجہ ٹکیٹ رائے کے فارسی کلام پر اصلاح دیتے تھے <ref> (مضمون) مشمولہ "معارف اعظم گڑھ (نمبر۱، جلد ۹۳ء جنوری ۱۹۶۴ء) ص ۴۳</ref>۔ شہیدی کی ابتدائی تعلہم کے بارے کچھ خاص معلومات حاصل نہیں ڈاکٹر سید عام سہیل قیاس کرتے ہیں کہ رسمی تعلیم کے ساتھ والدِ محترم کی تربیت نے شعر گوءی کو جلا بخشی ہوگی ۔

نعت گوئی

ڈاکٹر سید عامر سہیل کے مضمون سے اقتباس


کرامت علی خان شہیدی کے حالات زندگی، اُن کے دیوان کی مختلف اشاعتوں کے ذکر اور اُن کلام کی فہرست مرتب کرنے کے بعد شہیدی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے یہ بات نمایاں طور پر نظر آئے گی کہ اگرچہ شہیدی نے ہر مقبول صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے خصوصاً غزلیات کا نہایت معقول سرمایہ انہوں نے چھوڑا ہے مگر اُن کی اصل وجہ شہرت اُن کا نعتیہ کلام ہے۔ شہیدی کے کلام میں ایک قصیدہ نما نعت، دو دو نعتیہ غزلیات، ایک نعتیہ رباعی اور مولوی جامی کی غزل پر ایک نعتیہ مخمس شامل ہے۔ اِس قلیل نعتیہ سرمایہ کے باوجود نعت گوئی میں اُن کی شہرت بقائے دوام کا درجہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب کے بقول:

"شہیدی نے نعتیہ قصیدے، نعتیہ غزلیں اور نعتیہ خمسے لکھے۔ اِن نعتوں میں قصیدے کی شان، غزل کی آمد و آورد اور خمسے کی بر جستگی ہے۔ اُن کی نعتیہ غزلوں میں جذبات نگاری بھی ہے اور عارض و گیسو کی توصیف بھی ہے <ref> ایضا </ref>

شہیدی کا شمار اوّلین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اگرچہ شہیدی سے بہت پہلے نعتیہ شاعری کے ابتدائی نمونے دکن میں نظر آتے ہیں۔ اِس کے بعد شمالی ہند میں بھی نعت اور منقبت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اِن علاقوں میں زیادہ رجحان منقبت کا رہا جبکہ نعتیہ کلام کی حیثیت محض عقیدت اور ثواب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اِس کے علاوہ لکھنو کے ماحول کے زیر اثر منقبت لکھنے والے شعرا ہی زیادہ رہے۔ اِس عہد کے اہم لکھنے والوں میں نظیر اکبر آبادی، شہیدی، لطف علی خان لطف اور غلام امام شہید نے نعت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی <ref> ڈاکٹر فرمان فتح پوری "اُردو کی نعتیہ شاعری" (لاہور، آئینہ، ۱۹۷۴ء) ص ۵۰ </ref> مگر جو بے ساختگی اور والہانہ پن شہیدی کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا اور یہی نہیں بلکہ جب کھبی اُردو کی نعتیہ شاعری کا ذکر آتا ہے تو شہیدی کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔<ref> ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق "اُردو میں نعتیہ شاعری' (کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۷۵ء) ص ۲۲۶ </ref>

شہیدی کی نعتیہ غزلوں اور رباعی میں بھی عقیدت کا گہرا رنگ نظر آئے گا۔ شہیدی کا فکری رویہ اور مزاج چونکہ لکھنو تھا، اِس لئے اِن کے یہاں لکھنو کی زبان کا خاص لسانی و تہذیبی شعور دکھائی دے گا۔ ڈاکٹرریاض مجید نے اِس خیال کا اظہار کہ اُن کے یہاں موضوع و اظہار کے انتخاب اور پیش کش میں لکھنوی شاعری کے اثرات ملتے ہیں، نکتہ آفرینی اور صنعت گری کے نمونے کم و بیش سبھی شعروں میں ملتے ہیں جن کے سبب خارجیت نمایاں ہے اور واقعی احساسات اور واردات کا فقدان ہے۔ <ref>ڈاکٹر ریاض مجید، "اُردو میں نعت گوئی"، ص ۳۰۷</ref> جہاں تک خارجیت کا تعلق ہے تو یہ ہر لکھنوی شاعرکا بنیادی حوالہ بنتی ہے کیونکہ اِس کے پس منظر میں ایک مکمل سیاسی، سماجی اور تہذیبی عمل کار فرما تھا۔ مگر شہیدی نے اُس خارجیت کے باوجود نعت گوئی کو باقاعدہ ایک شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور اِسے محض عقیدت و ثواب سے نکال کر فن کی بنلدی تک پہنچایا ہے۔ چند اشعار دیکھیں۔

ہے سورۃ واشّمس اگر روئے محمد

واللیل کی تفسیر ہوئی موئے محمد

کس وضع اٹھائے ہوئے ہیں بارِ دو عالم

ظاہر میں تو نازک سے ہیں بازوئے محمد

کعبہ کی طرف منہ ہوئے نمازوں میں ہمارا

کعبہ کا شب و روش ہے منہ سوئے محمد

رضواں کے لئے لے چلوں سوغات شہدی

گر ہاتھ لگے خارو خس کوئے محمد


مشہور کلام

وفات

شراکتیں

صارف:تیمورصدیقی

حوالہ جات و حواشی