آپ «کرامت علی شہیدی» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 1: | سطر 1: | ||
کرامت علی شہیدی انیسویں صدی کے اہم شاعر تھے لیکن کلام کی عدم دستیابی کے وجہ سے وقت کی گرد میں گم ہوگئے ۔ کرامت علی شہیدی اپنے نعتیہ کلام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ | کرامت علی شہیدی انیسویں صدی کے اہم شاعر تھے لیکن کلام کی عدم دستیابی کے وجہ سے وقت کی گرد میں گم ہوگئے ۔ کرامت علی شہیدی اپنے نعتیہ کلام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ | ||
__ TOC __ | |||
=== حالات زندگی === | === حالات زندگی === | ||
سطر 21: | سطر 23: | ||
شہیدی کا شمار اوّلین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اگرچہ شہیدی سے بہت پہلے نعتیہ شاعری کے ابتدائی نمونے دکن میں نظر آتے ہیں۔ اِس کے بعد شمالی ہند میں بھی نعت اور منقبت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اِن علاقوں میں زیادہ رجحان منقبت کا رہا جبکہ نعتیہ کلام کی حیثیت محض عقیدت اور ثواب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اِس کے علاوہ لکھنو کے ماحول کے زیر اثر منقبت لکھنے والے شعرا ہی زیادہ رہے۔ اِس عہد کے اہم لکھنے والوں میں نظیر اکبر آبادی، شہیدی، لطف علی خان لطف اور غلام امام شہید نے نعت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی <ref> ڈاکٹر فرمان فتح پوری "اُردو کی نعتیہ شاعری" (لاہور، آئینہ، ۱۹۷۴ء) ص ۵۰ </ref> مگر جو بے ساختگی اور والہانہ پن شہیدی کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا اور یہی نہیں بلکہ جب کھبی اُردو کی نعتیہ شاعری کا ذکر آتا ہے تو شہیدی کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔<ref> ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق "اُردو میں نعتیہ شاعری' (کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۷۵ء) ص ۲۲۶ </ref> | شہیدی کا شمار اوّلین نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اگرچہ شہیدی سے بہت پہلے نعتیہ شاعری کے ابتدائی نمونے دکن میں نظر آتے ہیں۔ اِس کے بعد شمالی ہند میں بھی نعت اور منقبت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اِن علاقوں میں زیادہ رجحان منقبت کا رہا جبکہ نعتیہ کلام کی حیثیت محض عقیدت اور ثواب سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اِس کے علاوہ لکھنو کے ماحول کے زیر اثر منقبت لکھنے والے شعرا ہی زیادہ رہے۔ اِس عہد کے اہم لکھنے والوں میں نظیر اکبر آبادی، شہیدی، لطف علی خان لطف اور غلام امام شہید نے نعت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی <ref> ڈاکٹر فرمان فتح پوری "اُردو کی نعتیہ شاعری" (لاہور، آئینہ، ۱۹۷۴ء) ص ۵۰ </ref> مگر جو بے ساختگی اور والہانہ پن شہیدی کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا اور یہی نہیں بلکہ جب کھبی اُردو کی نعتیہ شاعری کا ذکر آتا ہے تو شہیدی کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔<ref> ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق "اُردو میں نعتیہ شاعری' (کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۷۵ء) ص ۲۲۶ </ref> | ||
شہیدی کی نعتیہ غزلوں اور رباعی میں بھی عقیدت کا گہرا رنگ نظر آئے گا۔ شہیدی کا فکری رویہ اور مزاج چونکہ لکھنو تھا، اِس لئے اِن کے یہاں لکھنو کی زبان کا خاص لسانی و تہذیبی شعور دکھائی دے گا۔ ڈاکٹرریاض مجید نے اِس خیال کا اظہار کہ اُن کے یہاں موضوع و اظہار کے انتخاب اور پیش کش میں لکھنوی شاعری کے اثرات ملتے ہیں، نکتہ آفرینی اور صنعت گری کے نمونے کم و بیش سبھی شعروں میں ملتے ہیں جن کے سبب خارجیت نمایاں ہے اور واقعی احساسات اور واردات کا فقدان ہے۔ < | جہان تک نعت کے ہیتی پیمانے کا تعلق ہے تو نعت کسی بھی ہیت میں لکھی جاسکتی ہے۔ شعرا نے (اور خود شہیدی نے) قصیدہ، غزل، رباعی اور مخمس ہیتوں کو چنا ہے اوراِن اصناف کے ہیتی مزاج اور رویوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نعت کہی ہے۔ قصیدہ کی صنف میں نعت کا خاص تہذیبی اور ادبی حوالہ بنتا ہے جو کہ نعت میں سرایت کرجاتا ہے۔ بلند آہنگی، پر شکوہ الفاظ تراکیب و مرکبات اور تشبیہات و استعارات کا خاص انداز نعت کا جزو بن جاتے ہیں۔ اِس طرح غزل کی صنف میں نعت کا مزاج دھیما، پرسوز اور داخلی کیفیات سے معمور ہونے کے ساتھ ساتھ غزل کی مختلف لفظیات کو ساتھ لے کر آئے گا۔ شہیدی کی نعتیہ شاعری میں انہی متنوع رنگوں کی جھلک نظر آئے گی۔ اُن کا نعتیہ قصیدہ، پر شکوہ الفاظ اور بلند آہنگ لہجے کے ساتھ محبت کا والہانہ پن اور عظمت کا احساس لئے ہوئے ہے۔ یہ قصیدہ ۳۳ اشعار پر مشتمل ہے۔ [[ڈاکٹر ریاض مجید]] نے اِسے تین حصوں میں تقسیم کرکے نعت کے تین غالب موضوعات سے جوڑ دیا ہے۔ پہلا حصہ حضور اکرمﷺ کے اوصاف و مدح سے عبارت ہے، دوسرے حصے میں شفاعت طلبی کو موضوع بنایا گیا ہے جبکہ تیسرا حصہ شیفتگی و فدائیت کے اظہار پر مشتمل ہے۔<ref> ڈاکٹر ریاض مجید "اُردو میں نعت گوئی" (لاہور، اقبال اکادمی ، اوّل ۱۹۹۰ء) ص ۳۰۴ </ref> | ||
شہیدی کا یہ نعتیہ قصیدہ اُردو نعت گوئی میں نہایت سنجیدہ، باقاعدہ اور فنی حوالے سے نہایت اہم کوشش ہے۔ اِس میں والہانہ پن اور محبت کے جذبات کا جو بے ساختہ پن ہے اُس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ شہیدی نے اِس میں زبان کی صناعی کا استعمال کیا ہے اور خاص لکھنوی اندازِ نظر کو بھی برتنے کی کوشش کی ہے۔ بعض اشعار میں اُن کی یہ شعوری کوشش محسوس بھی ہوتی ہے مگر اِس کے باوجود اکثر اشعار چونکہ ایک وجدانہ حات اور بے خودی کی کیفیت میں لکھے گئے ہیں اِس لئے اِن پر شدید آمد کا احساس ہوتا ہے۔ تراکیب، تشبیہات و استعارات اور سمعی و بصری تمثالیں حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ سید یونس شاہ اِس قصیدے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ | |||
"اِس قصیدے میں ۳۳ اشعار ہیں جن میں بڑی سادگی سے آرزووں اور تمناوں کا اظہار ہے۔ شاعرانہ صناعی جو لکھنوی شاعری کا طرہ امتیاز ہے اِس قصیدے میں بدرجہ اتم موجود ہے اور قاری معنی کے علاوہ لطف زبان سے محفوظ ہوتا ہے۔"<ref> سید یونس شاہ، "تذکرہ نعت گویانِ اُردو" (ایبٹ آباد، الگیلان پبلیشرِ سن ندارد) ص ۲۷۲ </ref> | |||
اِس نعتیہ قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں | |||
رام پیدا کیا کیا طرفہ بسم اللہ کی مد کا | |||
سر دیواں لکھا ہے میں نے مط[[لع]] نعت احمد کا | |||
طلوعِ روشنی جیسے نشاں ہو شہ کی آمد کا | |||
ظہورِ حق کی حجت سے جہاں میں نور احمد کا | |||
اُدھر اللہ سے واصل اِدھر مخلوق میں شامل | |||
خواص اِس برزخِ کبرٰی میں ہے حرفِ مشدّد کا | |||
تمنا ہے درختوں پر ترے روضے کے جا بیٹھیں | |||
قفس جس وقت ٹوٹے طائرِ روحِ مقید کا | |||
خدا منہ چوم لیتا ہے شہیدی کس محبت سے | |||
زباں پر میری جس دم نام آتا ہے محمد کا | |||
شہیدی کی نعتیہ غزلوں اور رباعی میں بھی عقیدت کا گہرا رنگ نظر آئے گا۔ شہیدی کا فکری رویہ اور مزاج چونکہ لکھنو تھا، اِس لئے اِن کے یہاں لکھنو کی زبان کا خاص لسانی و تہذیبی شعور دکھائی دے گا۔ ڈاکٹرریاض مجید نے اِس خیال کا اظہار کہ اُن کے یہاں موضوع و اظہار کے انتخاب اور پیش کش میں لکھنوی شاعری کے اثرات ملتے ہیں، نکتہ آفرینی اور صنعت گری کے نمونے کم و بیش سبھی شعروں میں ملتے ہیں جن کے سبب خارجیت نمایاں ہے اور واقعی احساسات اور واردات کا فقدان ہے۔ <refڈاکٹر ریاض مجید، "اُردو میں نعت گوئی"، ص ۳۰۷</ref> جہاں تک خارجیت کا تعلق ہے تو یہ ہر لکھنوی شاعرکا بنیادی حوالہ بنتی ہے کیونکہ اِس کے پس منظر میں ایک مکمل سیاسی، سماجی اور تہذیبی عمل کار فرما تھا۔ مگر شہیدی نے اُس خارجیت کے باوجود نعت گوئی کو باقاعدہ ایک شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور اِسے محض عقیدت و ثواب سے نکال کر فن کی بنلدی تک پہنچایا ہے۔ چند اشعار دیکھیں۔ | |||
ہے سورۃ واشّمس اگر روئے محمد | ہے سورۃ واشّمس اگر روئے محمد | ||
سطر 38: | سطر 68: | ||
گر ہاتھ لگے خارو خس کوئے محمد | گر ہاتھ لگے خارو خس کوئے محمد | ||
=== وفات === | === وفات === | ||
=== حوالہ جات و حواشی === | === حوالہ جات و حواشی === | ||