"کرامت علی شہیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 20: سطر 20:


شہیدی کا شمار اوّلین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اگرچہ شہیدی سے بہت پہلے نعتیہ شاعری کے ابتدائی نمونے دکن میں نظر آتے ہیں۔ اِس کے بعد شمالی ہند میں بھی نعت اور منقبت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اِن علاقوں میں زیادہ رجحان منقبت کا رہا جبکہ نعتیہ کلام کی حیثیت محض عقیدت اور ثواب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اِس کے علاوہ لکھنو کے ماحول کے زیر اثر منقبت لکھنے والے شعرا ہی زیادہ رہے۔ اِس عہد کے اہم لکھنے والوں میں نظیر اکبر آبادی، شہیدی، لطف علی خان لطف اور غلام امام شہید نے نعت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی <ref> ڈاکٹر فرمان فتح پوری "اُردو کی نعتیہ شاعری" (لاہور، آئینہ، ۱۹۷۴ء) ص ۵۰ </ref> مگر جو بے ساختگی اور والہانہ پن شہیدی کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا اور یہی نہیں بلکہ جب کھبی اُردو کی نعتیہ شاعری کا ذکر آتا ہے تو شہیدی کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔<ref> ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق "اُردو میں نعتیہ شاعری' (کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۷۵ء) ص ۲۲۶ </ref>
شہیدی کا شمار اوّلین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اگرچہ شہیدی سے بہت پہلے نعتیہ شاعری کے ابتدائی نمونے دکن میں نظر آتے ہیں۔ اِس کے بعد شمالی ہند میں بھی نعت اور منقبت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اِن علاقوں میں زیادہ رجحان منقبت کا رہا جبکہ نعتیہ کلام کی حیثیت محض عقیدت اور ثواب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اِس کے علاوہ لکھنو کے ماحول کے زیر اثر منقبت لکھنے والے شعرا ہی زیادہ رہے۔ اِس عہد کے اہم لکھنے والوں میں نظیر اکبر آبادی، شہیدی، لطف علی خان لطف اور غلام امام شہید نے نعت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی <ref> ڈاکٹر فرمان فتح پوری "اُردو کی نعتیہ شاعری" (لاہور، آئینہ، ۱۹۷۴ء) ص ۵۰ </ref> مگر جو بے ساختگی اور والہانہ پن شہیدی کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا اور یہی نہیں بلکہ جب کھبی اُردو کی نعتیہ شاعری کا ذکر آتا ہے تو شہیدی کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔<ref> ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق "اُردو میں نعتیہ شاعری' (کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۷۵ء) ص ۲۲۶ </ref>
جہان تک نعت کے ہیتی پیمانے کا تعلق ہے تو نعت کسی بھی ہیت میں لکھی جاسکتی ہے۔ شعرا نے (اور خود شہیدی نے) قصیدہ، غزل، رباعی اور مخمس ہیتوں کو چنا ہے اوراِن اصناف کے ہیتی مزاج اور رویوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نعت کہی ہے۔ قصیدہ کی صنف میں نعت کا خاص تہذیبی اور ادبی حوالہ بنتا ہے جو کہ نعت میں سرایت کرجاتا ہے۔ بلند آہنگی، پر شکوہ الفاظ تراکیب و مرکبات اور تشبیہات و استعارات کا خاص انداز نعت کا جزو بن جاتے ہیں۔ اِس طرح غزل کی صنف میں نعت کا مزاج دھیما، پرسوز اور داخلی کیفیات سے معمور ہونے کے ساتھ ساتھ غزل کی مختلف لفظیات کو ساتھ لے کر آئے گا۔ شہیدی کی نعتیہ شاعری میں انہی متنوع رنگوں کی جھلک نظر آئے گی۔ اُن کا نعتیہ قصیدہ، پر شکوہ الفاظ اور بلند آہنگ لہجے کے ساتھ محبت کا والہانہ پن اور عظمت کا احساس لئے ہوئے ہے۔ یہ قصیدہ ۳۳ اشعار پر مشتمل ہے۔ [[ڈاکٹر ریاض مجید]] نے اِسے تین حصوں میں تقسیم کرکے نعت کے تین غالب موضوعات سے جوڑ دیا ہے۔ پہلا حصہ حضور اکرمﷺ کے اوصاف و مدح سے عبارت ہے، دوسرے حصے میں شفاعت طلبی کو موضوع بنایا گیا ہے جبکہ تیسرا حصہ شیفتگی و فدائیت کے اظہار پر مشتمل ہے۔<ref> ڈاکٹر ریاض مجید "اُردو میں نعت گوئی" (لاہور، اقبال اکادمی ، اوّل ۱۹۹۰ء) ص ۳۰۴ </ref>
شہیدی کا یہ نعتیہ قصیدہ اُردو نعت گوئی میں نہایت سنجیدہ، باقاعدہ اور فنی حوالے سے نہایت اہم کوشش ہے۔ اِس میں والہانہ پن اور محبت کے جذبات کا جو بے ساختہ پن ہے اُس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ شہیدی نے اِس میں زبان کی صناعی کا استعمال کیا ہے اور خاص لکھنوی اندازِ نظر کو بھی برتنے کی کوشش کی ہے۔ بعض اشعار میں اُن کی یہ شعوری کوشش محسوس بھی ہوتی ہے مگر اِس کے باوجود اکثر اشعار چونکہ ایک وجدانہ حات اور بے خودی کی کیفیت میں لکھے گئے ہیں اِس لئے اِن پر شدید آمد کا احساس ہوتا ہے۔ تراکیب، تشبیہات و استعارات اور سمعی و بصری تمثالیں حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ سید یونس شاہ اِس قصیدے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
"اِس قصیدے میں ۳۳ اشعار ہیں جن میں بڑی سادگی سے آرزووں اور تمناوں کا اظہار ہے۔ شاعرانہ صناعی جو لکھنوی شاعری کا طرہ امتیاز ہے اِس قصیدے میں بدرجہ اتم موجود ہے اور قاری معنی کے علاوہ لطف زبان سے محفوظ ہوتا ہے۔"<ref> سید یونس شاہ، "تذکرہ نعت گویانِ اُردو" (ایبٹ آباد، الگیلان پبلیشرِ سن ندارد) ص ۲۷۲ </ref>
اِس نعتیہ قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
رام پیدا کیا کیا طرفہ بسم اللہ کی مد کا
سر دیواں لکھا ہے میں نے مط[[لع]] نعت احمد کا
طلوعِ روشنی جیسے نشاں ہو شہ کی آمد کا
ظہورِ حق کی حجت سے جہاں میں نور احمد کا
اُدھر اللہ سے واصل اِدھر مخلوق میں شامل
خواص اِس برزخِ کبرٰی میں ہے حرفِ مشدّد کا
تمنا ہے درختوں پر ترے روضے کے جا بیٹھیں
قفس جس وقت ٹوٹے طائرِ روحِ مقید کا
خدا منہ چوم لیتا ہے شہیدی کس محبت سے
زباں پر میری جس دم نام آتا ہے محمد کا


شہیدی کی نعتیہ غزلوں اور رباعی میں بھی عقیدت کا گہرا رنگ نظر آئے گا۔ شہیدی کا فکری رویہ اور مزاج چونکہ لکھنو تھا، اِس لئے اِن کے یہاں لکھنو کی زبان کا خاص لسانی و تہذیبی شعور دکھائی دے گا۔ ڈاکٹرریاض مجید نے اِس خیال کا اظہار کہ اُن کے یہاں موضوع و اظہار کے انتخاب اور پیش کش میں لکھنوی شاعری کے اثرات ملتے ہیں، نکتہ آفرینی اور صنعت گری کے نمونے کم و بیش سبھی شعروں میں ملتے ہیں جن کے سبب خارجیت نمایاں ہے اور واقعی احساسات اور واردات کا فقدان ہے۔ <refڈاکٹر ریاض مجید، "اُردو میں نعت گوئی"، ص ۳۰۷</ref> جہاں تک خارجیت کا تعلق ہے تو یہ ہر لکھنوی شاعرکا بنیادی حوالہ بنتی ہے کیونکہ اِس کے پس منظر میں ایک مکمل سیاسی، سماجی اور تہذیبی عمل کار فرما تھا۔ مگر شہیدی نے اُس خارجیت کے باوجود نعت گوئی کو باقاعدہ ایک شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور اِسے محض عقیدت و ثواب سے نکال کر فن کی بنلدی تک پہنچایا ہے۔ چند اشعار دیکھیں۔
شہیدی کی نعتیہ غزلوں اور رباعی میں بھی عقیدت کا گہرا رنگ نظر آئے گا۔ شہیدی کا فکری رویہ اور مزاج چونکہ لکھنو تھا، اِس لئے اِن کے یہاں لکھنو کی زبان کا خاص لسانی و تہذیبی شعور دکھائی دے گا۔ ڈاکٹرریاض مجید نے اِس خیال کا اظہار کہ اُن کے یہاں موضوع و اظہار کے انتخاب اور پیش کش میں لکھنوی شاعری کے اثرات ملتے ہیں، نکتہ آفرینی اور صنعت گری کے نمونے کم و بیش سبھی شعروں میں ملتے ہیں جن کے سبب خارجیت نمایاں ہے اور واقعی احساسات اور واردات کا فقدان ہے۔ <refڈاکٹر ریاض مجید، "اُردو میں نعت گوئی"، ص ۳۰۷</ref> جہاں تک خارجیت کا تعلق ہے تو یہ ہر لکھنوی شاعرکا بنیادی حوالہ بنتی ہے کیونکہ اِس کے پس منظر میں ایک مکمل سیاسی، سماجی اور تہذیبی عمل کار فرما تھا۔ مگر شہیدی نے اُس خارجیت کے باوجود نعت گوئی کو باقاعدہ ایک شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور اِسے محض عقیدت و ثواب سے نکال کر فن کی بنلدی تک پہنچایا ہے۔ چند اشعار دیکھیں۔
سطر 66: سطر 38:


گر ہاتھ لگے خارو خس کوئے محمد
گر ہاتھ لگے خارو خس کوئے محمد


==== مشہور کلام ====
==== مشہور کلام ====


* [[کرامت علی شہیدی کا نعتیہ قصیدہ ۔ ایک تعارف ]]
*[[رقم پیدا کیا کیا طرفہ بسم اللہ کی مد کا ۔ کرامت علی شہیدی | رقم پیدا کیا کیا طرفہ بسم اللہ کی مد کا]] <ref> ڈاکڑ شہزاد احمد، انوار عقیدت، انٹرنینشل حمد و نعت فاونڈیشن کراچی ۔ جون 2000</ref>
*[[رقم پیدا کیا کیا طرفہ بسم اللہ کی مد کا ۔ کرامت علی شہیدی | رقم پیدا کیا کیا طرفہ بسم اللہ کی مد کا]] <ref> ڈاکڑ شہزاد احمد، انوار عقیدت، انٹرنینشل حمد و نعت فاونڈیشن کراچی ۔ جون 2000</ref>


=== وفات ===
=== وفات ===

نسخہ بمطابق 10:46، 19 جون 2017ء

کرامت علی شہیدی انیسویں صدی کے اہم شاعر تھے لیکن کلام کی عدم دستیابی کے وجہ سے وقت کی گرد میں گم ہوگئے ۔ کرامت علی شہیدی اپنے نعتیہ کلام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔

حالات زندگی

ڈاکٹر لطیف حسین کے مطابق کرامت علی شہیدی موضع ہڑیا پور ضلع اناو میں پیدا ہوئے آخری وقت بریلی میں گذارہ <ref> (مضمون) مشمولہ "معارف اعظم گڑھ (نمبر۱، جلد ۹۳ء جنوری ۱۹۶۴ء) ص ۴۳</ref>۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ آپ بریلی کے رہنے والے تھے تو نشو ونما لکھنو میں پائی <ref> مولانا سید عبدالحی، "گلِ رعنا" (لاہور، عشرت پبلشنگ پاوس، ۱۹۶۴ء) ص ۲۷۴ </ref> تاہم ڈاکٹر لطیف حسین کی رائے زیادہ معتبر ہے

تحصیل علم

کرامت علی شہیدی کے والد "عبدالرسول " وہ ایک شیریں کلم شاعر اور علم عروض کے ماہر تھے ۔ پیشہ درس و تدریس تھا ۔ راجہ ٹکیٹ رائے کے فارسی کلام پر اصلاح دیتے تھے <ref> (مضمون) مشمولہ "معارف اعظم گڑھ (نمبر۱، جلد ۹۳ء جنوری ۱۹۶۴ء) ص ۴۳</ref>۔ شہیدی کی ابتدائی تعلہم کے بارے کچھ خاص معلومات حاصل نہیں ڈاکٹر سید عام سہیل قیاس کرتے ہیں کہ رسمی تعلیم کے ساتھ والدِ محترم کی تربیت نے شعر گوءی کو جلا بخشی ہوگی ۔

نعت گوئی

ڈاکٹر سید عامر سہیل کے مضمون سے اقتباس


کرامت علی خان شہیدی کے حالات زندگی، اُن کے دیوان کی مختلف اشاعتوں کے ذکر اور اُن کلام کی فہرست مرتب کرنے کے بعد شہیدی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے یہ بات نمایاں طور پر نظر آئے گی کہ اگرچہ شہیدی نے ہر مقبول صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے خصوصاً غزلیات کا نہایت معقول سرمایہ انہوں نے چھوڑا ہے مگر اُن کی اصل وجہ شہرت اُن کا نعتیہ کلام ہے۔ شہیدی کے کلام میں ایک قصیدہ نما نعت، دو دو نعتیہ غزلیات، ایک نعتیہ رباعی اور مولوی جامی کی غزل پر ایک نعتیہ مخمس شامل ہے۔ اِس قلیل نعتیہ سرمایہ کے باوجود نعت گوئی میں اُن کی شہرت بقائے دوام کا درجہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر لطیف حسین صاحب ادیب کے بقول:

"شہیدی نے نعتیہ قصیدے، نعتیہ غزلیں اور نعتیہ خمسے لکھے۔ اِن نعتوں میں قصیدے کی شان، غزل کی آمد و آورد اور خمسے کی بر جستگی ہے۔ اُن کی نعتیہ غزلوں میں جذبات نگاری بھی ہے اور عارض و گیسو کی توصیف بھی ہے <ref> ایضا </ref>

شہیدی کا شمار اوّلین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اگرچہ شہیدی سے بہت پہلے نعتیہ شاعری کے ابتدائی نمونے دکن میں نظر آتے ہیں۔ اِس کے بعد شمالی ہند میں بھی نعت اور منقبت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اِن علاقوں میں زیادہ رجحان منقبت کا رہا جبکہ نعتیہ کلام کی حیثیت محض عقیدت اور ثواب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اِس کے علاوہ لکھنو کے ماحول کے زیر اثر منقبت لکھنے والے شعرا ہی زیادہ رہے۔ اِس عہد کے اہم لکھنے والوں میں نظیر اکبر آبادی، شہیدی، لطف علی خان لطف اور غلام امام شہید نے نعت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی <ref> ڈاکٹر فرمان فتح پوری "اُردو کی نعتیہ شاعری" (لاہور، آئینہ، ۱۹۷۴ء) ص ۵۰ </ref> مگر جو بے ساختگی اور والہانہ پن شہیدی کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا اور یہی نہیں بلکہ جب کھبی اُردو کی نعتیہ شاعری کا ذکر آتا ہے تو شہیدی کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔<ref> ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق "اُردو میں نعتیہ شاعری' (کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۷۵ء) ص ۲۲۶ </ref>

شہیدی کی نعتیہ غزلوں اور رباعی میں بھی عقیدت کا گہرا رنگ نظر آئے گا۔ شہیدی کا فکری رویہ اور مزاج چونکہ لکھنو تھا، اِس لئے اِن کے یہاں لکھنو کی زبان کا خاص لسانی و تہذیبی شعور دکھائی دے گا۔ ڈاکٹرریاض مجید نے اِس خیال کا اظہار کہ اُن کے یہاں موضوع و اظہار کے انتخاب اور پیش کش میں لکھنوی شاعری کے اثرات ملتے ہیں، نکتہ آفرینی اور صنعت گری کے نمونے کم و بیش سبھی شعروں میں ملتے ہیں جن کے سبب خارجیت نمایاں ہے اور واقعی احساسات اور واردات کا فقدان ہے۔ <refڈاکٹر ریاض مجید، "اُردو میں نعت گوئی"، ص ۳۰۷</ref> جہاں تک خارجیت کا تعلق ہے تو یہ ہر لکھنوی شاعرکا بنیادی حوالہ بنتی ہے کیونکہ اِس کے پس منظر میں ایک مکمل سیاسی، سماجی اور تہذیبی عمل کار فرما تھا۔ مگر شہیدی نے اُس خارجیت کے باوجود نعت گوئی کو باقاعدہ ایک شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور اِسے محض عقیدت و ثواب سے نکال کر فن کی بنلدی تک پہنچایا ہے۔ چند اشعار دیکھیں۔

ہے سورۃ واشّمس اگر روئے محمد

واللیل کی تفسیر ہوئی موئے محمد

کس وضع اٹھائے ہوئے ہیں بارِ دو عالم

ظاہر میں تو نازک سے ہیں بازوئے محمد

کعبہ کی طرف منہ ہوئے نمازوں میں ہمارا

کعبہ کا شب و روش ہے منہ سوئے محمد

رضواں کے لئے لے چلوں سوغات شہدی

گر ہاتھ لگے خارو خس کوئے محمد


مشہور کلام

وفات

شراکتیں

صارف:تیمورصدیقی

حوالہ جات و حواشی