چراغ اور صاحب ِ چراغ ۔ شوزیب کاشر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

چراغ اور صاحبِ چراغ

از : شوزیب کاشر

چراغ اور صاحب چراغ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی تما بولہبی است <ref> ترجمہ:حضورِ اکرم ﷺ کی ذات تک خود کو پہنچادو [تاکہ مسلمان بن سکو۔۔۔کیوں کہ]اگر تم ان تک نہیں پہنچ سکے تو سمجھ لو کہ باقی دنیا میں تو صرف کفر ہی ہے </ref>

علامہ اقبال

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ زمانۂ رسالت سے لے کر عصرِ حاضر تک کے ادوار میں جتنی بھی نعت نگاری ہوئی ہے علامہ کے مذکورہ بالا شعر کی عملی و فکری مصداق نظر آتی ہے۔ نعت اظہار محبت و عقیدت کا ایک ذریعہ ہے جس کی ابتدا قرآن سے ہوئی اور پھر صحابہ کرام ؓ میں حضرت کعب بن زہیرؓ اور حضرت حسان بن ثابتؓ سے لے کر آج تک بے شمار مسلمان شعرا ہوئے ہیں جو اسی دیں ہمہ اوست کے عقیدے پر کاربند نظر آتے ہیں، علاوہ ازیں بارگاہِ صمدیت میں قبولیت کی تمنا، نسبتِ سیدِ عالمﷺ کی جستجو،مداح پیغمبرآخرالزماں کہلائے جانے کی خواہش اور دین و دنیا میں فلاح و ظفر کی طلب وہ محرکات رہیں ہیں جنھوں نے ہر عہد میں نعت نگاروں کو فعال رکھا ہے۔چراغ اور صاحبِ چراغ ( استازی المکرم سیدی و مرشدی قبلہ شاکر القادری دام ظلہ) کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ آپ والہانہ حد تک دیں ہمہ اوست کے قائل ہونے کیساتھ ساتھ یقینا متذکرہ محرکات اور دیگر وجوہ کے پیش نظر نعت نگاری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں ۔

چراغ کے حوالے سے آپ کے احساسات و جذبات،آپ کی قلبی واردات، خیال سے حرف بن جانے تک کے مراحل نیز چراغ کی وجہ تسمیہ اور تخلیقِ چراغ کے پیچھے کارگر وجوہ و نظریات سے کلی آگاہی طلوع <REF> "چراغ" میں شاعر کا پیش لفظ </REF> کے بغور مطالعہ سے حاصل ہو جاتی ہے۔ چراغ کے سرورق کے لیےسورہ نور اور آیہ سراجا منیرا سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔

اردو اور فارسی نعوت پر مشتمل یہ مجموعہ عصر حاضر میں جدید نعت کے منظر نامے پر فکری و فنی حوالہ سے ایک مفید اضافہ ہی نہیں بلکہ جدید نعت اور تنقید و تحقیق نعت کے لیے بھی بہت سی نئی جہات کے در وا کرنے کا باعث بنا ہے۔

سیدی کی نعت رسمی نہیں بلکہ دائمی حسن کی حامل ہےاور بہت سی خصوصیات اور تیکنیکس کی بنا پر آپ کی نعت آپ کو اپنے ہم عصر نعت گو شعرا سے ممتاز کرتی ہے ۔مثلا قرآن حکیم کی نصوص قطعیہ اور مستند احادیث نبویہ سے مضامین نعت کشید کرنا آپکا خاصہ ہے علاوہ ازیں جگہ جگہ عربی و قرآنی الفاظ سے اشعار کو آراستہ کرنا آپ کے ہاں بہت سہل معلوم ہوتا ہےحالانکہ ایسا نہیں،ایسی ہی چند مثالیں ملاحظہ ہوں

اسری بعبدہ کا شرف اور ہے کسے

عرش ِ خدا ہے مسندِ رفعت حضور کی

....................

اے مظہر آیاتِ دنا و فتدلی

تو دیدہ قوسین کی عظمت کا امیں ہے

....................

در پئے جان ہو مکہ تو مدینے میں تری

طلع البدر علینا سے پزیرائی ہو

......................

فرمود حق تعالی لعمرک در آیتی

سوگند کردگار بہ جانِ محمد است

...............................

حم وصف حلقہ گیسوئے مصطفی است

ما ینطق بہ وصف زبانِ محمد است

...........

قرآنی و عربی الفاظ سے تزئین اشعار کے علاوہ اردو اشعار میں فارسی اور فارسی اشعار میں عربی کی پیوند کاری جس کی توصیف،کتاب کے فلیپ پر محترم ڈاکٹر معین نظامی اور کتاب کے اندر دیگر تبصرہ نگاروں ( محترم ڈاکٹر ریاض مجید اور محترم عزیز احسن ) نے بھی فرمائی ہے،یقینا صاحبِ چراغ کے وسیع المطالعہ،عالم نبیل ، ماہر فن و ہنر ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق اور قادر الکلام ہونے کا بھی بین ثبوت ہے ۔ایسی پیوند کاریوں سے چراغ بھری پڑی ہے جو قاری کا دل یکایک یوں موہ لیتی ہیں کہ داد دیے بنا رہا نہ جائے۔

چراغ ردیف پر کہی گئی دو نعتیں،ایسے ہی درود ردیف پر کہی گئی دونوں نعتیں اپنےخیالات و موضوعات ، اسلوب و انداز، زبان و بیان ، شعریت و معنویت تغزل اور جمالیاتی رنگ میں اپنی مثال آپ ہیں جن کے تمام اشعار بلا شک و شبہ انتخاب ہیں۔

اردو نعوت میں اکابرین ( احمد ندیم قاسمی،اعظم چشتی، اقبال عظیم اور پیر نصیر الدین نصیر) اور فارسی نعوت میں مرزا غالب،بیدم وارثی اور اعلی حضرت کےمصارع اور زمینوں پر کہی گئی تمام نعوت، قبلہ کی استادانہ مہارتوں اور تیکنیکی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

چراغ کے فارسی حصہ میں شامل حمدیہ و نعتیہ فارسی ماہیوں نے چراغ کے جمالیاتی رنگ کو چار چاند لگا دیے ہیں۔


ستاری و غفاری

تاکی ز تو نومیدی تا چند سیہ کاری

...........

ای جانی و جانانی

احوالِ دل پر غم دانم کہ تومی دانی

..........

اسی فارسی حصہ میں اعلی حضرت کے سلام پر فارسی تظمین،قرآنی آیات و الفاظ، احادیث و اثار اور تاریخی واقعات و بیانات سے مرصع و مزین ایک نادر و نایاب نمونہ کلام سیدی شاکر القادری کی علمی،فنی،فکری اور شعری عرق ریزیوں کا ثمر ہے جس کا لفظ لفظ صد درخورِ انتخاب ہے۔

چراغ کے اختتام پر آل عبا کی مناقب خصوصا نذرِ بوتراب اور میں کہاں تھا آپ کے عشق آل رسول کا غماز اور کربلائی مشن کے انقلابی پہلوؤں اور ضرورتوں پر زور دیتا ، قاری کو آبدیدہ کرتا، سوز و گداز و فکر و عمل سے بھرپور کلام ہے۔

.............

صفحہ ۱۱۵ اور ۱۱۶ پر واقعہ معراج کو موضوع بنا کر قدرے مشکل زمینوں میں نظم و غزل کی صورت میں بہت عمدہ اشعار نکالے گئے ہیں ۔ معراج جیسے مابعد الطبعیاتی موضوع پر اتنی سہولت سے اتنے متنوع و مرصع اشعار باندھ لینا قبلہ حضور کے زورِ قلم کی واضح دلیل ہے۔


صاحب چراغ جگہ جگہ اپنے آقائے نامدار سے اثتغاثہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صفحہ ۱۳۵ پر الغیاث ردیف کےساتھ یوں استغاثہ کناں ہیں ، مطلع اور ایک شعر ملاحظہ ہو

جان بہ لب آمد بیا جان الغیاث

الغیاث ای راحتِ جان الغیاث

در گذشتم از فراقت یانبی

سوختم از سوزِ ہجراں الغیاث ...............

گردشِ دوراں کی تلخی،امت مسلمہ کی حالتِ زار ،اور ارض پاک پر دہشت گردی جیسے مسائل و مصائب کے پیشِ نظر بارگاہ خیر البشر میں یوں عرض کناں ہیں


ہیں در پئے آزار ستمگر،مرے ،سرور

للہ کرم کیجیے مجھ پر مرے سرور

حضورﷺ ہاتھ سے چھوٹا ہے رشتۂ وحدت

جلا رہے ہیں مرے گھر کو میرے گھر کے چراغ


گلستانم راخزاں تاراج کرد

ای توئی ابر بہاراں الغیاث


ترے نثار دگرگوں ہے حال امت کا

سجا رہا ہے جہاں بزم کافری تازہ

.........................................

سیرت سید عالمﷺ کے باب میں صاحب چراغ کی کیفیت اور بھی دیدنی ہو جاتی ہے ۔ آپ کا اسلوب جذباتی حد تک عشق و ادب رسالت کی وارفتگی و سرشاری میں گھل جاتا ہے چند مثالیں پیش خدمت ہیں


احسان،عدل،رحم،کرم،درگزر،عطا

ہر ایک بے مثال ہے عادت حضور کی


وحشت شناس بھی ہوئے تہذیب آشنا

اخلاق بے کراں ہے شریعت حضور کی


ترے پیام سےفکر و شعور چونک اٹھے

ملی تعجب و حیرت کو آگہی تازہ


تیری رحمت،عداوت فراموش ہے تو عطاپاش ہے تو خطاپوش ہے

دشمن جاں کو بھی تو نے بخشی اماں کوئی تجھ سا کہاں کوئی تجھ سا کہاں


آخر الذکر شعر بڑی بحر میں، طویل ردیف کے ساتھ کہی گئی ایک خوبصورت نعت پاک سے نقل کیا گیا ہے ۔ یہ نعت پاک بھی قبلہ کی مشق سخن اور ذود گوئی کی ایک زندہ مثال ہے۔ .............................

صفحہ ۸۰ پر چھوٹی مگر مترنم بحر میں ، بارگاہِ رسالت میں حاضری اور شہر رسالت کی زیارت کا طویل اور پرکیف احوال قلمبند کیا گیاہے جو سرشاری و سرمستی جذبات کی ایک الگ ہی داستاں معلوم ہوتا ہے کیفیات کا اک سیلِ رواں ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا ، لفظ گویا کسی آبشار کے جھرنے ہوں جو آمڈ آمڈ آتے ہیں مگر مجال ہے کہ خیال سے حرف تک اور دید سے بیان تک آنے میں کوئی خارجی یا باطنی امر روانی کو مخل ہو یقینا یہ کلام بھی آپ کی طاقت بیان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

........................


نوٹ: ہر چند کہ راقم اپنی کم علمی اور کم عقلی کے باعث خود کو ہرگز اس قابل نہیں سمجھتا تھا آپ جیسےعظیم المرتبت استاد شاعر کے کلام پر تبصرہ کرےمگر چونکہ آپ کے حکم کی پاسداری دامن گیر تھی سو ناچار اس راہ پڑا جانا درایں سبب احقر دست بستہ عرض کناں ہے کہ یہ ناقص اور خستہ تحریر جو لازما اغلاط بھری پڑی ہو گی اسے بندہ کی کم علمی سمجھا جائے، علاوہ اغلاط کے اگر کوئی لفظ یا انداز اگر ایسا در آیا ہو جو قبلہ سیدی کے مرتبہ و مقام کے شایاں نہ ہو تو اس کے لیے بندہ پیشگی معافی کا خواستگار ہے ۔ امید ہے آپ اغلاط سے صرف نظر کرتے ہوئے بندہ کو معاف کر دیں گے۔

راقم اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ کے علم عمل عمر دین دنیا میں مزید خیر و برکات کے لیے دعا گو ہے، باری تعالی آپ کے ادارہ کو مزید کامیاب وکامران فرمائے ، آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تا دیر قائم و دائم رکھے اور ہمیں آپ کے چشمہ علم سے اکتساب کی توفیق دے آمین بجاہِ النبی الامین

جزاک اللہ الخیر


حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سید شاکر القادری | شوزیب کاشر | چراغ

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]