"نعت ورثہ - تنقیدی نشیست 134" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: ۔)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 1: سطر 1:
۔
{{بسم اللہ  }}
 
=== تنقیدی نشست - 134 ===
 
شاعر :  [[کاشف عرفان ]]
 
شرکاء : [[حافظ محبوب احمد ]] | [[مسعود رحمان ]] | [[ڈاکٹر صغیر احمد صغیر ]] | [[صابر رضوی ]] | [[اشرف یوسفی ]] | [[فیض احمد شعلہ ]] | [[ابو الحسن خاور ]]
 
 
=== {{نعت }} ===
 
بحر عشق شاہ بحر و بر نکل آیا ہوں میں
 
چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں
 
میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا
 
نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں
 
آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال
 
اور نظر پر باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں
 
پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا
 
اور غم دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں
 
سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد
 
بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں
 
چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر
 
فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں
 
مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر
 
چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں
 
ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف
 
اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں
 
میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں
 
بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں
 
=== گفتگو ===
 
 
بحر عشق شاہ بحر و بر نکل آیا ہوں میں
 
چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں
 
صغیر احمد صغیر : مطلع بہت خوبصورت ہے
 
حافظ محبوب احمد: مطلع کےدونوں مصرع اپنےابلاغ سےقاصرنظرآرہےہیں. بحرعشق شاہ، کیامنادی ہے؟ اگرہےتواسکی کوئی علامتی تصریح نہیں ہے.اور "بحروبرنکل آیاہوں میں "اسکےکیامعنی ہیں؟ کیاشاعرکواپنےبحروبرہونےکاادراک ہؤاہے یاکیاشاعربھروبرکی طرف نکل آیاہے.ایسالگتاہےکہ شاعرنےمطلع آخرمیں کہاہےاوروہ تھکاوٹ اورعجلت کی نذرہوتانظرآرہے
 
صابر رضوی: بحر اور بہر میں جو [[رعایتِ لفظی]] ہے اس سے شعر میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ یعنی شاہِ بحر و بر کے عشق کے لیے میں دنیا کا محور چھوڑ کر نکل آیا ہوں ۔۔۔۔اب محور سے نکلنا خود مرکز گریز قوت کی نشان دہی کرتا ہے اس سے نفسانی خواہشات کے چنگل سے عشقِ محمدی کی طرف سفر کا اظہار ہوتا ہے جو بہر صورت بہت خوب ہے۔ مطلع کی بہت داد
 
فیض احمد شعلہ :معنوی اعتبار سے مطلع بہت عمدہ ہے۔ لیکن لفظوں کے نامناسب انتخاب نے شعر کی معنوی و صوروی حسن کو متاثر کر دیا ہے۔ بہر عشق یعنی عشق کے لیے۔اس سے مفہوم واضح ہوتا۔ شاہ بحر وبر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بطور [[استعارہ]] لایا گیا ہے۔ اس طرح مصرع اولیٰ میں کہا گیا ہے کہ حضور پر نور کے عشق میں شاعر دنیا کی لذتوں یا آشاوں سے نکل آیا ہے۔ لیکن مصرع ثانی میں لفظ محور محل نظر ہے۔یہ حرف [[حشو]] محسوس ہورہاہے۔ اس کی جگہ لفظ چکر اگر لا یا جاےء تو کچھ بات بن سکتی ہے ۔ہر چند کہ یہ لفظ سماعت پر گراں گزر سکتا ہے۔ لیکن کم از کم معنوی سقم دور ہو جائے گا۔ دوسرا مصرع یوں ہوسکتا ہے۔ ع۔ چھوڑ کر دنیا ترا چکر نکل آیا ہوں میں
 
ابو الحسن خاور : تفہیم کے اعتبار سے "محور"  مرکزی نقطہ یا خط ہے جس کے گرد کوئی شے گھومتی ہے ۔شاعر نے محور "حیطے"، "دائرے" یا "کشش" کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ فیض احمد شعلہ صاحب کی تجویز"چکر" معنوی طور پر نسبتا بہتر ہے لیکن مجھے صوتی و لفظی تا اثر کی وجہ سے محور ہی بہتر محسوس ہوا ۔ مطلع کا مضمون اچھا ہے ۔فنی طور پر شعر کی تفہیم میں ایک مسئلہ "[[ردیف]]" کے درست استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہے ۔ ایک [[ردیف]] ادا نہیں ہو رہی ہے ۔ نثر دیکھیے ۔۔۔۔ دنیا، بہر عشق و شاہ و بحر و بر ترا محور چھوڑ کر نکل آیا ہوں ۔ بات مکمل ۔ دوسری ردیف زائد ہے ۔ طویل، ،منفرد اور خطابیہ  ردیفوں کے ساتھ مطلع میں دونوں مصرعوں کے ردیفوں کے جواز کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ۔
 
 
 
میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا
 
نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں
 
 
حافظ محبوب احمد: شعرکےمفہوم میں صراحت نہیں ہے.گھرگھرنکل آنےسےکیامرادہے.اگریہ مرادہےکہ شاعرکےاسلوبِ نعت کوگھرگھرمیں دیکھاجاسکتاہےتواس کی کوئی دلیل اورقرینہ بھی ساتھ مذکورہوناچاہئےتھا۔
 
صابر رضوی :  نعت کا لفظ آنے کے باوجود یہ نعت کا شعر نہیں ہے۔ کیوں کہ مدحِ سرکار سے زیادہ اس میں تعلی ہے۔ پھر یہ کہ دوسرا مصرع عمدہ ہوا تھا ۔۔۔ پہلا مصرع اس کے ساتھ تطابق نہیں کر پایا۔ دو مصرعے ہیں اور دونوں دعوے ہیں ۔۔۔پہلے میں خود کو جریدہ اور دوسرے میں اسلوب ۔۔۔ لیکن دونوں دعووں کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ دوسرے مصرع کے ساتھ کوئی اور گرہ لگائیں تو امکان ہے کہ اچھا شعر عطا ہو کیوں کہ دوسرا مصرع بہت عمدہ ہے
 
فیض احمد شعلہ : ایک عمدہ خیال پر مبنی شعر ہے۔ لیکن عجز بیان سے خیال کی واضح ترسیل نہیں ہو سکی ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ وہ روےء زمین پر عشق کی تنظیم کا جریدہ ہے۔ وہ خود کو ایک سفیر عشق یا عشق مصطفیٰ میں سفیر نعت کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے منفرد اسلوب نعت کی وجہ سے گھر گھر میں مقبول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ گھر گھر نکل آیا ہوں سے شاعر کی یہی مراد ہے۔ عشق کی تنظیم کا جریدہ جیسی ترکیب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے ہر گھر سے نکلنا خیال کی جدت پر ضرور دلالت کرتے ہیں۔ ایسا مضمون غزل میں تو نظر آتا ہے لیکن نعت میں عنقا ہے۔ اس کے لےء شاعر داد کا مستحق ہے۔
 
 
ابو الحسن خاور : دوستوں نے اس شعر کی تفہیم میں "میں" کو شاعر کے لیے لیا ہے ۔ مجھَے لگتا ہے یہ شعر "نعت کے اسلوب" کی طرف سے ہے ۔ میں، نعت کا اسلوب ، زمین عشق کی تنظیم کا جریدہ ہوں، [ اور] گھر گھر نکل آیا ہوں ۔ اگر کسی طور شعر میں "اور" آجائے تو تفہیم واضح ہو۔"نعت کا اسلوب" میں اسلوب بھی ایک خالصتا ادبی اصطلاح ہے ۔ یہ بھی تفہیم میں مسئلہ پیدا کرتی ہے کہ یہاں "نعت کے اسلوب" سے کیا مراد ہے ؟
 
 
 
آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال
 
اور نظر پر باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں
 
 
ڈاکٹر صغیر احمد صغیر: آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال... واااااااہ واااااااہ واااااااہ
 
حافظ محبوب احمد : دوسرامصرع پھرمشکل ردیف کی نذر ہوتانظرآرہاہے.بالکل غیرواضح ہے
 
 
صابر رضوی : شہرطیبہ کے جمال کو آنکھ کے تل میں سجا لیا اور نظر پر منظر باندھ کر مدینہ سے واپس آ رہے ہیں ۔۔۔۔ مضمون عمدہ ہے لیکن دوسرے مصرع کی بندش کچھ کمزور محسوس ہو رہی ہے۔ اور کی جگہ کوئی اور لفظ آتا تو شاید شعر اعلٰی ہو جاتا
 
فیض احمد شعلہ : واہ۔واہ۔واہ۔ مصرع اولیٰ میں شعریت بھرپور ہے۔ روانی بھی متاثر کن ہے۔ لیکن مصرع ثانی میں اظہار کی شگفتگی کا فقدان ہے۔ نظر پر باندھنا کی ترکیب خوبصورت نہیں لگ رہی ہے اور شاید خلاف محاورہ بھی ہو۔ دوسرا مصرع یوں ہو سکتا تھا۔۔ ع آنکھ میں رکھ کر ہر اک منظر نکل آیا ہوں میں۔
 
 
[[ابو الحسن خاور]]: دوستوں نے بھر پور بات کی ۔ دوسرے مصرعے کا [[ابہام]] سنبھالا نہیں جا رہا ۔
 
 
پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا
 
اور غم دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں
 
 
حافظ محبوب احمد : یہ پہلاشعر ہوا ہےجس میں ردیف نبھتی نظرآرہی ہے ۔ لیکن دوسرےمصرع میں اگر "پھر "کی جگہ یوں ہوتاتوشعر شعر سریع الفہم ہوتا
 
صابر رضوی : اور ۔۔۔پھر ۔۔۔[[حشو]]  ہیں ۔۔۔مصرع  نہایت کمزور ہو گیا ہے اس سے
 
فیض احمد شعلہ : ایک اچھا شعر۔ اس پر حافظ محبوب احمد صاحب  قبلہ نے کار آمد گفتگو کی ہے۔ میں ان سے متفق ہوں۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ دونوں مصرعوں میں زمانے کا فرق گراں بار سماعت ہے۔ ردیف کی وجہ سے مصرع ثانی زمانہ حال کا پابند ہے۔ اس لےء مصرع اولیٰ بھی زمانۂ ماضی کے بجائے زمانۂ حال کا تقاضا کرتا ہے۔ ویسے اس شعر کے لےء بھی داد بنتی ہے۔
 
ابو الحسن خاور : حافظ صاحب اور صابر بھائی سے اتفاق کہ "پھر" [[حشو]] ہے اور تا اثر کو کمزور کرتا ہے ۔ محترم فیض احمد شعلہ صاحب کو زمانوں کا فرق محسوس ہوا لیکن مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا ۔ شعر کا مجموعی تاثر اچھا ہے لیکن فنی اعتبار سے مجھے پہلے مصرعے کی بندش  اچھی نہیں لگی ۔ "دعا" اور "پیش کرنا" بہت دور ہو گئے ہیں ۔ اساتذہ کے زمانے میں [[تعقید لفظی]] کی طرف ایسا دھیان نہیں دیا جاتا تھا ۔ تاہم آج کل مصرع کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ الفاظ کی نشست و برخاست فطری اور نثر کے قریب ہو ۔
 
 
سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد
 
بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں
 
 
حافظ محبوب احمد : ماشاء اللہ بہت پیاراشعر شاعرکےلئےبہت بہت داد
 
صابر رضوی: دوسرا [[کمزور مصرع | مصرع کمزور ]] ہے لیکن شعر کا مضمون اچھا ہے۔ ساگر سے پہلے والا حصہ کمزور ہے۔ بن کے ان کے لطف کا / سے ۔۔ ۔ کچھ اس انداز کا مصرع ----
 
فیض احمد شعلہ : بہت خوب شعر ہے۔سلسبیل جنت ارضی کی ترکیب اور اس سے سیرابی۔ پھر مصرع ثانی میں بوند اور ساگر کے استعمال سے شعر میں مناسبات لفظی کی ایک حسین فضا قائم ہو گیء ہے۔ البتہ مصرع ثانی میں "اب" کی جگہ "اک" میرے خیال سے زیادہ موزوں ہوتا۔
 
ابو الحسن خاور :  شعر کا تاثر اچھا ہے تا ہم سیراب پیاسا ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے زمین سیراب ہو سکتی ہے ۔ ۔ بوند کیسے سیراب ہو تی ہے ؟ یہ ممکن ہے کہ شاعر بوند ہو اور سلسبیل جنت ارضی "میں ملنے" کے بعد ساگر ہو کر نکل آئے ۔ دوسرے مصرعے میں فیض احمد شعلہ صاحب کی تجویز بہت عمدہ ہے ۔ "اب" کی جگہ "اک" بہتر رہے گا ۔
 
 
 
چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر
 
فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں
 
 
حافظ محبوب احمد : ماشاء اللہ یہ بھی اچھاشعر ہے اگرچہ پرنکلنا..چونکہ بزات خود ایک فعل ہے لہذاتعقیدِ معنوی کاامکان پیداہورہاہے
 
صابر رضوی : بہت عمدہ۔ [[مطلع]] کی بازگشت ہے اس شعر میں
 
فیض احمد شعلہ : یہ شعر بھی قابلِ داد ہے۔ عشق رسول میں سب کچھ تیاگ دینے کی ترغیب دیتا ہوا یہ شعر ہمیں ہمالیائی سلطنت کپل وستو کے اس سدھارتھ کی یا پھر مخدوم سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے بادشاہت کی شان و شوکت کو ٹھکرا کر تلاش حق میں رخت سفر باندھ لیا تھا۔ مصرع ثانی میں پر کے بعد کوما کا نشان لگانا ضروری نہیں تھا۔یہ شاید ٹائپو ہے۔ "پر نکلنا" کے استعمال سے حافظ محبوب صاحب نے جس معنوی تعقید کا خدشہ ظاہر کیا ہے میرے خیال ردیف کا ٹکڑا "نکل آیا ہوں میں" اس امکان کو مسترد کر دیتا ہے۔
 
 
ابو الحسن خاور : واہ واہ وا۔ بہت عمدہ ۔ فیض احمد شعلہ صاحب سے متفق ہوں ۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ وقفے کی ایک علامت کفایت کرتی ہے ۔
 
 
مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر
 
چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں
 
 
ڈاکٹر صغیر احمد صغیر : ناران جیسا تھر... ترکیب درست نہیں. (ناران خوبصورت لہلہاتے پہاڑوں کے درمیان وادی ہے جبکہ تھر ایک ریگستان ہے)
 
حافظ محبوب احمد : .ماشاء اللہ یہ بھی اچھاشعرہے بالخصوص عصر حاضرکےدومعروف مقامات کواستعارہ کےطورپرشاعرنےاستعمال کیاہے.شاعرکےلئےبہت بہت داد
 
صابر رضوی : بہت عمدہ ۔۔۔۔ تھر نکل آیا ہوں میں ۔۔۔ اس کو تھر میں نکل آیا ہوں ۔۔۔۔ سمجھا جائے ۔۔۔۔تو مفہوم و معانی پرکیف نظر آتے ہیں۔۔۔ پھر شعر میں ناران کا ہرکیف ماحول جسے مدینہ سے مماثل کہا گیا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو تھر کہا گیا ہے ۔۔۔ کیا خوب تشابہ ہے ۔۔۔یعنی مدینہ کے جنتِ ارضی کا مفہوم اور اپنے گھر کو صحرا کہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھی پہلو ہیں اس شعر کے ۔۔۔۔۔ بہت اچھا شعر ہے ۔۔۔۔۔۔ بہت داد
 
 
فیض احمد شعلہ : بہت خوب۔ ناران اور تھر جیسے جگہوں کے نام کی شمولیت سے اس شعر میں جان آ گئی ہے۔ " تھر " بطور قافیہ استعمال کرنے پر شاعر خصوصی داد کا مستحق ہے۔ نعت میں اس قافیہ کو کھپانا ذرا مشکل تھا۔
 
 
ابو الحسن خاور : اگرچہ دل بھی ہستی کانمائندہ ہے لیکن دوسرے مصرع میں ردیف "میں" بہت زور دار ہے تو اگر مصرع اولی میں دل کے بجائے اپنی ذات کی بات "میں" ، مجھ " وغیرہ سے ہو تو شعر زیادہ زود اثر ہو ۔ ابھی کیفیت ایک مصرع سے دوسرے مصرع میں آتے ہوئے کچھ وقت لیتی ہے
 
 
ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف
 
اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں
 
 
حافظ محبوب احمد : دونوں مصرعے تعقیدسےلبریزہیں لہذاریاضیاتی محنت سےگزرکرتب معنوی تفہیم ہوتی ہے پھرقوموں کادرست جگہ لگنا بہت اہم ہے. جوکہ نہیں لگائےگئے
 
صابر رضوی : یہ بھی اچھا ہے۔ پہلے مصرع کی بنت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ مصرع کا نثری پیرایہ اگر نحوی اعتبار سے مکمل نہ ہو تو کوشش کر کے اسے بہتر کیا جائے ۔۔۔اس مصرع کا نثری پیکر ہی کمزور ہے تو شعر میں مصرع اولا کے طور پر کیا کشش ہو گی؟ ؟؟ دوبارہ کہہ لیں مصرع۔۔۔۔ مطلع پھر سے گونج رہا ہے یہاں بھی
 
 
فیض احمد شعلہ: بہت عمدہ خیال ہے۔ لیکن شعر میں ڈھلتے وقت کچھ کمی رہ گئی ہے۔ مصرع اولیٰ مزید سلیقہ اور قرینہ کا متلاشی ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اس کی ذات میں ایک فکری انقلاب برپا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ طبیعی ہجرت پر مجبور ہوا اور دنیوی مآحصل سے اب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گامزن ہے۔یعنی جہل سے علم کی طرف اور تیرگی سے روشنی کی طرف نکل آیا ہے۔ پیرایۂ اظہار جیسا بھی ہو لیکن فکر کی داد بنتی ہے۔
 
ابو الحسن خاور : شاعر کے اندر کونسی ہجرت ہو رہی ہے یہ واضح نہیں ہوا ۔ اگر مفہوم ہی نکالنا ہو تو نکالا جا سکتا ہے لیکن متن سے نا مکمل خاکہ بنتا ہے
 
 
میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں
 
بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں
 
حافظ محبوب احمد : کھوج مونث باندھاہے.اسےدیکھ لیناچاہئے.شعر واضح المفہوم ہے.اگرچہ مناسبت کالحاظ نہیں رکھاگیا.گوہر میں کنکر تبدیل نہیں ہوتابلکہ آپ نیساں کاقطرہ نکلتاہے.تواس شعر میں اگرکنکرکی جگہ قطرہ کرلیاجائےتومسئلہ حل ہوجائے
 
صابر رضوی : واہ واہ واہ ۔۔۔ بہت ہی اعلا اور شاندار شعر ہے۔ کنکر کی تطہیر کیسے ہوئی ہو گی بحرِ شاہ میں کہ وہ بھی گوہر بن گیا ۔۔۔۔ کیا کہنے ۔۔۔ رسالت مآب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان ۔۔۔ ویزکیہم ۔۔۔۔ نفوس کا تذکیہ کرنا بھی ہے۔ اور مدینہ کی فضا بھی وہ تزکیہ کرتی ہے۔۔۔۔ کیا عمدگی سے آپ نے اس آیت کو بیان کیا ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ سبحان اللہ
 
فیض احمد شعلہ : [[مقطع]] بھی اچھے خیال کا ترجمان ہے۔ یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و کمال کا اعتراف ہے جن کے زیر سایہ عرب کے بدو، سلطنت عظمی کے مالک و مختار ہوگےء۔ ان میں نہ صرف مادی ترقی ہویء بلکہ وہ روحانی اقدار کے بھی امین ہو گےء۔ مصرع اولیٰ میں "کھوج" شعر میں محض وزن کی تکمیل کرتا ہے ورنہ معنویت پیدا کرنے میں یہ بے اثر ہے۔ حافظ صاحب نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ کنکر اور گوہر کے سلسلے میں حافظ صاحب کی دلیل درست ہے لیکن شعروں کو ہمیشہ سائنسی استدلال کی روشنی میں پرکھا جانا کوئی ضروری نہیں۔ کنکر بے مایہ کا گوہر میں تبدیل ہونا گوارہ کیا جا سکتا ہے۔
 
ابو الحسن خاور :  مضمون یہ ہے کہ میں اپنی تلاش میں نکلا توبے وقعت تھا اور  لطف شاہ سے باوقار ہوگیا ۔  پتھرکا لمس سے گوہر ہونا اور قطرے کا سیپ میں گوہر ہونا واضح ہیں ۔ "کنکر" کا گوہر ہونا ایک نئی فکر ہے ۔  نیا کہنا کچھ غلط نہیں ۃوتا لیکن مضبوط جواز کے ساتھ ہو تو قاری اسے زیادہ قبول کرتا ہے ۔ کنکر ِبے مایہ  میں ہندی فارسی اضافت اگرچہ اہل زبان قبول نہیں کرتے تاہم ایک قلیل گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر ایسی کوئی ترکیب بہت عجیب نہ لگ رہی ہو تو قبول کی جا سکتی ہے ۔
 
 
=== مجموعی تا اثر ===
 
 
ڈاکٹر صغیر احمد صغیر : ناران جیسا تھر کے سوا باقی اشعار پر داد..
 
حافظ محبوب احمد : مجموعی طورپریہ نعت مشکل ردیف کی وجہ سےشاعرکےلئےمشکل پیداکرتی نظرآرہی ہے.اورزیادہ تراشعارمیں ردیف مصرعےکےپیوست نظرنہیں آرہی
 
اشرف یوسفی :  یہ کیا نعت ہے شاعر نے سرکار دوعالم کی بجائے اپنی ذات کو محور اور توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے ۔ میں نے پہلے تین اشعار پڑھے ہیں اور آگے پڑھنے کا حوصلہ نہیں ہوا جس نعت کی ردیف کی بنیاد ہی میں پر ہو اس کے لئے بہت محتاط ہونا پڑتا ہے۔ نعت ِ شاہ ِ دوعالم پل صراط ہے ۔
 
فیض احمد شعلہ: مجموعی طور پر یہ شعری کاوش قابل داد ہے اور شاعر سے مستقبل میں مزید پختہ اور وجدانی شاعری کی امید کی جا سکتی ہے ۔
 
[[ابو الحسن خاور ]] : مجموعی طور پر نعت میں تازہ کاری نہ صرف متاثر کرتی ہے  بلکہ شاعرکی زرخیز فکر کا پتا دیتی ہے ۔  اشعار کی صراحت و تفہیم قاری کی اپنی فہم کے مطابق کم زیادہ ہو جاتی ہے ۔ ممکن ہے جن اشعار میں مجھے [[ابہام]] محسوس ہوا ہو وہ کسی اور قاری کے لیے بہت پر لطف ہوں لیکن ایسی تازہ شاعری اپنا ایک مقام رکھتی ہے ۔ میری طرف سے بہت داد ۔
 
=== ضمنی مباحث ===
 
کنکر ِ بے مایہ :
-----------
 
 
حافظ محبوب احمد: کنکرِ بےمایہ کی ترکیب کیادرست ہے؟ کنکرغالباہندی لفظ نہیں ..؟ موجودہ رائج الوقت قواعدکےمطابق توپھریہ ترکیب درست نہیں ہے.
 
صابر رضوی : کنکر پراکرت زبان کا لفظ ہے ۔ اگر ہندی فارسی مرکبات درست نہیں تو عربی اور فارسی کے مرکبات درست ہونے کی توضیحات کیا کیا ہیں ؟؟؟؟
 
ابو الحسن خاور:  کنکر ِبے مایہ  میں ہندی فارسی اضافت اگرچہ اہل زبان قبول نہیں کرتے تاہم ایک قلیل گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر ایسی کوئی ترکیب بہت عجیب نہ لگ رہی ہو تو قبول کی جا سکتی ہے ۔ جیسے "سطح ِ سمندر" کی اصطلاح نثر میں بھی رواج پا چکی ہے
 
 
نعت کیا ہے ؟
----------
اشرف یوسفی : یہ کیا نعت ہے شاعر نے سرکار دوعالم کی بجائے اپنی ذات کو محور اور توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے ۔
 
ابو الحسن خاور: نعت کے دائرے میں کیا آتا ہے اور کیا نہیں اس پر علمائے نعت اور احباب میں اختلاف ہے ۔ سب کا ایک نقطے پر اکٹھے ہونا مشکل ہے ۔ ذاتی طور پر میں نعت کے عنوان سے پیش کیے جانے والے ہر اس شعر کو نعت سمجھتا ہوں جسے پڑھ کی دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا چراغ روشن ہو اور ان کی شان مبارکہ کے جلوے جھلملانے لگیں ۔
 
=== یاد دہانیاں ===
 
* اصل چیز شعر کی تاثیر ہوتی ہے۔ اگر اسے سن کر کوئی کیفیت نہیں پیدا ہوتی تو شعر بے جان سمجھا جائے گا ۔ فیض احمد شعلہ
 
* مصرع کا نثری پیرایہ اگر نحوی اعتبار سے مکمل نہ ہو تو کوشش کر کے اسے بہتر کیا جائے ۔ صابر رضوی
 
* طویل، ،منفرد اور خطابیہ  ردیفوں کے ساتھ مطلع میں دونوں مصرعوں کے ردیفوں کے جواز کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ۔ ابو الحسن خاور
 
* اساتذہ کے زمانے میں [[تعقید لفظی]] کی طرف ایسا دھیان نہیں دیا جاتا تھا ۔ تاہم آج کل مصرع کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ الفاظ کی نشست و برخاست فطری اور نثر کے قریب ہو ۔ ابو الحسن خاور

حالیہ نسخہ بمطابق 14:12، 13 جولائی 2020ء


تنقیدی نشست - 134[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : کاشف عرفان

شرکاء : حافظ محبوب احمد | مسعود رحمان | ڈاکٹر صغیر احمد صغیر | صابر رضوی | اشرف یوسفی | فیض احمد شعلہ | ابو الحسن خاور


نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بحر عشق شاہ بحر و بر نکل آیا ہوں میں

چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں

میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا

نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں

آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال

اور نظر پر باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں

پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا

اور غم دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں

سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد

بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں

چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر

فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں

مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر

چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں

ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف

اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں

میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں

بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں

گفتگو[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بحر عشق شاہ بحر و بر نکل آیا ہوں میں

چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں

صغیر احمد صغیر : مطلع بہت خوبصورت ہے

حافظ محبوب احمد: مطلع کےدونوں مصرع اپنےابلاغ سےقاصرنظرآرہےہیں. بحرعشق شاہ، کیامنادی ہے؟ اگرہےتواسکی کوئی علامتی تصریح نہیں ہے.اور "بحروبرنکل آیاہوں میں "اسکےکیامعنی ہیں؟ کیاشاعرکواپنےبحروبرہونےکاادراک ہؤاہے یاکیاشاعربھروبرکی طرف نکل آیاہے.ایسالگتاہےکہ شاعرنےمطلع آخرمیں کہاہےاوروہ تھکاوٹ اورعجلت کی نذرہوتانظرآرہے

صابر رضوی: بحر اور بہر میں جو رعایتِ لفظی ہے اس سے شعر میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ یعنی شاہِ بحر و بر کے عشق کے لیے میں دنیا کا محور چھوڑ کر نکل آیا ہوں ۔۔۔۔اب محور سے نکلنا خود مرکز گریز قوت کی نشان دہی کرتا ہے اس سے نفسانی خواہشات کے چنگل سے عشقِ محمدی کی طرف سفر کا اظہار ہوتا ہے جو بہر صورت بہت خوب ہے۔ مطلع کی بہت داد

فیض احمد شعلہ :معنوی اعتبار سے مطلع بہت عمدہ ہے۔ لیکن لفظوں کے نامناسب انتخاب نے شعر کی معنوی و صوروی حسن کو متاثر کر دیا ہے۔ بہر عشق یعنی عشق کے لیے۔اس سے مفہوم واضح ہوتا۔ شاہ بحر وبر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بطور استعارہ لایا گیا ہے۔ اس طرح مصرع اولیٰ میں کہا گیا ہے کہ حضور پر نور کے عشق میں شاعر دنیا کی لذتوں یا آشاوں سے نکل آیا ہے۔ لیکن مصرع ثانی میں لفظ محور محل نظر ہے۔یہ حرف حشو محسوس ہورہاہے۔ اس کی جگہ لفظ چکر اگر لا یا جاےء تو کچھ بات بن سکتی ہے ۔ہر چند کہ یہ لفظ سماعت پر گراں گزر سکتا ہے۔ لیکن کم از کم معنوی سقم دور ہو جائے گا۔ دوسرا مصرع یوں ہوسکتا ہے۔ ع۔ چھوڑ کر دنیا ترا چکر نکل آیا ہوں میں

ابو الحسن خاور : تفہیم کے اعتبار سے "محور" مرکزی نقطہ یا خط ہے جس کے گرد کوئی شے گھومتی ہے ۔شاعر نے محور "حیطے"، "دائرے" یا "کشش" کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ فیض احمد شعلہ صاحب کی تجویز"چکر" معنوی طور پر نسبتا بہتر ہے لیکن مجھے صوتی و لفظی تا اثر کی وجہ سے محور ہی بہتر محسوس ہوا ۔ مطلع کا مضمون اچھا ہے ۔فنی طور پر شعر کی تفہیم میں ایک مسئلہ "ردیف" کے درست استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہے ۔ ایک ردیف ادا نہیں ہو رہی ہے ۔ نثر دیکھیے ۔۔۔۔ دنیا، بہر عشق و شاہ و بحر و بر ترا محور چھوڑ کر نکل آیا ہوں ۔ بات مکمل ۔ دوسری ردیف زائد ہے ۔ طویل، ،منفرد اور خطابیہ ردیفوں کے ساتھ مطلع میں دونوں مصرعوں کے ردیفوں کے جواز کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ۔


میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا

نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں


حافظ محبوب احمد: شعرکےمفہوم میں صراحت نہیں ہے.گھرگھرنکل آنےسےکیامرادہے.اگریہ مرادہےکہ شاعرکےاسلوبِ نعت کوگھرگھرمیں دیکھاجاسکتاہےتواس کی کوئی دلیل اورقرینہ بھی ساتھ مذکورہوناچاہئےتھا۔

صابر رضوی : نعت کا لفظ آنے کے باوجود یہ نعت کا شعر نہیں ہے۔ کیوں کہ مدحِ سرکار سے زیادہ اس میں تعلی ہے۔ پھر یہ کہ دوسرا مصرع عمدہ ہوا تھا ۔۔۔ پہلا مصرع اس کے ساتھ تطابق نہیں کر پایا۔ دو مصرعے ہیں اور دونوں دعوے ہیں ۔۔۔پہلے میں خود کو جریدہ اور دوسرے میں اسلوب ۔۔۔ لیکن دونوں دعووں کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ دوسرے مصرع کے ساتھ کوئی اور گرہ لگائیں تو امکان ہے کہ اچھا شعر عطا ہو کیوں کہ دوسرا مصرع بہت عمدہ ہے

فیض احمد شعلہ : ایک عمدہ خیال پر مبنی شعر ہے۔ لیکن عجز بیان سے خیال کی واضح ترسیل نہیں ہو سکی ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ وہ روےء زمین پر عشق کی تنظیم کا جریدہ ہے۔ وہ خود کو ایک سفیر عشق یا عشق مصطفیٰ میں سفیر نعت کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے منفرد اسلوب نعت کی وجہ سے گھر گھر میں مقبول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ گھر گھر نکل آیا ہوں سے شاعر کی یہی مراد ہے۔ عشق کی تنظیم کا جریدہ جیسی ترکیب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے ہر گھر سے نکلنا خیال کی جدت پر ضرور دلالت کرتے ہیں۔ ایسا مضمون غزل میں تو نظر آتا ہے لیکن نعت میں عنقا ہے۔ اس کے لےء شاعر داد کا مستحق ہے۔


ابو الحسن خاور : دوستوں نے اس شعر کی تفہیم میں "میں" کو شاعر کے لیے لیا ہے ۔ مجھَے لگتا ہے یہ شعر "نعت کے اسلوب" کی طرف سے ہے ۔ میں، نعت کا اسلوب ، زمین عشق کی تنظیم کا جریدہ ہوں، [ اور] گھر گھر نکل آیا ہوں ۔ اگر کسی طور شعر میں "اور" آجائے تو تفہیم واضح ہو۔"نعت کا اسلوب" میں اسلوب بھی ایک خالصتا ادبی اصطلاح ہے ۔ یہ بھی تفہیم میں مسئلہ پیدا کرتی ہے کہ یہاں "نعت کے اسلوب" سے کیا مراد ہے ؟


آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال

اور نظر پر باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں


ڈاکٹر صغیر احمد صغیر: آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال... واااااااہ واااااااہ واااااااہ

حافظ محبوب احمد : دوسرامصرع پھرمشکل ردیف کی نذر ہوتانظرآرہاہے.بالکل غیرواضح ہے


صابر رضوی : شہرطیبہ کے جمال کو آنکھ کے تل میں سجا لیا اور نظر پر منظر باندھ کر مدینہ سے واپس آ رہے ہیں ۔۔۔۔ مضمون عمدہ ہے لیکن دوسرے مصرع کی بندش کچھ کمزور محسوس ہو رہی ہے۔ اور کی جگہ کوئی اور لفظ آتا تو شاید شعر اعلٰی ہو جاتا

فیض احمد شعلہ : واہ۔واہ۔واہ۔ مصرع اولیٰ میں شعریت بھرپور ہے۔ روانی بھی متاثر کن ہے۔ لیکن مصرع ثانی میں اظہار کی شگفتگی کا فقدان ہے۔ نظر پر باندھنا کی ترکیب خوبصورت نہیں لگ رہی ہے اور شاید خلاف محاورہ بھی ہو۔ دوسرا مصرع یوں ہو سکتا تھا۔۔ ع آنکھ میں رکھ کر ہر اک منظر نکل آیا ہوں میں۔


ابو الحسن خاور: دوستوں نے بھر پور بات کی ۔ دوسرے مصرعے کا ابہام سنبھالا نہیں جا رہا ۔


پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا

اور غم دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں


حافظ محبوب احمد : یہ پہلاشعر ہوا ہےجس میں ردیف نبھتی نظرآرہی ہے ۔ لیکن دوسرےمصرع میں اگر "پھر "کی جگہ یوں ہوتاتوشعر شعر سریع الفہم ہوتا

صابر رضوی : اور ۔۔۔پھر ۔۔۔حشو ہیں ۔۔۔مصرع نہایت کمزور ہو گیا ہے اس سے

فیض احمد شعلہ : ایک اچھا شعر۔ اس پر حافظ محبوب احمد صاحب قبلہ نے کار آمد گفتگو کی ہے۔ میں ان سے متفق ہوں۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ دونوں مصرعوں میں زمانے کا فرق گراں بار سماعت ہے۔ ردیف کی وجہ سے مصرع ثانی زمانہ حال کا پابند ہے۔ اس لےء مصرع اولیٰ بھی زمانۂ ماضی کے بجائے زمانۂ حال کا تقاضا کرتا ہے۔ ویسے اس شعر کے لےء بھی داد بنتی ہے۔

ابو الحسن خاور : حافظ صاحب اور صابر بھائی سے اتفاق کہ "پھر" حشو ہے اور تا اثر کو کمزور کرتا ہے ۔ محترم فیض احمد شعلہ صاحب کو زمانوں کا فرق محسوس ہوا لیکن مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا ۔ شعر کا مجموعی تاثر اچھا ہے لیکن فنی اعتبار سے مجھے پہلے مصرعے کی بندش اچھی نہیں لگی ۔ "دعا" اور "پیش کرنا" بہت دور ہو گئے ہیں ۔ اساتذہ کے زمانے میں تعقید لفظی کی طرف ایسا دھیان نہیں دیا جاتا تھا ۔ تاہم آج کل مصرع کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ الفاظ کی نشست و برخاست فطری اور نثر کے قریب ہو ۔


سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد

بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں


حافظ محبوب احمد : ماشاء اللہ بہت پیاراشعر شاعرکےلئےبہت بہت داد

صابر رضوی: دوسرا مصرع کمزور ہے لیکن شعر کا مضمون اچھا ہے۔ ساگر سے پہلے والا حصہ کمزور ہے۔ بن کے ان کے لطف کا / سے ۔۔ ۔ کچھ اس انداز کا مصرع ----

فیض احمد شعلہ : بہت خوب شعر ہے۔سلسبیل جنت ارضی کی ترکیب اور اس سے سیرابی۔ پھر مصرع ثانی میں بوند اور ساگر کے استعمال سے شعر میں مناسبات لفظی کی ایک حسین فضا قائم ہو گیء ہے۔ البتہ مصرع ثانی میں "اب" کی جگہ "اک" میرے خیال سے زیادہ موزوں ہوتا۔

ابو الحسن خاور : شعر کا تاثر اچھا ہے تا ہم سیراب پیاسا ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے زمین سیراب ہو سکتی ہے ۔ ۔ بوند کیسے سیراب ہو تی ہے ؟ یہ ممکن ہے کہ شاعر بوند ہو اور سلسبیل جنت ارضی "میں ملنے" کے بعد ساگر ہو کر نکل آئے ۔ دوسرے مصرعے میں فیض احمد شعلہ صاحب کی تجویز بہت عمدہ ہے ۔ "اب" کی جگہ "اک" بہتر رہے گا ۔


چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر

فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں


حافظ محبوب احمد : ماشاء اللہ یہ بھی اچھاشعر ہے اگرچہ پرنکلنا..چونکہ بزات خود ایک فعل ہے لہذاتعقیدِ معنوی کاامکان پیداہورہاہے

صابر رضوی : بہت عمدہ۔ مطلع کی بازگشت ہے اس شعر میں

فیض احمد شعلہ : یہ شعر بھی قابلِ داد ہے۔ عشق رسول میں سب کچھ تیاگ دینے کی ترغیب دیتا ہوا یہ شعر ہمیں ہمالیائی سلطنت کپل وستو کے اس سدھارتھ کی یا پھر مخدوم سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے بادشاہت کی شان و شوکت کو ٹھکرا کر تلاش حق میں رخت سفر باندھ لیا تھا۔ مصرع ثانی میں پر کے بعد کوما کا نشان لگانا ضروری نہیں تھا۔یہ شاید ٹائپو ہے۔ "پر نکلنا" کے استعمال سے حافظ محبوب صاحب نے جس معنوی تعقید کا خدشہ ظاہر کیا ہے میرے خیال ردیف کا ٹکڑا "نکل آیا ہوں میں" اس امکان کو مسترد کر دیتا ہے۔


ابو الحسن خاور : واہ واہ وا۔ بہت عمدہ ۔ فیض احمد شعلہ صاحب سے متفق ہوں ۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ وقفے کی ایک علامت کفایت کرتی ہے ۔


مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر

چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں


ڈاکٹر صغیر احمد صغیر : ناران جیسا تھر... ترکیب درست نہیں. (ناران خوبصورت لہلہاتے پہاڑوں کے درمیان وادی ہے جبکہ تھر ایک ریگستان ہے)

حافظ محبوب احمد : .ماشاء اللہ یہ بھی اچھاشعرہے بالخصوص عصر حاضرکےدومعروف مقامات کواستعارہ کےطورپرشاعرنےاستعمال کیاہے.شاعرکےلئےبہت بہت داد

صابر رضوی : بہت عمدہ ۔۔۔۔ تھر نکل آیا ہوں میں ۔۔۔ اس کو تھر میں نکل آیا ہوں ۔۔۔۔ سمجھا جائے ۔۔۔۔تو مفہوم و معانی پرکیف نظر آتے ہیں۔۔۔ پھر شعر میں ناران کا ہرکیف ماحول جسے مدینہ سے مماثل کہا گیا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو تھر کہا گیا ہے ۔۔۔ کیا خوب تشابہ ہے ۔۔۔یعنی مدینہ کے جنتِ ارضی کا مفہوم اور اپنے گھر کو صحرا کہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھی پہلو ہیں اس شعر کے ۔۔۔۔۔ بہت اچھا شعر ہے ۔۔۔۔۔۔ بہت داد


فیض احمد شعلہ : بہت خوب۔ ناران اور تھر جیسے جگہوں کے نام کی شمولیت سے اس شعر میں جان آ گئی ہے۔ " تھر " بطور قافیہ استعمال کرنے پر شاعر خصوصی داد کا مستحق ہے۔ نعت میں اس قافیہ کو کھپانا ذرا مشکل تھا۔


ابو الحسن خاور : اگرچہ دل بھی ہستی کانمائندہ ہے لیکن دوسرے مصرع میں ردیف "میں" بہت زور دار ہے تو اگر مصرع اولی میں دل کے بجائے اپنی ذات کی بات "میں" ، مجھ " وغیرہ سے ہو تو شعر زیادہ زود اثر ہو ۔ ابھی کیفیت ایک مصرع سے دوسرے مصرع میں آتے ہوئے کچھ وقت لیتی ہے


ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف

اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں


حافظ محبوب احمد : دونوں مصرعے تعقیدسےلبریزہیں لہذاریاضیاتی محنت سےگزرکرتب معنوی تفہیم ہوتی ہے پھرقوموں کادرست جگہ لگنا بہت اہم ہے. جوکہ نہیں لگائےگئے

صابر رضوی : یہ بھی اچھا ہے۔ پہلے مصرع کی بنت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ مصرع کا نثری پیرایہ اگر نحوی اعتبار سے مکمل نہ ہو تو کوشش کر کے اسے بہتر کیا جائے ۔۔۔اس مصرع کا نثری پیکر ہی کمزور ہے تو شعر میں مصرع اولا کے طور پر کیا کشش ہو گی؟ ؟؟ دوبارہ کہہ لیں مصرع۔۔۔۔ مطلع پھر سے گونج رہا ہے یہاں بھی


فیض احمد شعلہ: بہت عمدہ خیال ہے۔ لیکن شعر میں ڈھلتے وقت کچھ کمی رہ گئی ہے۔ مصرع اولیٰ مزید سلیقہ اور قرینہ کا متلاشی ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اس کی ذات میں ایک فکری انقلاب برپا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ طبیعی ہجرت پر مجبور ہوا اور دنیوی مآحصل سے اب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گامزن ہے۔یعنی جہل سے علم کی طرف اور تیرگی سے روشنی کی طرف نکل آیا ہے۔ پیرایۂ اظہار جیسا بھی ہو لیکن فکر کی داد بنتی ہے۔

ابو الحسن خاور : شاعر کے اندر کونسی ہجرت ہو رہی ہے یہ واضح نہیں ہوا ۔ اگر مفہوم ہی نکالنا ہو تو نکالا جا سکتا ہے لیکن متن سے نا مکمل خاکہ بنتا ہے


میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں

بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں

حافظ محبوب احمد : کھوج مونث باندھاہے.اسےدیکھ لیناچاہئے.شعر واضح المفہوم ہے.اگرچہ مناسبت کالحاظ نہیں رکھاگیا.گوہر میں کنکر تبدیل نہیں ہوتابلکہ آپ نیساں کاقطرہ نکلتاہے.تواس شعر میں اگرکنکرکی جگہ قطرہ کرلیاجائےتومسئلہ حل ہوجائے

صابر رضوی : واہ واہ واہ ۔۔۔ بہت ہی اعلا اور شاندار شعر ہے۔ کنکر کی تطہیر کیسے ہوئی ہو گی بحرِ شاہ میں کہ وہ بھی گوہر بن گیا ۔۔۔۔ کیا کہنے ۔۔۔ رسالت مآب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان ۔۔۔ ویزکیہم ۔۔۔۔ نفوس کا تذکیہ کرنا بھی ہے۔ اور مدینہ کی فضا بھی وہ تزکیہ کرتی ہے۔۔۔۔ کیا عمدگی سے آپ نے اس آیت کو بیان کیا ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ سبحان اللہ

فیض احمد شعلہ : مقطع بھی اچھے خیال کا ترجمان ہے۔ یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و کمال کا اعتراف ہے جن کے زیر سایہ عرب کے بدو، سلطنت عظمی کے مالک و مختار ہوگےء۔ ان میں نہ صرف مادی ترقی ہویء بلکہ وہ روحانی اقدار کے بھی امین ہو گےء۔ مصرع اولیٰ میں "کھوج" شعر میں محض وزن کی تکمیل کرتا ہے ورنہ معنویت پیدا کرنے میں یہ بے اثر ہے۔ حافظ صاحب نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ کنکر اور گوہر کے سلسلے میں حافظ صاحب کی دلیل درست ہے لیکن شعروں کو ہمیشہ سائنسی استدلال کی روشنی میں پرکھا جانا کوئی ضروری نہیں۔ کنکر بے مایہ کا گوہر میں تبدیل ہونا گوارہ کیا جا سکتا ہے۔

ابو الحسن خاور : مضمون یہ ہے کہ میں اپنی تلاش میں نکلا توبے وقعت تھا اور لطف شاہ سے باوقار ہوگیا ۔ پتھرکا لمس سے گوہر ہونا اور قطرے کا سیپ میں گوہر ہونا واضح ہیں ۔ "کنکر" کا گوہر ہونا ایک نئی فکر ہے ۔ نیا کہنا کچھ غلط نہیں ۃوتا لیکن مضبوط جواز کے ساتھ ہو تو قاری اسے زیادہ قبول کرتا ہے ۔ کنکر ِبے مایہ میں ہندی فارسی اضافت اگرچہ اہل زبان قبول نہیں کرتے تاہم ایک قلیل گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر ایسی کوئی ترکیب بہت عجیب نہ لگ رہی ہو تو قبول کی جا سکتی ہے ۔


مجموعی تا اثر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر صغیر احمد صغیر : ناران جیسا تھر کے سوا باقی اشعار پر داد..

حافظ محبوب احمد : مجموعی طورپریہ نعت مشکل ردیف کی وجہ سےشاعرکےلئےمشکل پیداکرتی نظرآرہی ہے.اورزیادہ تراشعارمیں ردیف مصرعےکےپیوست نظرنہیں آرہی

اشرف یوسفی : یہ کیا نعت ہے شاعر نے سرکار دوعالم کی بجائے اپنی ذات کو محور اور توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے ۔ میں نے پہلے تین اشعار پڑھے ہیں اور آگے پڑھنے کا حوصلہ نہیں ہوا جس نعت کی ردیف کی بنیاد ہی میں پر ہو اس کے لئے بہت محتاط ہونا پڑتا ہے۔ نعت ِ شاہ ِ دوعالم پل صراط ہے ۔

فیض احمد شعلہ: مجموعی طور پر یہ شعری کاوش قابل داد ہے اور شاعر سے مستقبل میں مزید پختہ اور وجدانی شاعری کی امید کی جا سکتی ہے ۔

ابو الحسن خاور  : مجموعی طور پر نعت میں تازہ کاری نہ صرف متاثر کرتی ہے بلکہ شاعرکی زرخیز فکر کا پتا دیتی ہے ۔ اشعار کی صراحت و تفہیم قاری کی اپنی فہم کے مطابق کم زیادہ ہو جاتی ہے ۔ ممکن ہے جن اشعار میں مجھے ابہام محسوس ہوا ہو وہ کسی اور قاری کے لیے بہت پر لطف ہوں لیکن ایسی تازہ شاعری اپنا ایک مقام رکھتی ہے ۔ میری طرف سے بہت داد ۔

ضمنی مباحث[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کنکر ِ بے مایہ :



حافظ محبوب احمد: کنکرِ بےمایہ کی ترکیب کیادرست ہے؟ کنکرغالباہندی لفظ نہیں ..؟ موجودہ رائج الوقت قواعدکےمطابق توپھریہ ترکیب درست نہیں ہے.

صابر رضوی : کنکر پراکرت زبان کا لفظ ہے ۔ اگر ہندی فارسی مرکبات درست نہیں تو عربی اور فارسی کے مرکبات درست ہونے کی توضیحات کیا کیا ہیں ؟؟؟؟

ابو الحسن خاور: کنکر ِبے مایہ میں ہندی فارسی اضافت اگرچہ اہل زبان قبول نہیں کرتے تاہم ایک قلیل گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر ایسی کوئی ترکیب بہت عجیب نہ لگ رہی ہو تو قبول کی جا سکتی ہے ۔ جیسے "سطح ِ سمندر" کی اصطلاح نثر میں بھی رواج پا چکی ہے


نعت کیا ہے ؟


اشرف یوسفی : یہ کیا نعت ہے شاعر نے سرکار دوعالم کی بجائے اپنی ذات کو محور اور توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے ۔

ابو الحسن خاور: نعت کے دائرے میں کیا آتا ہے اور کیا نہیں اس پر علمائے نعت اور احباب میں اختلاف ہے ۔ سب کا ایک نقطے پر اکٹھے ہونا مشکل ہے ۔ ذاتی طور پر میں نعت کے عنوان سے پیش کیے جانے والے ہر اس شعر کو نعت سمجھتا ہوں جسے پڑھ کی دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا چراغ روشن ہو اور ان کی شان مبارکہ کے جلوے جھلملانے لگیں ۔

یاد دہانیاں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

  • اصل چیز شعر کی تاثیر ہوتی ہے۔ اگر اسے سن کر کوئی کیفیت نہیں پیدا ہوتی تو شعر بے جان سمجھا جائے گا ۔ فیض احمد شعلہ
  • مصرع کا نثری پیرایہ اگر نحوی اعتبار سے مکمل نہ ہو تو کوشش کر کے اسے بہتر کیا جائے ۔ صابر رضوی
  • طویل، ،منفرد اور خطابیہ ردیفوں کے ساتھ مطلع میں دونوں مصرعوں کے ردیفوں کے جواز کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ۔ ابو الحسن خاور
  • اساتذہ کے زمانے میں تعقید لفظی کی طرف ایسا دھیان نہیں دیا جاتا تھا ۔ تاہم آج کل مصرع کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ الفاظ کی نشست و برخاست فطری اور نثر کے قریب ہو ۔ ابو الحسن خاور